پہلی قسط
مدثر بشیر اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کے حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انہوں نے پنجابی افسانے، شاعری اور ناول نگاری میں برصغیر میںپنجابی زبان بولنے اور سمجھنے والوں سے داد پائی ہے۔
لاہور کی تاریخ و ثقافت پر ان کا کام بھی اخبارات و رسائل میں چھپتا رہتا ہے۔ ان کی دس سے زائد کتابیں ناقدین سے سند پا چکی ہیں جبکہ ان میں سے کئی کتابیں بھارتی پنجاب میں گرومکھی رسم الخط میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
کینیڈا کی ایک ممتاز ادبی تنظیم ’ڈھاہاں‘ نے ان کے ناولٹ ’کون‘ کو پنجابی ادب کے دوسرے انعام کے لیے منتخب کیا۔ اعزازات کی تقریب میں شرکت کے لیے انہیں کینیڈا جانا پڑا، یہ سفری تجربات اسی دورہ کینیڈا سے متعلق ہیں۔
۔۔۔
لاہور سے بحرین
بچپن میں سفر کا رومانس ریل گاڑی کے ساتھ وابستہ رہا ہے جو آج دِن تک اسی طرح قائم ہے۔ لاہور سے کراچی اور لاہور سے راولپنڈی کے درمیان بہت مرتبہ آنا جانا رہا۔
دورانِ سفر مَیں عادتاً ہر ریلوے سٹیشن پر اُترتا، اس کے پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتا، لمبے اور گہرے سانس لے کر اس جگہ کی ہوا سے کوئی تعلق بنانے کی کوشش کرتا اور اس وقت تک وہاں پر گھومتا پھرتا رہتا جب تک گاڑی دوبارہ حرکت میں نہ آ جاتی۔
میری اس عادت سے نہ صرف میرے گھر والے بلکہ پُرانے یار دوست سبھی واقف تھے۔ اور اب مجھے جوہوائی ٹکٹیں بھجوائی گئی تھیں، وہ ایک لمبے ٹرانزٹ کے ساتھ تھیں۔ مجھے سب سے پہلے لاہور سے بحرین، پھر بحرین سے لندن اور آخر میں لندن سے وینکوور جانا تھا۔
اس وجہ سے اچھی خاصی نصیحتوں کا معاملہ چل رہا تھا۔ میرے دوست کا مران اکرم اور چھوٹے بھائی طیب بشیر نے تو تصاویر بھی اُتار کر مجھے بتلایا کہ کس طرح ایک ایئر پورٹ پر اُتر کر اگلی فلائٹ کی جانب جانا ہے۔ ٹرانسفر بورڈ، ڈیجیٹل سکرینوں پر اپنے مقررہ گیٹ، وقت اور فلائٹ نمبر کی شناخت کرنا وغیرہ سے بھی آگاہ کیا۔
ہوائی جہاز کا سفر ملکی سطح پر میرے لیے ہرگز نیا نہ تھا، میں کئی مرتبہ کراچی اور اسلام آباد بذریعہ ہوائی جہاز جا چکا تھا لیکن بیرون ملک جانا ایک الگ بات تھی۔
27اکتوبر 2019ء کو رات آٹھ بجے میری لاہور سے بحرین کی فلائٹ تھی اور اُسی رات گیارہ بجے میرے چھوٹے بھائی طیب بشیر کو ایک کانفرنس میں شمولیت کے لیے لاہور سے سنگاپور جانا تھا۔
مجھے گھر سے فلائٹ کے وقت سے تقریباً چار گھنٹے قبل نکلنا پڑا۔ حالانکہ گھر سے ایئرپورٹ محض چالیس منٹ کی مسافت پر تھا۔ ایک تو انٹرنیشنل فلائٹ کا دباؤ تھا اور اُس پر مستزاد یہ کہ اسی دن ایک مولانا نے، جو کہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں، دھرنے کی کال دے رکھی تھی۔
میرے ساتھ گھر کے دیگر افراد کے ذہن میں بھی یہ بات تھی کہ اگر لاہور کی کوئی دو بڑی سڑکیں بند ہو جائیں تو تمام شہر جام ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس طرح کا تجربہ میرے کچھ دوستوں کو میری فلائٹ سے چند دن قبل ہو چکا تھا جب سری لنکن کرکٹ ٹیم آئی یا پھر جب انگلستان سے شاہی جوڑا پاکستان آیا تھا تو اس قدر ٹریفک پھنسی کہ پیدل چلنا بھی دُشوار تھا۔
دوپہر دو بجے میں اپنی والدہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا کہ ان کے حلق میںچاول کا دانہ پھنس گیا جس سے ان کا سانس بُری طرح سے رُکنے لگا۔ مجھے ایئر پورٹ چھوڑنے کے لیے آئی میری بہنیں بھی اُسی کمرے میں اکٹھی ہو گئیں۔اچانک پُورا ماحول بدل گیا۔
انہیں پانی پلایا گیا، کمر پر مالش کی تو ان کی طبیعت قدرے بحال ہوئی۔ میرا گمان یہی ہے کہ شاید ہم دونوں بھائیوں کو ایک ہی وقت بیرون ملک بھیجنا ایک ماں کے لیے آسان ہرگز نہ تھا۔ میرا دورہ تقریباً ایک مہینے پر محیط تھا اور طیب کو ہفتہ بھر باہر رہنا تھا۔
میں اپنے تمام گھر والوں سمیت پانچ بجے کے قریب ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ اُس وقت میری ہنسی چھوٹ گئی جب سامان لے کر اندر جاتے وقت والدہ نے میرے بائیں بازو پر امام ضامن باندھا۔ میری آنکھوں کے سامنے دسویں کے امتحانوں کے بعد کا منظر آ گیا، جب میں بذریعہ ٹرین کراچی جانے لگا تھا تو امی نے اسی طرح میرے بائیں بازو پر امام ضامن باندھا تھا۔اس کے ساتھ گھر میں پھر گھر سے ایئر پورٹ تک والدین دعائیں ہی کرتے رہے۔
میں اپنا سامان ٹرالی میں لے کر اندر کی جانب چلا تو میرے ساتھ اندر جانے والے بیشتر مسافروں کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا تھا کہ شاید وہ بھی میری طرح پہلی بار ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
لاکھوں روپے خرچ کرکے بیرون ملک جانے والے ان پردیسیوں کو چھوڑنے ان کے قریبی رشتہ دار اور یار دوست آئے ہوئے تھے اور اندر داخل ہوتے ہوئے بھی ایجنٹ حضرات طرح طرح کے مشورے دے رہے تھے کہ کس طرح امیگریشن والوں کا سامنا کرنا ہے اور سامان کی چیکنگ اور سکین کروانے کے کیا طریقے ہیں۔
میں جب اندر جا رہا تھا تو میرے ایک ساتھی مسافر کو اس کے ملنے والا کہہ رہا تھا ’’جدوں تینوں امیگریشن والیاں تکنا اے تے اوہناں آکھنا ایہو ای اے۔‘‘ ( تمہیں امیگریشن والوں نے دیکھتے ہی کہنا ہے، یہی بندہ ہے) اُس کی یہ بات سُن کر میں اُونچی آواز میں ہنسنے لگا اور جب مڑ کر دیکھا تو میرے گھر والے مجھے ماتھے پر ہاتھ رکھے یوں دیکھ رہے تھے کہ یہ تو ہرگز نہ بدلے گا۔
داخلی دروازے سے اندر چند قدم پر سامان سکین کرنے کی مشین لگی ہوئی تھی۔ میں نے بھی دیگر افراد کی طرح سامان سکین کرایا۔ خود واک تھرو گیٹ سے آگے نکلا اور سامان جو کہ دو اٹیچی کیسوں پر مشتمل تھا، اسے اپنی ٹرالی پر رکھ لیا۔
اس سے آگے کئی مسافر اپنے اپنے بیگ اور پرس کھولے سامان کی تلاشی دے رہے تھے لیکن مجھے کسی بھی امیگریشن والے نے اس لائق نہ جانا کہ دیگر مسافروں کی طرح میرے سامان کی بھی سخت چیکنگ کی جائے۔ آخری کاؤنٹر پر دو خواتین بیٹھی تھیں۔
جب انہوں نے میرا پاسپورٹ دیکھا جس پر نیم سرکاری ادارے کی مہر لگی ہوئی تھی تو بیرونِ ملک جانے کی چھُٹی کی درخواست یعنی (Ex-Pakistan Leave)کا تقاضا کیا۔ میں جب چُھٹی کی وہ درخواست نکالنے لگا تو میری فائل میں سے میرے کینیڈا کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے پروگرامز کے بروشرز بھی نکل آئے جس کو دیکھ کر دونوں خواتین نے خوشی سے مبارکباد دی اور ایک ملازم کو اشارے سے بُلا کر کہا کہ سر کے سامان کا دھیان سے وزن کراؤ۔
اس ملازم نے ٹرالی تھامی اور خواتین نے اپنے ریکارڈ میں چُھٹی کی کاپی رکھ لی۔ وہ ملازم مجھے بورڈنگ تک لے آیا۔ میں نے سامان کا وزن کرایا اور سامنے ایک اور کاؤنٹر پر سو روپیہ فی اٹیچی کیس دے کر اسے مومی لفافوں میں لپٹوا لیا۔
میرے سامان کی پیکنگ کے دوران بھائی مزمل بشیر نے یہ بہت ہی اچھا کیا کہ دونوں اٹیچی کیسوں پر موٹے مارکر کے ساتھ میرا نام اور شہر تحریر کر دیا تھا، جس سے سامان کی شناخت کا مرحلہ کافی حد تک آسان ہو گیا۔
بورڈنگ کے بعد میں انتظار گاہ میں جا بیٹھا۔ اگرچہ وہاں پر صرف مسافر حضرات ہی کو آنے جانے کی اجازت تھی لیکن اس کے باوجود بھی وہاں تعلق داروں اور ٹیکسی ڈرائیور حضرات کو باآسانی آتے جاتے دیکھا۔ میری فلائٹ میں ابھی تقریباً دو گھنٹے باقی تھے۔
اس دوران موبائل فون کے ذریعے باہر بیٹھے گھر والوں سے مسلسل رابطہ قائم تھا۔ امی نے بطور خاص سب سے کہہ دیا تھا کہ وہ اُس وقت تک گھر واپس نہیں جائیں گی جب تک جہاز ٹیک آف نہ کر جائے۔
میں انتظار گاہ میں بیٹھا بحرین جانے کے بارے میں سوچتا رہا۔ یہاں بیٹھے تیس برس پہلے کے لاہور ایئرپورٹ کا منظر یاد آنے لگا جب سیکیورٹی کے اتنے شدید مسائل نہیں ہوا کرتے تھے۔
یہاں تک کہ ایئر پورٹ کی بالکونی سے رن وے پر کھڑا جہاز سامنے دکھائی دیتا تھا اور مسافر حضرات جہاز کے ساتھ لگی سیڑھی پر آخری وقت تک اپنے پیاروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کیا کرتے تھے۔
موٹرسائیکلوں، ویگنوں پر آئے لوگ کئی مرتبہ ایئر پورٹ واپسی پر بسوں پر گھر جاتے اور اکثر اوقات تانگے بھی کرائے پر لے لیے جاتے تھے۔ چونکہ مال روڈ پر تانگے لانے کی اجازت نہ تھی تو تانگے والے صدر کے اندرونی علاقوں سے ہوتے نہر پر جا نکلتے۔
بیرون ملک جانے والے حضرات جب اپنی منزل پر پہنچ جاتے (جوکہ اُن دنوں زیادہ تر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ہی ہوا کرتی تھی) تو اُن کی اطلاع بذریعہ خطوط موصول ہوتی تھی اور خطوط کئی بار مہینہ مہینہ بعد موصول ہوتے تھے۔ ٹیلی فون کی سہولت ہر گھر میں میسر نہ تھی بلکہ بسا اوقات تو وزراء کی سفارشوں سے گھروں میں فون لگا کرتے تھے۔
جب خط گھروں میں آتے تو تمام گھر والے اکٹھے ہو کر ایک خط کئی کئی مرتبہ پڑھتے تھے۔ بعض اوقات پردیسی اپنی آواز میں کیسٹیں بھی ریکارڈ کر کے بھیجا کرتے تھے جن کو سُننے کے لیے سارا خاندان اکٹھا ہو جایا کرتا تھا اور اس دوران کئی رنجیدہ مناظر بھی دیکھنے میں آتے۔
رشتے داروں کے ہجوم میں جب کسی شخص کا نام کیسٹ میں پکارا جاتا تو وہ شخص ساتھ بیٹھے شخص کے گلے لگ کر رونے لگ جاتا۔ واہ میرے پردیسیو، ہر طرح کے پیغامات، گھروں کی مرمتیں، کسی نئے گھر یا پلاٹ کی خرید و فروخت، بچوں کی سکول فیس، جہیز اور بری کے اخراجات،اور یہاں تک کہ بہن بھائیوں اور اولادوں کے رشتے بھی ان ریکارڈ شدہ کیسٹوں کے سُننے کے درمیان طے ہو جایا کرتے تھے۔
میں اپنی ان ہی سوچوں میں گم تھا کہ کچھ افراد کو امیگریشن والوں کے ساتھ لڑتے جھگڑتے دیکھا۔ جب غور کیا تو اس بات کا اندازہ ہوا کہ امیگریشن کا عملہ ہر جگہ پر غلط نہیں ہوتا۔ بہت سے مسافروں کے کاغذات نامکمل تھے۔
وہ تمام بے ضابطگیاں جو اگلے دیس جا کر کسی مسئلے کا سبب بن سکتی تھیں، اُن کا یہیں درست ہونا ضروری تھا۔ سو امیگریشن حکام کی تشویش غلط نہ تھی۔ ان جھگڑوں کے ساتھ وہاں کیفے شاپس کے لڑکوں کو مسافروں کو کھانے کی ترغیب، مفت وائی فائی کی سہولت کے ساتھ فراہم کرتے ہوئے دیکھا۔
میں جب بیٹھے بیٹھے اُکتا گیا تو گھوم پھر کر ویٹنگ ایریا دیکھنے لگا۔ امیگریشن حکام سے فارغ ہوئے مسافر گہری سوچوں میں گُم یا موبائل پر گیم کھیلتے دکھائی دیئے۔ اسی اثناء میں گلف ایئر ویز کا جہاز جس نے بحرین جانا تھا، چیک اِن کے لیے لگ گیا۔
اناؤنسمنٹ ہوئی تو سب سے پہلے معذور، بیمار اور بزرگ افراد کو بھیجا گیا۔ اُن کے بعد غیر ملکی حضرات اور بزنس کلاس کے مسافروں کی باری آئی اور سب سے آخر میں ہم اکانومی کلاس کے مسافر جہاز کے اندر داخل ہوئے تو ساتھ ہی اس کے وسیع و عریض ہونے کا احساس ہوا، داخلی دروازے کے ساتھ ہی چند قدموں کے فاصلے پر ایئر ہوسٹس موجود تھیں جو مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ اُن کی متعلقہ نشستوں اور ہینڈ کیری رکھنے کے حوالے سے بھی رہنمائی کر رہی تھیں۔
خواتین ایئر ہوسٹس اپنی وضع قطع کے حوالے سے زیادہ تر انگریز، تھائی اور مراکشی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان میں ہی ایک گہرے سانولے رنگ کی بھاری بھرکم خاتون جو تمام عملے کی سپروائزر جان پڑتی تھی، وہ مسافروں کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ باقی ایئر ہوسٹس اور دیگر سٹاف کو ہدایات بھی دے رہی تھی۔
جہاز آہستہ آہستہ چلتا رن وے کی جانب بڑھا اور ٹیک آف کرنے سے قبل حفاظتی تدابیر کی آگاہی اور دیگر اعلانات پہلے عربی زبان میں ہوئے اور اُس کے بعد انگریزی زبان میں۔ یُوں ان ممالک کا اپنی ماں بولی سے جُڑت اور احترام کا رشتہ بھی واضح ہو رہا تھا۔ میرے ساتھ زیادہ تر مسافر ٹرانزٹ ہی تھے جن میں سے اکثریت سعودی عرب براستہ بحرین جا رہے تھے۔
انگریزی بولتی، سکرٹس میں ملبوس ایئر ہوسٹس نے جب خالص پیشہ ورانہ انداز میں ہمارے ہاں کے لڑکوں کے ساتھ بات کی تو انہوں نے کن اکھیوں سے اک دُوجے کو دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو چھیڑنے لگے۔
میں نے اپنے خیریت سے روانہ ہونے کی اطلاع دے کر فون بند کر دیا کیونکہ عملے کی جانب سے نہ صرف موبائل فون بند کرنے کی اناؤنسمنٹ ہو رہی تھی بلکہ ایئر ہوسٹس بار بار خود بھی ہر ایک سے درخواست کر رہی تھیں کہ جہاز کے ٹیک آف کرنے سے پہلے بیلٹ باندھ لیں اور موبائل فون بند کریں۔ لیکن ہمارے ہاں پیار سے کہاں کوئی بات مانتا ہے۔
میری سیٹ کے دائیں جانب کھڑکی کے ساتھ ایک نوجوان جس کی عمر تئیس، چوبیس برس سے زائد نہ تھی، موبائل فون پرگھر والوں سے انتہائی دلچسپ گفتگو کر رہا تھا۔ اُس کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ اُس کا پہلا بیرون ملک سفر ہے۔ گفتگو پنجابی میں تھی۔ اُس میں سے چند ایک جملے کچھ یُوں تھے:
’’آپ لوگوں نے گھبرانا نہیں۔ مجھے پیارے مدینے والےﷺ کا بلاوا آیا ہے۔‘‘
’’پریشانی کی ہرگز کوئی بات نہیں۔ آپ لوگ حوصلہ رکھیں۔ اللہ پاک کا گھر دیکھنا ہے۔ اُونچی شان والے کا، نیلی چھتری والے کا حکم ہوا ہے تو میں ادھر سے چلا ہوں۔‘‘
اس طرح کی باتیں سُن کر اُس کے ساتھ بیٹھے دیگر مسافروں نے ہنسنا شروع کر دیا اور مجھے بھی اپنے بچپن کا ایک لطیفہ یاد آ گیا جو ہمارے ایک رشتے دار ڈاکٹر صاحب سُنایا کرتے تھے۔ وہ کچھ یُوں تھا کہ ایک سرکاری ہسپتال کا سرجن آپریشن کرنے سے پہلے مریض کے ساتھ ایک ہی بات بار بار دوہرائے جا رہا تھا۔
’’عبداللطیف گھبرانا نہیں،
کچھ نہیں ہوتا، سب کجھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’یار یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اللہ کے حکم سے ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی‘‘
’’عبداللطیف جگر!… یہ بھی کوئی آپریشن ہے!… ہلکا سا کٹ لگنا ہے اور آپریشن یہ گیا …وہ گیا…‘‘
مریض جو کہ ڈاکٹر کو سرکاری ہسپتال ہونے کے باعث نہیں جانتا تھا، نے ڈاکٹر صاحب سے کہا:
’’جناب میرا نام تو ریاض ہے۔ آپ بار بار عبداللطیف کی تکرار کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
اُس کی بات سن کر ڈاکٹر صاحب ہلکا سا مسکرائے اور بولے:
’’عبداللطیف میرا نام ہے بھائی۔‘‘
اپنے آپ کو تسلّی دینے کا یہ رواج بھی ہمارا ہی وتیرہ ہے۔ دوسری جانب وہ لڑکا جہاز کے ٹیک آف کرنے تک فون پر بات کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک ایئر ہوسٹس کو مداخلت کرنا پڑی جس نے غصّے سے موبائل چھین کر آف کیا۔ جب جہاز ٹیک آف کر رہا تھا تو میں نے اپنا ناک بند کرکے سانس کے ذریعے کانوں کو جھٹکے دیئے جبکہ کچھ مسافروں نے چیونگم منہ میں ڈال کر چبانی شروع کر دی۔
جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی میں نے اپنی ڈائری میں نوٹس لینا شروع کر دیئے۔ کیونکہ جس دن میرا ویزا لگا تھا تو اُسی دن میرے ایک صحافی دوست نے کینیڈا کے سفر نامے کی فرمائش کر دی تھی۔ سو میں عام مسافروں کی نسبت چیزوں کو زیادہ دھیان سے دیکھ رہا تھا۔
میں اپنے نوٹس پنجابی زبان میں تحریر کر رہا تھا کہ میرے بالکل دائیں جانب بیٹھے دو اصحاب نظر چُرا کر پڑھنے لگے اور پھر کچھ دیر بعد ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سلام دُعا کی۔ دس پندرہ منٹ کی گپ شپ اور تعارف کے بعد سلسلہ آگے بڑھا تو اُن اصحاب میں سے ایک جن کا نام محمد یونس تھا، نے بتایا کہ لکھی ہوئی پنجابی پڑھ پانے کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی یہ کہ وہ بُلھے شاہ کی دھرتی قصور سے آئے ہیں، جہاں آج بھی ہر بندہ نہ صرف یہ کہ اُن کا کلام پڑھ سکتا ہے بلکہ اکثریت کو یہ ازبر بھی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایف اے اور بی اے میں پنجابی کو بطور اختیاری مضمون پڑھا تھا۔ بعد کی گفتگو میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ یونس صاحب پچھلے دس بارہ برس سے بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم ہیں۔
ان ہی دنوں میں سعودی عرب کی سرکار نے ہزاروں پاکستانیوں کو نوکری سے فارغ کیا جن میں ایک بڑی تعداد اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کی بھی تھی جو وہاں سے نکل کر متحدہ عرب امارات، امریکا، کینیڈا وغیرہ منتقل ہو گئے تھے اور بچے کھچے وطن کو لوٹ آئے تھے۔
عرب ممالک کی سرکاروں نے دوسرے ممالک سے آئے ہوئے افراد پر طرح طرح کے ٹیکس لاگو کر دیئے تھے اور اقامہ قوانین میں بھی بڑی بنیادی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ان قوانین کے لاگو ہونے سے پیشتر اقامہ کا حامل ایک فرد قانونی طور پر اپنے پُورے خاندان کو ساتھ رکھ سکتا تھا مگر اب خاندان کے ہر فرد کے پاس الگ سے اپنا علیحدہ اقامہ ہونا ضروری تھا۔
بصورت دیگر وہ وہاں رہائش اختیار کرنے کا اہل نہیں ہو گا۔ یہی وجہ تھی کہ یونس صاحب اپنے بیوی بچے قصور چھوڑ آئے تھے اور خود اب اکیلے سعودی عرب واپس جا رہے تھے کہ ملکی حالات اور روزگار کی کمی کے باعث وہ اپنے بچوں کے پاس پاکستان رہنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔
اگرچہ عرب ممالک کے حالات بھی اب کچھ ایسے سازگار نہیں رہے، یہاں تک کہ پٹرول کی وہ مقدار جو پہلے آدھے ریال میں ملا کرتی تھی، اب اُس کی قیمت دو ریال تک جا پہنچی ہے۔ انہوں نے سیدھے سعودی ایئر لائنز کی مہنگی ٹکٹ کے بجائے بحرین کا یہ ٹرانزٹ ٹکٹ لیا تھا۔
بحرین کے شہر محرق (Muharaq)اُترے۔ جہاز نے ایک وسیع و عریض ہوائی اڈے پر لینڈ کیا۔ جہاز سے نکل کر ویٹنگ روم میں آئے۔ اگلے ٹرمینل پر جانے سے پہلے بہت سے افراد واش روم کی جانب روانہ ہو گئے۔
ہم لوگ ویٹنگ روم میں ہی تھے کہ چند منٹوں میں اگلے ٹرمینل کو جانے کے لیے بسیں آ گئیں۔ سب سے پہلی بس میں بزرگ، معذور اور بزنس کلاس کے مسافروں کو بھیجا گیا۔ اس کے بعد اکانومی کلاس کے مسافر یعنی ہم لوگ بھی ایک قطار میں انتظار کر نے لگے۔ یہاں کسی بھی مسافرنے قطار کو توڑنے یا آگے بڑھنے میں جلدی کا مظاہرہ نہ کیا۔
ہر کوئی اپنی باری کے انتظار میں رہا۔ میں نے دل ہی دل میں ایک بار پھر سوچا کہ نظم و ضبط نظام ہی کے دم سے ہوتا ہے۔ میرے ساتھ وہی لوگ تھے جو اپنے دیس میں سڑکوں، بینکوں اور دیگر دفاتر میں انتہائی بے ترتیب اور بے ہنگم رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک سگنل توڑنا تو عام سی بات ہے۔ اور یہاں کس طرح اطمینان اور سکون سے کھڑے اپنی باری کے انتظار میں تھے۔
ہم اپنی باری پر بسوں میں سوار ہو کر اگلے ٹرمینل پر پہنچے جہاں امیگریشن کی انتہائی سخت چیکنگ تھی۔
مرد حضرات ایک طرف، وہاں جینز پہنی خواتین نے بھی اپنی کمر سے بیلٹ اُتار کر چیکنگ کرائی۔ اس تمام عمل میں ایک بات جو میں نے سیکھی، وہ یہ تھی کہ مسافر جو اس طرح بیرون ملک سفر کر رہے ہوں، انہیں چاہیے کہ اپنی پتلونوں کے ساتھ باندھی بیلٹیں، گھڑیاں، چشمہ اور کوئی بھی دھاتی شے جیسے کوئی چابی وغیرہ ان سب کو اپنے ہینڈ کیری میں ڈال کر سامان سکین کروائیں اور کوشش کریں کہ سکین مشین پر چلتے رول پر سارا سامان رکھیں۔
اس کے علاوہ یہ کہ اپنے سامان میں پانی کی بھری بوتل یا کوئی بھی مائع شے ہرگز ساتھ نہ رکھیں اور چیکنگ سے قبل کسی بھی ڈسٹ بِن میں پھینک دیں کیونکہ وہاں قوانین اور چیکنگ دونوں ہی شدید نوعیت کے ہیں۔اُس طرح کا طرز عمل کہیں دیکھنے میں نہیں آیا جو میں نے لاہور ایئر پورٹ پر دیکھا تھا۔
وہاں(بحرین میں) سکیورٹی والے افراد کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کے ساتھ مسافروں کے لیے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ جو حضرات ٹرانزٹ پر ہوں، وہ مسلسل ٹرانسفر کا بورڈ دیکھتے جائیں تاکہ وہ اپنے متعلقہ گیٹ تک پہنچ جائیں۔ میرے ساتھی مسافروں میں زیادہ تر ٹرانزٹ ہی رکھتے تھے، سو وہ بھی تیزی سے بھاگتے جا رہے تھے۔
اس ساری مشقت کا اصل مقصد اسی گیٹ تک پہنچنا ہوتا ہے جہاں اگلے پڑاؤ کے لیے جہاز نے آنا ہوتا تھا۔ چیکنگ اور سکیننگ کے دوران ٹرے کا خاص خیال رکھیں، مناسب سامان رکھیں، ضرورت پڑے تو ایک اور ٹرے کا استعمال کر لیں تاکہ وہاں پر موجود ملازمین کو کوئی اعتراض نہ ہو۔ یہ احتیاط اس لیے بھی ضروری ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کے لیے جانے والے بیشتر پاکستانی بھائی انگریزی زبان سے نابلد ہوتے ہیں۔
میں بھی اپنے متعلقہ گیٹ کی تلاش میں یونس صاحب کو اپنا فون نمبر تک نہ دے سکا اور نہ ہی اُن سے لے سکا جس کا مجھے شدید افسوس رہا۔ اُن کے ساتھ سفر بہت اچھا گزرا۔ انہیںر یاض جانا تھا اور مجھے لندن بذریعہ برٹش ایئرویز، اور میرا تو بحرین میں قیام بھی پانچ گھنٹے سے زائد کا تھا۔ لیکن الگ الگ گیٹ ڈھونڈنے کی تگ و دو میں ہم ایک دوسرے کو باقاعدہ الوداع بھی نہ کہہ سکے۔ (جاری ہے)
The post پاکستان میں بے ہنگم رویوں کا مظاہرہ کرنے والے غیر ملک میں تہذیب یافتہ ہوجاتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.