لاہور: ماہ و سال کا آنا جانا، سانسوں کا ہے تانا بانا، سالوں کی یہ آنکھ مچولی، موسموں کی یہ پت جھڑ سالوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔
اسی کا نام زندگی ہے، وقت کی رفتار کس قدر مسلسل ہے ،کبھی نہ ختم ہونے والی اور اس میں بندھے ہوئے ہمارے پاؤں اور اس کے دھارے پر بہتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی ہی شبیہہ و پرچھائیں دھندلاجاتی ہیں۔
سال کے الوداعی مہینے دسمبر نے دستک دی تو موسم سرما کا سارا حسن اس میں یوں سمٹا نظر آیا ’’ٹھٹھرتی صبحوں کو لے کر دسمبر گزر گیا ہے۔
جہاں برف کی چادر اوڑھے ہوئے فطری مناظر نے ساکت و جامد کیا، پیڑوں و گھروں کی چھتوں پر جمی برف اور گرتے ہوئے روئی کے گالوں نے سردی کی شدت بڑھائی وہیں سرد ہواؤں نے ہماری یوں بلائیں لیں۔
کہاں خنک ہواؤں کے تھپڑوں سے بچنے کے لیے گرم لحافوں میں دبک کر کافی کی خوش بو سے موسم کا لطف و سرور اٹھایا ، پستے بادام، کشمش، چلغوزے کھاتے ہوئے چائے کی حرارت لیے، جانے کتنے قصوں سے سر اٹھاکر کیا کچھ یاد کرایا، کیا کچھ بھول گئے یک دم ہی کہر و دھند میں ڈوبی ہوئی صبحوں و شاموں نے اپنے وائلن پر الوداعی نغموں کی دھنیں سنائیں تو اس کے سحر سے نکل کر احساس ہوا کہ سال کی آخری لہر ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔
دھند میں گم ہوئے راستوں سے گم گشتہ ، منزلوں کا نشان پوچھا اور انہیں چپ چاپ خاموش راستوں پر اڑتے ہوئے سوکھے پتوں نے موسموں کے پت جھڑ کی کہانی سنائی کہ سال رخصت ہونے کو ہے، آخری پل، آخری گھڑیاں، سب عنقریب ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔
جانے والا سال زندگی کی وہ شام جو اپنے الوادعی غموں میں سب کو اداس کردیتی ہے خاص کر سال کا یہ اختتامی مہینہ دسمبر، سال کی آخری دھرکنیں سناتا ہوا، اپنے حسین جلوے میں، یادوں کی بارات لیے سوچوں کے درپن سے جھانکتا ہے تو اداسی پنکھ پھیلا کر سال کی پونجی کو یوں اپنے پروں میں سمیٹتی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کے حساس دل کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔
شاعری و نغمگی کا لطیف حصار دائرے و حاشیئے بناکر یوں دل و دماغ پر حاوی ہوتا ہے کہ بقول ندیم قاسمی ’’ کتنی حساس خاموشی ہے، سوچوں بھی تو رات گونجتی ہے‘‘ شاعری کا جل ترنگ بجنے سے زندگی کا وہ ساز بج اٹھتا ہے جو عمر رفتہ کی حسین یادوں و تصویروں سے سجا ہوتا ہے۔
بھولے بسرے نغمات سماعت سے ٹکراتے ہیں تو رات کی گہری خاموشی کتنے ہی سر بکھیر کر ان سازوں کی دھن سناتی ہے جو بیتے سالوں کی بازگشت سن کر ہواؤں میں نغمہ سرا ہوتے ہیں، چائے کی پیالی میں وہ کیف و سرور کہ اس کی اڑتی ہوئی بھاپ کے مرغولوں میں کتنی ہی شبیہی بنتی و مٹ جاتی ہیں۔
کتنے ہی نقوش اجاگر ہوکر اپنے سحر کی گرفت میں ایسا لیتے ہیں کہ یادوں کے رم جھم برستے ساون میں گزرے لمحوں کا عکس یوں سامنے آن کھڑا ہوتا ہے جو دنیا مافیہا سے بے خبر کردیتا ہے؎
’’گویا ان یادوں کا اک چراغ کیا جلا، سو چراغ چل اٹھے‘‘
بڑھتی ہوئی دھند و کہر نے جمایا، شدید ٹھنڈ نے کپکپایا تو انگیٹھی کے قریب تر ہوگئے، کوئلوں کو دھکایا تو اس کی گرمائش نے سانسوں کی گرمی و لہو کی روانی کا احساس دلایا اور انہیں شعلوں میں سالوں کا وہ رقصاں نظر آیا جس میں ہماری زندگی کے تاریخ سال 2020ء اور اس سے پیوستہ 2021ء اپنی کہانی سناتے ہوئے اور 2022ء ان اصولوں کو دُہراتا نظر آیا جو ہم نے ان دو سالوں میں یاد کئے۔
2020ء کی کہانی تو کبھی ذہنوں سے محو ہو نہیں سکتی کیوں کہ وہ انسان کے سر سے پاؤں تلک بدلنے کی وہ کہانی ہے جو ہم کبھی بھلا ہی نہیں سکتے، نقش ایسے جو مٹ ہی نہیں سکتے، درد کرب و اذیت کے لمحے ایسے جس کی ہولناکیاں اور اپنے کتنے اپنوں کے بچھڑنے کا غم آج بھی تڑپا دیتا ہے۔
کاہے کو سوچا تھا کہ 2020ء میں ہنستی، کھیلتی، بھاگتی دوڑتی زندگی کورونا کے طوفان میں یوں پھنسے گی کہ نکلنے کا رستہ ہی کھوجائے گا اور ہم بیچ منجدھار پھنسے ساحل کو آوازیں دیتے رہ جائیں گے اور کنارہ یوں سرکتا جائے گا
کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ دنیا چلتی پھرتی یوں آف ہوجائے گی اور خالی خاموش اسکرین یعنی زیست خاموشیوں و سناٹوں کی کہانی ہوگی، دنیا کی گردش یوں ساکن ہوجائے گی کہ سانس لینا ہی بھول جائے گی۔ نہ ہی سفر جاری رہے گا اور نہ ہی زندگی کی دوڑ دھوپ ہلچل مچائے گی۔
رشتوں کی ڈور اجنبت میں ڈھل کر ساتھ چھوڑ دے گی اور ہم منہ ماسک میں چھپائے اپنے ہی لیے اجنبی بنے، قید تنہائی کا شکار ہوں گے’’کیا موسم تھا 2020ء میں بے یقینی کا فاصلے ان دنوں شفا ٹھہرے۔‘‘
سفر جاری نہ رہنے سے زندگی کی بھاگ دوڑ اس سال دم توڑ گئی، وقت کا پانی پاؤں کے نیچے سے گزرتا سرکتا رہا اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے۔
لمبی مسافت نے بری طرح تھکا ڈالا، ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کے باوجود خوشی وغمی کے تمام لمحے اکیلے ہی کاٹے، اپنے ہمدرد و غمگسار خود ہی رہے خود ہی بنے کیوں کہ کسی کے کاندھے پر سر رکھنے سے قاصر تھے اور دنیا کے لیے کیا اپنے ہاتھوں سے اپنے ناک منہ کو ہاتھ لگانے کے گریز نے تو ہمیں اپنے ہی لیے اجنبی بنادیا۔ الغرض 2020ء میں ’’اک اندیشہ جاں کی وجہ سے سارا سال اداسی تھی خزاں کی موسم بہار میں‘‘
کورونا کی عفریت نے ہول ناک رخ اختیار کیا۔ 2020ء میں طبی دنیا میں اک چراغ تو کیا اک لو بھی نہ جل سکی کیوں کہ ہمارے گناہوں کے بوجھ نے اسے جلنے ہی نہ دیا، ترکش میں جتنے تیر تھے سب آزما ڈالے، کوئی بھی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ ’’جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا وہ کورونا کی شب تاریک کی سحر نہ کرسکا ، دوا کا ساتھ نہ تھا دعاؤں کو لیے 2020ء کا پل صراط طے کیا۔‘‘
سال 2021ء میں ویکسین کا بننا احساس دلاگیا کہ دعا کی کوئی بوند اس کی رحمت کی بدلی سے ٹکراکر شرف قبولیت کا درجہ پاگئی، دنیا کی رکی ہوئی ٹریفک رک رک کر چلنے گی، یہ سال بھی عجیب تھا، کبھی اٹھ کھڑے ہوئے، کبھی گرگئے، کبھی ہنس پڑے، کبھی رو پڑے، کبھی یونہی گرتے پڑتے سال 2022ء میں قدم رکھا تو کورونا کی شدت میں کمی نے دنیا کی رکی ہوئی ٹریفک کو گرین سگنل دے کر پوری طرح چلنے کا اشارہ کیا، دنیا پورے شد مد سے شروع ہوئی۔
کتنے ہی ادھورے کام و منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچے لیکن سال کے آخر اکتوبر میں سیلاب کی لشکر کشی نے ایک دفعہ پھر دہلادیا، دوڑو بھاگو سیلاب آگیا ہے، اس ایک جملے نے قیامت صغریٰ کا نقشہ کھینچ دیا، پانی کی بپھری ہوئی لہروں نے آن واحد میں بستیوں کی بستیاں ویران کردیں اور یہ سال 2020ء میں کی ہوئی ساری دعائیں دوہراگیا اور اپنے صوبوں کو پھر سے ہرا بھرا اور اپنے ہم وطنوں کے لیے دعا گو ہوا خلق خدا کی مدد کے لیے ہر کوئی اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرتا نظر آگیا۔
2020ء میں دعاؤں سے شروع ہوا سفر 2022ء میں دعاؤں پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ سوچوں کا اژدہام تھا دسمبر کی لمبی ٹھٹھرتی رت میں کیا کچھ یاد آیا خیالات کی یورشی تھی جو بہے چلی جارہی تھی کہ یک دم انگیٹھی کے کوئلوں نے چیخ چیخ کر 2022ء کی رخصتی کا اعلان کیا ہم نے سال کا آخری دیدار کیا۔
جاتا ہوا سال اپنی پھیلی ہوئی چادر سمیٹ چکا تھا اور اپنے دامن میں سیلاب کی لشکر کشی سے برباد ہونے والے خاندانوں و کروڑوں شہریوں کے آنسو و غم لیے پلکیں جھپکاتا ہوا ، سمے کی گھنٹی بجاتا ہوا کہہ رہا تھا ’’ سوچو اس سال تم نے کیا کھویا، کیا پایا‘‘
اب بھی کچھ سپنے ادھورے ہیں، کچھ خوابوں میں رنگ بھرنا باقی ہے تو اداس مت ہونا، میں تمھاری امانت 2023ء کو سونپ کر رخصت ہوا چاہتا ہوں۔ 2022ء کی پٹ بند کرو سال 2023ء کا سواگت کرو وہ تمھارے سامنے ایک نئی مشعل اور نئی امید بنا وارد ہو چکا ہے۔
نظر اٹھائی تو منٹوں سیکنڈوں کا سفر کرتی ہوئی دونوں سوئیاں ’’بارہ‘‘ کے ہندسے پر تھیں۔ 2022ء اپنی کمان کی چھڑی 2023ء کو سونپ چکا تھا لوگ پرانے سال کو خدا حافظ اور نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور نیا سال ہمیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اور جہاں تمام وہموں سے بے نیاز لوگوں کی صدا ’’نیا سال مبارک‘‘ ہو سنائی دے رہی ہے وہیں ہم بھی ان کے ساتھ شامل آپ کو نئے سال کے لیے یہی تمنا اور خواہش لیے کہہ رہے ہیں۔
2023ء کے آغاز کے لیے ایک خاص پیغام، خود کو سنیے
آخری دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں، چیزوں کو جھاڑتے ہوئے اور نئے سال کے لیے چیزوں کو چمکاتے ہوئے، اچانک یہ احساس ہوا کہ ان سب چیزوں کو تو دوام حاصل ہے، یہ سب تو یہیں کی یہیں رہ جانی ہے۔
ان کو تو کچھ نہ ہوگا، نہ ان کی عمر گھٹے گی نہ ان کو عمر کی نقدی ادھار مانگنے کی نوبت آئے گی، نہ ہی ماہ و سال کی گردش ان کے عکس کو دھندلائے گی نہ ہی انہیں زوال آئے گا بلکہ وقت و زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کی قیمتی ہونے کا احساس اپنے بزرگوں کی وراثتیں سنبھالنے کا احساس انہیں اور زیادہ چمکائے گا، قدر کرائے گا۔
اور انھیں سینت کران کے قیمتی ہونے کے خیال سے سنبھال کر رکھتے ہوئے کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائیں، گم نہ ہوجائیں، ان کی حفاظت میں ہم اپنی قیمتی و کروڑوں سی جان کو ہی داؤ پر لگا بیٹھے۔ اسے ہی سنوارنا بھول گئے، اپنا خیال رکھنا ہی بھول گئے، وہ جو نقش فانی ہے مٹ جانے والا ہے منوں مٹی تلے چھپ کر نظر نہ آنے والا ہے، جسے کل سب سے جدا ہو کر یہ کہنا ہے ’’کل تم سے جدا ہوجاؤں گا، گو آج تمھارا حصہ ہوں، جو ہر لمحے ہر آن ہمیں سمے کی یہ آواز سنا رہا ہے اک دن پڑے گا جانا کیا وقت کیا زمانہ، کوئی نہ ساتھ دے گا، سب کچھ یہیں رہے گا‘‘
اس صدا و سوال نے ایسا بے چین و بے قرار کیا کہ سب کچھ بھول، چھوڑ چھاڑ آئینے کے سامنے جاکھڑا ہوئے اور آئینے کے اس سوال نے ’’آپ مجھے پہچانے بھی‘‘ نے مزید پریشان کیا ’’تو سالوں کی دھول جو چہرے پر تھی، اسے صاف کرنے کے لیے بار بار آئینہ صاف کرتے اور چمکاتے رہے۔ غور سے پھر دیکھا تو ’’بالوں میں چاندی کا رنگ چڑھا تھا۔ تھا تو کوئی مجھ جیسا جانے کون کھڑا تھا۔‘‘
اپنا خیال نہ رکھنے نے بلڈپریشر ہائی کیا، خواہشوں کی دلدل میں دھنسے نہ رات چین سے سوسکے نہ دن کو آرام کرسکے۔ سانسوں میں اترتی تھکن سے ماتھے پر شکنیں کمر میں بل پڑنے پر عمر کی چھاپ یوں لگی کہ وقت سے پہلے اپنی عمر سے دس گنا بڑے و بوڑھے، ایسے نظر آئے کہ آج آئینے میں اپنے آپ کو ہی پہچاننے سے قاصر تھے۔
بس اپنا خیال آتے ہی سب چیزیں ہاتھ سے چھٹ گئیں۔ کیا کچھ رکھنا ہے، کہاں رکھنا ہے سب کچھ بھول گیا، یاد رہا تو صرف اتنا کہ بس اپنا خیال رکھنا ہے اور نئے سال 2023ء کے لیے یوں دل میں عہد کیا کہ اب چیزوں کی نہیں اپنی دھول صاف کر کے اپنا چہرہ دنیا کو دکھانا ہے، اپنا آپ نہ بھولیں گے خود کو سنواریں گے، سجائیں گے، نکھاریں گے، کچھ بنائیں گے کیوں کہ ان چیزوں کی شبیہہ نہیں بلکہ ہماری ہی شبیہہ، وہ شبیہہ ہے جو دنیا کو کچھ یاد دلائے گی بتلائے گی اور وقت کے ماتھے پر وہ نقش ثبت کرائے گی جو کبھی نہ بھولنے والا ہوگا۔
سو سب کچھ بھلاکر نئے سال میں اپنے آپ کو سنوارئیے نکھارئیے اس فانی دنیا میں انھی نقشوں کو دوام حاصل ہے، انہیں پھولوں کی مہکار اس دنیا میں باقی ہے، جو کچھ کرگئے، کچھ سن گئے اور دنیا کو اپنا وہ ہنر دکھاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ ’سنگ وحشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا‘ اور ان کی جھلک میں ان کی شخصیت کے تمام سمٹ کر ان کی شخصیت کو وہ گوہر نایاب بنا گئے، جو چمک دمک اپنے تمام رنگوں کے ساتھ لوگوں کے دلوں پر آج بھی نقش اور راج کر رہے ہیں۔
ہم نے نئے سال 2023ء کے لیے آپ کو جو پیغام دینا تھا دے دیا، جو کہنا تھا کہہ دیا جو سنانا تھا سنا دیا۔ اب آپ بھی کچھ ان پر عمل کر دکھائیے، خدا کا شکر ادا کریں کہ نیا سال 2023ء نئی امید بنا آپ کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہے، بے قرار ہے اسی سال کچھ کرنا ہے تو کر دکھائیے،کچھ بننا ہے بن دکھائیے، جتنے ادھورے خوابوں میں رنگ بھرنا ہے بھرلیجیے اور اپنے نقش فانی کو لافانی بناکر لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر رہتی دنیا تک نقش کر دیں‘‘ نہ جانے کتنے لمحے باقی ہیں، کتنی سانسیں باقی ہیں، کہیں کل آپ کچھ ادھورے خوابوں کو لیے یہ کہتے ہوئے نظر نہ آئیں ’’اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے‘‘ کیوں کہ سمے کا تیزی سے اڑتا ہوا پنچھی آج بھی صدیوں پرانا راگ دہراتا ہوا اور گاتا ہوا ہمیں اپنی بے ثبات زندگی کی یاد دہانی کرارہا ہے۔
’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے۔۔۔ افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘
The post ’’ایک احساس، حقیقت کے آئینے میں‘‘ سمے کا راگ appeared first on ایکسپریس اردو.