Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ہیں دْکھ درد ہزار!

$
0
0

بحیثیت استاد روزانہ کی بنیاد پرسیکنڈری سے ہائی سیکنڈری اور پھر ماسٹرزلیول تک کم ازکم دو سو سے زائد بچوں کے ساتھ رابطہ، تدریس اور بات چیت کرنا انتہائی منفرد تجربہ ہوتا ہے، لیکن ان ہی بچوں کو اگر ایک ماں کی حیثیت سے سنا سمجھا اور پرکھا جائے تو یقیناً اس بات کا احساس ہوگا کہ کون سا بچہ کس مشکل سے گزر رہاہے؟

کس بچے کو ماں کی توجہ کی کتنی ضرورت ہے اور کس بچے کو کہاں اور کس مقام پر ٹیچراور ماں، دونوں کرداروں میں ہم آہنگی اور مربوط رابطے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، لیکن پِری اسکول اور پھر پرائمری سے سیکنڈری لیول تک بھی بچے کا زیادہ واسطہ خواتین اساتذہ سے ہی رہتا ہے۔

کیوں کہ بچہ زیادہ وقت ماں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتا ہے لہٰذا گھر کی چار دیواری سے لے کر محلے کی گلیوں تک ماں بچے کی تربیت اور پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جب کہ تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں زیادہ تر بچہ خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی اورزیر سایہ راہ نمائی حاصل کرتا ہے۔

بچے کی تربیت میں ماں کا حلقہ عمل سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن بچے کی عمر، ذہنی اور نفسیاتی تقاضے بڑھنے کے ساتھ ماں کا عمل دخل بھی محدود ہوجاتا ہے اور یہاں سے استاد کا کردار صحیح معنوں میں شروع ہوتا ہے جب بچہ گھر اور محلے سے نکل کر اس سے آگے کی دنیا کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہے۔

ماں اگر بچے کی جسمانی اور جذباتی نشو نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے توبچے کی ٹیچر اس کی ذہنی اور شخصی نشونما کا ضامن ہوتی ہے۔

کیوں کہ بچے دن کے کئی گھنٹے اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں، اس لیے ان کی شخصیت اور کردار بچوں کی ذہنی نشوونما اور شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس ہی لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کی دل چسپیوں کو جانیں اور ان سے جڑنے کے نہ صرف طریقے تلاش کریں، بلکہ ان کے سیکھنے کے انداز کو بھی جانیں کیوں کہ ہر بچہ فطرتاً منفرد اور مختلف ہوتا ہے۔

دوسری جانب بچے اسکول کے اوقات کے علاوہ دن کا زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس ہی لیے بچے کی تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری بھی ماں پر ہی عائد ہوتی ہے، لہٰذا خواتین کوچاہیے کہ ایسا ماحول اور تربیت فراہم کریں، جو کہ بچے کی ذہنی، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو۔

کیوں کہ  جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان بچہ رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گا وہی عکس اس کے ذہن کے خالی ’کینوس‘ پر نقش ہو جائے گا۔ لیکن بچے کی تعلیم و تربیت، ذہنی نشوونما اور شخصیت سازی ماں اور ٹیچر کی مشترکہ کاوش ہوتی ہے۔

عموماً  یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ تربیت ماں کی اور تعلیم اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ جب کہ عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو ماں اور اساتذہ  دونوں اس ذمہ داری سے خود کو علاحدہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسکول میں داخلے کے بعد خواتین خود کو بچے کی تعلیمی سرگرمیوں سے مبرا قرار دے سکتی ہیں۔

ایک ماں اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ  ایک اچھی نسل تیار کرتی ہے، لیکن اولاد کی کردار سازی، شخصیت سازی، تعلیم اور تربیت گھریلو سطح پر فقط ماں کی نہیں، بلکہ ماں اور باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

بچے کی زندگی میں سب سے پہلا رول ماڈل اس کے ماں اور باپ ہیں، لیکن بچے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیوں کہ ماں کا زیادہ وقت بچے کے ساتھ گزرتا ہے، اس ہی لیے ماں کی تربیت بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مائیں بیٹیوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر اچھی بیوی بننے کے فارمولوں سے تو آگاہی دیتی رہتی ہیں، لیکن بچیوں کو شادی سے پہلے اچھی ماں بننے اور پرینٹنگ کے بنیادی اصولوں، ماں کے فرائض اور خصوصیات سے سے آگاہی شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔

اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ پیرنٹنگ کے اصول اور فرائض کے حوالے سے ماں اور باپ دونوں مشترکہ طور پر نہ صرف بیٹی بلکہ بیٹے کو بھی آگاہی اور شعور دیں کہ والدین کے فرائض اور ذمہ داریاں کہاں کہاں کیا کیا ہوتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے جانے کیوں از خود معاشرتی بندش کے ذریعے بیٹی کے تمام تر معاملات کی ذمہ داری صرف ماں پر ڈالنے کے ساتھ باپ کو بری الذمہ کر دیا گیا۔ دوسری طرف ایسی ہی صورت حال بیٹوں کے پرورش کے معاملے میں بھی ہوتی ہے۔

بیٹے کی تعلیم و تربیت اچھی ہو تو پورا کنبہ اس کا کریڈٹ حاصل کرتا ہے اور بد قسمتی سے کسی قسم کے بگاڑ کی صورت میں تمام تر ذمہ داری ماں پر عائد کر دی جاتی ہے۔

جب کہ یہ وہ کلیدی ذمہ داری ہے، جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھریلو سطح پر والدین کو یک جا ہونے  کی ضرورت ہے نہ کہ اس ذمہ داری نے ماں اور باپ کو الگ الگ کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ عام فہم کے مطابق زیادہ تر والدین تعلیمی ذمہ داری استاد اور تعلیمی ادارے پر ڈال دیتے ہیں، لیکن والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تعلیمی ادارے میں بچے کا داخلہ مخصوص عمر میں ہوتا ہے۔

اس سے قبل بچے کی ابتدائی نشوونما، تربیت اور تعلیمی سرگرمیاں گھر پر جاری ہوتی ہیں اور گھر سے حاصل کردہ یہ ہی تعلیم و تربیت لے کر بچے اسکول جاتے ہیں، جہاں پر اساتذہ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اساتذہ اور والدین کا شعبہ کوئی الگ الگ نہیں، حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کی تربیت کو آگے بڑھاتے ہیں۔

دوسری جانب بچوں کا گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے رویہ، تعلیمی ادارے میں کلاس فیلوز، دوستوں کے ساتھ سلوک اور اساتذہ کے بارے رائے پر بھی ماں باپ کو نگرانی کی ضرورت ہے۔ استاد کی عزت شاگرد کا اولین فرض ہے، لیکن موجودہ دور میں خود اعتمادی اورجدت پسندی کے نام پر بچوں میں پروان چڑھنے والی یہ سوچ کہ استاد ایک ایسا ملازم ہے جسے وہ ایک یا دو گھنٹے پڑھائی کا معاوضہ دیتے ہیں معاشرے کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

جہاں نہ شاگرد اساتذہ کے احترام اور آداب سے آشنا ہے اور نہ اساتذہ اپنی ذمہ داریاں اور فرائض پورے کرنے کے لیے کوشاں۔ کسی بھی معاشرے کے علمی اور تربیتی نظام میں اگر یہ بنیادی چیزیں نہیں ہوںگی، تو بچوں کی بے راہ روی کا تناسب بڑھتا جائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بچے کو بہ حیثیت اولاد اور طالب علم  والدین اور اساتذہ کا احترام گھر سے لازمی طور پر سکھایا جائے۔

ساتھ ہی ماں باپ  کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول کو گھر کی تعلیم و تربیت کا تسلسل سمجھیں۔ یہ سارا عمل یک طرفہ نہیں ہے کہ اس کا سارا بوجھ بچے ہی پر ڈال دیا جائے، اس عمل میں والدین خصوصاً ماں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

The post ہیں دْکھ درد ہزار! appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>