Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

اگر اخبارات اپنی برتری پر توجہ دیں۔۔۔

گذشتہ دنوں اپنی ہی مادرِ علمی ’جامعہ اردو‘ (عبدالحق کیمپس) کراچی کے شعبہ اِبلاغ عامہ میں ’فائنل سیمسٹر‘ کے طلبہ سے کچھ گفتگو کا موقع ملا۔ ہم خود کو بالکل اس قابل نہیں سمجھتے، اور خود کو اب بھی ’اِبلاغ عامہ‘ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہی سمجھتے ہیں، لیکن وہاں کی مدرّس فریحہ فیصل صاحبہ کا اصرار تھا۔

سو اپنے جی کو مطمئن کرنے کو ازخود یہ راہ کچھ یوں نکالی کہ ہم طالب علم ہی سہی، لیکن اپنے بعد آنے والے طلبہ کے ساتھ اگر اپنے مشاہدات اور تجربات بانٹنے کی دعوت ہے، تو اسے عَن قریب فارغ التحصیل ہونے والے اِن طلبہ کا ایک حق سمجھ کر ادا کیا جانا چاہیے۔

پھر جب ’جامعہ‘ بھی آپ ہی کی ہو تو یہ ذمہ داری دُہری سمجھ لیجیے۔۔۔ کیوں کہ یہ ابھی کل ہی کی تو بات معلوم ہوتی ہے کہ یہاں ہمارے واسطے بھی تو ذرایع اِبلاغ کی مختلف شخصیات مدعو کی جاتی تھیں، تاکہ ہمیں عملی کام سے وابستہ افراد کو سن کر مزید کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع مل سکے۔

اس موقع پر صدر شعبہ اِبلاغ عامہ اور ہماری ’ایم اے‘ کی استاد ڈاکٹر مسرور خانم نے بھی ہمارا حوصلہ بڑھایا اور کوچۂ صحافت میں ہمارے پہلے باقاعدہ مدیر (روزنامہ بشارت) اور یہاں معاون استاد ڈاکٹر ناصر محمود نے بھی عزت افزائی کی۔

خیر جناب، اب ہمارا شعبہ براہ راست اخبار اور ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘ کا رہا ہے، اس لیے یہاں ہمارے لیکچر کا موضوع اخباری مندرجات اور اس کی موجودہ صورت حال تھی، لیکن جب اخبارات کا تذکرہ ہو تو اخبارات کو درپیش ’چیلنجوں‘ کا ذکر بھی نکل ہی آتا ہے، ہر چند کہ آج طباعت واشاعت بہت جدت پا چکی ہے، لیکن جلتی بجھتی اسکرینوں اور پھر مٹھی میں سمائے ہوئے موبائل کے روشن شیشے کی تیز رفتاری سے اب بھی بہت پیچھے ہے، کہ جہاں گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ اطلاعات لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔

اور اس میں اگر ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ کی بات نہ کیجیے، تو یہ زیادتی ہوگی، کیوں کہ روایتی ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ میں اب یہ ایک نیا پہلو شامل ہو چکا ہے، جس نے اظہار خیال اور خبر کو پہنچانے کے لیے کسی اخبار، رسالے، چینل یا ویب سائٹ کی محتاجی یک سر ختم کر ڈالی ہے۔ ان سب کے باوجود اخبارات شایع ہو رہے ہیں اور ہو نہ ہو اب بھی اپنی ایک اہمیت تو رکھتے ہی ہیں۔

ہر چند کہ ہمارے ہاں اخبارات کی گردش بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی ہے، اس کے باوجود اخبار ان جدید برقی پردوں اور شیشوں پر اپنی ایک برتری رکھتا ہے، جس میں سرفہرست تو یہ ہے کہ یہ اپنی ’طبعیی صورت‘ میں آپ تک پہنچتا ہے، جب کہ دیگر جدید ذرایع کسی نہ کسی آلے یا اسکرین سے راہ پاتے ہیں اور پھر ختم ہو جاتے ہیں، لیکن اخبار ہر روز کاغذ کی صورت میں آپ کی دہلیز تک پہنچتا ہے۔

اس واسطے سے آپ ’خوش بو‘ کا اِبلاغ صرف اخبار ہی کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ ’اسکرین‘ آج کی تاریخ تک اس جدت سے ابھی بہت پرے ہے۔ پھر ’خوش بو‘ کا اِبلاغ ذائقے کی طرح ایک مشکل ترین اِبلاغ شمار ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں آپ تشبیہات کے ذریعے کسی بھی بو اور ذائقے کی خبر دینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے گلاب یا بریانی جیسا کہیں گے۔

اب اِسے صرف گلاب سونگھنے اور بریانی چکھنے کا تجربہ رکھنے والا ہی سمجھ سکے گا، بہ صورت دیگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ لفظوں میں یہ بتائیے کہ گلاب کی خوش بو کیسی ہوتی ہے اور بریانی کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔

اس حوالے سے ہم یکم مارچ 2020ء کو ’سنڈے ایکسپریس‘ میں اپنے مضمون ’طبعیی ذرایع اِبلاغ اور جلتی بجھتی اسکرینیں‘ میں بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں کہ اخبارات کے ’مارکیٹنگ‘ کے شعبے کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ چند سال پیش تر ’جنگ‘ اخبار کی ایک نئے صابن کی خوش بو میں بسی ہوئی اشاعت اس کی مثال بھی بنی۔ یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ مشتہرین اپنی مصنوعہ کا چٹکی بھر مفت ’نمونہ‘ بھی اسی اخبار کے ذریعے اپنے صارفین تک بہ سہولت پہنچا سکتے ہیں۔

اور اشتہارات کی بات نکلی ہے تو ’یوٹیوب‘ کی بہت سی سنجیدہ ویڈیو پر اچانک سامنے آنے والے ’منہ پھٹ‘ اشتہار یقیناً اکثر ناظرین کو بہت گراں گزرتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں اخبار کا اشتہار نہایت پروقار انداز میں اخبار کے کسی گوشے میں اپنے قاری کی توجہ حاصل کرنے کا انتظار کرتا ہے، یقیناً اس اشتہار کا پیغام ’یوٹیوب‘ یا بہت سے ٹی وی والے اشتہارات سے زیادہ بہتر طریقے سے پہنچ پاتا ہے۔

اگر وسعت کی بات کیجیے، تو کوئی بھی اسکرین ایک حد تک ہی بڑی ہو سکتی ہے، جب کہ اخبار کا صفحہ تہہ در تہہ ہو کر اسکرین سے کہیں زیادہ وسعت اختیار کر سکتا ہے۔

(یہ وسعت بڑے اشتہار کی جگہ بھی فراہم کرتی ہے) اور مختلف النوع چینلوں کی بساط اخبارات کے مقابلے میں کہیں زیادہ محدود ہے۔

یہ 24 گھنٹے کی وسعت سے باہر نکل ہی نہیں سکتے، جب کہ ایک اخبار کی اس حوالے سے کوئی حد ہی نہیں ہے کہ وہ چاہے تو کسی دن سیکڑوں صفحات پر مشتمل ضخیم شمارہ بھی شایع کر سکتا ہے، اور حالیہ دنوں میں ایک معاصر روزنامے نے یکے بعد دیگرے اہم موقعوں کی مناسبت سے اس کا بھرپور اہتمام بھی کیا، لاتعداد صفحات میں پھر ظاہر ہے اسے اشتہار بھی 24 گھنٹے چلنے والے کسی بھی قسم کے چینل سے زیادہ ملے۔

ایک قاری کے لیے یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ اپنی سہولت سے کسی اخبار کا پورا احاطہ کر سکتا ہے، ایک دن کا اخبار اگرچہ بہت سی اطلاعات ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ کے مقابلے میں کافی تاخیر سے پہنچاتا ہے، لیکن اس کی خبریں مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس وصف کی حامل بھی ہوتی ہیں کہ قاری اپنی سہولت سے گذشتہ 24 گھنٹے کا ایک خبری جائزہ لے سکتا ہے۔

اس سے اس کے قیمتی وقت کی بچت بھی ہوتی ہے، جب کہ چینل پر یہ سہولت دست یاب نہیں، متحرک اسکرین پر اگر کچھ دیکھنے سے چھُوٹ گیا، تو پھر بازیافت مشکل اور کبھی تو ناممکن بھی ہو جاتی ہے۔

اور کسی بھی ناظر کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ 24 گھنٹے اسکرین سے چپکا بیٹھا رہے، جب کہ ایک اخبار تو اب چھَپ کر آگیا ہے، اور اگر چَھپے ہوئے اخبار کے ریکارڈ رکھے جائیں، تو یہ برسوں بعد بھی اطلاعات فراہم کر کے ہماری تاریخ درست کرنے اور اسے مرتب کرنے کے لیے گویا اپنی بانہیں وا کر لیتے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ چَھپے ہوئے اخبار میں کسی بھی قسم کا کوئی ردوبدل بھی ممکن نہیں، جب کہ اگر اخبار کو ’ای پیپر‘ میں دیکھا جائے، تو وہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ماضی کا جو اخبار اسکرین آپ کو دکھا رہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہوگی!

اخبارات کے حوالے سے مندرجہ بالا تمام معلومات کوئی وقیع تحقیق یا کسی گہری وعمیق مقالہ نگاری کا نتیجہ بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ یہ تو وہ حقائق ہیں جو اگر ہم ذرا سا بھی غور کریں، تو ہمارے سامنے آجاتے ہیں، لیکن ہم اسے بدقسمتی کہیں یا کیا کہ ہمارے ملک میں کاغذ کے نرخ اور طباعت واشاعت کے اخراجات میں ہوش رُبا اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف مجموعی طور پر ہمارا سماج مطالعے کی عادت سے بھی بہت دور ہو رہا ہے اور اس جانب بڑے بڑے اشاعتی اداروں کی بھی کوئی توجہ نہیں ہے۔

جب کہ ان کا تو کاروبار ہی براہ راست کتابیں چھاپنے سے جڑا ہوا ہے۔ طباعت واشاعت سے وابستہ تمام اداروں کو تو چاہیے کہ بہ جائے حکومت ہی سے صرف اعانت، زرتلافی اور سرکاری اشتہارات مانگیں، بلکہ یہ بھی کوشش کریں کہ کسی طرح سماج میں پڑھنے کا رجحان بھی بڑھے اور اس کے ساتھ ساتھ سر جوڑ کر ملک میں طباعت واشاعت کے شعبے کی ترقی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اور اقدام کیے جائیں۔

ہمیں یقین ہے کہ اگر ان تمام عوامل کی جانب سنجیدہ توجہ کی جائے، تو اخبارات سے لے کر اشاعت کتب وغیرہ تک، ضرور بالضرور نئے امکانات پید اہوں گے۔ اور اس امکان کی ایک امید ’اِبلاغ عامہ‘ کے نئے فارغ التحصیل طلبہ کے ذریعے بھی اجاگر ہو سکتی ہے۔

’ایف ایم‘ پر ’ریڈیو پاکستان‘ کی نشریات

سنجیدہ ارشد، کراچی

ہماری تاریخ میں ’ریڈیو پاکستان‘ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ جہاں سے 14 اگست 1947ء کو اس ملک کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس وقت نہ ’ایف ایم‘ تھے اور نہ کوئی دیگر سرکاری ونجی نشریاتی ادارے۔ لیکن آج کل ’ریڈیو پاکستان‘ جن حالات سے گزر رہا ہے، اسے دیکھ کے دل خون کے آنسو روتا ہے، جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ’ریڈیو پاکستان‘ کے لیے ’دھنک ایف ایم 94‘ سے نشریات شروع کی گئی تھیں، لیکن گذشتہ کافی عرصے سے اس کی پرانی نشریات کا سلسلہ موقوف کر دیا گیا ہے۔

اس کی نشریات پانچ منٹ کی کھیلوں کی خبروں کے بعد لگاتار گانوں کی صورت میں باقی رہ گئی ہے۔ صبح آٹھ بجے سے مسلسل دن ایک بجے تک کُل 30 سے 40 منٹ کھیلوں پر بات ہوتی ہے اور باقی تمام وقت موسیقی کے نام۔ متعلقہ حکام کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی بہت کوششیں کی گئی، لیکن کام یابی نہ ہو سکی۔

دوسری طرف ’ریڈیو پاکستان‘ کے ’دھنک ایف ایم‘ کراچی کی نشریات انٹرنیٹ پر بھی موجود نہیں ہے۔ ایک طرف ذرایع اِبلاغ ترقی کر رہے ہیں، ان میں جدت اور بہتری آ رہی ہے، لیکن ہمارے ریڈیو پر ایک جمود سا طاری ہوگیا ہے۔

ماضی قریب میں ’دھنک ایف ایم‘ نے بہت کم وقت میں اپنی معیاری نشریات سے ایک منفرد مقام بنایا تھا۔ اس کے پروگرام منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے میزبانوں نے ہمیں جوڑے رکھا، مختلف دل چسپ موضوعات سے ریڈیو کے سامعین بہت محظوظ ہوتے تھے، ساتھ ساتھ یہاں خواتین خانہ، سے لے کر بچیوں تک کی دل چسپی کا سامان موجود تھا۔

یہی نہیں یہاں ’ریڈیو پاکستان‘ کی اچھی اردو کی میراث بھی محترمہ ربیعہ اکرم، محترم نور اللہ بوگھیو نے بہت خوبی سے آگے بڑھائی تھی، لیکن اب اسے یک دم ’اسپورٹس چینل‘ بنانے کی کوشش سے سامعین میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ کھیلوں کے لیے کوئی علاحدہ چینل قائم کر لیا جائے۔ اور دھنک ایف ایم کی سابقہ نشریات بحال کی جائیں۔ ویسے بھی ہر ٹی وی چینل خبریں دیتا ہے۔

ایف ایم 101 اور میڈیم ویو بھی میچ پر کمنٹری پیش کرتا ہے، اور روزانہ ایک گھنٹے کا ’اسپورٹس آر‘ اس کے علاوہ ہے، تو کیا یہ عام ریڈیو سامعین کے ساتھ زیادتی نہیں ہے، جو ’دھنک ایف ایم 94‘ سے مختلف نشریات سننے کے خواہش مند ہیں؟ امید ہے متعلقہ حکام اس جانب توجہ دیں گے اور روایتوں کے امین ’ریڈیو پاکستان‘ کی عظمت رفتہ کو برقرار رکھنے میں مدد دیں گے۔

بھٹو صاحب کی ’اکثریت‘ کی قیمت!
علی احمد خاں

اخباری کانفرنس میں بیٹھے ہوئے صحافیوں کو اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب اقتدار میں حصہ حاصل کیے بغیر اقتدار کی منتقل پر رضامند نہیں ہوں گے اور یہ کہ حصہ وہ اپنی پارٹی کی حیثیت سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔

مغربی پاکستان میں اپنی اکثریت کی قیمت جو انھوں نے لگائی تھی، وہ بہت بھاری تھی، ان کو بھی اندازہ تھا ، لیکن وہ یہ قیمت زبردستی وصول کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ اپنی جمہوریت نوازی بھی دائو پر لگانے کو تیار تھے۔

غالباً فوج بھی ان سے یہی کام لینا چاہتی تھی۔ چناں چہ بھٹو صاحب کو فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک موقعے پر یہ تک کہہ دیا کہ اگر مجیب صاحب اقتدار میں شراکت کے لیے تیار نہیں ہیں تو پھر ’’اُدھر تم، اِدھر ہم۔‘‘ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے یہ دھمکی بھی دے دی کہ ’’جو سیاست داں (قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے) مشرقی پاکستان جائے گا، ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔‘‘

یہ وہ باتیں تھیں جو ان جیسے جمہوریت پسندی کے دعوے دار کو زیب نہیں دیتیں، لیکن اقتدار کی ہوَس اچھے اچھوں کو اندھا بنا دیتی ہے اور وہ وقتی فائدے پر مستقبل کو بھی قربان کردیتا ہے۔

بھٹو صاحب پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ انھوں نے اقتدار کی خواہش میں سیاسی اندھے پن سے کام لیا اور بہ جائے اس کے کہ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر اس موقعے پر جمہوریت کو مضبوط کرتے، اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں لگ گئے۔ پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے کا یہ دوسرا اہم موقع تھا، جو ضایع کر دیا گیا۔

پہلا موقع 1956ء میں آیا تھا، جب ملک کا پہلا آئین منظور ہوا تھا اور اس کے تحت انتخاب کرانے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے پہلے مارشل لا کے نفاذ نے تباہ کر دیا۔

دوسرا موقع یہ تھا جب جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کرائے گئے تھے اور کام یاب ہونے والی پارٹیوں کو عوام نے ان کے منشور سے متاثر ہو کر ووٹ دیا تھا۔ عوام کے اس فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔
(یادداشتیں ’’جیون ایک کہانی‘‘ سے چُنا گیا ایک ورق)

نوٹ:
یہ ای میل صرف ’’سارے رنگ‘‘ کے صفحے کے لیے اپنی نگارشات بھیجنے کے لیے ہے:
rizwan.tahir@express.com.pk

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>