غزل
جو نم رواں ہے سرِ خد و خال کس کا ہے
دلِ تباہ بتا دے ملال کس کا ہے
اٹھا کے حشر میری ذات میں یہ پوچھتے ہو
سوادِ فکر میں برپا کمال کس کا ہے
میں کس کو یاد کروں اور کس کو جھٹلاؤں
یہ زخم کس نے دیے اندمال کس کا ہے
ہوا کی موج برابر یہ پوچھتی ہے مجھے
یہ نور کس نے بکھیرا گلال کس کا ہے
بچھڑ رہے ہو مگر یہ بتا کے جاؤ مجھے
عذاب کون سمیٹے وبال کس کا ہے
شروع دن سے دسمبر کی سرد راتوں تک
ہماری پیاس بڑھاتا سفال کس کا ہے
ہمارے لفظ بتائیں گے اہلِ دانش کو
ہوا کی موج سے رشتہ بحال کس کا ہے
(عبدالرّحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
اگر یقیں نہیں امکان کر دیا جائے
کہ زندہ رہنے کا سامان کر دیا جائے
یہاں نہیں ہے وہاں پر تو لازمی سکھ ہو
کوئی تو راستہ آسان کر دیا جائے
جوں رفتہ رفتہ مرے گھر سے کم ہوئی رونق
گماں ہے جلد بیابان کر دیا جائے
اب اپنے آپ کو اتنا کہاں اٹھاتا پھروں
سو جتنا فالتو ہوں دان کر دیا جائے
یہ گر رہی ہیں یہاں جابجا جو آوازیں
ہماری چپ کا نہ نقصان کر دیا جائے
بدن کا اس لئے بھی میں ذرا مکیں کم ہوں
کسے خبر کہاں زندان کر دیا جائے
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)
۔۔۔
غزل
گلوں میں رنگ ستاروں میں نور بھرتے ہوئے
میں چل پڑی ہوں خزاؤں کو زیر کرتے ہوئے
تھکی تھکی ہوئی آنکھوں بجھے چراغوں سے
گزر رہی ہے مری شب خطاب کرتے ہوئے
وہ شخص پھول نہیں خوشبوؤں کی صورت ہے
اسے سمیٹ لوں کیسے میں خود بکھرتے ہوئے
بس اس گلی کے نظاروں کی خیر ہو یارب
گزر رہا ہے زمانہ جہاں سے ڈرتے ہوئے
میں اپنی جھوٹی ہنسی سے فریب کھاتی تھی
تمہارے ہجر کے لمحوں میں رنگ بھرتے ہوئے
میں تیرے شعر پہ ایمان کس طرح لاؤں؟
کہ تیرے لفظ لگے ہیں کسی کے برتے ہوئے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
نہیں ملا ہمیں کوئی بھی زندگی کا راستہ
سو آج ہم نے چُن لیا ہے خودکشی کا راستہ
ہمارے درمیان جب سے کوئی اور آگیا ؎
میں روکنے لگا ہوں تب سے ہر کسی کا راستہ
یہ کیا کہ گھر کو لوٹنے کی چاہ دل میں آگئی
مٹا کے آ کے تھا میں تو واپسی کا راستہ
کسی مقام پر عدو بنے ہوئے ملیں گے ہم
یہ دوستی ہی اصل میں ہے دشمنی کا راستہ
وہاں پہ اپنے غمزدہ قدم نہیں دھریں گے ہم
جو اتفاق سے اگر ملا خوشی کا راستہ
ترا خیال اب ہمارے دل میں آ نہیں رہا
کئی دنوں سے بند ہے تری گلی کا راستہ
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
خرد کا سود و زیاں دل کے ضابطے میں نہیں
جو عشق ہے وہ خرد کے کتابچے میں نہیں
زمیں نہ تیری رہی ہے نہ تُو زمیں کا کبھی
پر آسمان سے بھی اب تُو رابطے میں نہیں
کہیں پہ ساتھ ہیں دونوں کہیں مقابل ہیں
کہ شرق و غرب کی تہذیب فاصلے میں نہیں
ہر اک ڈگر کی طرف مڑ گئے ہیں بٹ کر سب
کہ راہرو تو ہیں، رہبر ہی قافلے میں نہیں
کوئی خطا ہے ترے جذبِ عشق میں سالک
مزاجِ ضربِ قلندر جو حوصلے میں نہیں
جوان نسل کہوں یا کہ کاہلوں کا ہجوم
عقابی کھیل کوئی اس کے مشغلے میں نہیں
تُوہارتے ہوئے کہنے لگا تھا اس کو فہدؔ
زیاں میں، میں بھی نہیں،تُو بھی فائدے میں نہیں
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
حل نکالا گیا دریا کی پریشانی کا
شجرہ آنسو سے ملایا نہ گیا پانی کا
پھیلتی جاتی ہے شاخوں پہ ردا کہرے کی
حق ادا کر دیا موسم نے نگہبانی کا
بستیاں غرق کرے اور ہو دریا مجرم
کس پہ الزام ہے دریاؤں کی طغیانی کا
پی گئیں کرنیں تری کتنے سمندر خورشید!
عشق سے پوچھ مری چشم کی ویرانی کا
ہوسِ نام و نمود آج کے شاعر کا ہدف
نام جدت ہے خیالات کی عریانی کا
مٹ گئے لوح مقدر سے شکستہ الفاظ
ماں نے جب بھی لیا بوسہ مری پیشانی کا
خیمۂ گل میں جو کچھ وقت رکی تھی خوشبو
نوحہ کہتا رہا گل بے سروسامانی کا
(عامر ابدال۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
میں بھی خاموش اُداسی کی طرح رہتا ہوں
خود میں روپوش اداسی کی طرح رہتا ہوں
حالتِ زار نہیں کھلتی ہے مدہوشی کی
گرچہ مدہوش اداسی کی طرح رہتا ہوں
خود پرستی ہی مرے خواب کی دیوار بنی
تہِ آغوش اداسی کی طرح رہتا ہوں
شاعری خواب نہیں میری کمائی ہے سنو
جس میں بیہوش اداسی کی طرح رہتا ہوں
ایک سگرٹ ہی نہیں میری اداسی کا علاج
آج پُرجوش اداسی کی طرح رہتا ہوں
میں ولیؔ لفظ کو خنجر نہ بناؤں کیونکر
اک مئے نوش اداسی کی طرح ہوتا ہوں
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)
۔۔۔
غزل
اک جیسے ہم دونوں کے غم
تو میرا میں تیرا مرہم
شب،تنہائی، اس کی یادیں
دیپ جلے ہیں مدھم مدھم
روحیں زخمی، جذبے گھائل
پھر بھی خوش ہے ابن آدم
سمٹوں تو ذرہ بن جاؤں
وسعت پاؤں تو اک عالم
اس کے رخساروں پر بوندیں
جیسے پھولوں پر ہو شبنم
بچھڑے ساتھی جب یاد آئیں
دل ہو غمگیں، آنکھیں پر نم
قریہ قریہ ڈھونڈ رہا ہوں
وہ گل وہ چاہت وہ موسم
طاہرؔ کیسا روگ لگا ہے
خود سے بھی رہتا ہوں برہم
(محمد طاہر۔لاہور)
۔۔۔
غزل
جو بھی نکلے وہ رو برو نکلے
عین ممکن ہے دل سے تو نکلے
لاکھ مرہم کے باوجود مرے
سب کے سب زخم ہو بہو نکلے
مان جاؤں میں پارسائی تری
دل سے اب تیری، آرزو نکلے
تو نہیں نہ سہی تری یادیں
جستجو کچھ تو جستجو نکلے
کیا روانی ہے اب کے اشکوں کی
نرم مکھن سے جیسے مو نکلے
کج روی تیری تجھ کو لے ڈوبی
اب جنازہ ہی چار سو نکلے
دل دھڑکنے کا نام ہے امجدؔ
یہ نہ دھڑکے تو پھر لہو نکلے
(امجد ہزاروی۔مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
جتنے خطرے مجھے جہان سے ہیں
اس سے بڑھ کر تری زبان سے ہیں
کھیلتے رہتے تھے ترے ناخن
میرے سینے پہ کچھ نشان سے ہیں
برف پر کھیلتی ہوئی دھوپیں
کون صحرا کے خاندان سے ہیں
اس کا معیارِ دوستی کیا ہو
جس کے دشمن بھی آسمان سے ہیں
رات کی رانیوں کو ملنا ہے
اور امیدیں باغبان سے ہیں
(آفتاب نواب ۔ منچن آباد، ضلع بہاولنگر)
۔۔۔
غزل
شکوک دل میں بٹھا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
میں اپنا ملبہ اٹھا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
دلوں میں دوری تو پہلے دن سے بنی ہوئی تھی
وہ مجھ پہ تہمت لگا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
کسے فراغت کہ آئینے کو گلے لگاتا
میں اپنی صورت بھلا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
صدا لگانے میں دیر کر دی مرے جنوں نے
وہ اپنا دامن چھڑا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
میں ہڑبڑا کر اٹھا تو دیکھا کوئی نہیں ہے
وہ جا چکا تھا، وہ جا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
عجب تعلق کی قید میں تھے سفیرؔ دونوں
یہ ہجر دونوں کو کھا چکا تھا، وہ جا چکا تھا
(زید شیر سفیر ۔کراچی)
۔۔۔
غزل
کوئی تیر سینے پہ کھانا نہیں ہے
مجھے پیار کرکے جتانا نہیں ہے
نگاہیں ملا کر نگاہیں چرا کر
مجھے اپنی سانسیں دبانا نہیں ہے
وطن کی محبت میں مجھ کو دوانے
کسی طور بھی ڈگمگانا نہیں ہے
تمہاری گلی میں جو دل پر لگے ہیں
کوئی زخم بھی اب بھلانا نہیں ہے
ہماری محبت کو ٹھکرانے والے
تمہاری محبت میں آنا نہیں ہے
ارے میر و غالب کی غزلیں سنا کر
کبھی بھی کسی کو رلانا نہیں ہے
کبھی دل جلا کر کبھی غم بھلا کر
کبھی آئنہ کو دکھانا نہیں ہے
(نور اقبال، گوجرانوالہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.