پچھلے دنوں بھارتی وزیر دفاع، راج ناتھ سنگھ نے مقبوضہ کشمیر میں ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ دہمکی دی کہ وہ دن قریب ہے جب آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان بھارت کا حصہ بن جائے گا۔
بھارتی حکمران طبقے کے ارکان اس قسم کے اعلان وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں جس سے عیاں ہے کہ وہ ابھی تک پاکستان کے قیام کو ہضم نہیں کرسکا اور اٹھتے بیٹھتے ’’اکھنڈ بھارت‘‘کا خواب دیکھتا ہے۔
جب سے مودی کی زیرقیادت بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے، بھارت کی جنگی تیاریوں میں بھی محیر العقول اضافہ ہو چکا۔بھارتی حکمرانوں کی جارحیت دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ افواج پاکستان اپنے گھوڑے تیار رکھیں تاکہ دشمن کو حملہ کرنے کی صورت میں منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
پریشانی کا سدباب
دلچسپ بات یہ کہ راج ناتھ سنگھ کا حالیہ بیان بظاہر پاکستان کے لیے دہمکی آمیز تھا مگر اس کا اصل ٹارگٹ بھارتی افواج کے جوان تھے۔
وجہ یہ کہ پچھلے کچھ عرصے سے بھارتی میڈیا میں یہ رپورٹیں آ رہی تھیں کہ روس یوکرین جنگ میں روسی ہتھیار ناکارہ ثابت ہوئے اور عمدہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
ان رپورٹوں کی وجہ سے بھارتی افواج میں پریشانی اور اضطراب پھیل گیا کیونکہ ان کے بیشتر بھاری وہلکے ہتھیار روس ساختہ ہیں۔جوانوں کو مطمئن کرنے اوران کاحوصلہ بڑھانے کی خاطر بھارتی حکمران طبقے کے ارکان کو درج بالا قسم کے بیانات دینے پڑے۔اس معاملے کی داستان ِعجب پیش خدمت ہے۔
بھارت کے برعکس پاکستان کی جنگی تیاریاں ہمیشہ دفاعی نوعیت کی رہی ہیں کیونکہ ہم کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور جانتے ہیں کہ جنگ چاہے مبنی بر حق ہو، تباہی بھی لاتی ہے۔حالیہ روس یوکرین جنگ ہی کو لیجیے جس نے نہ صرف لاکھوں یوکرینی باشندوں کو بے گھر کیا بلکہ ایندھن و خوراک کی قیمتیں بڑھا کر پوری دنیا میں مہنگائی پیدا کر دی۔
اس مہنگائی نے کروڑوں غریبوں ہی کو مسائل ومشکلات میں گرفتار کرایا۔تاہم کبھی کبھی شر کے بطن سے خیر بھی جنم لیتا ہے۔اس بوالعجبی کی مثال بھی روس یوکرین جنگ ہے جو کم از کم پاکستان کی افواج اور قوم پر اہم اور مثبت پہلو اجاگر کر گئی۔
روسیوں کی پسپائی
جنگ میں کون حق پر ہے، اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ روس اور یوکرین کے مابین مقابلہ برابر نہ تھا۔بلکہ کہنا چاہیے کہ روس کو عسکری طور پہ ہر قسم کی برتری حاصل تھی۔چناں چہ روسی اواخر فروری 22ء میں حملہ آور ہوئے تو اپنی عسکری طاقت کی بدولت جلد یوکرینی دارالحکومت تک جا پہنچے۔روسی مگر تمام تر ہیبت کے باوجود پورے یوکرین پہ تسلط نہیں جما سکے بلکہ یوکرینی جوابی حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔
پسپائی ایک لحاظ سے روس کی شکست ہے کہ وہ اپنے سے کہیں کمتر عسکری قوت کو ہار کا مزا نہیں چکھا سکا بلکہ خود راہ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہو گیا۔شکست کا داغ چھپانے کے لیے روسی حکمران طبقے کو یہ دلیل تراشنی پڑی کہ وہ تو یوکرین کے سرحدی علاقوں پر تسلط چاہتا تھا جہاں روسیوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔
روسی افواج نے مگر بہ مشکل ان علاقوں پہ قبضہ جما رکھا ہے۔یوکرینی ہر قیمت پر انھیں واپس لینا چاہتے ہیں، روسی کسی قیمت پر انھیں دینے کو تیار نہیں، گویا یہ جنگ کمتر سطح پہ طویل عرصہ جاری رہ سکتی ہے۔
خصوصی جنگی حکمت عملی
جنگ سے قبل یوکرینی افواج کی تعداد تقریباً سوا دو لاکھ تھی۔بیشتر فوجی بّری فوج سے تھے۔روسیوں نے یوکرینی فضائیہ اور بحریہ تو ملیامیٹ کر دی تاہم بّری فوج پیچھے ہٹ کر خود کو محفوظ کرنے میں کامیاب رہی۔اس کو تنظیم نو کرنے کا سنہرا موقع ملا جب امریکا و یورپی ممالک نے اسے جدید ترین اسلحہ فراہم کیا۔
اس کی مدد سے یوکرینی فوج نے وسیع پیمانے پر گوریلا جنگ شروع کر دی ۔اس دوران یوکرینی فوج نے ایک خصوصی جنگی حکمت عملی ’’اینٹی ایسیس ایریا ڈینائل‘‘(Anti-access_area denial) کامیابی سے اپنا لی۔جدید مغربی ہتھیار اور یہ جنگی حکمت عملی، انہی دونوں کی مدد سے یوکرینوں نے کہیں زیادہ طاقتور روسیوں کو پسپا ہونے پہ مجبور کر دیا۔
اہل پاکستان کے لیے اس سارے معاملے میں پہلا نمایاں مثبت پہلو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی فوج کو روس سے فضائی دفاعی نظام، ایس ۔400 (S-400 missile system)ملا تو بھارت میں وسیع پیمانے پر خوشیاں منائی گئیں ۔
کہاگیا کہ اب جنوبی ایشیا میں عسکری طاقت کا توازن بھارت کے حق میں ہو گیا ۔حکمران طبقے کے جنگجو لیڈر آزاد کشمیر پر قبضے کی باتیں کرنے لگے۔ان کی شیخیاں اتنی بودی بھی نہ تھیں۔وجہ یہ کہ ماہرین کی رو سے ایس ۔400 دنیا کا سب سے خطرناک فضائی دفاعی نظام ہے۔اس نظام کے میزائیل اپنے ریڈاروں کی مدد سے ’’چار سو کلومیٹر‘‘دور تک اڑتے ہر قسم کے میزائیل اور طیارے تباہ کر سکتے ہیں۔
گویا پاکستان نے اپنے دفاع کی خاطر جتنے بھی میزائیل اور طیارے رکھے ہوئے ہیں، وہ اب بھارتی فوج کے نشانے پر آ گئے۔یہ تشویش ناک اور فکر انگیز صورت حال تھی۔مگر یوکرین میں روسی افواج کی تاریخی پسپائی پاکستان میں صورت حال کی گھمبرتا کافی کم کر چکی۔
ایس۔ 400 اتنا کارگر نہیں
وجہ یہی کہ روس یوکرین جنگ نے یہ امر نمایاں کر دیا کہ ایس۔ 400 اتنا کارگر و موثر نہیں جتنا روسی وبھارتی میڈیا اسے پیش کر رہا ہے۔سچ یہ ہے کہ جنگ نے دنیا والوں کو دکھا دیا، روس ساختہ اسلحہ روسیوں کے دعوی کے برعکس ناقص و کم جدید ہے۔
یہ پہلا بڑا پہلو ہے جو اس جنگ سے اجاگر ہوا۔ماہ اگست میں روسی صدر نے ایک عسکری کانفرنس میں یہ شیخی ماری تھی کہ روس کے ہتھیار جدید ترین اور مغربی اسلحے سے کہیں عشرے آگے ہیں۔اتفاق سے اسی ماہ یوکرینی فوج نے مغربی اسلحے سے لیس ہو کر جوابی حملہ شروع کیا اور روسی راہ فرار اختیار کرنے لگے۔
فضائی ہتھیار بہت اہم
روس کے حملے سے یہ ایک اور اہم نکتہ یہ بھی اجاگر ہوا کہ دور جدید کی جنگوں میں ٖفضائی ہتھیار بہت اہمیت اختیار کر چکے۔
وجہ یہی کہ ان کی مدد سے دور بیٹھے دشمن کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا اور انھیں تباہ کرنا ممکن ہے۔پھر ان کے باعث فوجیوں کی جانیں بھی خطرے میں نہیں پڑتیں۔سب سے بڑھ کر فضائی ہتھیار دمشن کو کاری نقصان پہنچا کر زمینی حملے کی راہ ہموار کر دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب روس نے حملہ کیا تو اس کے طیاروں سے نکلے بموں اور میزائیلوں،زمینی میزائیلوں اور ملٹی پل راکٹوں نے مسلسل یوکرین کے لڑاکا جہازوں، ٹینکوں، توپوں، بحری جنگی جہازوں اور دیگر عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ان حملوں کی وجہ سے یوکرین کی فوجی قوت کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بھی تباہ ہو گئے۔چناں چہ پھر روسی بری فوج نے حملہ کیا اور چند دن میں یوکرینی دارالحکومت پہنچ گئی۔
اسی طرح جب یوکرینی فوج نے جوابی حملہ شروع کیا تو سب سے پہلے فضائی ہتھیار ہی اس کے کام آئے۔وہ امریکی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والے (سام)میزائیلوں کے ذریعے روسی جنگی جہازوں اور میزائیلوں کو نشانہ بنانے لگی۔
انھوں نے روسیوں کے کئی جنگی جہاز اور میزائیل مار گرائے۔تب ہی روسیوں کو احساس ہوا کہ یوکرین کی فضا اب خطرناک ہو چکی لہذا روسی جنگی جہازوں کی آمد خصوصاً بہت کم ہو گئی۔ اس کے بعد ہی میدان صاف پا کر یوکرینی فوج روسی بری فوج پہ چھاپہ مار حملے کرنے لگی۔
اس حملے میں بھی پریشین گائیڈڈ ملٹی پل راکٹ سسٹم یوکرینی فوج کے سب سے زیادہ کام آئے جو امریکا، جرمنی وغیرہ نے اسے فراہم کیے۔یہ راکٹ اڑتے بم ہیں جو جدید گائیڈڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے پرواز کرتے ٹارگٹ پر جا گرتے ہیں۔
یوکرینیوں نے ان راکٹوں کے ذریعے روسی فوج کے ٹھکانوں پہ حملے کیے اور اسے سخت جانی ومالی نقصان پہنچایا ۔روسیوں کی کئی توپیں تباہ ہو گئیں اور وہ حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ مغربی ساختہ تیسرا اہم ہتھیار ٹینک شکن جدید میزائیل ثابت ہوا۔
اسی میزائیل سے روسی بکتر بند گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ان میزائیلوں نے کثیر تعداد میں روسی ٹینک و بکتر بند گاڑیاں تباہ کر دیں۔اس نقصان کے بعد روسی فوج یوکرین کے علاقوں پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکی اور مجبوراً پسپا ہو گئی۔
مغرب کے فراہم کردہ راکٹوں، میزائیلوں اور دیگر اسلحے کی بدولت ہی یوکرینی فوج کو اپنے علاقے میں عسکری حکمت عملی’’اینٹی ایسیس ایریا ڈینائل‘‘اپنانے کا موقع مل گیا۔ایک کمزور فوج کا مقابلہ جب طاقتور فوج سے پڑ جائے تو وہ اسی حکمت عملی کو اپناتی ہے۔
اسے اپنا کر کمزور آرمی ایسے مختلف طریقے اپناتی ہے جن کی وجہ سے طاقتور فوج اس کے علاقے میں آزادانہ گھوم پھر نہ سکے اور مسلسل حالت جنگ میں رہے۔ماضی میں گوریلا جنگ اس حکمت عملی کی بنیاد تھی۔دور حاضر میں ہمہ اقسام کے راکٹ، میزائیل اور ڈرون اس کی بنیاد بن چکے۔
مغربی میزائیل عمدہ
اس دوران امریکا کادیا گیا اینٹی ریڈیشن میزائیل، اے جی ایم ۔88 ہارم (AGM-88 HARM) بھی یوکرینی فوج کے بہت کام آیا۔اینٹی ریڈیشن میزائیل دشمن کے ریڈار سٹیشنوں اور دیگر کمیونکیشنز سینٹروں کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ خصوصی میزائیل زمین یا فضا سے چھوڑے جاتے ہیں۔امریکی میزائیل فضا سے چھوڑا جاتا ہے۔یوکرین نے بچے کھچے اپنے طیاروں میں تکنیکی ردوبدل کر کے امریکی میزائیل نصب کر دیا۔پھر ان سے یوکرین کی سرحد پہ واقع روسی ریڈار سینٹر تباہ کیے۔یوں روسی بری فوج اور روسی فضائیہ کے مابین موثر رابطہ نہیں رہااور یوکرین سرزمین پر روسی فضائی حملے کم ہو گئے۔یاد رہے، ریڈار بھی طیاروں ، میزائیلوں، ڈرون اور راکٹوں کو ٹارگٹ تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔
ان کی تباہی سے فضائی ہتھیار نشانے تک پہنچانے کی روسی استعداد کافی متاثر ہو گئی۔آخر ستمبر کے اواخر میں جا کر روسی افواج پھر اس قابل ہوئیں کہ تنظیم نو کے بعد یوکرین پہ فضائی حملے کر سکیں۔اس بار انھوں نے یوکرین میں بجلی وگیس کی تنصیبات کو میزائلوں ،راکٹوں اور خود کش ڈورن کے ذریعے ٹارگٹ کیا اور انھیں تباہ کر دیا۔
مدعا یہ تھا کہ شدید سردی میں یوکرینیوں کو بجلی وگیس سے محروم کر کے انھیں شکست خوردہ بنا دیا جائے۔ان حملوں کی وجہ سے یوکرین کا بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا۔لاکھوں لوگوں کو شدید سردی برداشت کرنا پڑی اور معمولات زندگی بہت متاثر ہوئے۔
غرض روس ویوکرین کی جنگ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ دور جدید کی جنگوں میں فضائی ہتھیار بڑی اہمیت اختیار کر چکے کہ ان کی مدد سے جنگ جیتی جا سکتی ہے۔جبکہ جس کے پاس کمتر نوعیت کے فضائی ہتھیار ہوں، وہ ہا ر بھی سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے، اب ساری بڑی طاقتیں نت نئے ملٹی پل گائیڈڈ راکٹ، میزائیل، ڈرون اور جنگی طیارے بنانے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کر رہی ہیں۔چین اور امریکا میں تو اس شعبے کا سالانہ بجٹ اربوں ڈالر پہنچ چکا۔انھیں تیار کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت بھی برائے کار لائی جا رہی ہے۔’’لیزر گن‘‘بھی انہی ہتھیاروں میں شامل ہے جس سے چھوڑی شعاع نظریاتی طور پر کئی سو میل دور تک پہنچ کر ٹارگٹ تباہ کر سکتی ہے۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے اہم بات یہ ہے کہ روس کا دعوی تھا ، اس نے یوکرین کی سرحد پہ واقع اپنے جنگی اڈوں کی حفاظت کے لیے ایس۔400 ، ایس ۔300اور فضائی دفاع کے دیگر میزائیل نصب کر رکھے ہیں۔مگر وہ یوکرینوں کے میزائیلوں اور جنگی طیاروں کو روکنے میں ناکام رہے۔
مغربی ساختہ میزائیلوں نے بحر اسود میں روس کا اہم جنگی بحری جہاز تباہ کر دیا۔اسی طرح روس اور کریمیا کو ملانے والا اہم پل بھی یوکرینی میزائیل حملے سے تباہ ہو گیا۔مغربی ساختہ میزائیلوں نے روس کی فوجی تنصیبات پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی ۔قابل ذکر نکتہ یہ کہ روس کے ایس ۔400 اور ایس۔ 300 میزائیل یہ حملے روک نہیں پائے…حالانکہ روس عرصہ دراز سے دعوی کر رہا تھا کہ یہ دنیا میں سب سے موثر فضائی دفاعی سسٹم ہیں۔گویا زبانی طور پہ تو ان کی بڑی واہ واہ ہو رہی تھی مگر جب عمل کا وقت آیا تو وہ ٹھس ثابت ہوئے۔
بھارتی افواج کا بیشتر اسلحہ روس ساختہ
یوکرین میں افواجِ روس کی حالت زار کا اندازہ یوں لگائیے کہ وہ مغربی ہتھیاروں کے ہاتھوں اپنا بیشتر اسلحہ تباہ کرا بیٹھیں۔لہذا انھیں سویت دور کا فرسودہ و پرانا اسلحہ استعمال کرنا پڑا۔یہی نہیں، روس کو اپنے ساتھیوں سے خفیہ طور پہ ہتھیار منگوانے پڑے کیونکہ مقامی طور پہ اسلحے کا کال پڑ گیا۔روسی صدر نے پھر محفوظ فوج بھی طلب کر لی۔نوجوانوں کو فوج میں شامل کرنے کی مہم چلائی گئی۔
غرض کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ہتھیاروں سے لیس یوکرینی فوج نے جوابی حملے کیے تو روسیوں کو دن میں تارے نظر آ گئے۔یوکرین میں روس کی عبرت ناک پسپائی سے ایک اہم امر یہ نمایاں ہوا کہ اس کے ہتھیار عمدہ نہیں بلکہ خامیاں رکھتے ہیں۔اور یہ ہمارے معاصر، بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں بلکہ اس خبر سے بھارتی حکمران طبقے کو بڑا صدمہ و دھچکا پہنچا۔ وجہ یہی کہ بھارتی افواج کا بیشتر اسلحہ روس ساختہ ہے۔بھارت اب اسرائیل اور یورپی ممالک سے بھی اسلحہ خرید رہا ہے تاہم اس کے بیشتر بھاری ہتھیار اب بھی روس ہی فراہم کرتا ہے۔
امریکا کے ممتاز عسکری تھنک ٹینک، سٹمسن سینٹر (The Stimson Center)کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارتی بری فوج کا ’’90 فیصد‘‘ اسلحہ روسی ساختہ ہے۔ بھارتی فضائیہ کے ’’70 فیصد‘‘ہتھیار روس سے آئے ہیں۔ جبکہ بھارتی بحریہ کا ’’40 فیصد‘‘اسلحہ روسی ساختہ ہے۔یوکرین میں مغربی ہتھیاروں نے روس کے اسلحے کو جس طرح باآسانی تباہ و برباد کیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے بھارت میں ماہرین عسکریات یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ کیا روسی ہتھیاروں کو کارگر اور موثر کہا جا سکتا ہے؟
بھارتی میڈیا نے فرانس کے مشہور اخبار، لی موندے کی اس رپورٹ کو نمایاں انداز میں شائع کیاجس میں بتایا گیا’’یوکرین کے جنگی طیارے اور مغربی ساختہ میزائیل و راکٹ کھلے عام روسی جنگی اڈوں تک جاتے رہے…حالانکہ روس کا دعوی تھا کہ مستحکم فضائی دفاع انھیں محفوظ ومامون رکھے ہوئے ہے۔اس کا مطلب ہے کہ مغربی میزائلوں نے روسی دفاعی میزائیل تباہ کر دئیے یا پھر روسی فضائی دفاع انھیں روک نہیں پایا۔‘‘غرض بھارت میں یوکرین جنگ کے دوران روسی ساختہ فضائی دفاعی میزائیل نظاموں کی ناکامی کا کافی چرچا ہوا۔اس سے بھارتی عوام اور افواج کے جوان بددل ہوئے اور ان میں مایوسی پھیلنے لگی۔تبھی بھارتی حکمران طبقے کو ہوش آیا۔
بلی کو خواب میں چھیچھڑے
بھارتی فضائیہ کے سابق چییف، آر کے ایس بہادریہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھارتی عوام و جوانوں کو کچھ یوں تسلی دی:’’ہم نے بھی سنا ہے کہ روس کے فوجی اڈوں پر حملہ ہوا ہے، مگر یہ غیر مصدقہ خبریں ہیں۔مگر بھارت نے ایس۔ 400 کے دفاع کا موثر منصوبہ بنا رکھا ہے۔درست کہ ہمارے عدو (چین وپاکستان) یوکرین سے زیادہ عمدہ اسلحہ رکھتے ہیں مگر بھارت کا دفاع بھی بہت مستحکم ومضبوط ہے۔‘‘
ناخواندہ بھارتی عوام اس توجیہہ سے مطمئن ہو گئے اور نہیں جان سکے کہ روسی ساختہ اسلحے کی ناکامی و فرسودگی سے بھارتی حکمران طبقہ بہت پریشان و ہیجان زدہ ہے۔ عوام کو تسلی دینے کی خاطر بھی بھارتی وزیر دفاع نے یہ بڑ ہانکی کہ ہماری فوج گلگت بلتستان لے کر رہے گی۔گویا بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آنے لگے۔
یہ بات بہرحال حقیقت ہے کہ بھارتی جس روسی ساختہ ایس۔400 فضائی دفاعی نظام کو ’’گیم چینجر‘‘قرار دیتے ہوئے اکڑ اور خوشی سے پھول کر کپا ہو رہے تھے، یوکرین جنگ نے اجاگر کر دیا کہ وہ اتنا بھی قابل اعتماد و تباہ کن نہیں۔سچ یہ ہے کہ کوئی بھی فضائی دفاعی نظام سو فیصد حد تک موثر نہیں اور مختلف ہتھیار اسے پار کر کے اپنے ٹارگٹ کو تباہ کر سکتے ہیں۔جبکہ یوکرین جنگ نے تو ثابت کر دکھایا کہ روسی اسلحہ دعوی کے برعکس کم جدید و ناقابل اعتماد ہے۔اس کے مقابلے میں مغربی اسلحے کی جدت و برتری سامنے آ گئی۔
چپ ٹیکنالوجی چین کی دسترس میں
یہ واضح رہے کہ چین نے بھی ابتدا میں ریورس انجینئرنگ کے ذریعے روس کا اسلحہ مقامی طور پر تیار کیا تھا۔لیکن جوں جوں چین میں سائنس وٹیکنالوجی نے ترقی کی، چینی ماہرین اپنی ٹیکنالوجیوں کی مدد سے زیادہ بہتر ہتھیار بنانے لگے۔آج چین کی عسکری ٹیکنالوجی روسی ٹیکنالوجی سے کہیں بہتر ہو چکی اور امریکی و یورپی ٹیکنالوجی کے تقریباً ہم پلہ ہے۔
وجہ یہ کہ اب چین کی کمپنیاں بھی ننھی منی چپیں بنا رہی ہیں جن کے بل بوتے پر جدید ترین ہتھیار بنتے ہیں۔چپ ٹیکنالوجی کو چین کی دسترس سے باہر رکھنے کے لیے بھی امریکا و یورپ نے اس کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے کیونکہ چینیوں نے بہترین چپیں بنانے پر قدرت پا لی تو وہ زیادہ خطرناک ہتھیار بنا کر دنیا کی عظیم ترین معاشی و عسکری قوت بن جائے گا۔
چین کی طرح پاکستان میں بھی مقامی ماہرین ریورس انجیرئنگ کی مدد سے امریکی و چینی ہتھیاروں کے زیادہ بہتر ورژن بنانے کے لیے تحقیق و تجربے کرنے لگے۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے انھیں کامیابیاں ملیں اور اب پاکستانی ماہرین جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں ، ٹینکوں جیسے بھاری ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کا ہلکا اسلحہ بنانے پر قادر ہو چکے۔
شاید لوگ کہیں کہ ہمارے مقامی ساختہ ہتھیار امریکی و یورپی اسلحے جیسا بلند ترین معیار نہیں رکھتے مگر وہ بھارتی و روسی ساختہ ہتھیاروں کا بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں۔بلکہ روس یوکرین جنگ نے تو دکھا دیا کہ عملی جنگ میں پاکستانی اسلحہ غیر متوقع کارکردگی دکھا کر دشمن کے ہوش اڑا سکتا ہے۔کبھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ کمزورکو شکست دینا آسان ہے۔آخر چیونٹی جیسا معمولی کیڑا ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تواُسے تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے۔
بھارتی ناکارہ ٹینک
بھارتی برّی فوج کے اہم اسلحے میں مرکزی جنگی(مین بیٹل) ٹینک، ٹی۔72 اور ٹی۔ 90 شامل ہیں۔ یہ دونوں روسی ساختہ ہیں۔یوکرین میں دوران جنگ امریکی ساختہ ’’جاولین‘‘ (FGM-148 Javelin ) اور برطانوی ’’نل‘‘ (NLAW) ٹینک شکن میزائیلوں نے روسی ٹینکوں کا کباڑا کر ڈالااور ارض یوکرین کو ان کا قبرستان بنا دیا۔یوکرینی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی ٹینک میزائلوں نے ’’2300‘‘ روسی ٹینک تباہ کیے ۔یہ عدد اگر زیادہ ہے تب بھی مصدقہ ذرائع اطلاع دیتے ہیں کہ دوران جنگ کئی سو روسی ٹینک تباہ ہو چکے۔
بھارتی فوج کا ٹینک دستہ ’’4732‘‘ٹینکوں پہ مشتمل ہے۔ ان میں ٹی۔72 کی تعداد ’’2410‘‘ اور ٹی ۔90 کی 2078‘‘ ہے۔ گویا بھارتیوں کی تقریباً ساری ٹینک فورس ایسے روسی ساختہ ٹینکوں پہ مشتمل ہے جو یوکرین جنگ میں مار کھا چکے۔بھارتی فوج بھی انھیں چین یا پاکستان سے جنگ میں انھیں سامنے لائی تو وہ بری طرح پٹ جائیں گے۔بھارتی فوج کی اکثر توپیں بھی روسی ساختہ ہیں۔ اور روسی توپیں بھی یوکرین جنگ میں بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔
پاکستان ترنوالہ نہیں
پاکستان کے نقطہ نظر سے روس یوکرین جنگ کا نمایاں ترین مثبت پہلو یہی ہے کہ روس کے خصوصاً ایس۔400 دفاعی میزائیل قابل اعتماد نہیں۔بھارتیوں کو اپنے ’’براہموس کروز میزائیل‘‘ پر بھی بڑا ناز ہے مگر یہ بنیادی طور پہ روسی ٹیکنالوجی رکھتا ہے جو فرسودہ ثابت ہو چکی۔لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ میدان جنگ میں کیسی کارکردگی دکھائے گا۔اس کی حیثیت اب مشکوک ہتھیار جیسی ہے۔بھارتی فضائیہ کی بنیاد سمجھا جانے والا روس ساختہ جنگی طیارہ ، سخوئی۔30 ایم کے آئی اور دیگر اسلحہ بھی قابل اعتبار نہیں رہا۔
امید ہے کہ اب بھارتی غرور وتکبر میں کمی آئے گی اور حکمران طبقے کے پیر زمین پر ٹک جائیں گے۔بھارتی حکمرانوں کو سمجھناچاہیے کہ پاکستان یوکرین کی طرح ترنوالہ نہیں …بلکہ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین و طاقتور فورسسز میں ہوتا ہے۔نیز انھوں نے قسم قسم کے میزائیل وراکٹ تُرپ کے پتوں کی طرح اپنے دامن میں چھپا رکھے ہیں۔خدانخواستہ جنگ ہوئی اور یہ پتے ظاہر ہوئے تو جنگجوئی کے جنون میں مبتلا بھارتی حکمران طبقے کو لگ پتا جائے گا۔
فضائی دفاعی میزائیل
بھارت کو ابھی تک ایس۔400 کا ایک سسٹم ملا ہے جس میں ’’72‘‘میزائیل شامل ہے۔اسے مزید چار سسٹم 2023ء میں ملنے تھے۔مگر یوکرین جنگ کی وجہ سے یہ سسٹم ملنے میں دو تین سال لگ سکتے ہیں کیونکہ روسی افواج کو تو اب خود اسلحہ درکار ہے۔ بہرحال یہ جب بھی ملے تو بھارت ایس۔400 کے ’’360‘‘میزائیل کا حامل ملک بن جائے گا۔روس کا دعوی ہے کہ یہ میزائیل ہائپرسونک (5 ماخ)کی رفاتر سے اڑتا ہے جو سچ ہونے کی صورت میں حیرت انگیز رفتار ہے۔
بھارت دراصل پاکستان کے ہمہ رنگ میزئیلوں سے بچاؤ کی خاطر اپنا فضائی دفاع مضبوط بنا رہا ہے۔اس نے جنگی طیارے، کروز میزائیل، بلاسٹک میزائیل، اینٹی ریڈیشن میزائیل اور ملٹی پل راکٹ مار گرانے والے میزائیل تیار کر لیے ہیں۔کچھ مقامی ساختہ ہیں۔باقی روس یا اسرائیل سے خریدے گئے۔
پاکستان نے حملے کے لیے تو ہمہ اقسام کے میزائیل اور ملٹی پل راکٹ بھی بنا لیے ہیں مگر اس کا فضائی دفاع معاصر کے مقابلے میں کمزور ہے اور اسے مذید طاقتور بنانے کی ضرورت ہے۔اسے اپنے حملہ آور میزائیلوں کی رفتار بھی بڑھانا ہو گی تاکہ وہ دشمن کے دفاعی میزائلوں کو غچہ دیتے نشانے پر جلد پہنچ سکیں۔
پاکستان کا فضائی دفاع طیارہ شکن توپوں کے علاوہ چین کے فضائی دفاعی میزائیل سسٹموں، ایچ کیو۔9پی( HQ-9/P)، ایچ کیو ۔16 اور ایچ کیو ۔7 پر مشتمل ہے۔ ان میں سب سے اہم ایچ کیو۔9پی ۔یہ نظام چین نے روسی نظام، ایس۔300کی طرز پر بنایا مگر اس کی تیاری کے بیشتر مراحل میں امریکی واسرائیلی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔اس باعث یہ روسی ایس۔300 سے کافی مختلف ہے۔جبکہ پاکستان کو فراہم کردہ نظام میں مزید جدتیں اپنائی گئیں۔
یہ سسٹم ایک سو کلومیٹر دور اڑتا جنگی طیارہ مار گراتا ہے۔جبکہ پچیس میل دور سے کروز میزائیل، بلاسٹک میزائیل، ڈرون، راکٹ وغیرہ کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ حد زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سسٹم کی بیشتر معلومات کلاسیفائیڈ ہیں۔پاکستان کو چین سے ایچ کیو۔22 (HQ-22)فضائی دفاعی میزائیل سسٹم بھی خریدنا چاہیے جس کی حد مار زیادہ ہے یعنی 170 کلومیٹر تک۔ ہمارے دوست ملک، ترکی نے اپنا فضائی دفاع ملکی ساختہ ’’حصار ‘‘(Hisar) میزائیلوں کے ذریعے مضبوط کر رکھا ہے۔
یہ میزائیل تین سے ڈیرھ سو کلومیٹر کے دائرے میں ہر قسم کی اڑتی شے کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ جدید ترین سسٹم حاصل کرنے کی خاطر پاکستان کو ترکی سے گفت وشنید کرنا چاہیے تاکہ ہمارا فضائی دفاع مذید مستحکم ومضبوط ہو سکے۔ترکی سے ’’کلکان‘‘(Kalkan) ریڈار بھی خریدنا چاہیے جو لانگ رینج کا فضائی دفاع میں مدد دینے والا ریڈار ہے۔اسی طرح پاکستان کو عمدہ اینٹی ریڈیشین میزائلوں کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ دشمن کے ریڈار تباہ کر سکیں۔
The post بھارتی افواج میں سراسیمگی appeared first on ایکسپریس اردو.