اللہ کریم نے قرآن پاک کی متعدد آیات میں مٹی سے انسان کی تخلیق کاذکرکیا ہے۔ مٹی سے طہارت اور زمین سے اناج، سبزہ ، پھل اور پھول پیدا کرنے کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ یعنی انسان کی تخلیق سے اُس کی بقا تک مٹی کو بنیادی عامل قرار دیا ہے۔
دنیا کے تمام معاشروں میںمٹی کو ماں سے تعبیر اوروطن کی مٹی سے محبت کا اظہار فنونِ لطیفہ کی ہر صنف کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مٹی سے انسان کا تعلق ازل سے ابد تک ہے۔
مٹی کی صحت، مٹی کی ذرخیزی اور مٹی کا استحکام کرہ ارض پر حیات کے وجود کے لیے لازم و ملزوم ہے۔لیکن انسان اپنی بقاکے اس جوہر خاص کے غیر دانشمندانہ استعمال سے اِسے تنزلی کی جانب دھکیل رہا ہے۔
صحت مند مٹی کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرنے اور مٹی کے وسائل کے پائیدار انتظام کی وکالت کرنے کی غرض سے ہر سال 5 دسمبر کو’’ مٹی کے عالمی دن ‘‘(World Soil Day)کے طور پر منایا جاتا ہے۔
زمین پر زندگی کے لیے مٹی بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔صحت مند خوراک ، صحت مند ماحول اور صحت مند لوگوں کے لیے مٹی کا پائیدار انتظام بہت ضروری ہے۔ کیونکہ صحت مند مٹی خوراک کی پیداوار (مقدار اور معیار) میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔
اس کے علاوہ پانی، کاربن اور غذائی اجزاء کی کشید اور ماحولیات کی مجموعی صحت بشمول پودوں، انسانوں اور دیگر جانداروں کی صحت پر مٹی کے براہ راست فائدہ مند اثرات ہیں۔جبکہ مٹی کی پیداواری صلاحیت میں کمی، فصل کی پیداوار میں کمی کا پیش خیمہ بنتی ہے جس کی وجہ سے زرعی کیمیکلز کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔
انسانی بیماریاںکا موجب بنتی ہے جو افرادی قوت اور پیداواری صلاحیت میں کمی پر منتج ہوتی ہے۔ ، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، آلودہ پانی اور غیر محفوظ خوراک مٹی کی صحت مندی کی ضد ہیں۔
یعنی مٹی کی تنزلی فوڈ سیکورٹی، ماحولیاتی مسائل اور صحت مند زندگی پر منفی اثر ات کا پیش خیمہ بنتی ہے جو بالآخر معاشی اخراجات/ نقصانات اور جانوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے اور کلائیمیٹ چینج کے چیلنجز کا موثر طریقہ سے سامنا کرنے کے لیے مٹی کا پائیدار انتظام بہت اہم ہے۔
یہ پائیدار انتظام دراصل اُن خصوصیات کو برقرار رکھنا ہے جومٹی کی ذرخیزی اوراس کے ماحولیاتی خواص کو قائم رکھتے ہیں۔کیونکہ مٹی ہماری خوراک پیدا کرنے والے پودوں کو بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے لیے درکار آکسیجن، پانی، ضروری غذائی اجزا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اُن کی جڑوں کا سہارا دیتی ہے۔
مٹی نازک پودوں کی جڑوں کو درجہ حرارت میں زبردست اتار چڑھاؤ سے بچانے کے لیے بفر کا کام کرتی ہے۔یعنی مٹی کی زرخیزی ضروری پودوں کو درکار غذائی اجزاء اور سازگار کیمیائی، طبعی اور حیاتیاتی خصوصیات فراہم کرکے پودوں کی نشوونما کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کا نام ہے۔
اس کے علاوہ صحت مند مٹی حیاتیات کی ایک متنوع برادری کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہے جو ہمارے ماحولیاتی نظام کو فعال رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
کیونکہ کھانے کی ایک چمچ مٹی میں اتنے حیاتیاتی اجسام موجود ہوتے ہیں جو کرہ ارض پر موجود انسانوں کی تعدادسے بھی زیادہ ہیں۔مٹی حیاتیاتی تنوع کے اہم عالمی ذخائر میں سے ایک ہے جو دنیا کی 25 فیصد اقسام کو پناہ دیتی ہے جبکہ صحت مند مٹی اپنے کاربن مواد کو برقرار رکھنے یا بڑھا کر موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
کلائیمیٹ چینج کرہ ارض پر لوگوں کو درپیش ماحولیاتی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ یہ زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔خشک سالی، سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ، بارشوں میں شدت اوراِن کے دورانیہ اور اوقات میں تبدیلی نے خوراک کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے رونما ہونے والے موسمی تغیرات کے باعث مٹی کہیں سیلابی پانی کے ساتھ بہہ رہی ہے۔
تو کہیں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ رہی ہے۔ کہیں بڑھتا درجہ حرارت اس کی نمی کوخشک کر رہا ہے تو کہیں یہ تیز ہواؤں کے ساتھ محو سفر ہے۔
ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہم نے مٹی کا انتظام ناقص طریقے سے کرنے کی روش اختیار کر رکھی ہے اس کے ساتھ ساتھ غیر پائیدار زرعی طریقوں کے ذریعے کاشتکاری کا عمل مٹی میں موجودنامیاتی کاربن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی صورت میں مسلسل فضا میںتحلیل کر رہا ہے۔
اس امر کی تائید عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی گلوبل سوائل پارٹنر شپ کی رپورٹ بھی کر رہی ہے جس کے مطابق دنیا کی کاشت شدہ مٹی (cultivated soils)اپنے اصل کاربن کے ذخیرے کا 25 سے 75 فیصد تک کھو چکی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کی شکل میں فضا میں خارج ہوتی ہے اور موسمیاتی تبدیلی میں حصہ ڈالتی ہے۔
اور اگر مٹی کو پائیدار طریقے سے منظم کیا جائے تو یہ کاربن کو فضا سے کشید کے ذریعے یعنی ماحول کو ڈی کاربونائز کرنے اور ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرکے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔کیونکہ مٹی کاربن کو اس کی انتہائی مستحکم شکلوں میںدہائیوں سے لے کر ہزاروں سال تک ذخیرہ کر سکتی ہے ۔اسی وجہ سے زمین میںپودوں اور ماحول دونوں سے کہیں زیادہ نامیاتی کاربن موجود ہے ۔
ڈاکٹر عابد نیاز، ایوب زرعی تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے کلائیمیٹ چینج سیل کے کنوینر اور ایگریکلچرل بائیوٹیکنالوجی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے سوائل بیکٹرالوجی سیکشن کے پرنسپل سائنٹسٹ ہیں۔ کلائیمیٹ چینج کی پاکستان کی مٹی پر ممکنہ اثرات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ـ’’ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے شکار ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے سوائل ریسورسز پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ خشک سالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیلاب سے فصلات خراب ہو رہی ہیں۔ بارشوں کی مقدار اور طوفان اور آندھیوں سے پھل دار پودے اور عام فصلات بہت زیادہ خراب ہو رہی ہیں۔ زمین کی زرخیزی پہلے ہی کم ہے ۔
پانی کی کمی اور کھادوں کی کمی کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت بہت متاثر ہو رہی ہے‘‘۔صحت مند مٹی کلائیمیٹ چینج کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد نیاز کہتے ہیں کہ ’’ہماری زمینوں میں نامیاتی مادے کی مقدار ایک فیصد سے کم ہے اور عام طور پر صفر اعشاریہ پانچ فیصد تک ہے۔ نائٹروجن فاسفورس اور پوٹاش کی کمی ہے۔
عناصرِ صغیرہ بھی کم ہیں۔ خاص طور پرزنک،آئرن اور بوران کی مقدار ہماری زمینوں میں کم ہے جس کی وجہ سے پودوں کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور ان کو خشک سالی اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ نقصان سے گزرنا پڑتا ہے ۔اگر پانی کی کمی پوری ہو جائے ۔ نئی ورائٹیاں جو کہ زیادہ خشک سالی کو برداشت کر سکیں۔
جن کا دورانیہ کم وقت پر مشتمل ہو تو وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا زیادہ بہتر طور پر مقابلہ کر سکتی ہیں ۔ایسے ہی جلد بیجائی اور جلد گہائی بھی جدید مشینوں سے ہونا ضروری ہے تب ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے‘‘۔
ملک میں مٹی کی صحت اور زرخیزی کو درپیش خطرات کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد نیاز کا کہنا ہے کہ ’’ مٹی کی صحت اورزرخیزی کو درپیش خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے جدید مشینوں کے ذریعے کاشت کاری ،جدید ورائٹیوں کا استعمال ،نہری پانی کی دستیابی ،کھادوں کا متوازن اور متناسب استعمال ،زمین کا سائنسی تجزیہ رپورٹ کی صورت میں ہونا بہت ضروری ہیــ۔ کھادوں اور زرعی زہروں کابلاضرورت اور غیر متناسب استعمال موسمیاتی تبدیلیوں اور گرین ہاؤس گیسز کو بڑھانے میں زیادہ حصہ ڈالے گا‘‘۔
آلودگی کی وہ تمام صورتیں جو مٹی کی صحت اور زرخیزی کو متاثر کرتی ہیں وہ کونسی ہیں اوراُن سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ ’’ فضائی آلودگی ،زمینی آلودگی ،فصلات کی آلودگی ،ٹریٹمنٹ کے بغیر گٹروں کے گندے پانی سے پھیلنے والی آلودگی اور فیکٹریوں ملوں اور گھروں کے گندے پانی کو سبزیوں اور چارہ جات کی آبپاشی کے لیے استعمال کر کے بھاری دھاتوں کی آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ‘‘اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف اور صحت مند مٹی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟۔ ڈاکٹر عابد نیا ز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’’ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں صحت مند مٹی اور فضائی آلودگی سے پاک فصلوںکی پیداوار کا آپس میں براہ راست تعلق ہے‘‘۔
ہزاروں سالوں سے جاری انسانی سرگرمیوں نے دنیا بھر میں آلودہ مٹی کی میراث چھوڑی ہے۔ تقریباً پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک صنعتی کیمیکلز اب تجارتی طور پر بڑے پیمانے پر تیار کیے جاتے ہیں اور ان کی پیداوار میں 2030 تک سالانہ 3.4 فیصد اضافہ متوقع ہے۔پھیلتے ہوئے شہر میونسپل ٹھوس فضلہ کی مسلسل بڑھتی ہوئی مقدار پیدا کر رہے ہیں۔
ہمارا 80 فیصد فضلہ ری سائیکل نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ لینڈ فلز میں ختم ہو کر ہماری مٹی کو آلودہ کر رہا ہے۔ایگریکلچر زرعی کیمیکل مارکیٹ میں ہر سال 3.2 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپ کی 58 فیصد زرعی مٹی میں متعدد کیڑے مار ادویات کی باقیات ہیں ان میں سے نصف اب غیر قانونی ہیں۔ بڑے معدنیات پیدا کرنے والے ممالک میں تقریباً 4 بلین لوگ رہتے ہیں۔
مٹی کی آلودگی کی وجہ سے، کان کنی والے علاقوں میں زرعی پیداواری صلاحیت دور دراز کے علاقوں کی نسبت 40 فیصد کم ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ 2040 تک دنیا بھر میں کاروں کی تعداد تقریباً دوگنی ہو جائے گی۔ شاہراہیں آلودگی کے بڑے، کھلے اور متحرک ذرائع ہیں جہاں سے پیدا ہونے والی بھاری دھاتیں اور زہریلی نامیاتی آلودگی ملحقہ زرعی مٹی اور شہری علاقوں کے لیے خطرہ ہیں۔مٹی چونکہ آلودگیوں کے خلاف سپنج اور فلٹر کا کام کرتی ہے۔
لیکن جب مٹی میں بہت زیادہ آلودگی آجائے تو یہ آلودگی خارج بھی ہو سکتی ہیں۔کھانے کے پودے اپنی جڑوں کے ذریعے مٹی میں موجود آلودگیوں کو جذب کر سکتے ہیںاورغیر محفوظ خوراک پیدا کر سکتے ہیں۔ دنیا میں 10 میں سے 1 شخص آلودہ کھانا کھانے کے بعد بیمار ہوتا ہے اور ہر سال 4 لاکھ 20 ہزا افرادایسے کھانے سے مر جاتے ہیں۔کیونکہ 7 کھانے کے چمچ سیسہ ایک ہیکٹر مٹی یا 200 ہزار لیٹر پانی کو آلودہ کر سکتا ہے۔
مٹی جو کرہ ارض کی صرف چند سینٹی میٹر بالائی سطح پر مشتمل ہے لیکن ہماری خوراک کا 95 فیصد اگاتی ہے۔یہ خوراک کے نظام کی بنیاد ہے اور وہ ذریعہ ہے جس میں تقریباً تمام خوراک پیدا کرنے والے پودے اگتے ہیں۔
صحت مند مٹی کافی، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک پیدا کرنے کی بنیاد ہے۔زیادہ نامیاتی مادے والی صحت مند مٹی بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کر سکتی ہے۔ جو خوراک کی پیداوار کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیلاب اور خشک سالی کا مقابلہ کرنے میں بھی معاون ہوتی ہے۔
پائیدار خوراک کی پیداوار کے لیے مٹی کی نمی کا بہتر انتظام بہت ضروری ہے۔پانی زراعت کی ”زندگی” ہے ۔پانی کو قبول کرنے، برقرار رکھنے، چھوڑنے اور منتقل کرنے کی مٹی کی صلاحیت اس کی پیداواری خوبیوں کو بڑھا دیتی ہے۔
ذرخیز مٹی کی یہ خوبی اس حوالے سے بھی ہم ہے کہ مستقبل کے لیے سب سے بڑا چیلنج کم پانی کے ساتھ خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
زمین پر قدرتی طور پر 92 کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں۔ 18 پودوں کے لیے ضروری ہیں اور ان میں سے 15 کی فراہمی مٹی سے ہوتی ہے۔لیکن مٹی کے غذائی اجزاء کی کمی بیشی مٹی کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ ہے جس سے غذائیت کو خطرہ لاحق ہے اور اسے پوری دنیا میں غذائی تحفظ اور پائیداری کے لیے عالمی سطح پر سب سے اہم مسائل میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
گزشتہ 70 سالوں میں دنیا میںدستیاب خوراک میں وٹامنز اور غذائی اجزا کی سطح میں زبردست کمی آئی ہے۔مٹی کی صحت اور اس کی زرخیزی کا براہ راست اثر خوراک کی فصلوں کے غذائی اجزاء پر پڑتا ہے۔ کیونکہ ایک جانب پودوں کی نشوونما کے لیے درکار غذائی اجزاء میں سے کسی ایک کی کمی فصل کی پیداوار کو محدود کر سکتی ہے۔
تو دوسری جانب کم غذائیت والی خوراک کی پیداوار کے استعمال سے انسانوںاور حیوانوں میں غذائیت کی کمی واقع ہوتی ہے۔مٹی اور فصلوں سے مائیکرو نیوٹرنٹس کی دائمی کمی صحت کے شدید اور پوشیدہ مسائل کا باعث بنتی ہے جن میں دماغ اور پٹھوں کے افعال، مدافعتی نظام، جین کی نشوونما اور تولیدی نظام کے کام، خامروں کی ساخت، ڈی این اے، آر این اے اور پروٹین کی کمی نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخفی بھوک دنیا بھر میں 2 ارب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
ڈاکٹر راشد محمود، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سوائل سائنس کے چیئرمین ہیں ملک کی مٹی کی زرخیزی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’ پاکستان کی مٹی بہت زیادہ متنوع ہے۔ زرخیزی کے حوالے سے ان کی مختلف قسمیں ہے کچھ مٹی کی زرخیزی بہت اچھی ہے۔ کچھ کی درمیانی ہے اور کچھ زرخیزی کے حوالے سے بہت زیادہ کمزور زمین ہے ۔
جب ہم زرخیزی کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زمین میں پودے کو غذائی اجزاء دینے کی صلاحیت کتنی ہے۔ اصل میں کل غذائی اجزا 17ہیں۔ جنہیں پودوں کے لیے ہم ضروری غذائی اجزاء کہتے ہیں۔اِن میں سے تین یعنی کاربن، آکسیجن اور ہائیڈروجن پودے ہوا سے لیتے ہیں۔
جبکہ 14 اجزا پودوں کو فراہم کرنا پڑتے ہیں ۔ان میں جو سب سے زیادہ چاہیے وہ نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش ہیں ۔جو ان سے تھوڑے کم چاہیے وہ کیلشیم ،میگنیشیم اور سلفر ہیں اور باقی جو سارے ہیں وہ مائیکرو نیوٹرینٹس ہیں جو بہت تھوڑی مقدار میں پودے کی ضرورت ہوتی ہے۔ہماری زمینوں کی صورتحال یہ ہے کہ تقریبا ساری پاکستانی زمینوں میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش کی کمی ہے ۔
یہ ہر فصل کو دینے پڑتے ہیں ان کے لیے کھادیں تجویز کی جاتی ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی تھوڑی مقدار میں نیوٹرنٹس چاہیے اورجن کی کمی ہے ان میں بوران ، آئرن ، کاپر ، میگانیز اور زنک ہے۔ یہ پانچ اجزاء جو ہماری زمین کو تھوڑی مقدار میں چاہیے لیکن ان کی بھی کمی واقع ہو چکی ہے۔ تویہ بھی کسان کو ہر دوسرے تیسرے سال یا ہر سال تھوڑی مقدار میں دینے چاہیے تاکہ وہ فصلیں بہتر طور پر لے سکے۔زمین کا سخت ہونا، زمین کے اندر نمکیات زیادہ ہونا ،مناسب طریقے سے زمین کو تیار نہ کرنا یہ سارے عوامل ہیں جس کی وجہ سے پودا غذائیت جو اگر زمین کے اندر موجود ہو تو بھی اسے نہیں لے پاتا ۔
اس لیے ہمیں ایسی فصلیں لگانی ہیں جس سے مٹی کی صحت بھی برقرار رہے اور مٹی اپنی جگہ پر بھی رہے ۔مٹی کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ایسی فصلیں لگانی ہیں جو مٹی میں غذائی اجزاء کو شامل کر سکیں ۔ہمیں ایسی فصلیں بھی شامل کرنی چاہئیں جو زمین کو تھوڑا فریش کر دیتی ہیں۔ مثلا گندم، چاول ،کپاس ،گنا کے ساتھ ساتھ ہمیں دوسری فصلیں جو زمین کے اندر نائیٹروجن فیکسیشن کرتی ہیں جیسے لوسن، جنتر ، پھلی دار اجناس وہ بھی لگانی چاہیے تاکہ زمین بحال ہو اور اگر موقع ملے تو زمین کو کچھ وقت کے لئے خالی بھی چھوڑ دینا چاہیے۔
بارانی علاقوں میں تو پانی نہ ملنے کی وجہ سے بعض اوقات تھوڑا سانس مل جاتا ہے زمین کو لیکن وہ علاقے جو آبپاشی کے نظام سے منسلک ہیں وہاں متواتر فصلیں کاشت ہوتی ہے‘‘۔حالیہ سیلاب نے ہماری مٹی کو متاثر کیا ہے یا اس کو فائدہ پہنچایا ہے؟اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر راشد محمود کا کہنا ہے کہ ’’ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایریا کونسا ہے اور کس جگہ کی بات ہو رہی ہے۔
اب اگرفلڈ ڈھلوان والے علاقے سے گزرے گا تو اس کی رفتار اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ وہاں سے مٹی بہا کر لے جائے گا۔ لیکن جب میدانی علاقے میں سیلابی پانی ختم ہوگا تو وہاں مٹی کی ایک تہہ بن جائے گی۔ مٹی ایڈ ہونے والا فیکٹر چھوٹا ہے لیکن بہہ کر لے جانے والا بڑا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر تو پانی کسی ایسے علاقے میں سے گزر کر رہا ہے جہاں پر پہلے تھور زدہ زمین ہے یا کلر والی زمین ہے تو وہاں سے آنے والا پانی جس جگہ جا کر ٹھہرے گا وہاں بھی وہ مسئلہ ہو جائے گا ۔اس کے علاوہ سیم کا مسئلہ تو لازمی ہو جاتا ہے پانی نیچے جاتا ہے زیر زمین پانی میں شامل ہوتا ہے اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو کرسطح زمین کے قریب آ جاتی ہے۔
سیلاب کا پانی زیادہ لمبے عرصے تک کھڑا رہتا ہے تو اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح اوپر تک بھر جاتی ہے اور پانی نیچے نہیں جاتا اور ہوا میں بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔حالیہ سیلاب کے زمینوں پر فائدہ یا نقصان کی تشخیص کسی سائنٹفک سٹڈی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
جب مٹی میں قدرتی غذائیت کا سائیکل بہتر نہیں ہوتا ہے تو کھادوں کو مٹی میں ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن کھادوں کے کم استعمال، غلط استعمال اور کثرت سے استعمال کو روکنے کے لیے کھادوں کے معقول استعمال اور انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔
مٹی میںغذائیت کے عدم توازن کو روکنے اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی ماہرین چھ اقدامات کاذکر کرتے ہیں ۔ فصلوں میں تنوع اور دالوں کی کاشت، مٹی کے غذائی اجزاء کی پیمائش اور نقشہ سازی،کھادوں کا معقول استعمال، مائیکرو نیوٹرینٹ کا مناسب استعمال، مٹی کاطویل مدتی پائیدارانتظام کو اپنانااورکسانوں کی تکنیکی مدد کو بڑھانا۔صحت مند مٹی جہاں فصلوں کی نشوونما کو بہتر بناتی ہے وہیں پودے، گھاس اور درخت مٹی کی کٹاؤ کے ایجنٹوں (جیسے پانی اور ہوا) سے حفاظت کرتے ہیں اور مٹی کی ساخت کو بہتر بناتے ہیں۔اس کی حیاتیاتی سرگرمیوں کو سہارا دیتے ہیں۔
مٹی فطرت کے سب سے پیچیدہ ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے اس میں بے شمار حیاتیات موجود ہیں جو تمام زندگی کو ممکن بنانے والے قدرت کے تشکیل کردہ عالمی نظاموں میں تعامل اور تعاون کرتے ہیں۔
گزشتہ 50 سالوں میں زرعی ٹیکنالوجی میں پیشرفت نے خوراک کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے۔لیکن بعض اوقات مٹی اور ماحولیات پر اس کے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔بہت سے ممالک میںفصلوں کی زیادہ پیداوار نے مٹی کو تنزلی کا شکارکر دیا ہے جو مستقبل میں ان علاقوں میں پیداوار کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
یاد رہے کہ 1 سینٹی میٹر مٹی کوبننے میں 1000 سال لگ سکتے ہیںلیکن اس حقیقت کے برعکس عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے مطابق ہرسال تقریباً50 ہزار مربع کلومیٹر کے مساوی جو کہ کوسٹاریکا کے سائز کے برابر ہے مٹی کھو دی جاتی ہے۔یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فٹ بال کے ایک میدان (one soccer pitch ) کے برابر مٹی ہر پانچ سیکنڈ میں مٹ جاتی ہے۔ایف اے او کے مطابق دنیا بھر میں ہر منٹ میں 17 ہیکٹر کے مساوی مٹی میں توسیع شدہ انفراسٹرکچر کے نیچے قید ہو رہی ہے۔
ایک اور اندازے کے مطابق ہر سال کٹاؤ کی وجہ سے 35 بلین ٹن مٹی ضائع اور متحرک (mobilised)ہو جاتی ہے۔ اس کل میں سے تقریباً 12 بلین ٹن زرعی زمین کے اوپر کی مٹی اور اس سے منسلک غذائی اجزاء ہر سال ندیوں، دریاؤں، جھیلوں اور ساحلی علاقوں میں خارج ہوجاتے ہیں۔اس تمام تر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہمارے پاس سطح زمین پر موجود مٹی کی تہہ کے صرف 60 سال باقی ہیں۔
پاکستان میں بھی مٹی سے محرومی کا عمل جاری ہے۔ جنوری2022 میںLand Degradation & Development نامی بین الاقوامی ریسرچ جرنل میں چار پاکستانی ماہرین حماد گیلانی، عدیل احمد، اسما یونس اور سوید عباس کے شائع ہونے والے تحقیق مقالے(Impact assessment of land cover and land use changes on soil erosion changes (2005-2015) in Pakistan) کے مطابق ’’ 2005 میں ملکی سطح پر soil erosion ( مٹی کا کٹاؤ ) کی مقدار 1.79 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تھی جو 2015 میں بڑھ کر 2.47 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔
ان دس سالوں میں ملک میں soil erosionکی مقدار میں38 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہsoil erosionکی رفتار میں سب سے زیادہ اضافہ مذکورہ عرصہ کے دوران اسلام آباد میں ریکارڈ ہوا جو 104 فیصد ہے۔ دوسرے نمبر پر آزاد جموں و کشمیر ہے جہاں یہ اضافہ 94 فیصد ہوا ۔تیسرے نمبر پر پنجاب رہا جہاں یہ اضافہ54.5 فیصد رہا۔بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاںsoil erosion کے رجحان میں معمولی بہتری نوٹ کی گئی۔
2005 میں صوبے میں soil erosion کی مقدار 0.28 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تھی جو 2015 میں کم ہوکر0.26 ٹن فی ہیکٹر سالانہ رہی۔اگر ہم اعدادوشمار کو صرف2015 کے تناظر میں دیکھیں تو مذکورہ سال ملک میں سب سے زیادہ soil erosion آزاد جموں و کشمیر میں ہوئی جس کی مقدار 28.03 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تھی۔ دوسرے نمبر پر خیبر پختونخواہ رہا جہاں یہ مقدار 12.84 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تھی ۔
گلگت بلتستان9.06 ٹن فی ہیکٹر سالانہ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔مذکورہ سال سب سے کم soil erosion سندھ میں ہوئی جہاں یہ مقدار0.03 ٹن فی ہیکٹر سالانہ تھی‘‘۔اس تحقیقی ٹیم کے رکن ڈاکٹر عدیل احمد نے بتا یا کہ ’’2005 میں مظفر آباد کشمیر میں جو زلزلہ آیا تھا ہم نے اُس لوکیشن کے اوپربفر زون لگائے پانچ، دس ، پندرہ کلومیٹر کا اور اُس پر ہم نے دیکھا کہ اُس بفر زون کے اندر جو soil erosion rate دوہراز پانچ میں تھا اُس میں 2015 تک دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔اور یہ تشویش ناک اس لیے ہے کہ اگر یہاں پرخدانخواستہ کوئی کم شدت کا بھی زلزلہ آتا ہے تو وہ بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے‘‘۔
اسی طرح جرنل آف انوائر منٹل ٹریٹمنٹ ٹیکنیکس میں چھپنے والے تحقیقی مقالہ ’’ڈیزرٹیفیکیشن اِن پاکستان چیلنجز اینڈ اپرچیونٹیز‘‘ کے مطابق ’’ہر سال 4 کروڑ ٹن مٹی دریائے سندھ میں بارش اور سیلاب کے پانی کے ساتھ بہہ کر آتی ہے‘‘۔ دریاؤں کے کیچمنٹ ایریاز سے بہہ کر آنے والی اس مٹی سے دریا گندے اور ملکی ڈیم مٹی سے بھر جاتے ہیں جس سے ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اور پانی کا ترسیلی نظام بھی اپنی پوری استطاعت کے مطابق کام نہیں کر تا۔پاکستان میں 50% مٹی کا نقصان مون سون کے موسم میں ہوتا ہے۔
soil erosion (مٹی کا کٹاؤ) کا پھیلتا ہوا سلسلہ ایک خاموش اور غیر محسوس عمل ہے جو اس وقت دنیا بھر کے ماہرین اور سائنسدانوں کے لئے سنگین زرعی اور ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ ارضیات کے ماہرین کے مطابق زمین کے وسائل اور قدرتی ماحول کے درمیان نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو مختلف پہلوؤں سے اس کا تعلق زمین کی فرسودگی سے جا ملتا ہے۔ مثلاً درختوں کی کٹائی جو زمین کو رفتہ رفتہ ہوا اور آبی کٹاؤ کے خطرے سے قریب اور درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے سے استثنا فراہم کر دیتی ہے۔
زمین کی استعداد سے زیادہ فصلوں کی کاشت اور زرعی زہروں کا بے دریغ استعمال جو بتدریج زمین کے غذائی عناصر میں کمی کرتے ہوئے اس کی پیداواری صلاحیتوں کو کم کر دیتے ہیں اور با لآخر اُسے بنجر بنا ڈالتے ہیں۔ یوں چر مراتی سطح زمین محض کچھ ہی سالوں بعد ریگراز میں بدل جاتی ہے۔
آبپاشی کے ترسیلی نظام کی دیکھ بھال نہ ہونے اور کھیتوں کو سیراب کرنے کے غلط طریقوں کے سبب زرعی زمین سیم و تھور کا شکار اس لئے بنتی ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بڑھنے سے زمین پیداواری زراعت کے لئے ناکارہ ہو جاتی ہے۔دوسری طرف یہ پانی زمین کی سطح پر پہنچ کر جوہڑ کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے یا پھر زیر زمین پانی کی بلند سطح کی وجہ سے زمین کے نکاس کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور پانی زیر زمین رستا نہیں بلکہ ایک جوہڑ کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ جب عملِ تبخیر سے پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے تو زمین پر موجود نمکیات کی مو ٹی تہہ ایک دن اسے دھول اڑاتے میدانوں میں بدل دیتی ہے۔
اسی طرح قدرتی چراگاہوں کا اُن کی گنجائش سے زیادہ استعمال اور جانوروں کے کھروں کا اس کی مٹی کی بالائی تہہ کا کٹ جانا، شہروں کی توسیع کے لئے زمینوں کو صاف کر دینا یعنی راہ میں آنے والے درختوں اور پودوں کو ہٹا دینا اور چرندو پرند کے قدرتی مساکن کو مسمار کرنا، یہ سب انسانی کار گزاریاں زمین کو تیزی سے فرسودگی کی طرف دھکیل رہی ہیں اورنتیجتاً صحت مند ذرخیز مٹی تنزلی کا شکار ہوکر ناپید ہورہی ہے۔
کاشتکاری کے متنوع طریقے مٹی کے پائیدار انتظام کو فروغ دیتے ہیں۔انہی طریقوں میں سے ایک دالوں کی کاشت بھی ہے۔دالیں مٹی کی صحت کو برقرار رکھنے اور بڑھانے میں، زوال پذیر مٹی کو بحال کرنے اور مجموعی انسانی صحت کو بہتر بنانے میں اسٹریٹجک اتحادی ثابت ہو سکتی ہیں۔
دالیں چونکہ پھلی دار اجناس ہیں ان کی جڑیںگلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں۔ دالوں کی نائٹروجن ٹھیک کرنے والی خصوصیات مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنا تی ہے جو کھیتوں کی پیداوار کو بہتر اور بڑھاتی ہے۔ٍٍڈاکٹر شاہد ریاض ملک، آپ پرنسپل سائنٹسٹ/ پروگرام لیڈر، شعبہ دالیں، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز(NARC)، قومی زرعی تحقیقاتی کونسل (PARC) اسلام آباد ہیں۔
مٹی کی ذرخیزی کے لیے دالوں کی کاشت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اکیسویں صدی کے عالمی چیلنجوں میں سے ایک چیلنج مٹی ،ماحول اور فضا کو آلودہ کئے بغیر دنیا کے آٹھ ارب لوگوں کے لیے خوراک پیدا کرنا ہے ۔اس چیلنج کو پورا کرنے کے لیے دالیں زراعت کے نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔دالوں کی کاشت کے مٹی کی کیمیائی، جسمانی ساخت اور صحت پر فائدہ مند اثرات مسلمہ ہیں۔ قدرت نے دالوں میں قدرتی نائٹروجن کھاد بنانے کی صلاحیت رکھی ہے ۔
زمین میں موجود خاص قسم کے بیکٹریا (nitrogen fixing bacteria) دالوں کی جڑوں میں چھوٹے چھوٹے دانے بنا کر رہتے ہیں جنھیں نو ڈیول (Nodule)کہا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا دالوں کے پودوں سے خوراک لیتے ہیں اور بدلے میں فضا میں موجود نائٹروجن گیس کو فکس کرکے یوریا کی شکل میں مٹی کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
یہ نائٹروجن کھاد نہ صرف دالوں کی اپنی ضرورت کے لیے کافی ہوتی ہے بلکہ دوسری فصلوں کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ جو کہ دالو ںکے بعد کاشت کی جاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دالو ںکی مختلف اقسام 10 سے 120 کلوگرام فی ایکڑ نائٹروجن کھاد بناتی ہیں۔ کچھ بیکٹیریا زمین میں موجود نا حل پذیر فاسفورس کھاد کو حل پذیر بناکر پودوں کو فائدہ دیتے ہیں۔ اس طرح دالوں کی کاشت سے ہم زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرسکتے ہیں اور مصنوعی نائٹروجن کھاد کی ضرورت کم ہو سکتی ہے جو کہ ماحول دوست نہیں ہے۔
جس نظام کاشتکاری میں دالیں ہوںگی وہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت کم مقدار فضا /ماحول میں خارج ہوتی ہے اس لیے دالوں کو ماحول دوست فصلیں بھی کہا جاتا ہے۔ دالوں کے پتے اور جڑیں زمین/ مٹی میں شامل ہوکر نامیاتی مادہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں جس سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ،زمین کی ساخت میں بہتری آتی ہے اور مٹی کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔دالوں کی مخلوط کاشت کاری یا فصلوں کے ہیر پھیر میں شامل کرنے سے بہت سی فصلوں کی بیماریوں اور ضرر رساں کیڑوں کے خاتمے میں مددگار ہے۔
اس طرح مصنوعی زہروں کے استعمال میں کمی آتی ہے اور مٹی ،فضا /ماحول کی آلودگی کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔دالو ںکی کاشت کم ذر خیز اور بنجر زمینوں/ مٹی کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے اور لگاتار کاشت کرنے سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے بعد میں وہاں دوسری فصلیں بھی کاشت کی جا سکتی ہیں‘‘۔کس شیڈول کے تحت دالوں کی کاشت کی جائے جس سے زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہو؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد ریاض ملک کا کہنا ہے کہ’’دالوں کو دو فصلوں کے درمیان کاشت کرنے سے زمین/ مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ایسی نظام کاشتکاری جس سے میں لگاتار ایسی فصلیں کاشت کی جارہی ہوں جو زمین سے غذائیت لیتی ہیں اور انہیں پورا کرنے کے لیے مصنوعی کھادوں کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے ۔ایسی فصلیں گندم، چاول، مکئی ،گنا، کپاس وغیرہ ہیں۔
پاکستان کا زیادہ تر زرعی نظام کاشتکاری گندم اور چاول کی فصلوں پر مشتمل ہے۔ یعنی گندم کی کاشت کے بعد چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ ایسے نظام میں گندم کی کٹائی کے بعددالو ںکی فصل مونگ کو کاشت کرنا چاہیے۔ یا چاول کی کاشت/گہائی کے بعد چنے یا مسور کی دال کاشت کرنی چاہیے ۔ایسے علاقے جو کہ بارانی ہیں جیسے پوٹھوارکا علاقہ جہاں سال میں ایک فصل گندم لگائی جاتی ہے اور خریف یا مون سون کے موسم میں زمین خالی چھوڑ دی جاتی ہے۔
وہاں خریف کے موسم میں دال مونگ اور ماش کامیابی سے لگا کر کسان بھائی نہ صرف اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ زمین کی زرخیزی کو بحال کر سکتے ہیں ۔جن علاقوں میں موسم بہار میں گنا کاشت کیا جاتا ہے وہاں دال مونگ کے ساتھ مخلوط کاشت کی جاسکتی ہے۔
جو کہ گنے کی فصل کی نائٹروجن کھاد کی ضرورت پوری کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ جن علاقوں میں موسم خزاں میں گنا کاشت کیا جاتا ہے وہاں دال چنا اور مسور کی مخلوط کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف باغات میں جیسے مالٹے ،آم کے باغات ہیں وہاں بھی دالوں کی مخلوط کاشت کاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے ‘‘۔
پاکستان کی زیادہ تر کاشت کی گئی زمین کئی دہائیوں سے روایتی ہل کے نیچے رہی ہے۔ یہ ہل 7 سے8 سینٹی میٹر کی مقررہ گہرائی تک زمین کو چیرتا ہے۔
اس گہرائی تک مسلسل کھیتی کے نتیجے میں کاشت شدہ رقبہ کے ایک بڑے حصے میں نسبتاً گھنی تہہ بنتی ہے جسےplough pan کے طور پر جانا جاتا ہے۔ plough pan جو 8 سے20 سینٹی میٹر کی گہرائی میں ہوتا ہے، خاص طور پر ان مٹیوں میں ظاہر ہوتا ہے جس میں silt زیادہ ہوتی ہے۔
یہ پانی اور پودوں کی جڑوں کو زمین میں داخل ہونے میں ایک کمزور رکاوٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔آبپاشی کا پانی اسpan کے بالکل اوپر جمع ہوتا ہے اور عارضی تالاب کے حالات پیدا کرنے کے بعد زیر زمین داخل ہوتا ہے۔ پودوں کی جڑیںpan کے اوپر افقی طور پر پھیل جاتی ہیں۔ یہ حالات فصل کی نشو ونما کو روکتے ہیں یا اسے منفی طور پر متاثر کرتے ہیں خاص طور پر ابتدائی مراحل کے دوران۔
مٹی ماحولیاتی نظام کی بہت سی خدمات فراہم کرتی ہے جو زمین پر انسانی صحت اور زندگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔لیکن اس اہم کردار کے باوجودمٹی کو ایک طویل عرصے سے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔
آبادی میں اضافہ ،کھپت کے نمونے اور خوراک سے منسلک تبدیلیاں مٹی کے وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا پیش خیمہ بن رہی ہیں۔ جس کے لیے زمین کی چھوٹی اکائیوں پر زیادہ خوراک اگانے اور کم پانی استعمال کرنے کی ضرورت پیدا ہو رہی ہے۔
نتیجتاًمٹی کے وسائل پر دباؤ سنگین حدوں کو پہنچ رہا ہے اور مٹی کو مسلسل تنزلی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے مٹی جیسے اسٹریٹجک وسائل کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور اس کے پائیدار انتظام کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
The post مٹی کے مسائل کا پائیدار انتظام کلائمیٹ چینج کے آگے ڈھال appeared first on ایکسپریس اردو.