ملائیشیا میں انور ابراہیم کا وزیر اعظم بننا ایک بڑی خبر ہے۔ انھیں ملائشیا کا طیب ایردوان قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان کی زندگی کی کہانی اور وزرات عظمیٰ تک پہنچنے کا سفر ایک ایسی داستان ہے جو عام افراد کے لئے حوصلہ و ہمت دلانے والی ہے جبکہ سیاست دانوں کے لئے سبق آموز۔ وہ 19نومبر 2022ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے ہیں ۔73 فیصد ٹرن آؤٹ والے ان انتخابات میں پانچ انتخابی اتحادوں نے حصہ لیا تھا:
1۔ ’ پاکاتان ہاراپان ‘ ( اردو ترجمہ : امید کا اتحاد )،2۔ ’ پریکاتان نیشنل‘ ( قومی اتحاد )،3۔ باریسان نیشنل( قومی محاذ ) ،4۔ ’ جی پی ایس‘ ، 5۔ ’ جی آر ایس‘۔ ان کے علاوہ کئی جماعتیں انفرادی طور پر بھی دوڑ میں شامل تھیں۔
’ پاکاتان ہاراپان ‘ کے سربراہ انورابراہیم ہیں ۔ اس اتحاد نے ایوان زیریں کی مجموعی 222 نشستوں میں سے82 جیتیں۔’ پریکاتان نیشنل‘ ( سربراہ : محی الدین یاسین ) نے73 ، باریسان نیشنل ( سربراہ : اسماعیل صابری یعقوب ) نے30 ، جی پی ایس نے 23، جی آر ایس نے چھ سیٹیں حاصل کیں۔’ باریسان نیشنل‘ میں بڑی جماعت ’ امنو‘ ( یونائیٹڈ مالیز نیشنل آرگنائزیشن ) ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جس میں عشروں تک مہاتر محمد اور انور ابراہیم نے وقت گزارا۔
عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والے اتحاد ’ پریکاتان نیشنل‘ میں ’ پان ملائشین اسلامک پارٹی‘( پاس ) بھی شامل ہے۔
اس پارٹی کے پاکستان کی جماعت اسلامی سے قریبی تعلقات ہیں۔’پاس‘ نے ملک کی تمام جماعتوں کی نسبت زیادہ اور غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گزشتہ پارلیمان میں اس کی 18نشستیں تھیں، اس بار 49 ہیں ۔
اتحادوں سے ہٹ کر محض جماعتوں کی انفرادی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو’ پاس ‘ نے سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ وزیراعظم انورابراہیم کی اپنی جماعت ’ پیپلزجسٹس پارٹی‘ 31 نشستیں جیت سکی۔
75سالہ انور ابراہیم سابق وزیراعظم مہاتر محمد کے دیرینہ ساتھی تھے۔ وہ ایک طالب علم رہنما کے طور پر ملائشیا کے منظر نامے میں ابھرے، اس کے بعد سیاسی منظر نامے میں داخل ہوئے اور ایک کے بعد دوسری کامیابی سمیٹتے چلے گئے۔
انھوں نے10اگست 1947ء کو ملائشیا کے شمال مغربی علاقے پینانگ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی۔ ان دنوں یہ سارا علاقہ برطانوی نوآبادی تھا۔ انور ابراہیم نے گاؤں ہی میں بچپن اور لڑکپن گزارا۔ ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمن مقامی ہسپتال میں سامان اٹھانے کی معمولی سی ملازمت کرتے تھے۔
پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب انھوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا اور ’ امنو‘ سے وابستہ ہوئے، اسی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور پھر 1959سے 1969ء تک رکن پارلیمان رہے۔1964ء سے 1969ء تک وزارت صحت کے پارلیمانی سیکرٹری کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ انور ابراہیم کی والدہ ’ چہ یان بنت حسین‘ گھریلو خاتون تھیں، تاہم وہ’ امنو ‘ کی کارکن بھی تھیں۔
انور ابراہیم نے یونیورسٹی آف ملائشیا ، کوالالمپور سے’ مالے سٹڈیز‘ میں گریجویشن کی۔ بعدازاں’ نیشنل یونیورسٹی آف ملائشیا ‘ سے ادب میں ماسٹر کیا۔ وہ ان دنوں (1974 سے 1975ء تک ) جیل میں تھے۔ انور ابراہیم طلبہ سیاست میں خوب متحرک تھے۔
1968ء سے 1971ء تک ’ نیشنل یونین آف ملائشین مسلم سٹوڈنٹس‘ کے صدر تھے۔1971ء میں ملائشین یوتھ کونسل کے دوسرے صدر منتخب ہوئے۔ انہی دنوں ’مسلم یوتھ موومنٹ آف ملائشیا‘ کے رکن بن گئے۔
یاد رہے کہ ’ مسلم یوتھ موومنٹ آف ملائشیا‘ 1971ء میں استاد وہاب سلیمان نے قائم کی۔ اس تنظیم کا مقصد سیکولرازم اور مغربیت کے اثرات سے نوجوانوں کو بچانا تھا۔ یہ مصر کی اخوان المسلمون کے نظریات ، حکمت عملی اور طریقہ کار سے متاثرہ تنظیم ہے۔
1974ء میں انور ابراہیم پہلی بار گرفتار ہوئے۔ وہ دیہاتی علاقوں میں غربت اور بھوک مسلط کیے جانے پر حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک گاؤںمیں ایک پورا خاندان بھوک کے مارے جاں بحق ہوگیا تھا۔ اس پر انور ابراہیم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ احتجاج کیا۔ دوسری طرف ربڑ کے درختوں سے ربڑ نکالنے والوں کی زندگی بھی غیرمعمولی طور پر مشکلات سے بھری ہوئی تھی۔ ان کا معاوضہ انتہائی کم تھا۔ احتجاج کرنے پر انور ابراہیم کو انٹرنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے قید رکھا جا سکتا ہے۔ انور ابراہیم 20 ماہ تک قید رہے۔
انور ابراہیم جیل سے باہر آکر1975ء سے 1982ء تک ورلڈ اسمبلی آف یوتھ ( وامی ) کے نمائندہ برائے ایشیا پیسیفک کے طور پر کام کرتے رہے۔
اسی طرح انھوں نے بعض امریکی مسلمانوں کے ساتھ مل کر’ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ‘ ( International Institute of Islamic Thought ) قائم کیا۔ وہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چار ارکان میں سے ایک تھے اور اس کے ٹرسٹی بھی تھے۔1983ء سے 1988ء تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور (International Islamic University Kuala Lumpur) کے چانسلر بھی رہے۔
میدان سیاست میں داخلہ
1982ء میں انورابراہیم طلبہ سیاست سے نکل کر باقاعدہ ’ یونائیٹڈ مالے نیشنل آرگنائزیشن‘ ( امنو ) میں شامل ہوئے۔ واضح رہے کہ 1981ء میں مہاتر محمد ملک کے وزیراعظم بن چکے تھے۔ وہ امنو کے سربراہ بھی تھے۔ انور ابراہیم رکن پارلیمان منتخب ہوئے اور پھر یکے بعد دیگرے مختلف وزارتوں پر متمکن ہوئے۔ 1983ء میں ’ وزارت ثقافت ، نوجوانان و کھیل ‘ ، اگلے سال ’ وزارت زراعت ‘ اور پھر 1986ء میں وزارت تعلیم۔
بطور وزیر تعلیم ، انور ابراہیم نے قومی نصاب تعلیم میں مختلف تبدیلیاں کیں۔ اسی دوران میں وہ اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسکو‘ کی جنرل کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔1988ء میں وہ ’ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آف ملائشیا ‘ کے دوسرے صدر بنے۔
سابق وزیر قانون زید ابراہیم کا کہنا ہے کہ انور ابراہیم پورے حکومتی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ انھوں نے 80ء کی دہائی میں بطور وزیر تعلیم ملک کے نظام و نصاب تعلیم کو اسلامائز کیا تھا۔
1991ء میں وزیر اعظم مہاتر محمد نے انور ابراہیم کو وزیرخزانہ بنا دیا۔ یہ انہی کی محنت کا نتیجہ تھا کہ ملائیشیا نے بے مثال، شاندار، تیز رفتار معاشی ترقی کی۔’ یورومنی ‘ نامی بین الاقوامی میگزین نے انھیں دنیا کے چار بہترین وزرائے خزانہ میں شامل کیا۔1996ء میں ’ ایشیا منی ‘ نامی جریدے نے انھیں ’ دنیا کا بہترین وزیرخزانہ ‘ قرار دیا۔
1997ء میں جب ایشیا معاشی بحران کا شکار ہوا تو انور ابراہیم وزیرخزانہ کے ساتھ ساتھ ملائشیا کے نائب وزیراعظم بھی تھے۔
ملک کو معاشی بحران کے اثرات سے نکالنے کے لئے انھوں نے فری مارکیٹ اکانومی کا راستہ اختیارکرنے جبکہ معاشی اور سیاسی حکمت عملی میں قربت پیدا کرنے پر زور دیا جبکہ بڑے پیمانے پر اخراجات میں کمی لانا شروع کر دی اور ملک میں احتساب کا نظام مزید بہتر کرنے کی کوشش شروع کر دی ۔ 1998ء میں انور ابراہیم کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی ڈویلپمنٹ کمیٹی کا چئیرمین منتخب کیا گیا۔ وہ ستمبر تک اس منصب پر فائز رہے۔
نائب وزیراعظم کیسے بنے؟
1993ء میں انور ابراہیم اپنی سیاسی جماعت ’امنو‘ میں نائب صدر منتخب ہوئے، انھوں نے پارٹی کے اندر ’غفار بابا ‘ کو شکست دی تھی۔ اس وقت لوگ کہہ رہے تھے کہ مہاتر محمد کے بعد ملک کے وزیراعظم غفار بابا ہوں گے۔ لوگ دونوں رہنماؤںکو ’باپ ، بیٹا ‘ قرار دیتے تھے۔ تاہم پھر اچانک فضا بدلی۔ خبریں آنے لگیں کہ وزیراعظم مہاتر محمد انور ابراہیم کو نائب وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔
1997ء میں جب وزیراعظم مہاتر محمد دو ماہ کی چھٹیوں پر جانے لگے تو انھوں نے انور ابراہیم کو قائم مقام وزیراعظم مقرر کر دیا۔ وزیراعظم کی غیر موجودگی میں انور ابراہیم نے ملک میں حکمرانی کے میکانزم کو تبدیل کرنے کے لئے بعض ایسے بنیادی اقدامات بھی کیے جو مہاتر محمد کی پالیسیوں سے متصادم تھے۔ نتیجتاً دونوں رہنماؤںکے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی۔
ملائشیا کے معاشی بحران کے حل کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ اس حوالے سے دونوںکا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ بعدازاں اختلاف بڑھتا ہی چلا گیا۔ جب انور ابراہیم نے’ امنو‘ کے اندر اقربا پروری کے کلچر کو تنقیدکا نشانہ بنایا تو مہاتر محمد سخت غضب ناک ہوگئے۔
1997ء کا معاشی بحران آیا تو انور ابراہیم آئی ایم ایف کے پلان کے حق میں تھے۔ انھوں نے حکومتی اخراجات میں 18فیصد تک کمی کرنے کے لئے ایک پورا منصوبہ تیار کیا، اس میں وزرا کی تنخواہوں میں کمی بھی شامل تھی۔ اسی طرح انھوں نے کئی پراجیکٹس کےفنڈز میں کٹوتی کر دی، جن میں مہاتر محمد کی ترقیاتی حکمت عملی کے میگا پراجیکٹس بھی شامل تھے۔
اگرچہ متعدد ملائیشین کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی تھیں لیکن انور ابراہیم کا کہنا تھا: ’’ بیل آؤٹ پیکیج دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!‘‘ انھوں نے بینکوں سے کہا کہ وہ اپنی خود حفاظت کریں۔
انور ابراہیم معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے فری مارکیٹ حکمت عملی اختیار کرنا چاہتے تھے۔ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا راستہ کھولنا چاہتے تھے اور ٹریڈ لبرلائزیشن کی راہ پر چلنا چاہتے تھے۔
مہاتر محمد معاشی بحران کے ذمہ دار کرنسی کے بارے میں افواہیں پھیلانے والوں کو قرار دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کرنسی کو قابو میں رکھنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے بارے میں قوانین کو مزید سخت کرنے ہی سے معاشی بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔
مہاتر محمد اور انور ابراہیم کے مابین اختلافات ’ امنو ‘ کی جنرل اسمبلی میں آخری حد تک پہنچ گئے۔ ’ امنو ‘ کے یوتھ ونگ کے صدر احمد زاہد حامدی ( انور ابراہیم کے ساتھی) نے جنرل اسمبلی میں پارٹی میں اقربا پروری کے موضوع پر بحث شروع کرانے کی کوشش کی۔
اسی اجلاس میں خالد جعفری نامی ایک شخص نے ایک کتاب تقسیم کی جس کا عنوان تھا : ’’ 50 وجوہات ، جن کی بناء پر انور ابراہیم وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں ‘‘۔ کتاب میں انور ابراہیم پر ہم جنس پرستی اور مالی بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ خالد جعفری ایک سرکاری میگزین کا سابق ایڈیٹر تھا۔
اس سے پہلے وہ ایک دوسرے میگزین کا ایڈیٹر بھی تھا جو چل نہ سکا تھا۔ انور ابراہیم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ کتاب کی اشاعت کو روکا جائے اور خالد جعفری پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کر دیا۔
کابینہ سے برطرفی اور گرفتاری
2ستمبر 1998ء کو وزیر اعظم مہاتر محمد نے انور ابراہیم کو کابینہ اور ’ امنو‘ سے بھی نکال دیا۔ اخبار ’سڈنی مارننگ ہیرالڈ‘ نے ان سارے واقعات پر ایک دلچسپ تبصرہ کیا کہ مہاتر محمد نے نہایت چالاکی سے انور ابراہیم پر ایسا الزام عائد کیا جسے ملائشیا جیسے مذہبی معاشرے میں کسی بھی طور پر برداشت نہیں کیا جاتا، جس پر کم از کم 20 سال قید کی سزا ہوتی ہے۔
20 ستمبر1998ء کو انور ابراہیم کو متنازعہ قانون ’ انٹرنل سکیورٹی ایکٹ ‘ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ دلچسپ بات ہے کہ ان دنوں وزارت داخلہ کا قلم دان بھی مہاتر محمد نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا۔ دوران قید آئی جی پولیس رحیم نور نے انور ابراہیم کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
جب انور ابراہیم پہلی پیشی پر عدالت آئے تو ان کی آنکھ کے گرد گہرا سیاہ دھبہ تھا، جو رحیم نور کے تشدد کا نتیجہ تھا۔ یہ تصویر اخبارات میں شائع ہوئی تو ملک بھر میں لوگ غم و غصہ سے بھر گئے۔ ایسے میں مہاتر محمد نے بیان دیا کہ انور ابراہیم نے اپنے آپ کو خود زخمی کیا ہے تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کر سکے۔
بعدازاں رحیم نور کا انور ابراہیم پر تشدد ثابت ہوگیا، نتیجتاً اسے دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس نے انور ابراہم سے سرعام معافی مانگی۔
انور ابراہیم پر جو مقدمات چلے، انسانی حقوق کی تنظیموں نے انھیں ’ سیاسی ‘ قرار دیا۔ اس کے باوجود عدالت نے انھیں کرپشن کے ’’ جرم ‘‘ میں چھ سال اور لواطت کے ’’جرم ‘‘ میں نو برس قید کی سزا سنائی۔
کہا گیا کہ مہاتر محمد حکومت نے کافی محنت اور چالاکی سے انور ابراہیم کی قید کو یقینی بنایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ انور ابراہیم کے خلاف مقدمات حکومت اور ریاستی اداروں بشمول عدلیہ ، پولیس نے سیاسی بنیادوں پر تیار کئے تھے۔ انور ابراہیم کو ضمیر کا قیدی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مہاتر محمد نے اپنے سیاسی مخالف کو خاموش کرانے کے لئے جیل میں ڈالا۔
انور ابراہیم نے غیر اخلاقی الزامات عائد کرنے پر وزیراعظم مہاتر محمد کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا جو انھوں نے فیڈرل کورٹ میں جیت لیا، یوں وفاقی عدالت نے انھیں 2 ستمبر 2004ء کو رہا کر دیا۔
اس کے ساتھ ہی انور ابراہیم نے خالد جعفری کے خلاف بھی مقدمہ جیت لیا۔ خالد جعفری نے انور ابراہیم کو 100ملین رنگٹ ( ملائشین کرنسی ) بطور ہرجانہ ادا کیے ۔ خالد جعفری اگلے سال ( 2005ء میں ) ذیابیطس کی پیچیدگیوں کا شکار ہوکر انتقال کر گیا۔
اصلاحات کی تحریک اور ’ نیشنل جسٹس پارٹی ‘ کا قیام
جیسے ہی مہاتر محمد نے انور ابراہیم کو کابینہ سے برطرف اور کابینہ سے نکالا، انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ملک میں اصلاحات کی ایک تحریک شروع کردی۔
احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی گئیں۔ 1998ء میں دارالحکومت کوالالمپور میں ایپیک سمٹ منعقد ہوا، جس میں امریکی نائب صدر الگور نے وزیر اعظم مہاتر محمد اور ایشیا پیسیفک کے دیگر ممالک کے حکمرانوںکی موجودگی میں انور ابراہیم اور انکی اصلاحات کی تحریک کی حمایت کی۔
بعدازاں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والی اس تحریک نے’ نیشنل جسٹس پارٹی‘ کے نام سے ایک جماعت کی شکل اختیار کر لی۔ یاد رہے کہ اس وقت انور ابراہیم جیل میں تھے۔ 1999ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ نیشنل جسٹس پارٹی، پاس ( اسلامی تحریک ) اور ڈیموکریٹک ایکشن پارٹی نے ’ متبادل محاذ‘ کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کیا جس کا مقصد مہاتر محمد کی قیادت میں حکمران ’ قومی محاذ ‘ کو ایوان اقتدار سے نکالنا تھا۔
ان انتخابات میں ’ متبادل محاذ ‘ دوسری بڑی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس نے مجموعی 193سیٹوں میں سے45 سیٹیں جیتیں۔ مہاتر محمد کی قیادت میں ’ قومی محاذ ‘ نے 148سیٹیں جیتیں، انھیں گزشتہ انتخابات کی نسبت 14سیٹیں کم ملیں۔
اگست 2003ء میں ’ نیشنل جسٹس پارٹی‘ اور ایک دوسری جماعت’ ملائشینز پیپل پارٹی ‘ ضم ہوگئیں۔ اب اس جماعت کا نام رکھا گیا: ’ پیپلز جسٹس پارٹی‘۔ اور اس کی سربراہ ’ ڈاکٹر وان عزیزہ ‘ (اہلیہ انور ابراہیم ) منتخب ہوئیں۔
2008ء کے عام انتخابات میں ’پیپلزجسٹس پارٹی‘ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھری۔ اس نے31 سیٹیں جیتیں جبکہ وہ پیپلز الائنس کا حصہ تھی جس نے کل 222 سیٹوں میں سے82 سیٹیں حاصل کیں۔ حکمران ’ قومی محاذ ‘ کی سیٹوں کی تعداد 140تھی۔ ’قومی محاذ ‘ کو گزشتہ عام انتخابات کی نسبت 58سیٹیں کم ملیں۔
مہاتر محمد کے اقتدار کا خاتمہ اور انور ابراہیم کی رہائی
مہاتر محمد جولائی اکتوبر 2003 ء تک وزارت عظمیٰ پر متمکن رہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد ملائشیا کی مرکزی عدالت نے انور ابراہیم کو رہا کر دیا۔
سن 2004ء میں جیسے ہی انور ابراہیم جیل سے رہا ہوئے، انھوں نے کئی بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کر دیا۔
ان میں سینٹ انٹونی کالج ، آکسفورڈ ، جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز ( واشنگٹن ڈی سی ) ، پرنس الولید سنٹر فار مسلم ، کرسچئین انڈرسٹینڈنگ ( سکول آف فارن سروس ، جارج ٹاؤن یونیورسٹی ) ، انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ ایتھیکل اکاؤنٹ ایبلیٹی ( لندن ) شامل ہیں۔
نومبر 2006ء میں، انور ابراہیم نے اعلان کیا کہ وہ نا اہلی کی مدت ختم ہونے کے بعد 2008ء کے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ وہ جیل کے اندر سے حکومتی پالیسیوں کا مسلسل جائزہ لے رہے تھے اور اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ’ پیپلزجسٹس پارٹی ‘ کی سربراہ ڈاکٹر وان عزیزہ ‘ یعنی اپنی اہلیہ کے مشیر کا کردار بھی ادا کر رہے تھے۔ حکومت نے منصوبہ بنایا کہ انور ابراہیم کی نااہلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی 8 مارچ 2008ء کو عام انتخابات منعقد کر دیے جائیں تاکہ انور ابراہیم کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع نہ مل سکے۔
انہی دنوں مہاتر محمد (جو وزیر اعظم نہ تھے) سے کسی نے سوال کیا کہ انور ابراہیم کے وزیراعظم بننے کے امکانات کس قدر ہیں ؟ ان کا کہنا تھا:’’ وہ اسرائیل کے وزیراعظم بن جائیں تو اچھا رہے گا۔‘‘
14اپریل 2008ء کو انور ابراہیم سیاست میں حصہ لینے کے اہل ہوگئے۔ اس موقع پر ایک بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں 40 ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ ریلی سے انور ابراہیم نے دو گھنٹے طویل خطاب کیا ۔
اس وقت تک ان کا حمایت یافتہ سیاسی اتحاد ایک تہائی سیٹوں کے ساتھ پارلیمان میں موجود تھا جبکہ پانچ صوبوں میں بھی حکمران تھا ۔29 اپریل 2008ء کو (10 برس بعد ) انور ابراہیم واپس پارلیمان پہنچے۔ انھیں ملائشیا کی پارلیمانی تاریخ کی سب سے پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر وان عزیزہ ( اہلیہ انور ابراہیم ) نے دعوت دی تھی۔
26اگست 2008ء کو انور ابراہیم ضمنی انتخاب کے ذریعے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ انھوں نے حلقے کے مجموعی47 ہزار ووٹوں میں سے 31 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے، حکمران اتحاد کے امیدوار کو محض 15ہزار ووٹ مل سکے۔
اس کے بعد انھیں باقاعدہ ’ قائد حزب اختلاف ‘ قرار دیدیا گیا۔ اس وقت ملک کے وزیراعظم عبداللہ احمد بداوی تھے۔ انور ابراہیم نے پارلیمان میں اپنے خطاب کے دوران واپس پارلیمان پہنچنے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیراعظم قوم کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ وہ حکومت میں آکر لبرلائزیشن کی پالیسی اختیار کریں گے، عدلیہ اور صحافت کو آزادی دیں گے تاکہ کرپشن پر قابو پا کر ملائشیا کو ناکام ریاست بننے سے بچا سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں جب تک انٹرنل سیکورٹی ایکٹ رہے گا ، حکمران اتحاد شہریوںکو پکڑ کر جیل میں ٹھونستا رہے گا۔ اپریل2011ء میں عبداللہ بداوی کہ جگہ نجیب رزاق وزیراعظم بن گئے، انھوں نے ستمبر2011ء میں انٹرنل سیکورٹی ایکٹ سمیت چار متنازعہ قوانین منسوخ کر دیے۔
2013ء کے عام انتخابات میں انور ابراہیم کی سربراہی میں ’ عوامی اتحاد ‘ نے پارلیمان کی مجموعی 222 سیٹوں میں89 سیٹیں جیت لیں۔گزشتہ عام انتخابات کی نسبت سات زیادہ سیٹیں۔ دوسری طرف نجیب رزاق کی قیادت میں حکمران اتحاد نے133 نشستیں جیتیں۔
دلچسپ بات ہے کہ انورابراہیم کے اتحاد نے51 فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ حکمران اتحاد کو47 فیصد ملے۔ انور ابراہیم نے شکست تسلیم نہیں کی اور دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ ساتھ ہی انتخابی نظام کو درست کرنے کے لئے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا جس میں ایک لاکھ 20 ہزار لوگ شریک ہوئے۔
جیسے ہی انور ابراہیم سیاست میں باقاعدہ فعال ہوئے، انھیں ایک بار پھر لواطت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔29 جون 2008ء کو ان کے سابق پرسنل سیکرٹری ’سیف البخاری ازلان‘ نے پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی کہ انور ابراہیم نے انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
اس پر انور ابراہیم نے کہا کہ ان کی ضمنی انتخاب میں کامیابی اور بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کے سبب انھیں ایک بار پھر سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جولائی میں انھیںگرفتار کیا گیا، ان پر مقدمہ چلا، ہائی کورٹ نے ثبوتوں کو ناقابل اعتماد قرار دے کر انھیں بری کر دیا۔ مدعی اپیل کورٹ میں چلا گیا جہاں انور ابراہیم کو ’’ مجرم ‘‘ قرار دیدیا گیا۔
یہ فیصلہ عین اس وقت آیا جب انور ابراہیم صوبہ ’ سیلانگور‘ کی اسمبلی کے رکن بننے کے لئے ضمنی انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی کامیابی یقینی تھی جس کے نتیجے میں وہ صوبے کے وزیراعلیٰ بن جاتے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس فیصلے کو ’سیاسی ‘ قرار دیا۔ یوں انور ابراہیم کو پانچ سال قید کی سزا سنادی گئی۔
جب ’ امید کا اتحاد ‘ کامیاب ہوا
یہ نجیب رزاق کا دور تھا جب انور ابراہیم کے ساتھ،ساتھ مہاتر محمد بھی انکے غیظ و غضب کا نشانہ بننے لگے۔ مہاتر محمد نجیب رزاق کے طرز حکمرانی کے ناقد تھے جبکہ انور ابراہیم کو جیل بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ وہ نجیب رزاق حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد قائم کر چکے تھے۔ اور ان کی قیادت میں سیاسی اتحاد مقبولیت حاصل کر رہا تھا۔
انور ابراہیم نے جیل ہی سے مہاتر محمد سے روابط بحال کیے۔ دونوں رہنماؤں کا اتفاق تھا کہ نجیب رزاق کو ایوان اقتدار سے نکالنا ضروری ہے کیونکہ وہ اربوں ڈالرز کی بدعنوانی کے ایک سکینڈل میں ملوث پائے گئے تھے۔اس وقت تک مہاتر محمد اپنی ایک الگ جماعت ’ برساتو‘ کے نام سے قائم کر چکے تھے۔ وہ بھی انور ابراہیم کے’ امید کا اتحاد ‘میں شامل ہوگئے۔
2018ء کے عام انتخابات میں انور ابراہیم کے سیاسی اتحاد نے پارلیمان کی کل 222 نشستوں میں سے 113نشستیں حاصل کر کے حکمران اتحاد کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔
ملک کی61 سالہ تاریخ میں ’ امنو‘ اور اس کے اتحادیوں کو پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نجیب رزاق کے’ قومی محاذ ‘ کو79نشستیں ملیں۔ یوں مہاتر محمد ایک بار پھر وزیراعظم بن گئے اور انور ابراہیم کی اہلیہ وان عزیزہ اسماعیل نائب وزیراعظم ۔ مہاتر محمد کو دنیا کے سب سے عمر رسیدہ حکمران ہونے کا اعزاز ہوا۔ انھوں نے جس روز حلف اٹھایا ، ان کی عمر 92 سال 304 دن تھی۔ جبکہ وان عزیزہ کو ملک کی پہلی نائب وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
مہاتر محمد نے حکومت قائم ہونے کے فوراً بعد انور ابراہیم کو بادشاہ کی طرف سے مکمل معافی دلائی، یوں16مئی 2018ء کو انور ابراہیم جیل سے باہر آگئے۔
مہاتر محمد کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں انور ابراہیم کو جیل سے رہا ہونے کے بعد رکن پارلیمان بننا تھا اور پھر وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے۔ تاہم انور ابراہیم نے جیل سے باہر آکر اعلان کیا کہ پہلے مہاتر محمد اصلاحات کا ایجنڈا پورا کریں گے ، اس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے۔ البتہ وہ ضمنی انتخاب میں حصہ لے کر رکن پارلیمان بن گئے۔
فروری 2020ء میں وزیراعظم مہاتر محمد کی جماعت ’ برساتو ‘ اور انور ابراہیم کی جماعت ’ امید کا اتحاد ‘ کے بعض اراکین پارلیمان نے غداری کا ارتکاب کیا ۔
یوں وزیراعظم مہاتر محمد اکثریت کھوبیٹھے۔ چوبیس فروری 2020ء کو انھوں نے وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیدیا۔ جبکہ مہاتر محمد سے غداری کرنے والے محی الدین یاسین نے ’ قومی اتحاد ‘ قائم کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا۔ انور ابراہیم اپنے ساتھیوں سمیت اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھے۔ انھیں شک تھا کہ اس سارے کھیل کے پیچھے خود مہاتر محمد ہیں تاہم مہاتر محمد نے اس سازش میں ملوث ہونے کی تردید کی۔ یوںمہاتر محمد اور انور ابراہیم کے راستے ایک بار پھر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
اب مہاتر محمد نے ایک نئی جماعت ’ پی جوانگ ‘ قائم کر لی۔ حالیہ عام انتخابات میں ملائشیا کے97 سالہ سیاست دان اور سابق وزیراعظم مہاتر محمد نے بھی ’ جی ٹی اے ‘ کے نام سے انتخابی اتحاد قائم کیا تھا لیکن اسے کوئی ایک سیٹ بھی حاصل نہ ہوسکی۔
مہاتر محمد کو اس قدر بری شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ضمانت ضبط کروا بیٹھے۔انھیں محض4566 ووٹ ملے جبکہ ان کی زیرقیادت اتحاد نے پورے ملک سے ایک لاکھ سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے۔
وزارت عظمیٰ کا حلف
انتخابی نتائج آنے کے بعد وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے تک کی کہانی بھی خاصی دلچسپ ہے۔ملائشیا میں حکومت بنانے کے لئے ایوان زیریںکی 112نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم حالیہ انتخابات کے بعد کسی بھی جماعت کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی۔
20 نومبر کو انورابراہیم نے اعلان کیا کہ وہ متعدد دیگر جماعتوں سے حکومت سازی کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ’برساتو ‘ کے سربراہ محی الدین یاسین نے بھی کچھ ایسا ہی دعویٰ کیا۔ 22 نومبر کو شاہی محل نے دونوں بڑے سیاسی اتحادوں کے سربراہوں انور ابراہیم اور محیی الدین یاسین کو بادشاہ سلطان عبداللہ سے ملاقات کی دعوت دی تاکہ وہ اپنی حمایت ثابت کر سکیں۔ اس ملاقات میں بادشاہ نے ایک قومی حکومت قائم کرنے کا مشورہ دیا جسے محی الدین یاسین نے مسترد کردیا۔
24 نومبر کو انور ابراہیم نے اکثریت حاصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنے سیاسی اتحاد کے 82 ارکان کے علاوہ نیشنل فرنٹ کے 30 ، جی پی ایس کے 23 ، وارثیان کے تین ، مدعا اور پی بی ایم کے ایک ، ایک رکن کی حمایت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ دو آزاد ارکان کی بھی ۔ یوں وزیراعظم انور ابراہیم کے پاس مجموعی طور پر 142 ارکان کی حمایت ہے۔یوں انھوں نے ملائشیا کے بادشاہ کے سامنے بطور وزیراعظم حلف اٹھا لیا۔
اگلے روز جی آر ایس نامی سیاسی اتحاد کے سربراہ حاجی نور نے بھی انورابراہیم کی حمایت کا اعلان کردیا۔یوں انور ابراہیم کو مزید چھ ارکان پارلیمان کے ساتھ مجموعی طور پر 148 ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی۔
یعنی پارلیمان میں دو تہائی ارکان کی اکثریت ۔ محی الدین یاسین نے انور ابراہیم کو وزیراعظم کے طور پر تسلیم کیا اور انھیں مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے انور ابراہیم کی طرف سے قومی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت پر شکریہ ادا کیا تاہم کہا کہ وہ اپوزیشن کے طور پر کردار ادا کریں گے تاکہ ملک میں بدعنوانی پر پاک و صاف حکمرانی ہو۔ اب انیس دسمبر 2022ء کو انور ابراہیم اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔
انور ابراہیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لبرل ریفارمر، باصلاحیت ٹیکنوکریٹ اور صحیح معنوں میں دانشور شخصیت ہیں۔ وہ ’ اسلامی جمہوریت ‘ کے داعی ہیں، وہ ملائشیا کو مسلم دنیا میں ایک مثالی باعمل جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں۔
وہ اسلام کے نظریہ امت پر زبردست یقین رکھتے ہیں۔ وہ ’ تھری ورلڈ ماڈل ‘ کو فضول اور احمقانہ سمجھتے ہیں۔ وہ مطلق العنانیت سے سخت بے زار ہیں ، اچھے طرز حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے حامی ہیں۔
مارچ2010ء میں لندن سکول آف اکنامکس میں خطاب کرتے ہوئے ، انور ابراہیم کاکہنا تھا کہ یہودیوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے بلکہ صہیونی نظریے اور فلسطینیوں کے خلاف جارحیت اور ناانصافی کی مذمت ہونی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح مسلمانوں میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں ، اسی طرح یہودیوں میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں۔
تاہم انسانی حقوق کی یہودی تنظیم ’بنائی برتھ انٹرنیشنل ‘ انور ابراہیم کو یہود مخالف شخصیت قرار دیتی ہے۔وہ ان کے ایک بیان کو بنیاد بناتی ہے کہ ’’ اسرائیلی جاسوس براہ راست حکومت چلانے میں ملوث ہیں ۔‘‘ ’بنائی برتھ انٹرنیشنل ‘ نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انورابراہیم سے تعلقات ختم کرے۔
انور ابراہیم نے2012ء میں امریکی جریدے ’ دی وال سٹریٹ جرنل ‘ سے انٹرویو میں کہا تھا:’’اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں پالیسی واضح ہونی چاہیے۔
اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ کیاجاتا ہے تو پھر فلسطینیوں کے جائز مفادات کی بھی حفاظت ہونی چاہیے۔‘‘ ان کے مخالفین نے اس بیان پر طوفان کھڑا کردیا۔ اس وقت مہاتر محمد نے بھی کہا تھا کہ انور ابراہیم سے اس بابت پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔
تاہم انور ابراہیم نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے ’دو ریاستی حل‘ کی حمایت کرتے ہیں، ملائشیا بھی اس کی حمایت کرتا ہے۔
انور ابراہیم انتخابی مہم میں قوم سے وعدہ کرتے رہے ہیں کہ وہ وزیراعظم بن کر چھوٹی کابینہ کے ساتھ کام کریں گے، ایسے لوگوں کو کابینہ میں لیں گے جو کم تنخواہ کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوں۔ چنانچہ دو دسمبر 2022ء کو انھوں نے 28 رکنی کابینہ کا اعلان کر دیا جن میں دو نائب وزرائے اعظم بھی ہیں ۔ ان سے پہلی حکومت میں کابینہ 30 ارکان پر مشتمل تھی۔ حسب توقع وزیراعظم نے وزارت خزانہ کا قلم دان اپنے پاس رکھا ہے۔
ایک نیوز کانفرنس میں انھوں نے اپنی حکمت عملی کا اعلان بھی کیا۔کہا کہ وہ وزارت خزانہ کا قلم دان اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے تھے لیکن سرمایہ کار کا اعتماد جیتنے کے لئے یہ ضروری تھا۔ میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ غیرملکی اور مقامی سرمایہ کارکا اعتماد بحال ہو۔ میرے ساتھ مشیروں کی ایک ایسی ٹیم ہوگی جو کوئی معاوضہ نہیں لے گی۔ معیشت پر ہماری توجہ مرکوز ہوگی کہ کیسے بڑھوتری میں کیسے اضافہ کریں اور مہنگائی کو کیسے کم کریں؟
سنگا پور کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز سے وابستہ ’ایسن اوہ ‘ کہتے ہیں: ’’ انور ابراہیم کی سیاسی جدوجہد جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا جیسی ہے۔
اپنے ملک کو جمہوریت کی راہ پر لانے کے لئے دونوں کو بے شمار مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ امید ہے کہ انور ابراہیم کی قیادت میں ملائیشیا میں آزادیاں ملیں گی، ایک جامع معاشرہ بنے گا اور ملائشیا کی معیشت ایک بار پھر دنیا کے منظرنامے میں نمایاں مقام حاصل کرے گی۔‘‘
The post انور ابراہیم appeared first on ایکسپریس اردو.