ایکسپریس: انتخابات میں ذات برادری کی بنیاد پر حمایت و مخالفت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات نے (جس میں آپ نے پہلی بار کامیابی بھی حاصل کی) اس رجحان کو پروان چڑھانے میں کتنا کردار ادا کیا؟
شاہ محمود قریشی: بے شک غیر جماعتی انتخابات نے علاقائی اور لسانی سیاست کو فروغ دیا اور پھر اسی سے فرقہ وارانہ سیاست جنم لیتی ہے اور اس نے ہماری سیاست پر منفی اثر مرتب کیا۔ تحریک انصاف نے اسی چیز کو بنیاد بناتے ہوئے ایک مہم چلائی، ہم عدالت میں گئے اور مطالبہ کیا کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات، جو جمہوریت کی پہلی سطح ہے، وہ غیر جماعتی نہیں جماعتی ہونے چاہیں تاکہ گائوں، محلہ اور گلی کی سطح پر جو سیاسی صف بندی ہے وہ نظریات پر استوار ہو نہ کہ شخصیات پر، اور لوگ اس بات کا فیصلہ کریں کہ انھوں نے کس سیاسی نظریئے اور فلسفے کا ساتھ دینا ہے۔
شخصیت بھی اہم ہوتی ہے، اگر کوئی اچھی شہرت کا امیدوار ہو تو اُس کی شہرت بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کی یہ کوشش تھی اور ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہم غیرجماعتی کے بجائے جماعتی اور نظریاتی سیاست کو اس ملک میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ اور جب آپ نظریاتی سیاست کی بات کریں گے تو دوسرے لفظوں میں وہ ذات برادری کی سیاست کی نفی ہے۔
ایکسپریس:ہمارے انتخابی نظام پر عوام کو ویسا اعتماد نہیں جیسا ہونا چاہیے، دھاندلی کا ہنر یہاں بام عروج پر ہے، تو اس صورتحال میں بہتری کے لئے آپ کیا اقدامات تجویز کریں گے؟
شاہ محمود قریشی: پہلی بات تو یہ ہے کہ لوگوں کا اعتماد کیوں نہیں ہے، ان کا اعتماد اس لئے نہیں ہے کہ ماضی میں الیکشن کو انجیئرڈ کیا گیا، اتحاد بنائے اور توڑے گئے۔ جماعتوں کو پیدا کیا گیا اور اس سے پورا انتخابی عمل متاثر ہوا۔ اعتماد کا فقدان اس لئے بھی ہے کہ آپ نے دیکھا کہ ہمارا جو الیکشن کمیشن ہے وہ ایگزیکٹیو کنٹرول کے تابع رہا، اس کی آزاد حیثیت نہ تھی اور آج بھی اس کی آزاد حیثیت پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اب جب الیکشن کمیشن انتظامی اور مالیاتی حوالوں سے آزاد نہیں ہوگا تو بات نہیں بنے گی۔ آج بھی الیکشن کمیشن کو کسی بھی ترمیم کے لئے صدر کے دستخط کی ضرورت ہے اور صدر جو ہیں وہ ایک جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
تو یوں بالواسطہ طور پر انتظامیہ کا عمل دخل آ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں آپ کے علم میں ہے کہ الیکشنوں میں سرکاری وسائل کو استعمال کیا گیا۔ قانون و ضابطہ کہتا ہے کہ شیڈول کے اعلان کے بعد تقرر و تبادلہ نہیں ہو سکتا، ایک آزاد ادارے ’’فافن‘‘ (FAFEN: Free and Fair Election Network” نے 2013ء کے الیکشن پر تحقیقات کی ہیں جو انھوں نے ہمارے سامنے رکھیں جس سے انکشاف ہوا کہ شیڈول کے اعلان کے بعد 3ہزار کے لگ بھگ تبادلے ہوئے جو الیکشن قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، پھر مختلف اسکیموں کا پیسہ لے کر اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا جس پر پھر سپریم کورٹ میں کیس بھی چلے اور سابق وزیراعظم پرویز اشرف اور گیلانی کو بلایا گیا جو آج بھی چل رہے ہیں۔ مرکز میں پیپلزپارٹی نے الیکشن قوانین کی خلاف وزری کی تو پنجاب میں وہی کچھ یہاں کی برسراقتدار پارٹی نے کیا۔
پھر نگران سیٹ اپ جو آیا، اس کے بارے میں آئین کہتا ہے کہ مشاورت کی جائے جو قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کے درمیان ہو گی، اب یہاں لوگوں میں گہرا تاثر ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں نے ملی بھگت سے انتظام (arrangement) کیا۔ پنجاب میں ن لیگ اور مرکز و سندھ میں پی پی کی مرضی سے نگران حکومت تشکیل دی گئی۔ اس نگران سیٹ اپ سے عوام کو توقعات تھیںلیکن جو کچھ ہوا اِس سے لوگوں کے اعتماد کو دھچکا لگا۔ اس میں 35پنکچرز کی جو بات کی جا رہی ہے یہ سب کچھ اسی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس کے بعد جو لوگوں نے الیکشن میں دیکھا اور پھر دو تین حلقوں میں تصدیقی عمل سے ثابت ہوا۔ مثال کے طور پر ہائی کورٹ کے احکامات پر حامد خان کے حلقہ(لاہور) میں انگوٹھوں کی تصدیق کا عمل جاری ہے، اس میں حیران کن چیزیں سامنے آ رہی ہیں، ان کے پورے حلقے میں صرف 73پولنگ بیگز ایسے ہیں جو سلامت ہیں، جن کی سیل لگی ہوئی ہے، باقی سب ٹیمپرڈ تھے، حتیٰ کہ کئی بیگز میں اخباروں کی ردی بھری مل رہی ہے، تو اس سے سارا الیکشن کا جو عمل ہے وہ متاثر ہوا ہے۔
تحریک انصاف جمہوریت چاہتی ہے اور جمہوریت کے لئے بنیادی چیز یہ ہے کہ الیکشن شفاف ہوں، پاکستان میں شفاف الیکشن کی روایت نہیں پڑ رہی، چنانچہ ہارنے والا نتائج تسلیم نہیں کرتا اور جیتنے والا اعتماد سے حکومت نہیں کر سکتا، جیسے کہ گزشتہ الیکشن میں ہوا۔ اگر آپ نے ایسے ہی انتخابات کروانے ہیں تو پھر آپ جمہوریت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے آپ نے دیکھا لوگوں نے کسی کی کال کے بغیر لاہور اور کراچی سمیت ملک بھر میں جگہ جگہ احتجاج کیا۔ 70ء کے بعد اتنا بڑا ٹرن آئوٹ گزشتہ الیکشن میں دیکھا گیا، لوگوں کا واضح رجحان بلے کی طرف تھا لیکن شام کو نتائج مختلف آئے۔ پھر آپ دیکھیں کہ اس میں ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ اداروں نے بھی کردار ادا کیا۔
پانچ بجے پولنگ ختم ہونی تھی لیکن ایک گھنٹہ بڑھا دیا گیا بغیر کسی سے مشاورت اور مطالبہ کے۔ پھر 6 بجے تک آپ نے پولنگ کا وقت بڑھا دیا لیکن ایک چینل نے ساڑھے پانچ بجے پولنگ کا پہلا نتیجہ بھی دکھا دیا، جس میں ایک جماعت کی واضح جیت اور نشان دیکھا دیا گیا، یاد رہے کہ پولنگ کا ابھی آدھا گھنٹہ رہتا ہے۔ تو پھر ساڑھے پانچ بجے نتیجہ کیسے آ گیا، دوسری بات ابھی صرف 30فیصد پولنگ کی گنتی ہوئی لیکن آپ نے کامیابی کی تقریر چلادی، جسے پوری قوم نے دیکھا، تو ہم جو سراپا احتجاج ہوئے ہیں کہ یہ کہاں کی غیر جانبداری ہے۔ اس چینل اور میڈیا ہائوس میں بہت اچھے صحافی ہیں جو ہمارے دوست بھی ہیں، لیکن ان دوستوں سے ہم نے کہا کہ آپ نے اپنی غیر جانبداری پر خود ہی سمجھوتا کر لیا، یعنی 10بجے آپ نے وکٹری اسپیچ کروادی حالاں کہ اس وقت صرف 30فیصد نتائج آئے تھے، ملتان سے میرا اپنا رزلٹ مجھے اگلے دن ملا اور سندھ والا تو دس روز بعد نتیجہ آیا۔ میں نے کہا کہ میں ہار تسلیم کرتا ہوں مجھے میری ناکامی کا رزلٹ دے دو لیکن مجھے وہ بھی نہیں دیا گیا۔
اب آپ دیکھیں جس چیز پر ہمیں بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے کہ ایک شخص جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کا نگراں وزیراعلیٰ بنتا ہے، جس کی قابلیت پر مجھے کوئی شبہ نہیں، وہ اصول پسند اور پڑھے لکھے ہیں۔ اس وقت یہ تاثر تھا کہ ایک جماعت جن کی طرف ان صاحب کا رجحان تھا وہ ہی برسراقتدار آ جاتی ہے، کیا اصولاً انہیں اس جماعت کا کوئی عہدہ قبول کرنا چاہیے تھا قطع نظر اس کے کہ وہ نہایت قابل آدمی ہیں۔ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں نگران وزیراعلیٰ تھا اور انتخابی عمل کی نگرانی کرتا رہا ہوں، آپ مجھے قابلیت کی بنیاد پر بھی عہدہ دیتے ہیں، میں نہیں لوں گا۔ پھر یوں وہ سارے خلا پُر ہوتے چلے جا رہے ہیں، پھر ایک سرکاری ادارہ پی ٹی وی ہے، جس میں اصطلاحات کرنا چاہ رہے ہیں لیکن آپ پی ٹی وی اسپورٹس کو ایک سیریز کے نشریاتی حقوق لینے کی نیلامی سے ہی باہر کر دیتے ہیں، جہاں سے پی ٹی وی کو ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کا ریونیو ملتا، اس کو آپ مقابلے سے ہی نکال دیتے ہیں تو اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔
اس ٹیمپرڈ الیکشن پر لوگ مشتعل ہو کر باہر نکلے اور انہوں نے احتجاج کیا تو ہم نے خود ہی انہیں روکا… کیوں؟ اس لئے کہ کہیں خدانخواستہ جمہوریت کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور ہم نے کہا کہ ہم قانونی راستہ اختیار کریں گے، چنانچہ ہم نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تو انہوں نے ٹربیونل کا راستہ دکھا دیا، ہم وہاں چلے گئے۔ اب قانون کے مطابق ٹربیونل کو 120روز میں درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہے لیکن یہاں تو اب ایک سال ہو گیا، چار سو پٹیشنز پڑی ہیں لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہوا، پھر ہم سپریم کورٹ بھی گئے۔ اس ساری مشق کا مقصد جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرنا بلکہ آئندہ ہونے والے انتخابی عمل کو شفاف بنانا ہے۔ ہم نے قانونی راستے اختیار کئے، ٹاک شوز میں دھائی دی لیکن ہمیں کوئی راستہ نہیں دیا گیا تو اب ہم نے 11مئی کو اس ملک میں شفاف الیکشن اور خود مختار و آزاد الیکشن کمیشن کے وجود کے لئے ایک شعوری مہم شروع کرنے کافیصلہ کیا ہے۔
ہم پرامن احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں، جس میں شمولیت کے لئے صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی، وکلااور میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ وہ آئیں اور شفاف نظام کی اس مہم میں ہمارا ساتھ دیں۔ پھر تحریک انصاف کی قیادت خود الیکشن کمیشن کے پاس جاتی ہے کہ شفافیت کے لئے بائیومیٹرکس سسٹم نافذ کریں اور اس کی شروعات ہم سے کریں، کے پی کے میں اس نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کروائیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہو رہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابات کا شفاف نظام متعارف کروایا جائے اور یہ کوئی انہونی چیز نہیں آپ کے پڑوس سمیت دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں انتخابات کا نظام شفاف ہے جہاں جب کوئی ہار جاتا ہے تو وہ اپنی شکست تسلیم کرتا ہے۔
ایکسپریس: اب آپ علامہ طاہرالقادری کے ساتھ مل کر جو احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کر رہے ہیں اس سیاسی و نظریاتی جوڑ پر لوگوں کے تحفظات ہیں، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟
شاہ محمود قریشی: طاہر القادری کا اپنا نظریہ اورسوچ ہے، وہ ہمارے فیصلوں کے پابند نہیں اور ہمارا اپنا نقطہ نظر ہے، ہم جو اب احتجاج کر رہے ہیں وہ کوئی دس دن پہلے سے نہیں کر رہے بلکہ ایک سال سے یہ احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے الیکشنوں سے پہلے ہی اس پر بات کی تھی کہ اس الیکٹوریل ڈھانچے کے اندر شفاف الیکشن ممکن ہی نہیں اور انہوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھتے ہوئے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن ہم نے آزاد عدلیہ کے بھروسے پر الیکشن میں حصہ لیا کہ ہماری ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، اس پوائنٹ پر قادری صاحب اور ہم میں مطابقت تھی لیکن ہو سکتا ہے بہت سارے معاملات پر ہم ایک دوسرے سے متفق نہ ہوں تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے پابند ہیں نہ ہم ان کے، تو ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے۔
مثال کے طور پر ہم نے امن کے لئے طالبان سے مذاکرات کو ترجیح دی تو مسلم لیگ ن نے بھی یہی کہنا شروع کر دیا تو جب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تو چیئرمین پارٹی عمران خان نے نواز شریف کو ملنے کی دعوت دی، ہاں یہاں میں ریکارڈ کی درستگی کیلئے بتاتا چلوں کہ نواز شریف خود نہیں آئے بلکہ عمران خان نے انہیں دعوت بھیجی کہ آپ اب وہ بات کر رہے جو میں سالہاسال سے کر رہا تھا تو میں آپ کی اس معاملہ پر حمایت کرنا چاہتا ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کوئی نواز لیگ کے ہمنوا ہو گئے، دیکھیں ہم نے ایک اصولی نکتے پر ان کی سیاسی حمایت کی، اسی طرح کسی سیاسی نقطے پر طاہرالقادری سے ہماری مطابقت ہے تو ہم ان کے ہمنوا نہیں ہوئے۔ اور یہ عرض کر دوں کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانا ہمارا مقصد تھا نہ ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابی عمل کو شفاف بنایا جائے کیوں کہ اس نظام کی خرابی سے عام آدمی کا حق خوداردایت مجروح ہو رہا ہے اور الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کروانے کی اپنی ذمہ داری میں ناکام رہا۔
ایکسپریس: حامد میر پر حملہ کے بعد جیو کے کردار پر تحریک انصاف کے موقف میں سب سے زیادہ سختی نظر آ رہی ہے، جس سے مخالفین یہ مطلب بھی نکال سکتے ہیں کہ یہ تحریک انصاف کے آئی ایس آئی سے خصوصی تعلقات کے باعث ہے؟
شاہ محمود قریشی: دیکھیں! حامد میر پر جو حملہ ہوا تحریک انصاف نے سب سے بڑھ کر اس کی مذمت کی، وہ ہمارے بہت اچھے دوست ہیں تو اس حملہ پر ہمیں بے حد افسوس ہوا اور کھل کر اس کی مذمت کرتے ہوئے حامد میر اور ان کے خاندان سے ہمدری کا اظہار کیا۔ ہمارا موقف ہے جو ہوا بہت برا ہوا اور جس نے کیا اس کو بے نقاب ہونا چاہیے۔ حکومت نے ایک جوڈیشل کمیشن بنا دیا، جس نے 21دنوں میں کام پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے، یہ الگ بات ہے کہ جوڈیشل کمیشنوں پر بھی عوام کا اعتماد نہیں رہا کیوں کہ ایبٹ آباد کمیشن دیکھ لیں یا میموگیٹ کمیشن، اِن کی کوئی رپورٹس ہی سامنے نہیں آئیں، ہمارے ہاں جوڈیشل کمیشن کا مقصد ہے معاملہ کو دفن کر دینا۔ سندھ حکومت نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی ہے جسے ایماندارانہ انکوائری جلد مکمل کرنی چاہیے، جس میں حامد میر کو مکمل طور پر سنا جانا چاہیے۔
لیکن جس طریقے سے بعد میں ان کے نادان دوستوں نے معاملے کو اچھالا اور اس کو ایک خاص رنگ دینے کی کوشش کی، اس سے حامد میر کا فائدہ نہیں ہوا بلکہ اُلٹا پاکستان کے عوام کے جذبات کو مجروح کیا، کیوں کہ حامد میر کا چینل جو کہہ رہا ہے اور جو ہندوستان میں بحث چل رہی ہے، اس میں مکمل مطابقت ہے، دیکھیں ناں مسئلہ ہمارا ہے جس پر ہمیں تشویش ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو لیکن آپ کو یہ ٹھیکیداری کس نے دی ہے۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ اس واقعہ کا سب سے زیادہ دکھ سابق بھارتی وزیر خارجہ یشونت سنہا کو دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے ایک کمیشن جب بنا دیا ہے تو پھر آپ کو اس کے نتائج کا انتظار نہیں کرنا چاہیے؟ آپ ایک واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان اور اس کی سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کی ساکھ کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے لوگوں نے اس رویہ کو پسند نہیں کیا، پاکستان کے عوام بالکل فیئر ہیں، اگر کوئی ادارہ تجاوز کرتا ہے تو لوگ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور مذکورہ چینل کی کوریج کے ذریعے تجاوز ہوا ہے تو لوگوں نے اسے پسند نہیں کیا۔ تحریک انصاف آزادی اظہار کے حق میں ہے اور خراج عقیدت پیش کرتی ہے ان صحافیوں کو جنہوں نے آزادی کے اظہار کے لئے طویل جنگ لڑی ہے۔ ہم تو خود اپوزیشن میں بیٹھے ہیں، یہ میڈیا ہی تو ہے جس کے ذریعے ہماری آواز لوگوں تک پہنچ رہی ہے تو ہم کیسے آزادی اظہار کے خلاف ہو سکتے ہیں، آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں لگ رہی اور نہ ہم اس کا ساتھ دیں گے لیکن جب ہم آزادی اظہار کی بات کریں گے تو پھر ذمہ دارانہ صحافت کی بات بھی ہو گی، آج ہمیں ذمہ دارانہ صحافت کی ضرورت ہے۔ اب آئی ایس آئی سے تعلقات کے حوالے سے جو بات آپ نے پوچھی ہے تو بات بہت دور تک جائے گی، فلاں صوبے کی وزارت اعلیٰ، فلاں اتحاد اور پھر بڑی جماعت کس نے بنائی، یہ ایک لمبی داستاں ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اب تحریک انصاف پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ یہ 30اکتوبر کو جو جلسہ تھا وہ تو فلاں ادارے یا شخصیت کے مرہون منت تھا، چلو خیر وہ شخصیت پھر ریٹائر ہو گئی چلی گئی، تو پھر 23مارچ کو جو اسی مقام پر جلسہ تھا وہ 30اکتوبر سے بڑا تھا تو وہ کس کی مرہون منت تھا، پھر 11مئی کو جو 78لاکھ ووٹ ملا وہ کس کی مرہون منت تھا، یہ الزام اس 78لاکھ پاکستانیوں کی تضحیک ہے، یہ اس کے شعور اور سوچ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ پھر ایک اور منطق اس میں یہ ہے کہ جن کے ساتھ ہمیں جوڑا جا رہا ہے، ان کے ساتھ ہماری محبت کی اتنی بڑی پینگیں تھیں تو پھر تحریک انصاف کو تو برسراقتدار ہونا چاہیے تھا، ہم پورے پنجاب میں صرف 6سیٹیں کیوں لے کر بیٹھے ہیں، (مسکراتے ہوئے) قومی اسمبلی کی پنجاب میں 148سیٹیں ہیں تو اگر وہ ہمارے اتنے ہی قریب تھے تویار ہمیں کم از کم 60سیٹیں تو دلواتے۔ یہ افسوسناک پہلو ہے ہماری سیاست کا کہ ہم دوسروں کے حقائق کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس الزام میں کوئی صداقت نہیں بلکہ ایسی باتوں پر ہمیں ہنسی آتی ہے۔
ایکسپریس: کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کیا عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے؟ گزشتہ دور حکومت میں شہباز شریف کے ساتھ جب نواز شریف یا دیگر سینئر رہنما بیٹھ کر سرکاری اجلاس کی صدارت کرتے تو تحریک انصاف تنقید کرتی آج عمران خان چھوڑیے جہانگیر ترین کے پی کے، کے معاملات چلانے میں دخل اندازی کر رہے ہیں تو اس پر کیا کہیں گے؟
شاہ محمود قریشی: دیکھیں! خان صاحب کا وہاں کوئی ایگزیکٹو کردار نہیں ہے، میں آپ کو چیلنج سے کہتا ہوں کہ آپ پختونخوا کے کسی سینئر افسر سے پوچھ لیں، چیف سیکریٹری ہیں، آئی جی ہیں اور بھی کسی افسر سے پوچھ لیں کہ عمران خان یا پارٹی کے کسی سینئر عہدیدار نے کے پی کے میں تقرر و تبادلے یا ٹھیکوں میں کوئی دخل اندازی کی ہو۔ خان صاحب کا کردار بطور پارٹی چیئرمین ہے، کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کو جو مینڈیٹ ملا ہے وہ خان صاحب کے فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے ملا ہے اور عمران خان اس مینڈیٹ کو لیڈ کرتے ہیں۔ ہر بالغ جمہوریت میں سیاسی پارٹی اور اس کی حکومت میں ایک تعلق ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر آج برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے لیکن پارٹی کا چیئرمین کوئی اور شخصیت ہے، اب کنزرویٹو پارٹی اپنے وزیراعظم سے یہ توقع کر سکتی ہے کہ یہ ہمارا منشور تھا، جس پر ووٹ ملے تو آپ ہمیں بتائے کہ آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ ہم بھی اسی چیز کو سامنے رکھتے ہوئے صرف مانیٹرنگ کر رہے ہیں مداخلت نہیں۔ جہانگیر ترین کا جو معاملہ ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پارٹی نے صوبائی حکومت کے کہنے پر ایک ایڈوائزری بورڈ بنایا ہے، جس کا کوئی ایگزیکٹو فنکشن نہیں ہے، مثال کے طور پر ہم نے کے پی کے میں صحت کا انصاف پروگرام شروع کیا، جس میں ہمارے دوستوں یعنی ایڈوائزری بورڈ نے صوبائی حکومت اور وزارت صحت کو تجاویز دیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں سے جو پولیو ورکر بھاگ رہے تھے آج وہ ٹک گئے ہیں اور وہاں صحت کا انصاف پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر اور بل گیٹس نے تعریف کی۔
گزشتہ روز (جب انٹرویو ہوا) کے پی کے میں تعمیر اسکول پروگرام شروع ہوا، جس کے لئے ہم نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے بجائے اندورن و بیرون ملک پاکستانیوںکو دعوت دی ہے کہ آئو اپنا ملک سنوارو، تو ہم نے تو ایک نیا رجحان متعارف کروایا ہے۔یعنی پاکستان کا کوئی بھی شہری اسکول کے اندرجو سہولت درکار ہے اُس کا بندوبست اپنی جیب سے کر سکتا ہے۔ اسی طرح ہم نے کے پی کے، کے انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کی، اب محکمہ پولیس کو لے لیں،آپ جا کر عام شہریوں سے پوچھیں، وہ آپ کو بتائیںگے کہ پولیس میں کسی ایم این اے و ایم پی اے کی کوئی مداخلت نہیں ہے، تحریک انصاف نے وہاں ایک نیا سیاسی کلچر متعارف کروایا ہے، کرپشن کا گراف بہت حد تک نیچے آ گیاہے۔ مداخلت کرنا مقصد تھا نہ ہے صرف مانیٹرنگ اور رہنمائی کرنا مقصود ہے۔
ایکسپریس: آبائی حلقہ این اے 148سے انتخابات ہارنے میں غیروں کے ساتھ اپنوں کا کتنا کردار ہے یعنی بھائی مرید حسین قریشی سے اختلافات نے ہار میں کتنا کردار ادا کیا؟۔
شاہ محمود قریشی: دیکھیں! این اے 148وہ حلقہ ہے جہاں کے مکینوں کا میں آج پھر آپ کے توسط سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے مجھے 1985ء، 1988ء،1990ء،1993ء، 2002ء اور پھر 2008ء میں کامیابی حاصل ہوئی، تو مجھے یہاں سے 6بار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن گزشتہ الیکشن میں اس حلقہ سے تین قوتیں الیکشن لڑ رہی تھیں، پھر میں ایک سے زائد حلقوں سے الیکشن لڑ رہا تھا، پھر یہاں ایک ضمنی انتخاب ہوا جس میں پارٹی نے بائیکاٹ کیا تو بہت سے ہمارے دوست کچھ ناراض ہو گئے۔ میں نے اس نشست سے ایک اصولی موقف پر استعفیٰ دیا حالاں کہ اگر میں چاہتا تو مستعفی نہ ہوتا کیوں کہ بہت سارے لوگوں نے پارٹیاں بدلیں لیکن سیٹ نہیں چھوڑی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جب میں ایک پارٹی پر تنقید کر رہا ہوں تو اس کے پلیٹ فارم سے جیتی سیٹ کیوں رکھوں ،تو میں پہلا بندہ تھا جس نے اصول پر وزارت خارجہ چھوڑی اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیا۔ این اے 148 میں لوگوں نے اس بار کسی اور کو نمائندگی کا حق دیا جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔ میری شکست میں بالکل اپنوں نے بھی کردار ادا کیا، جنہیں بیرونی ہاتھ نے بھی استعمال کیا، جسے سب جانتے ہیں۔
ایکسپریس: آپ کے حلقہ انتخاب کی بات کریں تو مقامی مسائل کے حوالے سے لوگ مایوس ہو رہے ہیں، گزشتہ دور میں ملتان شہر کی دونوں سیٹیں ن لیگ کے پاس تھیں اور آج دونوں شہری نشستیں پی ٹی آئی کے پاس ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ لوگ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ تخت لاہور کو کیا روئیں آپ بھی انہیں نہیں ملتے، ملتان سے زیادہ آپ لاہور یا اسلام آباد میں وقت گزارتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی: پہلی بات تو یہ ہے کہ ملتان کی آپ نے زبوں حالی کا ذکر کیا، اس وقت مرکز اور صوبہ میں ن لیگ کی حکومت ہے اور ہمیں کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔ ہمارے پاس جب فنڈز نہیں ہوں گے تو ہم تو لوگوں کے رونے میں صرف شامل ہو سکتے ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہیں، ایسا نہیں کہ ہمیں کام کرنے کا انداز نہیں آتا، ہمیں کام کرنے آتے ہیں اور کئے ہیں۔ اپنے حلقے میں ماضی میں جو کام کروائے لوگ آج بھی ان کی مثالیں دیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ دیانتداری، صاف گوئی اور لوگوں کی بھلائی کی سیاست کی ہے۔ مقامی لوگوں سے ہمیشہ رابطہ رکھا ہے کیوں کہ اگر رابط نہ ہوتا تو میں بار بار منتخب نہیں ہو سکتا تھا، میں ملتان کا ضلع ناظم بھی رہ چکا ہوں۔ ہر ویک اینڈ پر میری اولین کوشش ہوتی ہے کہ حلقے میں پہنچوں اور چلا بھی جاتا ہوں، آج بھی اس انٹرویو کے بعد سیدھا ملتان جا رہا ہوں۔ وہاں لوگوں کے دکھ، سکھ میں شریک ہوتا ہوں، ان کی بات سنتا ہوں۔
اچھا اب دوسری بات یہ ہے کہ میرے حلقے والے سمجھدار ہیں، وہ جانتے ہیں کہ میں صرف ایم این اے نہیں بلکہ ایک قومی جماعت کا وائس چیئرمین بھی ہوں، اس وائس چیئرمین سے پارٹی کی بھی کچھ توقعات وابستہ ہوتی ہیں، جو ملکی سطح پر مجھے پوری کرنی ہیں۔لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ میں نہ صرف جماعت کا وائس چیئرمین ہوں، میں قومی اسمبلی میں جماعت کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی ہوں۔ تو اسمبلی کی جتنی بھی کارروائی ہوتی ہے اسے میں نے دیکھنا ہوتا ہے، بل آرہے ہیں، قراردادیں پیش ہورہی ہیں، پارلیمانی میٹنگز ہیں،جو عمران خان صاحب کی عدم موجودگی میں مجھے چیئرکرنی پڑتی ہیں۔ مجھے کنڈکٹ کرنا پڑتا ہے، اپنی پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کرنی پڑتی ہے تو ٹائم تواتنا ہی ہے دن میں گھنٹے تو چوبیس ہی ہوں گے نہ۔ ہفتے میں دن تو سات ہی ہوں گے۔ مہینے میں دن بھی 30 ہوں گے۔ تو اب اس کے اندر رہتے ہوئے دیانتداری سے وقت دینے کی کوشش کرتے ہیں اور مزید کریں گے۔
ایکسپریس: جنوبی پنجاب کے لوگوں کی محرومیوں کی بات ہوتی ہے۔اقتدار اور اختیار کی بات کی جائے تو اس دھرتی سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قومی سطح پر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن اِس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ابھی پچھلے دنوں سوا ارب روپے کے فنڈز جو جنوبی پنجاب کے سکولوں کی بہتری کیلئے مختص کیے گئے تھے وہ اپر پنجاب کو دے دیئے گئے؟
شاہ محمود قریشی: دیکھیے اس پر بالکل بات ہوئی تھی۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں۔ MDA کے لیے فنڈ رکھے گئے تھے۔ Multan Development Authority کے لیے۔ اسی پنجاب حکومت نے MDA کا وہ پیسہ لاہور منتقل کیا، پچھلے دور میں، میں نے پچھلے دور کی بات کی ہے۔ اب آپ نے اس دور کی مثال دی ہے۔ یہ تسلسل چلا آرہا ہے۔
جنوبی پنجاب زراعت کا علاقہ ہے۔ زراعت کے بارے میں اس حکومت کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔ پھٹی، کپاس کی بہت بڑی فصل ہے، پاکستان کی 85 فیصد کپاس جنوبی پنجاب پیدا کرتا ہے۔ لیکن کاشت کار کو صحیح قیمت نہیں ملتی۔ ٹیوب ویل کے بلوں پر لوگوں کا بڑا اعتراض رہا ہے۔ اب بھی لوگوں کا احتجاج ہے کہ بل بڑھا دیئے گئے ہیں۔ پہلے پورے پاکستان میں گندم کی قیمت خرید یکساں ہوتی تھی، لیکن اس وقت سندھ کے کاشتکار کو پنجاب کے کاشتکار سے 50 روپیہ فی من زیادہ دیا جارہا ہے۔ میرا سوال ہے کہ پنجاب کے کاشتکار کو 50 روپے فی من سے محروم کیوں کیا جارہا ہے؟ حکومت پنجاب کو دکھائی نہیں دے رہا ۔
ہمارے ہاں جتنی بھی پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں، بیورو کریسی کے ذریعے ہوتی ہیں۔ بیورو کریسی کے اندر جنوبی پنجاب کی نمائندگی محدود ہے۔ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ چنانچہ جو پالیسی بناتے ہیں اور اس کا اطلاق کراتے ہیں، ان کا اس علاقے سے تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ وہ علاقہ ان کی نظر میں آتا نہیں ہے اور پنجاب میں تو پانچویں دفعہ حکومت ایک ہی جماعت کو ملی ہے اور ان کی ترجیح دوسرے علاقے ہیں۔ اس چیز کو بنیاد بناتے ہوئے میں نے ایک آئینی ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش کیا تھا ۔ حکومت ملازمتیں دیتی ہے نہ مختلف علاقوں کو۔ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے۔میں نے کہا کہ جب سندھ میں دیہی سندھ کی پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے الگ سے کوٹا مختص کیا جاتا ہے، اسی طرح جنوبی پنجاب کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے پنجاب کے کوٹے کو، دوسرے صوبوں کو متاثر کیے بغیر، آبادی کے لحاظ سے جنوبی اور شمالی پنجاب میں تقسیم کیا جائے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی کے اعتبار سے وہاں کے لوگوں کو ملازمتیں دیں اور پھر میرٹ پر ان کا انتخاب کریں۔
وہاں سے لوگ آپس میں مقابلے کے ذریعے آگے آئیں، اس طرح سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو سرکاری ملازمتوں میں نمائندگی ملنا شروع ہوجائے گی اور جب وہ لوگ سینئر پوسٹوں پر آئیں گے، تو آپ ان کی پوسٹنگ وہاں کریں گے تو وہ خوشی سے وہاں چلے جائیں گے۔ اب آپ کسی کی پوسٹنگ بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، احمد پور شرقیہ وغیرہ کردیں تو پہلا کام وہ یہ کرتا ہے کہ سیاستدانوں اور بااثر افراد کی سفارش تلاش کرکے اپنا تبادلہ لاہور یا قریبی اضلاع کی طرف کرا رہا ہوتا ہے۔ اگر ان علاقوں کے آفیسر یہاں ہوں گے تو انہیں بھی اپنے علاقوں کے لیے فطری کشش ہوگی اور وہ اس کو سمجھتے بھی ہوں گے اور حکومت کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اگر اسمبلی میں پیش کیا ہوا بل منظور ہوجاتا ہے تو جنوبی پنجاب کی بیورو کریسی میں نمائندگی بڑھ جائے گی اور پالیسی سازی میں بھی وہ شامل ہوں گے جس کا علاقے پر مثبت اثر پڑے گا۔
ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوجائے گا؟
شاہ محمود قریشی:مسئلہ حل ہوسکتا ہے بشرطیکہ آپ کی نیت ٹھیک ہو اور آپ نیک نیتی سے مسئلے کا حل تلاش کریں۔ دیکھے آپ پچھلے دس سال سے اس جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور طاقت، پیسے، مہارت کے اعتبار سے آپ سے کہیں بہتر نیٹو افواج بھی طالبان کو ملٹری شکست نہیں دے سکے۔ اگر یہ درست ہے تو اس کے بعد انہوں نے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ہے اور اسے بین الاقوامی کمیونٹی کی تائید حاصل ہے۔ وہPolicy of Reconcilation & Policy of Reintegration لے کر آئے ہیں۔ ہم نے 6000 چھوٹے بڑے آپریشن فاٹا، سوات، قبائل اور دیگر علاقوں میں کیے ہیں، جن میں 200 بڑے آپریشن ہیں، اس میں بہت بہتری بھی ہوئی ہے، ہماری افواج نے دہشت گردوں کو نشانہ بھی بنایا ہے، ہم پاک فوج کی قربانیوں اور کارناموں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود دہشت گردی جوں کی توں کھڑی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ فوجی کارروائی سے ہم نے جو کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی، اس میں ہمیں وہ کامیابی نہ مل سکی، جس کی ہمیں توقع تھی۔ تو اب کیا کریں؟ تحریک انصاف نے ایک حکمت عملی پیش کی ہے، اور ہماری حکمت عملی کے نکات یہ ہیں۔ Disengage، Isolate اور Eliminate کہ امریکی جنگ سے اپنے آپ کو نکالا جائے تاکہ دہشت گردوں کا جو جہادی Narrative ہے وہ ختم ہو۔ ہم نے ڈرون حملوں کے خاتمے کی بات کی کہ اس میں بچے، عورتیں اور عام شہری مارے جاتے ہیں، جس سے دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہم جب وزیرستان مارچ لے کر جارہے تھے تو لوگوں کا کہنا تھا کہ آپ وہاں کیا کرنے جارہے ہو؟ لیکن ہمارے اس اقدام کی وجہ سے یہ مسئلہ دنیا کے سامنے آیا ہے اور آج مغرب بھی یہ مانتا ہے کہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہئیں۔ ہم کہتے ہیںکہ پہلے امریکی جنگ سے اپنے آپ کو نکالا جائے، تاکہ لوگوں میں دوسرے فریق کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ پھر ان کو مذاکرات کی دعوت دیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا طبقہ ہے جو جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس جنگ کے دوران بہت سے لوگ بے گھر ہوئے ہیں، ان کا سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، وہ دوسرے شہروں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس پناہ گزین کمیپوں میں رہ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ واپس اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں اور بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ہاں ہم مانتے ہیں کہ ایک طبقہ ایسا ہے جو ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ڈگر پر قائم رہے گا۔ خود وزیر داخلہ چوہدری نثار اس بات کی تائید کرچکے ہیں کہ 70 سے 80 فیصد گروپ ایسے ہیں جوکہ محفوظ راستہ چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ امن کے خواہش مند گروپوں کو جنگ پر آمادہ گروپ سے الگ کیا جائے تاکہ ہمیں قبائلیوں کی حمایت حاصل ہوسکے۔ ہم ان کا تعاون چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے علاقے میں ترقی، امن اور باعزت روزگار چاہتے ہیں۔ لیکن ایک طبقہ ایسا نہیں چاہتا۔ ان شرپسند عناصر کی شناخت کرکے ان کے خلاف آپریشن کیا جائے اور یہ تیسرا مرحلہ ہے Eliminate کرنے کاہے۔ ہم کہتے ہیں کہ صرف ان عناصر کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے جو ہر حال میں لڑنا چاہتے ہیں۔ حکومت اور فوج دونوں اس پالیسی کو تسلیم کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کی اس حکمت عملی سے قومی سطح پر اس پر اتفاق رائے پیدا ہوچکا ہے۔ انتخابی اصلاحات کے لیے یہ تحریک انصاف ایک نیا علم اٹھا کر نکلی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اس پر بھی اتفاق رائے پیدا کرکے دکھائیں گے۔
ایکسپریس:کن موضوعات پر کتابیں زیادہ دلچسپی سے پڑھتے ہیں؟
شاہ محمود قریشی:طالب علم کی حیثیت سے میں نے اکنامکس پڑھی ہے، اگرچہ میں اس میں اپنے آپ کو کوئی ماہر تصور نہیں کرتا، لیکن اکنامکس کے مضمون میں میری دلچسپی پیدا ہورہی ہے۔ ایک سیاستدان کی حیثیت سے بھی ہمیں لوگوں کے مسائل حل کرنا ہوتے ہیںاور لوگوں کا بنیادی مسئلہ معاشی ہے، جس سے دوسرے مسائل جڑے ہیں۔ پھر میں پنجاب کا وزیر خزانہ رہا ہوں۔ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کا وزیر بھی رہا ہوں۔ اس لیے معیشت میں میری دلچسپی رہی ہے۔ لٹریچر زمانہ طالب علمی تک پڑھا ہے۔ لیکن مجھے دوسرے لوگوں کی طرح اشعار ازبر نہیں ہیں، جیسا کہ مرحوم نوبزادہ نصراللہ خان کو ہوتے تھے۔ موسیقی سے بھی مناسب لگائو ہے۔ مغربی موسیقی کی نسبت مشرقی موسیقی میں دلچسپی ہے۔ خاص طور پر سرائیکی میں خواجہ غلام فرید کی جو کافیاں ہیں وہ پسند ہیں۔
ایکسپریس:فرصت کے لمحات میسر آجائیں تو کیسے گزارنا پسند کرتے ہیں؟
شاہ محمود قریشی:فرصت کا لمحہ اول تو ملتا ہی نہیں ہے (ہنستے ہوئے) لیکن اگر مل جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ اپنی فیملی اور بچوں کے ساتھ وقت گزاروں۔ بچے ماشاء اللہ اب بڑے ہوگئے ہیں۔ ان کے ساتھ بحث ہوسکتی ہے، گفتگو ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ میرے تین بچے ہیں۔ سارے یونیورسٹی گریجویٹس ہیں۔ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ صاحب الرائے ہیں۔ اس لیے ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے بچپن میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے انہیں اسی طرح وقت نہیں دے سکا، جیسے دینا چاہیے تھا۔ اس لیے اب زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ جیسے ہی فرصت ملتی ہے، لاہور بچوں کی طرف آجاتا ہوں۔ میری شادی لاہور کی ہی ایک فیملی میں 1983ء میں ہوئی۔
ایکسپریس: سکول، کالج میں کس کھیل سے زیادہ دلچسپی رہی ہے؟
شاہ محمود قریشی:کھیل وغیرہ تو بہت کھیلے ہیں، میں اتھلیٹ تھا، باسکٹ بال کھیلی، گھڑ سواری بھی کی۔ ایک دفعہ حادثہ بھی پیش آیا، جس میں آنکھ کو شدید چوٹ لگی، لیکن شکر ہے کہ بچ گئی۔
ایکسپریس:کوئی ایسا واقعہ جو ناقابل فراموش ہو اور آپ کے ذہن پر نقش ہوگیا ہو۔ اگر ہمارے ساتھ شیئر کرنا چاہیں۔
شاہ محمود قریشی:میں سمجھتا ہوں کہ جس تجربے نے مجھے زیادہ متاثر کیا، وہ میری والدہ کی علالت ہے۔ میں ان دنوں بیرون ملک پڑھ رہا تھا، وہ بھی برطانیہ میں علاج کے لیے مقیم تھیں۔ انہیں کینسر تھا تو اُن کے تکلیف کے دنوں میں، میں اُن کے قریب رہا۔ اِس دور کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ میرے اور ان کے درمیان قربت بھی بہت تھی بلکہ میرے بہن، بھائی مذاق میں والدہ سے کہتے بھی تھے کہ آپ کا انتخاب بہت خوب ہے۔ ہم پانچ بھائی بہن ایک پلڑے پر ہوجائیں اور یہ ایک پلڑے میں تو ترازو برابر ہوجاتا ہے۔ تو ان کی شخصیت کا مجھ پر بہت اثر ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کا سیاسی سفر
22 جون 1956ء کو پیدا ہونے والے مخدوم شاہ محمود قریشی کا تعلق اولیاء اللہ کی دھرتی ملتان کے ایک معروف مذہبی اور سیاسی خاندان سے ہے۔ شاہ محمود کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی مزار شاہ رکن عالمؒ اور دربار حضرت بہائوالدین زکریاؒ کے سجادہ نشین ہونے کے ساتھ ایک معروف سیاستدان بھی تھے۔ مخدوم سجاد حسین ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1985ء سے 1988ء تک پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ شاہ محمود قریشی نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور اور بیچلر ڈگری ایف سی کالج سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے انھوں نے انگلینڈ کا رخ کیا جہاں یونیورسٹی آف کیمبرج سے انھوں نے قانون و سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ شاہ محمود قریشی پہلی بار 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں ملتان سے رکن پنجاب اسمبلی بنے، 1986ء میں انھوں نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی، جس کی قیادت محمد خان جونیجو کر رہے تھے۔
1988ء میں ضیاء الحق کی وفات کے بعد جب مسلم لیگ دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو شاہ محمود، میاں نواز شریف والے دھڑے سے جا ملے۔1988ء کے انتخابات میں وہ دوبارہ ملتان سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تو وزیراعلٰی نواز شریف کی کابینہ میں انھیں (نومبر 1988ء سے اگست 1990ء تک) وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ نواز شریف کے دور حکومت (1990ء سے 1993ء) میں وہ وزیرخزانہ بھی رہے لیکن بعدازاں وہ مسلم لیگ چھوڑ کر 1993ء میں پاکستان پیپلزپارٹی میں چلے گئے، جس کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں۔ 1993ء کے عام انتخابات میں قریشی ملتان سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو انھیں وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور بنا دیا گیا۔ 1997ء کے انتخابات میں شاہ محمود قریشی کو جاوید ہاشمی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2000ء سے 2002ء تک وہ ضلع ناظم ملتان بھی رہے، پھر 2002ء اور 2008ء میں وہ پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے مسلسل رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اس دوران 2006ء میں انھیں پیپلزپارٹی پنجاب کی صدارت بھی دے دی گئی۔ 2008ء کے عام انتخابات کے بعد جب پیپلزپارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت قرار پائی تو شاہ محمود قریشی وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرے تاہم آصف علی زرداری کا جھکائو یوسف رضا گیلانی کی طرف تھا۔ یوں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وزیرخارجہ بنا دیا گیا۔
2011ء میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملہ پر شاہ محمود قریشی نے مضبوط اور عوامی موقف اپنایا تو انھیں وزارت خارجہ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بعدازاں پیپلزپارٹی کا ق لیگ کو حکومت میں شامل کرنے کے فیصلہ پر قریشی نے احتجاجاً پیپلزپارٹی اور قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑ دی۔ 27 نومبر 2011ء میں شاہ محمود قریشی نے گھوٹکی میں منعقدہ ایک جلسہ کے دوران پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں انھوں نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور کامیاب قرار پائے۔ دربار حضرت شاہ رکن عالمؒ اور دربار حضرت بہائوالدین زکریاؒ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی آج پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی ہیں۔ذیل میں ایکسپریس کے ساتھ اُن کے انٹرویو کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں۔
حامد خان کے حلقے میں ووٹوں کی تصدیق کے عمل کے دوران صرف73پولنگ بیگ سلامت ملے باقی کی سیلیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور بعض بیگز میں ردی اخبار بھرے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔
جو شخص انتخابات کے دوران سب سے بڑے صوبے کا نگران وزیراعلیٰ رہا اُسے نومنتخب حکومت سے کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا
۔۔۔۔۔
ایک طرف پی ٹی وی میں اصلاحات کی بات ہوتی ہے، دوسری جانب اسے کرکٹ سیریز کے نشریاتی حقوق لینے سے روک دیا جاتا ہے جس سے ڈیڑھ ارب روپے کا ریونیو ملتا
۔۔۔۔۔
ایک میڈیا گروپ کے چینل نے ساڑھے پانچ بجے ہی پہلا نتیجہ دکھا کر ایک جماعت کی برتری کا تاثر پیدا کرنا شروع کردیا تھا، ہم نے اِس چینل میں کام کرنے والے اپنے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ آپ نے اپنی غیر جانبداری پر خود ہی سمجھوتہ کرلیا ہے
۔۔۔۔۔
’’ریکارڈ کی درستگی کے لیے بتانا چاہتا ہوں کہ نوازشریف خود چیئرمین عمران خان سے ملنے نہیں آئے بلکہ انہوں نے دعوت دے کر انہیں مدعو کیا تھا‘‘
۔۔۔۔۔
خیبر پختونخوا کے کسی بھی افسر سے پوچھ لیں کہ آج تک اُن کے کام میں پارٹی کی طرف سے کتنی مداخلت ہوئی ہے
۔۔۔۔۔
روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے
کشمیر پر ہمارے موقف کو درست تسلیم کرنے کے باوجود اکثر ممالک اپنے تجارتی مفادات کے زیر اثر ہمارا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں
تحریک انصاف چین کی اہمیت کو سمجھتی ہے۔ روس بھی اس خطے کا اہم ملک ہے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں، اقوام متحدہ کی سطح پر، سکیورٹی کے معاملات کے لیے اور دوسرے امور پر ہمیں ان کا تعاون حاصل ہے۔ جب میں وزیر خارجہ تھا، ہم نے چین سے روابط میں بہتری کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی بنائی۔ آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آگے چل کر امریکہ سے بھی آگے نکل جائے گا۔ یہ ہے کہ، ماضی میں ہم نے سکیورٹی کے حوالے سے ان سے مدد حاصل کی ہے کہ جب ہمیں کوئی اور راستہ نہیں ملا تو ان سے مدد لی۔ لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ تعلقات کو تجارتی روابط کی طرف موڑنا چاہیے کیونکہ اس کے پاس بہترین ٹیکنالوجی اور معیار دستیاب ہے جس کی وجہ سے انہیں یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے۔ ہمیں بھی اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی مدد سے اپنے توانائی بحران اور دوسرے مسائل کا حل کرنا چاہیے۔
روس کے ساتھ بھی ہمیں اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ جب میں وزیر خارجہ تھا تومیں نے خالد خٹک صاحب، جو روس میں پاکستان کے سفیر تھے، ان کو کہا کہ ہم نے روس کے ساتھ روابط بہتر کرنے ہیں اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے یہ اور بات ہے کہ ایک دورہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ یہ میرے دور کے بعد کی بات ہے۔ لیکن ہمیں روس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ یہ بڑی مارکیٹ ہے۔ توانائی کے میدان میں اور سینٹرل ایشا میں تجارت کے حوالے سے ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ سابقہ سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاستوں کے ساتھ ہمارے اچھے ثقافتی تعلقات ہیں جن کو فروغ دینا چاہیے۔ ادھر کا جو بڑا تجارتی راستہ ہے جسے ہم نے استعمال نہیں کیا، اسے بھی استعمال کرنا چاہیے اور دوسری بات یہ ہے کہ چین اور روس کے آپس کے تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ روس پڑوسی ملک ہے اور انہوں نے بھی اپنے تعلقات پر نظرثانی کی ہے، تو پاکستان کو بھی روس کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یورپ اور امریکہ سے اپنے تعلقات بگاڑ لیں۔ امریکہ کی اپنی اہمیت ہے۔ فرق یہ ہے کہ ہمیں دوستی کرنی چاہیے، لیکن غلامی نہیں۔
کرائمیہ کا ریفرنڈم کے ذریعے روس کے ساتھ الحاق اور اِس اصول کے مقبوضہ کشمیر پراطلاق کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا :عالمی طاقتیں سمجھتی ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے توکشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ تجارت وغیرہ کی بحالی سے فضا سازگار تو ہوسکتی ہے، لیکن اعتماد کا فقدان اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔
عالمی طاقتیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دو مسئلے ایسے ہیں، جو فوری طور پر حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حل نہیں ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر سیاچن کا مسئلہ ہے، جب میں وزیر خارجہ تھا، میری بات ہوتی تھی بھارت کے وزیر خارجہ پرناب مکھرجی سے، جواب بھارت کے صدر ہیں۔ کہ ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ جس میں دونوں ملکوں کا فائدہ ہے، بلکہ ہندوستان کا زیادہ مالی فائدہ ہے۔اس طرح سرکریک کا مسئلہ ہے۔ یہ حل کیاجاسکتا ہے۔ اگر یہ دونوں مسئلے حل ہوجائیں، تجارت شروع ہوجائے، لوگ آنے جانے لگیں تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی، مگر اسے حل کیے بغیر ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں ٹھہرائو پیدا نہیں ہوسکتا۔
ہندوستان چونکہ بہت بڑی مارکیٹ ہے اور G20 میں شامل ہے۔ اس لیے بہت سی بڑی طاقتیں کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو درست سمجھتے ہوئے کہ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہے، اس مسئلے میں پڑنے سے کتراتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ تو آپ کا دوطرفہ مسئلہ ہے اور آپ دونوں مل کر اسے حل کریں۔ ہم آپ کی مدد تو کرسکتے ہیں لیکن تیسرا فریق نہیں بن سکتے کیونکہ ہندوستان ایسا نہیں چاہتا اور جب دو طرفہ بات چیت ہوتی ہے تو اس میں ممبئی آڑے آجاتا ہے۔ اس طرح بات آگے بڑھ نہیں پاتی۔ کشمیری لوگوں کا جو حق خود ارادیت ہے جووہاں کے لوگوں کوملنا چاہیے، بدقسمتی سے دنیا اس پر ہمارا ساتھ نہیں دے رہی۔ بلکہ کچھ اسلامی ممالک بھی اس میں بچ بچائو والا کردار ادا کررہے ہیں۔
کرائمیہ کا جو ریفرنڈم ہے، جس میں وہاں کے لوگوں نے روس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے،اسے تو مغرب نہیں مانتا۔ اور وہ اس پر اب بھی اعتراض کررہے ہیں۔ لیکن میں یہ بھی عرض کردوںکہ یہ ہندوستان کے اپنے مفاد میں ہے، اگر وہ اس خطے اور عالمی سطح پر قابل ذکر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے ہوں، کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج ہوگی، بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور امتیازی قوانین ہوں گے، انتخابات کے دوران وہاں کی قیادت کو نظر بند کردیا جائے گا تو یہ سب ان کے اپنے مفاد میں نہیں ہے۔
ملتان کے لیے اٹلی سے آئے 10 ملین (ایک کروڑ) ڈالر اندرون لاہور پر لگانے کی کوششیں ہو رہی ہیں
جب میں وزیر خارجہ تھا تو اٹلی سے ہم نے بات چیت کی اور اٹلی کی حکومت نے ملتان کی قدامت اور تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ برصغیر کے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک ہے، اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملتان کے لیے ایک Pakage مقرر کیا اور ملتان کے لیے 10 ملین ڈالر اٹلی کی حکومت نے مختص کئے۔ آپ 10 ملین ڈالر کے روپے بنالیں۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کتنی بڑی رقم ہے۔ اس کے مطابق انہوں نے وہاں سروے کیا اور پھر وہاں ڈویلپمنٹ کا ایک پلان مرتب کیا، اس 10 ملین ڈالر کو سامنے رکھتے ہوئے۔ اس میں 1 ملین ڈالر اس کی فزیبلٹی پر خرچ آیا۔ پورا پلان مرتب ہوگیا۔
یہ 10 ملین ڈالر پنجاب کو مل چکا ہے جس میں فزیبلٹی رپورٹ پر ایک ملین ڈالر خرچ ہوگیا۔ نو ملین ڈالر پڑا ہے، جو ملتان کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن یہ کام رک گیا ہے۔ کیوں رک گیا ہے؟ کیونکہ اٹالینز کو کہا جارہا ہے کہ یہ پیسہ آپ ملتان کی بجائے Walled city of Lahore کے لیے مختص کردو۔ کیوں؟ جب اس قسم کے اقدام آپ کریں گے تو ملتان کے لوگوں میں احساس محرومی اور بے چینی پیدا کیونکر نہ ہوگی اور یہ مثال آپ کو ملے گی ہر میدان میں۔
جلاوطنی سے واپسی پر بے نظیر دین کی طرف مائل ہوگئی تھیں
محترمہ کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، وقت کے ساتھ ساتھ انہیں سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مجھے دیکھا بھی،آزمایا بھی، اور مجھ پر بے پناہ اعتماد بھی کیا۔ مثال کے طور پر جب انہوں نے مجھے پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر مقرر کیا، تو ان کے بہت قریبی لوگ تھے وہ کسی اور کا نام چاہتے تھے، لیکن انہوں نے مجھے ترجیح دی۔اسی طرح 2002ء میں بہت سے سینئر لوگ پارٹی میں موجود تھے، لیکن انہوں نے وزیراعظم کا امیدوار مجھے نامزد کیا۔ اگرچہ ہماری پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں تھی۔ لیکن یہ ان کا مجھ پر اعتماد کا اظہار تھا۔ میں نے دیکھا کہ جلاوطنی سے واپسی پر آخری دنوں میں ان کی شخصیت میں تبدیلی آئی، ایک تو ان کے مزاج میں نرمی آئی اور دوسرے یہ کہ وہ دین کی طرف مائل ہو گئیں۔