یوں تو ایک صحت مند معاشرے کے لیے عورت اور مرد دونوں کی ذہنی اور جسمانی صحت نہایت اہم ہے، لیکن ہمارے ہاں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ذہنی صحت جیسے مسائل اور ڈپریشن کا شکار ہے۔
ذہنی مسائل ہمارے معاشرے میں زیادہ تکلیف دہ شکل اس وقت اختیار کرلیتے ہیں جب ان کا ادراک نہیں کیا جاتا ہے اور جب کسی بیماری کو سرے سے ماننے یا اس کی تشخیص کرانے ہی سے انکار کر دیا جائے تو پھر اس کا علاج یا سدباب کس طرح ممکن ہے؟ ذہنی صحت اور نفسیاتی مسائل سے برتی گئی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے پاکستان جیسے مسائل سے گھرے ملک میں پوری آبادی کے لیے صرف چار اسپتال ذہنی صحت معالجے کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔
ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ذہنی دباؤ کا شکار افراد کا تناسب تقریباً 34 فی صد ہے یعنی ہر تیسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے، جب کہ ایک اور سروے رپورٹ کے مطابق یہ تناسب 44 فی صد ہے، جس میں ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین زیادہ نفسیاتی دباؤ اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں، یعنی پانچ کروڑ پاکستانی ڈپریشن کا شکار ہیں، تو ان میں 57.5 خواتین شامل ہیں۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی ناانصافی، غربت، بے روزگاری، صحت کی مناسب سہولتوں کا فقدان سمیت دیگر عوامل جہاں خواتین میں ڈپریشن، نفسیاتی دباؤ اور ذہنی صحت سے جڑے ہوئے مسائل کی اہم وجہ ہیں، وہیں خواتین کا ان سے نظر چرانا، بروقت ادراک کے ساتھ ان کے سدِباب کے لیے اقدامات نہ کرنا بھی خواتین میں بڑھتے ہوئے ذہنی دباؤ اورڈپریشن کی وجہ ہیں۔
خواتین کی ذہنی صحت کے لیے، جو معاملہ اہم ہے، وہ ذہنی بیماریاں ہیں، جن کا ادراک، تشخیص اور پھرمستند ذہنی معالج سے علاج بہت ضروری ہے۔ مثلاً ڈپریشن، خود کو تکلیف یا نقصان پہنچانے کی خواہش، بہت زیادہ بے چینی، راتوں کو بلاوجہ جاگنا وغیرہ۔
ویسے تو ہمارے معاشرے میں عام تاثر یہ ہی ہے کہ خواتین کا بدلتا ہوا مزاج، اداسی، ڈپریشن، ذہنی دباؤ یا رویے میں تیزی ہارمونل تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، لیکن ہمیشہ ایسا ہونا ضروری نہیں، کبھی خواتین کی زندگی کے ذاتی تجربات اور حالات بھی ذہنی اور نفسیاتی مسائل یا بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔
یہاں سب سے اہم بات ذہنی اور نفسیاتی بیماری کی تشخیص ہے اور ادراک ہے، تاکہ اس مسئلے یا بیماری کا مناسب علاج کرایا جا سکے۔
خواتین کی ذہنی صحت میں ان کی جذباتی صحت، نفسیاتی صحت اور سماجی تعلقات کا گہرا تعلق ہے۔ ذہنی امراض اور مسائل کا شکار صرف گھریلو خواتین ہی نہیں، بلکہ گھر سے باہر مختلف سرگرمیوں میں مصروف ملازمت پیشہ خواتین بھی ان مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔
متوازن ذہنی صحت رکھنے والی خواتین بااعتماد اور پرکشش شخصیت کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کو بامقصد اور بامعنی بنانے اور زندگی کے مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
خواتین ذہنی مسائل سے باآسانی چھٹکارا حاصل کرسکتی ہیں، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ان کی تشخص اور ادراک کیا جائے۔
دور سے فون پر ان مسائل کے بارے میں کھل کر بات کرنا بھی بہت ضروری ہے، کیوں کہ بات کرنے کی صورت میں ہی ان مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر آپ اس حد تک ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کہ معمول سے زیادہ یا کم سو رہی ہیں یا پھر کھانے پینے کے معاملے میں کمی بیشی ہونا، جیسے بہت زیادہ بھوک لگنا یا پھر بھوک کا بالکل ہی نہ لگنا، مضبوط ذہنی اور جمسانی اعصاب، طاقت اورہمت کی کمی، خود کو رشتے داروں یا اپنے گھر والوں سے بغیر کسی وجہ کے دور رکھنا، جذباتی طور پر لاتعلقی یا کسی خوشی یا دکھ کو محسوس نہ کرنا، کسی کام میں دل چسپی باقی نہ رہنا، خود کو اندر سے کمزور محسوس کرنا، بے بنیاد خیالات کا آنا، اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا، ناقابل برداشت ناامیدی اور مایوسی محسوس کرنا، زندگی کے معاملات میں عدم دل چسپی یا یاداشت کا متاثر ہونا، بات بات پر غصہ کرنا بے حد پریشانی، ڈر، الجھن، غصہ، بغیر کسی وجہ کے دوسروں پر چیخنا، چلانا، جھگڑنا یا غصہ کرنا جیسی علامات کی صورت میں ایک اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنا بہت ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دھیان رہے کہ ذہنی صحت میں اس حد تک بگاڑ ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ خواتین خود اپنی ذہنی نشوونما اور صحت کا خیال رکھیں۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہونا سیکھیں، اپنی سوچ ہمیشہ مثبت رکھیں اور پُرامید رہیں، زندگی دکھ سکھ کا نام اس ہی لیے پریشانی یا دکھ آنے پر زندگی سے ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ اللہ کی دی ہوئی چھوٹی سے چھوٹی نعمت سے لے کر بڑی نعمت تک ہر چیز کے لیے شکرگزاری کا رویہ اپنائیں۔ صبر شکر کے ساتھ زندگی کے معاملات آگے بڑھائیں۔
ساتھ ہی اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ معاشرے کی مثبت کردار سازی میں اپنا حصہ ڈال کر بامعنی طور پر معاشرے میں اینگیج رہنا سیکھیں۔ ساتھ ہی آس پاس کے افراد اور دوستوں کے ساتھ مثبت رابطے بحال کریں اور ان کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کی عادت ڈالیں۔ اپنی شخصیت کے مثبت پہلوؤں سے آگاہ ہوں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
ورزش اور اچھی غذا کے ساتھ خود کو جسمانی اور ذہنی طور پرصحت مند رکھیں۔ نیند کا خاص خیال رکھیں۔ دوسروں کے کام آئیں اور مسائل سے نمٹنے کے مثبت طریقے اپنائیں۔
ہر وقت کام میں مصروف رہنے کے بہ جائے گھروالوں، دوستوں اور سب سے بڑھ کر خود کے لیے بھی کچھ لمحات نکالنا ضروری ہیں۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور خوب صورت لمحات کے آنے کا انتظار کرنے کے بہ جائے زندگی کو خود ہی پرمسرت بنانا سیکھیں۔
خواتین کی ذہنی صحت نہ صرف ان کی بلکہ ان سے جڑے ہوئے ہر رشتے، سوچ اور احساسات پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اس ہی لیے تو کہتے ہیں کہ دراصل ایک صحت مند خاتون ہی سے ہی بنتا ہے صحت مند گھرانہ!
The post ذہن شاد باد کیوں کر ہو۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.