ہمارے سماج میں شادی کے بعد شروع ہونے والے سفر میں کچھ مرحلے تاعمر خواتین کو یاد رہتے ہیں، جن میں وہ شدید تناؤ سے گزری ہوتی ہیں۔۔۔ پہلے بچے کی ولادت کی خوش خبری اور اس کے مراحل میں روا رکھا جانے والا سلوک۔ پھر متوقع اولاد کے صنف کے حوالے سے بحث اور اندازوں کا نہایت کوفت بھرا انداز۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ دکھ سکھ میں ساتھ دینے والے اور چھوڑ کر چلے جانے والے یاد داشت میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتے ہیں اور اس معاملے میں کیوں کہ خواتین کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے اس لیے وہ عمر کے جس بھی حصے سے تعلق رکھتی ہوں اپنی جسمانی تکلیف تو بھول جاتی ہیں لیکن زہنی تکلیف دینے والوں کو چاہ کر بھی فراموش نہیں کر پاتیں۔
دراصل شادی ایک ایسا سماجی معاہدہ ہے جس کے فریقین اس عہد کے ساتھ اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں کہ وہ مل جل کر زندگی کو آسان بنانے میں ایک دوسرے کی ڈھال بنیں گے۔
لیکن کبھی کبھی آپ جو طے کر کے اس سفر پر نکلے ہوئے ہوتے ہیں، وہ بعض اوقات آپ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا، چوں کہ شادی شدہ خواتین سب سے زیادہ سوال کے کٹہرے میں کھڑی کی جاتی ہیں، اس لیے ان مخصوص لمحوں میں شدید جذباتی سہارے کی ضرورت بھی انھیں ہی زیادہ ہوتی ہے۔
وہ اپنے خاوند اور سسرالی رشتوں سے یہ تو توقع کر رہی ہوتی ہیں کہ وہ نہ صرف ان کے لیے ڈھال بنیں، بلکہ چبھتے ہوئے لہجوں اور ایسے کچوکے لگاتے ہوئے رویوں کے نشتروں سے ان کا ایسے دفاع کریں کہ دوبارہ کسی کو ہمت نہ ہو کہ کوئی بھی دل دکھا سکے، لیکن بس وہ یہ سوچ کر رہ جاتی ہیں کیوں کہ مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ دینے کے بہ جائے یہ رشتے فاصلے پر مورچے بنا لیتے ہیں، تو تب وہ دہری اذیت میں مبتلا ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ وہ اپنی تکلیف سے نبرد آزما ہوں یا سسرالی رویوں کو برداشت کریں؟
اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ موازنہ بھی کرتی ہیں کہ ان میں سے سب سے زیادہ دل برداشتہ پہلو کیا رہا ہے؟ اور جب اس پر آگاہی کے در وا ہوتے ہیں، تو اسے ان لمحوں کے ساتھ منسلک رشتوں سے نفرت ہونے لگتی ہے، جو تاعمر کم نہیں ہو پاتی، وہ ان سے ہر وقت اس بات کی شکایت تو نہیں کرتیں، لیکن ان کی طرف سے اپنا دل ہمیشہ بیزار اور بوجھل محسوس کرتی ہیں
شادی کے فورا بعد اولاد کی نعمت کسی بھی لڑکی کے اختیار میں نہیں ہوتا ڈھکے چھپے اور پھر کچھ عرصے کے بعد کھل کر کیے جانے والے اس مطالبے پر ہر شادی شدہ لڑکی سہم جاتی ہے۔ یہ زندگی جو دو لوگوں نے مل کر شروع کی ہے اس میں سب سے زیادہ ڈراوا اسے ہی کیوں ملتا ہے یا سب زیادہ خراج اس سے ہی کیوں وصول کیا جا رہا ہے، یہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔
بہ مشکل سال بھر بعد ہی ہر آنے جانے والوں کے سامنے ایک لمبا ہنکارا بھر کر افسوس زدہ لہجے میں کہا جانے لگتا ہے کہ ’’ہمارے بیٹے کا آنگن ہی سونا ہے اس کے ساتھ جن کی شادی ہوئی وہ بیٹے کے باپ بن گئے ایک ہماری ہی قسمت پھوٹی ہوئی ہے!‘‘ کانوں میں پڑتے یہ جملے کسی بھی بہو کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
اور پھر جب اللہ مہربان ہو جائے تو پوتے کی خواہش میں صبح و شام کا راگ الاپنا فرض سمجھ لیا جاتا ہے، یہ جانے بغیر کہ وہ جنس بنانے پر قدرت نہیں رکھتی، جس دورانیے میں اس کو بہترین خوراک اور آرام کی ضرورت ہوتی ہے وہ وقت اسی ادھیڑ بن میں کسی سوکھے پتے کی طرح لرزتا ہوا گزرتا ہے کہ اگر اس کے ہاں بیٹے کی پیدائش نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟
گویا وہ عرصے بعد ملنے والی اس خوشی کو بھی ڈھنگ سے محسوس نہیں کر پاتی اور اگر اوپر تلے بیٹیوں کی پیدائش ہو جائے، تو اسے اس بہو کے مقابل لے جا کر کھڑا کیا جاتا ہے جس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوچکی ہو۔۔۔ جہالت بھرے اس ’’مقابلے کی فضا‘‘ میں روز اس کا دم گھٹتا ہے، اذیت، بے چارگی اور کم مائیگی کا احساس اسے ہر روز ادھ موا کرتا ہے ۔
بہرحال وقت اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے، لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ شادی ہر لڑکی کے لیے پھولوں کا سیج نہیں ہوتی، لیکن اسے پھولوں کا سیج بنانے کے لیے ہر عورت کوشش ضرور کرتی ہے۔ اس کی یہ کوشش کام یاب تبھی قرار پائی جا سکتی ہے، جب ان دو فریقین کے درمیان ازدواجی معاملات کو خوش گوار بنانے میں سسرال کا ہر فرد اپنا بہترین اور مثبت کردار ادا کرے۔
اپنی زہریلی اور منفی باتوں سے اپنی بہو کا دل نہ دکھائیں اور نہ ہی ہر رشتہ دار کے سامنے اس کمی کا اظہار کریں۔ بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہوئے اس کے دکھ کو محسوس کریں اور جس مرحلے پر اسے مکمل طور پر آرام اور سکون والا ماحول درکار ہوتا ہے، اسے ایسے منفی ماحول سے محفوظ رکھیں۔
سسرالی رشتوں میں سب سے بھاری ذمہ داری خاوند کی ہوتی ہے وہ اپنی بیوی کا مزاج آشنا ہو۔ کم از کم اس کی موجودگی میں تو بیوی کو تحفظ کا احساس ہو، اسے مالی مشکلات سے آزاد اور اسے ہر خوف سے بے پروا زندگی دینا مرد کے ہاتھ میں ہے ۔
عورت کی فطری چاہت اس کی حوصلہ افزائی میں پنہاں ہے، یہ حوصلہ افزائی اس کی مشکلوں کو آسان بنانے میں مددگار ہوتی ہے اس لیے اگر وہ جلد ماں نہیں بن پائی یا بچے بچ نہیں پائے ہوں، تو اس کے سامنے ایسی بات نہ کی جائے کہ اس کی دل آزاری ہو، بلکہ اس موقع پر حوصلہ افزا جملوں کا تبادلہ خیال کیا جائے، لایعنی باتوں سے احتراز کرتے ہوئے مثبت اور خوش گوار ماحول رکھا جائے، تاکہ وہ جلد اپنے ڈپریشن پر قابو پا سکے۔
دیکھا جائے تو، یہ شادی شدہ عورت کے لیے معمولی حادثے نہیں ہوتے، بلکہ یہ عورت کی ساری زندگی کو بدل کر رکھ دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی صحت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں اگر اُسے ہر وقت یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اس مرحلے پر اکیلی نہیں ہے اور اب بھی اتنی ہی اہم ہے، سب اس کے ساتھ کھڑے ہیں تو یقینا اس کے وہ زخم بھی مندمل ہو جائیں گے جو بظاہر نظر نہیں آتے۔
دوسری طرف اگر سسرال والے اس بات کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے، تو خاوند کو الگ سے اپنی زوجہ کے لیے وقت نکالنا اس کے کھانے پینے کا خیال رکھنا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے اس سے دونوں کے درمیان تعلق میں مزید مضبوطی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ میاں بیوی محض رسمی تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ یہ زندگی میں برپا اتار چڑھاؤ میں ایک دوسرے کی پناہ گاہیں ہیں ۔
The post منفی رویوں سے دوسروں کی زندگی اجیرن نہ کیجیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.