Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

اقبال شناسی…. غوروفکر کے چند پہل

$
0
0

اے عزیز‘ اب علامہ اقبال کا ہمارا معاملہ سنو!
ہم پچھلی گرمیوں میں مدراس سے کوڈائی کنال کے پہاڑی مقام پر اور پھر وہاں سے کیرالا کے چائے باغوں کی طرف چلے ۔ کوئی دو سو میل لمبی‘ ٹوٹی پھوٹی سڑک جنگلوں میں ‘ پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی‘ چھپتی ‘ اُبھرتی جا رہی تھی۔صبح ہم کار سے نکلے تھے‘ واپسی تک رات ہو گئی۔

شکار ہاتھ نہ آیا کی غیر شعور ی وجہیں تھیں کہ میں راستے بھر اقبال کی شاعری پر بات کرتا گیا اور بالآخر اپنے مشاق شکاری میزبان سے کہا کہ جناب ‘ وہ جو اس نے مرد مسلمان کے لئے کہا ہے‘ وہ خود اسی پر صادق آتا ہے۔

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو‘ وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں‘ وہ طوفان

تو کہیں وہ شبنم ہے‘ کہیں طوفان ۔ جب دل میں آگ لگی ہو‘ تشنگی ہو ذوق حیات کی‘ تو وہ شبنم کی سی تراوٹ بخشتا ہے اور جب دل دریا ہو‘ ولولوں کا ہجوم ہو تو ظالم طوفان کی سی یورش کرتا ہے۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا مگر تسکین نہ ہوئی۔ سوچا ایک بات آخر میں اور۔

جب ہم اس خلاق شاعر کے حضور میں‘ یا اس کے مخاطب ہوتے ہیں تو پوری طرح اس کے شکار ہو جاتے ہیں‘

کچھ اور نہیں سوجھتا‘ بس محصور ہیں‘ مسحور ہیں‘ جدھر وہ بلائے گا‘ جائیں گے اور …

اچانک شکاری میزبان نے منھ پر انگلی رکھی‘ شی! خاموش!

ہم سب ٹھٹک گئے۔

دورپہاڑی ڈھلوان پر وہ آنکھیں چمکیں۔ شکاری ٹارچ نے ادھر کا رخ کیا ا ور روشن لہریں لپک کرسانبھر کی ان آنکھوں سے مل گئیں۔ اب یہاں سے وہاں تک روشنی کی لہر رواں تھی۔ شکاری کی زبردست ٹارچ والی کرن ان دو روشن اور وحشی آنکھوں کے لئے دلنواز اور مقناطیسی رسی بن گئی تھی اور شکار‘ خود بخود‘ بلا ارادہ اس دھاگے میں بندھا ہماری طرف گویا پھسل رہا تھا۔ آخر وہ ذرا دیر میں اس جان لیوا قوت کے مرکز کے سامنے بے بس اور مسحور کھڑا ہو گیا۔ میر ے میزبان نے بلا تکلف اسے ایک گولی میں شکار کر کے پیچھے کی جیپ میں باندھ لیا۔

خوش خوش گاڑی اسٹارٹ کی تو میں نے کہا: حضرت میرا اور اقبال کا یہی معاملہ ہے۔ وہ ایسے ایسے ساحرانہ کرشموں سے اپنی طرف بلاتا ہے‘ روشنی کی لہر پر ہم رواں ہوتے ہیں اور اپنے وجود سے بے خبر عجیب ایک کیفیت میں مگن ہو کر سامنے پہنچ جاتے ہیں۔ آگے اس کی مرضی۔

اور جہاں شعور کا فتنہ بیدا ہوا‘ وہ سحر ٹوٹا‘ نظم کی رستی تڑا کر ہم نے رخ بدلا اور اس کی گولی کی زد سے نکل بھاگے ۔ میں آجکل اسی عالم میں ہوں۔

شور کو فتنہ کی بیداری کہتا بھی اقبال نے سکھایا ‘ ورنہ خود یہ شاعر ہماری زبان کا سب سے باشعور اور بیدار فن کار تھا۔ سچ پوچھتے تو بیسویں صدی میں اردو فارسی ادبیات نے اس ایک شاعرکی بیداری کی برکت سے کم از کم ایک صدی کا فاصلہ طے کیا اور وہ عالمی پیمانہ کے مسائل حاضرہ سے دوبدوبات کرنے کے قابل ہوئی۔

اقبال کی جس نظم و نثر کے ہم رسیا ہیں‘ وہ چالیس برس میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کی قدر و قیمت آنکنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اس کے اصل سرچشموں پر… جو دراصل اجزائے ترکیبی بھی ہیں ‘ نظر رکھیں۔ یہ چاروں ایک دوسرے سے گھلے ملے ہیں۔ میں انہیں سہولت کی خاطر یوں ترتیب دوں گا:

1۔ مسلم پنجاب و کشمیر‘1857ء کے بعد۔
2-ہندوستان کا تہذیبی رینا ساں اور قومی آزادی کی تحریک:
3- جرمنی (بسمارک کے بعد) اور جرمن کلاسیکی فلاسفی۔
4- یوروپ اور مغربی سیاست کے مثبت و منفی نتائج۔
بعد کے دونوں سرچشمے بظاہر ایک خانے ’’فرنگ‘‘ میں شمار ہو سکتے تھے‘ مگر نہیں‘ گہرائی میں اتریے تو ان کی ا صلیت مختلف ہے اور ان کے اثراب اقبال کے شعور پر بھی مختلف نتیجوں میں ظاہر ہوئے۔
سوال ہو گا کہ : اور اسلام؟
اقبال خود بار بار اعلان کرتے ہیں کہ:
’’… میںنے اپنی زندگی کا زاید حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست‘ تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے…‘‘

’’… میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکماء کی ہی تعلیمات کا تکملہ ہے بلکہ بالفاظ صحیح تر یوں کہنا چاہیے کہ یہ جدید تحربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے…‘‘

تو عرض ہے کہ اسلام اور تصوف کے وسیع مطالعے نے غور وفکر نے اور روحانی تجربات نے اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں جو اہم حصہ لیا‘ اسے مسلمانان پنجاب و کشمیر کے مادی حالات‘ اور شعوری تحریکوں میں اور انہی کے ساتھ ہندو ریناساں (نشاۃ ثانیہ) کے بڑے فریم میں اور پھر جرمن مابعد الطبیعیات کے تعلق میں دیکھیں تبھی اس کے تار و پود کا پتہ چلتا ہے۔ یوں الگ الگ اشعار اور خطبات و خطوط سے خود فکر اقبال میں اسلام اور تصور کے بعض پہلو تو روشنی میں ضرور آ جائیں گے۔ ان کے ارتقا کا راز نہیں کھلے گا۔

تصوف کا چلن اقبال کو اپنے والد بزرگوار سے ملا ( ملاحظہ ہو عطیہ بیگم کا بیان) مذہبی فرائض کی پابندی اور عقیدت کی شدت کشمیری نو مسلم خاندان سے پائی‘ اسلام اور تصوف کا بنیادی مطالعہ عربی اور فلسفے کی تعلیم نے مہیا کیا‘ لیکن پختہ عمر کو پہنچ کر اسلامیات کو اپنی نگاہ کا مرکز بنانا اور تصوف کی تاریخ میں اتر کر ایک مقررہ نہج کو اپنانا‘ اسے عہد حاضر کے حالات کی روشنی میں جانچنا اور ایک قطعی سمت کی تلقین کرنا۔ بلکہ سماجی تقاضوں کی کسوٹی پر اصرار کرنا‘ اسلام اور تصوف کے علمی پہلو سے زیادہ اس کے عملی امکانات اور اثرات پر متوجہ کرتا ہے۔

پروفیسر نکلسن نے ’’اسرار خودیٔ کے انگریزی ترجمے کے دیباچے میں لکھا تھا کہ اس مثنوی کی اشاعت نے ہندستانی مسلمانوں کی نو عمر نسل میں طوفان برپا کر دیا ہے۔ اور اب آگے چل کر د یکھنا ہے کہ جن کا شعور بیدار ہوا ہے وہ کدھر قدم بڑھاتے ہیں۔ مقام خداوندی کا دور سے تصور کر کے کیا ان کی تسلی ہوجائے گی۔ یا وہ اس نئے پیغام کو ایسے مقاصد کے لئے اختیار کریں گے جو خو د مصنف (اقبال) کے ذہن میں بھی موجود نہیں… گویا پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد اقبال کے پیغام سے برپا ہونے والے طوفان کے متعلق ادبی نہیں‘ سماجی ‘ سیاسی اندیشے سات سمندر پار تک محسوس کئے جانے لگے تھے اور وہ اس لئے کہ مقامی اور عالمی صورت حال سے ان کا گہرا رشتہ تھا۔

یہ پیغام جس خاک سے اٹھا تھا‘ بالآخر اسی میں جذب ہونے اور رنگ لانے والا تھا۔

اقبال کی تصانیف میں سب سے پہلے فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی(1915ئ) پھر رموز بے خودی (1918ئ) اور پانچ سال بعد (1923ئ) میں ’’پیام مشرق‘‘ منظومات‘ تینوں فارسی میں تھیں‘ تاہم سینہ اور ترجمہ ہو کر ا ن کے مفہوم و معنی ٰ تعلیم یافتہ حلقوں میں عام ہو چکے تھے‘ جب ’’بانگ درا‘‘ نکلی اور گونجی (1924ئ) تب سے اب (1977ئ) تک ‘ یکے بعد دیگرے دو نسلیں زندگی کے عملی اور فکری میدان میں اتر چکی ہیں‘ ایک وہ جس کے ایماء ‘ آرزو یا اعمال کے نتیجے میں ہندوستان دو مملکتوں میں تقسیم ہوا اور جس نے پاکستان کی تشکیل کو اقبال کے خواب کی تعبیر سمجھا‘ دوسری وہ نسل حاضر جو اس تاریخ ساز یا تاریخ شکن واقعے کے مابعد اثرات کا سامنا کر رہی ہے اور اقبال کے پیغام کو ٹھیک اسی بے مروتی سے جانچنے کی بہتر پوزیشن میں ہے جس بے مروتی سے ہمارے شاعر اعظم نے ہندوستان اور عجم کے تاریخی پس منظر میں اسلام‘ اسلامی تحریکات‘ خصوصاً علم الکلام اور تصوف کو جانچا تھا۔

ارتقائی دائرے کی صورت میں سفر مسلسل
اقبال نے شعر اور نثر دونوں میں جتیا ہے کہ وہ مجموعۂ اضداد ہیں۔ ’’زہد اور رندی ‘‘ 1905ء سے پہلے کی نظم ہے جس میں ایک مولوی صاحب کی زبانی یہ طعنہ سنا کر اس کے جواب میں صرف اتنا کہا کہ:
(اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔)

کئی سال بعد لند ن میں (ایریل 1907ئ) وہ عطیہ کو جتاتے ہیں کہ:
’’میں اصل میں دوہری شخصیت کا آدمی ہوں‘ باہر سے عملی اور کاروباری ‘ اندر سے خواب و خیال کی دنیا میں رہنے والا فلسفی اور ماورائی‘‘۔
چنانچہ اقبال نے نکتہ چنیوں کی راہ آسان کر دی کہ خود انہی کی تحریروں سے اثبات اورنفی کے پہلو ایک ساتھ نکل آتے ہیں اور محض بدنظر یا بد ذوق لوگوں کے قلم سے نہیں‘ بلکہ وہ جنہوں نے اقبال کے مطالعے میں عمریں تیر کر دیں ان کے ہاں بھی نشانہ خطا کر جاتا ہے۔ یہاں ایک مثال کافی ہو گئی:

پروفیسر یوسف سلیم چشتی (50 برس تک مشرق و مغرب کے فلسفیانہ نظاموں میں غرق رہنے اور خود اقبال کے سامنے برسوں زانوئے ادب تہہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

’’… میں جو یہ کہتا ہوں کہ اقبال مرحوم وحدۃ الوجود کے قائل تھے‘ اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں انہیں اپنا ہم عقیدہ ثابت کرنا چاہتا ہوں بلکہ اس لئے کہ ان کی تمام تصانیف میں وحدۃ الوجود کی تعلیم موجود ہے…‘‘

پروفیسر خلیفہ عبدالحکیم کو بھی یہ دونوں سعادتیں نصیب تھیں اور اپنی کئی تصانیف (فکر غالب اور متفرق مضامین) میں اقبال کی زبانی کہہ چکے ہیں کہ شیخ ا کبر محی الدین ابن العربی (الاندلسی) کی تصنیف (فصوص الحکم) کفر والحاد سے آلودہ ہے:

’’… اقبال نے اس انداز کی وحدۃ الوجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مضر سمجھا لہٰذا مسلمانوں کے روایتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہو گیا…‘‘
میکش اکبر آبادی کا عمر بھر کا اوڑھنا بچھونا ہی وحدۃ الوجود کا نظریہ‘ اس کا پرچار اور اقبال کا کلام رہا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں:
’’… معلوم ایسا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اپنے ابتدائی دور میں وحدۃ الوجود کے مخالف تھے جسے ’’اسرار خودی‘‘ کا زمانہ کہنا موزوں ہو گا۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ تصوف اور خصوصاً وحدۃ الوجود کا عقیدہ نفی خودی کے مترادف ہے اور جب انہیں اپنے خیال کے خلاف واقعہ ہونے کا علم ہو گیا تو انہوں نے صراحت سے وحدۃ الوجود کی تائید فرمائی…‘‘
اور خود اقبال کیا فرماتے ہیں:؟
ہنگامہ بست ازپے دیدار خاکے
نظارہ را بہانہ تماشائے رنگ و بوست
اب اسے چاہیے وحدۃ الوجود کا ’’ہمہ اوست‘‘ کہیے یا وحدۃ الشہود کا ’’ہمہ ازوست‘‘ … دونوں کی گنجائش ہے۔ لیکن… اس صورتحال کے باوجود ہم اقبال کی چالیس برس کی کمائی کو مجموعہ اضداد نہیں کہہ سکتے۔ وقت کی ترتیب اور مختلف اثرات کی سراغ رسانی اور احتیاط کے ساتھ چن

کردیکھیے تو ان میں مسلسل حرکت‘ مسلسل جستجو کا عمل دخل نظر آئے گا۔

البتہ یہ حرکت ایک سیدھی سمت میں نہ عمودی نہ افقی فکر اقبال کی سطحین بدلتی جاتی ہیں اور ہر بار وہ بلند تر سطح پر نقطۂ آغاز کی جانب رخ کرتا اور کمانی کا سا دائرہ بناتا گزرتا ہے۔ غیر شاعرانہ (یا ٹکینیکل) صورت اس کی کچھ یوں بنتی ہے۔ یعنی نہ تو وہ نقطۂ آغاز پر واپس آتا ہے نہ اس سے مخالف سمت میں سفر تمام کرتاہے‘ ارضی کشش فنکار کو اپنی طرف کھینچتی ہے‘ مابعد الطبیعیاتی تفکر اور عینی فلسفے اسے نیلگوں فضا کی طرف بلاتے ہیں اور ’’پس چہ بایدکرد‘‘’؟ کا سوالی مسلسل مسافرت میں بسر کرتا ہے‘ اپنے ماضی کو رد کیے بغیر اور مستقبل کی خوش خیالی سے دست بردار ہوئے بغیر وہ اپنے تاریخی دور کی حرکت و حرارت کی نمائندگی کرنے میں دیر تک کہیں نہیں تھمتا۔

کیا عجب‘ یہی سبب ہو کہ آج مختلف بلکہ متضاد سیاسی‘ سماجی نظاموں اور متضاد تہذیبی قدروں کے ماحول میں اس کے کلام کو پہلے سے بھی زیادہ سراہا جا رہا ہے۔

The post اقبال شناسی…. غوروفکر کے چند پہل appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>