حال ہی میں اپریل کے آخری عشرے میں جزائر مارشل کی حکومت نے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان اوربھارت سمیت دنیا کی 9ایٹمی طاقتوں پر عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا، انہیں اپنے ملک اور عوام کا مجرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ بھی درج کرادیا۔
عالمی عدالت کا صدر دفتر ہالینڈ کے دارالحکومت ہیگ میں واقع ہے۔ جن ممالک کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے، ان میں روس، چین، برطانیہ، فرانس، پاکستان، انڈیا، اسرائیل، شمالی کوریا اور امریکا شامل ہیں۔ جزائر مارشل کی حکومت نے امریکی صدر اوباما اور ان کے متعدد وزرا اور دیگر ساتھیوں کے خلاف سان فرانسسکو کی عدالت میں بھی مقدمہ درج کرادیا ہے۔ جزائر مارشل کی حکومت کو شکایت ہے کہ امریکا نے اس کی سرزمین پر بارہ سال کی مدت میں 67ایٹمی دھماکے کیے اور اس ملک کی سرزمین اور وہاں کے عوام کو شدید جسمانی، ذہنی اور اقتصادی نقصان پہنچایا ہے۔
امریکی حکومت سوچے سمجھے بغیر اس زمین کو ایٹمی تجربات کے لیے مسلسل استعمال کررہی ہے۔ جزائر مارشل کی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان تمام ایٹمی طاقتوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے تخفیف اسلحہ کے لیے اقدامات کرتیں، مگر ان اقوام نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اپنے ہتھیاروں کو زیادہ مہلک اور خوف ناک بنانے کے لیے کام کرتی رہیں جس کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اور انسانیت کی بھلائی اور بہبود کو پس پشت ڈال کر انسانیت کی تباہی کے لیے کام کیے جاتے رہے جو ایک ناقابل معافی جرم ہے جس کی ان ایٹمی ملکوں کو جواب دہی کرنی ہوگی۔
اس مقدمے کو دنیا کی کئی امن پسند شخصیات کی حمایت حاصل ہے جن میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ’’نیو کلیئر ایج پیس فاؤنڈیشن‘‘ کے صدر ڈیوڈ کرائیگر بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ کسی خاص ملک کو دبانے کے لیے درج نہیں کرایا گیا ہے، بلکہ یہ تو پوری انسانیت کی بھلائی اور سلامتی کے لیے درج کیا گیا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے امن پسند ملک اور اقوام اس تحریک میں ہمارا ساتھ دیں، کیوں کہ ہمارا بنیادی مقصد دنیا کو ختم ہونے بچانا ہے، اسے تحفظ دینا ہے۔ اس کے لوگوں کی اور ان کی جانوں کی حفاظت کرنی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 1968ء میں پاکستان، انڈیا اور شمالی کوریا نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPT پر دستخط نہیں کیے تھے۔
جزائر مارشل کی حکومت کا مطالبہ ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPTپر دستخط کرنے والے ملکوں کا فرض ہے کہ وہ ایک جانب تو جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے مثبت اور ٹھوس اقدامات کریں اور دوسرے دیگر ممالک کے ساتھ تخفیف اسلحہ پر سنجیدگی سے مذاکرات بھی کریں اور ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں۔ NPT بہت اہم معاہدہ ہے، تمام ملکوں کو اس کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا جس کے بعد ہی دنیا میں پائیدار امن کے قیام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، بہ صورت دیگر دنیا کے چھوٹے اور ترقی پذیر ملک اسی طرح مسائل کا شکار رہیں گے اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ مقدمہ تو درج ہوگیا، مگر ایسا لگ رہا ہے کہ ذمے دار ممالک نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ ہیگ میں امریکی سفارت خانے نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے:’’ہمیں اس مقدمے کے درج ہونے کا کوئی علم نہیں ہے۔ ویسے بھی چوں کہ ہم نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے، اس لیے اس کا ہم پر کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔‘‘بہ ظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس مقدمے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کیا اس مقدمے پر عالمی عدالت کوئی کارروائی کرے گی؟ کیا ایٹمی طاقتوں سے اس پر جواب طلب کیا جائے گا؟ فی الحال کسی کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہیں۔جزائر مارشل، شمالی بحرالکاہل میں مرجانی چٹانوں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے 31 جزائر کا ایک مجموعہ ہے، جو اس عظیم سمندر میں دور دور تک بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ جزائر مارشل کی مجموعی آبادی 68,000 ہے اور 22 کمیونٹیز پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ 70مربع میل (180مربع کلومیٹر) زمین پر آباد ہیں جو 34چھوٹے جزائر سے تشکیل ہوئی ہے اور سمندری پانیوں میں لگ بھگ 750,000 مربع میل (1.9مربع کلومیٹر) پر بکھرے ہوئے ہیں۔ سطح سمندر سے ان جزائر کی اوسط بلندی صرف دو میٹر ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1944میں جزائر مارشل پر اتحادیوں نے قبضہ کرلیا تھا اور 1947میں اسے امریکی انتظامیہ کے تحت کردیا گیا، جو اس کے تمام انتظامی امور دیکھتی رہی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 1946میں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے ان جزائر پر ایٹمی تجربات شروع کردیے اور 1958تک مسلسل ہائیڈروجن اور ایٹم بم کے تجربات کیے جاتے رہے۔ یکم مارچ 1954کو یہاں امریکا نے سب سے بڑا ایٹمی تجربہ کیا، جسے Bravo کا نام دیا گیا۔ یہ بہت خوف ناک تجربہ تھا جس میں ان ننھے منے جزائر پر پندرہ ٹن میگاٹن کا ہائیڈروجن بم پھاڑا گیا، جس کے نتیجے میں آگ کا ایک نہایت شدید گولا فضا میں بیس میل تک بلند ہوا اور پورے علاقے پر بادلوں کی ایک چھتری بن گئی جس نے تاب کاری کی تباہ کن بارش کرڈالی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، جزائر مارشل کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مذکورہ دھماکا ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے ایک ہزار گنا زیادہ شدید تھا۔
جزائر مارشل 1986میں ایک آزاد جمہوریہ بن گیا، جس کے بعد اس نے اپنی سرزمین پر ہونے والے ان قاتل دھماکوں کے خلاف زیادہ شدت سے مہم چلانی شروع کردی۔ شروع میں تو اس احتجاج کو کوئی اہمیت نہ دی گئی، لیکن بعد میں مختلف اقوام کے دباؤ پر امریکی حکومت نے جزائر مارشل کی حکومت سے بات چیت کی اور ایک Nuclear Claims Tribunalقائم کردیا گیا جس کا کام ان خوف ناک ایٹمی تجربات سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ لیکن یہ ٹریبیونل بھی کسی کام کا ثابت نہ ہوسکا، کیوں کہ اس کے پاس اتنے فنڈز نہیں تھے کہ وہ ان ایٹمی تجربات کے باعث ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرپاتا۔ جزائر مارشل کی حکومت کے موجودہ وزیرخارجہ اور نائب صدر سینیٹر ڈی برم کا کہنا ہے:’’ان تباہ کن ہتھیاروں کی مسلسل تیاری سے پوری انسانیت کی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑگئی ہے اور خاص کر ہمارے لوگوں کو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم نے عہد کرلیا ہے کہ ہم ایٹمی تجربات کے خلاف مسلسل جنگ کریں گے، تاکہ دنیا میں آئندہ کبھی کوئی ایسے ظالمانہ دھماکے نہ کرسکے۔‘‘
جزائر مارشل کے ساتھ ہونے والی سفاکی کی گواہ جمہوریہ جزائر مارشل میں امریکی سفارت خانے کی ویب سائٹ بھی ہے، جس میں درج ہے کہ ایٹمی تجربات کا یہ پروگرام تو اگست 1958میں ختم ہوگیا تھا، لیکن اس کے نتیجے میں وہاں بڑی تباہ کاریاں ہوئیں۔ جزائر مارشل کی سرزمین پر ایٹم بم گرانے کے لیے بہت سے مقامی لوگوں سے گھر خالی کرالیے گئے، لیکن آدھی قوم کو تاب کار اور قاتل ذرات کا تحفہ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ان جزائر پر آباد لوگ متعدد خوف ناک بیماریوں کا شکار ہوگئے۔ ان کے ٹیومرز یا گلٹیاں نکل آئیں جو بعد میں کینسر (سرطان) کی شکل اختیار کرگئیں۔
ان جزائر پر رہنے والے لوگ پریشان ہوکر اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، یہ تمام واقعات اس ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اس سرزمین پر امریکی بحریہ نے مختلف قسم کے ٹیسٹنگ راؤنڈز کیے اور انہیں خاص نام بھی دیے گئے۔ مثال کے طور پر: Operation Ivy, Castle, Redwing اور Hardtack ۔۔1951میں اس سرزمین پر “Operation Greenhouse”کا تجربہ بھی کیا گیا۔انسانیت کو مٹانے والے اور کرۂ ارض کو نیست و نابود کرنے والے یہ ایٹمی تجربات اس وقت سے مسلسل کیے جاتے رہے ہیں جب اسے امریکا نے اپنی نگرانی میں لیا تھا۔ ان دھماکوں اور تجربات کے اثرات وہاں کے عوام ابتدا سے ہی بھگت رہے ہیں اور آنے والے وقتوں میں بھی بھگتیں گے۔
کافی عرصے سے جزائر مارشل کی حکومت دنیا کے تمام بڑے اور ترقی یافتہ ممالک سے یہ مطالبہ کررہی تھی کہ وہ تخفیف اسلحہ کے لیے اپنا کردار ادا کریں، مگر اس معاملے پر کبھی کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جزائر مارشل کے وزیرخارجہ سینیٹر ٹونی ڈی برم وہاں کے نائب صدر بھی ہیں۔ وہ ایک پرجوش اور متحرک انسان ہیں، انسان دوست ہیں۔ وہ اپنی سرزمین پر ایٹمی تجربات شروع ہونے سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پرورش و تربیت جزائر مارشل کے ایک مرجانی جزیرے Likiep پر ہوئی تھی۔ وہ اس سارے معاملے میں بہت سرگرمی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی پر آواز بلند کی ہے اور وہ اسی ضمن میں آسٹریلیا بھی گئے ہیں، تاکہ سیاست دانوں اور بین الاقوامی راہ نماؤں سے بات کرسکیں اور آئندہ کسی بھی ممکنہ ایٹمی تجربے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرسکیں۔ وہ ساری دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے کرۂ ارض پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی آگے کس قدر تباہ کن ثابت ہوگی۔ خاص طور سے ان کے لوگوں کی صحت اور سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔
جزائر مارشل کے عوام اپنے سروں پر منڈلانے والے مستقبل کے خطرے سے خوف زدہ ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ انسان کی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے تبدیل ہونے والی آب و ہوا کے پہلے شکار نہ بن جائیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں ’’کلائمنٹ چینج ریفیوجیز‘‘ کا گروہ وجود میں آئے گا۔ یہ وہ اقوام ہیں جو سطح سمندر کے بلند ہونے کی وجہ سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہوسکتی ہیں۔
سینیٹر ٹونی ڈی برم کا کہنا ہے:’’اس وقت ہمیں جس بڑے مسئلے کا سامنا ہے، وہ ہے متاثرہ آبادیوں اور افراد کی بے گھری۔ ہمارے لوگ تواتر کے ساتھ ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے پر منتقل ہورہے ہیں۔ ان کی آباد کاری اور ان کے لیے حفاظتی انتظامات ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ نیو کلیئر ٹیسٹنگ پروگراموں نے ہمارے بے شمار شہریوں کو اپنے ہی ملک میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اپنے آبائی خطوں میں واپس نہیں جاسکتے جہاں سے ان کا تعلق ہے، بعض کیسوں میں تو ہمارے لوگوں کا اپنے آبائی خطوں سے تعلق 12,000 سال پرانا ہے۔
اہم ترین اور بنیادی بات یہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب ہماری وجہ سے نہیں ہے، ہم نے ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا جس کی سزا ہمیں اس صورت میں بھگتنی پڑرہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت ہم اور ہماری قوم آب و ہوا کی اس خوف ناک تبدیلی کی زد میں ہے لیکن نہ تو ہم اس تبدیلی کے ذمے دار ہیں اور نہ ہی یہ ہماری وجہ سے ہورہی ہے۔ ایٹمی پروگرام کی ٹیسٹنگ کے کیس میں ہماری رضامندی تک نہیں لی گئی، ہم سے کچھ نہیں پوچھا گیا، مگر ہمیں ان کی سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔‘‘
جزائر مارشل کے سینیٹر ڈی برم نے آسٹریلوی دارالحکومت کینبرا میں آسٹریلین نیشنل یونی ورسٹی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے کہا:’’آب و ہوا کی تبدیلی میرے ملک کو تباہ کررہی ہے۔ ہمیں اس ضمن میں فوری اور ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ ہماری قوم مکمل طور پر اس کرۂ ارض سے مٹ جائے گی۔ میرا ملک اس وقت سطح سمندر کے بڑھنے کے خطرے سے دوچار ہے، جس میں ایک جانب تو سیلاب آرہے ہیں اور دوسری طرف فصلیں تباہ ہورہی ہیں، جس کے بعد خوراک کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے۔ شمالی اور وسطی جزائر میں تو قحط کا عالم ہے۔ نہ وہاں کے لوگوں کے لیے کھانے کے لیے کچھ ہے اور نہ پینے کے لیے صاف پانی۔ اگر ہمارا ملک جزائر مارشل آب و ہوا کی تبدیلی اور مذکورہ بالا مسائل کی وجہ سے دنیا سے مٹتا ہے تو یہ اس کی موت نہیں ہوگی، بلکہ پوری دنیا کی موت ہوگی۔‘‘