جسوندرسنگھیڑا کے والدین پچاس کی دہائی میں بھارت سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ان کی آنکھوں میںوہ سارے خواب جگنو بن کے چمک رہے تھے جو ترقی یافتہ ملک کی جانب سفر کرنے والے ہرمسافر کے ساتھ ہوتے ہیں۔
یہ خاندان انگلینڈ کے مشرقی اورصنعتی شہر ڈربی میں جاکر مقیم ہوا۔ یہاں ایک ایک کرکے ہرایک خواب کی تعبیر ملنے لگی۔ جسوندر کا جنم یہاں پر ہی ہوا۔ والدین کی سات بیٹیوں میں سے چھٹا نمبرتھا۔اپنے مشرقی تہذیب وتمدن پر نازاں اس سکھ خاندان نے ایک بات کا تہیہ کررکھاتھا کہ وہ ان کی بیٹیاں یہاں جنم ضرور لیں گی، کچھ عرصہ تک پلیں گی ، بڑھیں گی لیکن ان کی شادیاں ان گھامڑ گوروں سے نہیں کرنی۔
جسوندربھی دیکھ رہی تھی کہ والدین ایک ایک کرکے اس کی بہنوں کو اسکول سے اٹھاتے اورپھر انھیں بھارت واپس بھیج دیتے، جہاں ان کی شادی کسی بالکل انجان فرد سے کردی جاتی۔اس کے بعد انھیں یہاں ہی جینا اورمرنا پڑتا۔ یورپ کی روشنیوں میں زندگی گزارنے والے ماں باپ بیٹیوں سے مکمل طورپر لاتعلق ہوجاتے، کچھ خبرنہ رکھتے کہ وہ کیسی زندگی بسر کررہی ہیں اور ان کے شوہر، سسرال والے ان کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔
جسوندر کی تین بہنوں کی شادی 16اور17برس کی عمر ہی میں کردی گئی تھی۔ جب یہ چھٹی بیٹی14برس کی ہوئی توایک دن اس کی باری بھی آگئی۔ اس روز وہ سکول سے واپس آئی ہی تھی کہ ماں نے خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ اسے گلے لگایااوربلائیں لینے لگی۔ جسوندرحیران تھی کہ آج ماں کا لاڈپیارغیرمعمولی ہے۔ عقدہ جلد ہی کھل گیا جب اس کے سامنے ایک سکھ نوجوان کی تصویر رکھ دی گئی ۔ کالی مونچھوں اورداڑھی والا ایک گھبروجوان۔ جسوندر کے سوال کا انتظارکئے بغیر ماں نے کہاکہ یہی تمہاراشوہر ہوگا جو بھارت میں تمہارا انتظارکررہاہے ۔ ماں نے کہاکہ جب تم آٹھ برس کی تھی، تب تمہاری اس کے ساتھ بات پکی کردی گئی تھی ۔
جسوندرسوالیہ نشان بن کر کھڑی ہو گئی اوراپنی والدہ سے کہنے لگی کہ مجھ سے پوچھے بغیر ہی شادی کا پروگرام کیوں بنالیاگیا؟ اس نے کہا’’ ویسے بھی سکول میں میرا صرف ایک سال باقی ہے، اس لئے پہلے مجھے سکول کی تعلیم مکمل کرنے دیں۔ماں نے لاکھ سمجھایا بجھایاکہ بھارت جاکر اپنے خواب پورے کرلینا، تمہارے شوہر سے کہہ دیں گے، وہ تمہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیدے گا۔لیکن جسوندر صاف انکارکردیا کہ جس فرد سے وہ ایک باربھی نہیں ملی، اس سے کیسے شادی ہوسکتی ہے بھلا!اس نے باپ کے سامنے بھی حرف انکاربلندرکھا۔باپ نے خاصا مارا، پیٹا لیکن بیٹی اپنے انکار سے پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔ باپ کو یہ منظورنہیں تھا کہ بیٹی ان سے بغاوت کرے چنانچہ اسے ایک کمرے میں قیدکردیاگیا جہاں وہ اگلے کئی ہفتوں تک بند رہی۔ جسوندر کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیسے اس معاملے کو ٹالے ۔ تب اس نے فیصلہ کیاکہ اس شادی سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ گھر چھوڑدیاجائے۔ اگلے روز جب ماں کھانا دینے آئی تو اس نے کہا’’ ٹھیک ہے، میں آپ کی مرضی کے سامنے سرجھکانے کو تیارہوں۔ جہاں چاہیں، شادی کردیں۔ میری قسمت میں یہی لکھاہے تو یوں ہی سہی‘‘۔
جسوندر کے اقرارسے پورے گھرانے کی خوشیاں واپس لوٹ آئیں ۔ وہ بھی ایک بارپھرگھر کی ایک آزاد فرد بن گئی۔ ایک روز اس نے والدین سے اپنی ایک سہیلی کے گھر جانے کی اجازت مانگی جو اسے بخوشی مل گئی ۔وہ سہیلی کے گھر گئی لیکن کبھی واپس نہ آنے کے لئے ۔اپنے پروگرام کے عین مطابق سہیلی کے بڑے بھائی کے ساتھ انجان منزلوں کی مسافر بن گئی۔جسوندر کو وہ رات خوب یادہے کہ جو اس نے پہلی رات اس کی کار ہی میں گزاری تھی ۔ اگلے روز وہ ایک سستے سے بورڈنگ ہاؤس میں داخل ہوگئی۔ وہاں پہنچ کر اس نے والدین کو فون کیا کہ اس نے مجبوراً یہ قدم اٹھایا ہے، امید ہے کہ اسے معاف کردیاجائے گا۔ غیظ وغضب سے بھرے باپ نے کہاکہ تم آج سے ہمارے لئے مرگئی ہو۔ گھر واپسی اورمعافی کی ایک ہی صورت ہے کہ تم اسی فرد سے شادی کرو جس سے ہم چاہتے ہیں۔جسوندر فون پر بہت روئی لیکن باپ کی بات ماننے سے انکاری ہی رہی ۔
بورڈنگ ہاؤس میں جسوندر نے زندگی کا ایک نیا خواب دیکھا اورپھر اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے مصروف ہوگئی۔ وہ حصول تعلیم کی اگلی منزلوں سے گزرتے ہوئے بالآخر یونیورسٹی آف ڈربی میں بھی پہنچ گئی۔اسی اثناء میں اسے پتاچلاکہ اس کی بڑی بہن روبینہ کی ازدواجی زندگی بدترین مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے۔ اس کا شوہربھی والدین ہی کا تلاش کیاہوا تھا۔ تاہم اسے روزہی شوہر کے ہاتھوں مارپیٹ اورتشدد کانشانہ بننا پڑتا تھا۔ جسوندرنے اس سے رابطہ کیااوراسے والدین کی مدد لینے کا مشورہ دیا۔ والدین نے بیٹی سے کہاکہ خاندان کی عزت پر دھبہ نہ لگنے دینا اور حالات سے سمجھوتہ کرکے اپنی شادی بچانے کی کوشش کرو۔ جسوندر 22برس کی تھی کہ جب 24سالہ بہن روبینہ نے ایک روز اپنے آپ کو آگ لگالی۔ اس کا 90فیصد جسم جل گیاتھا۔ یوں اس کی اذیت ناک زندگی کا انجام بھی خوفناک ہوا۔ جب روبینہ نے خودسوزی کی تو گھرمیں صرف اس کا پانچ سالہ بیٹاہی تھا۔
جسوندر کو بہن کی موت کی خبر اپنے گھروالوں کی بجائے کسی دوسرے ذریعہ سے ملی تھی۔ خبرملتے ہی وہ والدین کے گھر پہنچ گئی۔گھرکے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اس کا خیال تھاکہ ماں اسے دیکھتے ہی سینے سے لگالے گی کیونکہ وہ اپنی ایک بیٹی( روبینہ) سے محروم ہونے کے بعد دوسری کو اپنانے کو تیارہوجائے گی ،ایک بیٹی کی موت کے زخم اسے دوسری کو قبول کرنے پر مجبورکردیں گے تاہم جسوندر اس وقت ٹوٹ پھوٹ کے رہ گئی جب ماں نے کہا’’ تم اس کی آخری رسومات میں بھی شامل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے ساتھ مل کر ماتم کرنادورکی بات ، تمہیں اس گھر میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ ہاں ! صرف اتنا کر سکتی ہو کہ تم اس وقت گھرمیں آجانا جب رات کااندھیرا چھا جائے اور کوئی تمہیں آسانی سے پہچان نہ سکے ‘‘۔
جسوندرکسی نہ کسی صورت آخری رسومات میں شریک ہوگئی۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی، اس کے والدین اوردوسری بہنوں نے دیکھاتو وہ وہاں سے اٹھے اورباہر نکل گئے۔ وہ کہتی ہے ’’ جب وہ لوگ جو آپ کے بہت قریبی اورپیارے ہوں، بہت محبت کرنے والے ہوں، ایسا رویہ اختیارکریں گے توپھر انسان مکمل تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے، اس کی حیثیت ایک دھتکارے ہوئے فرد کی سی ہوتی ہے‘‘۔
جسوندر نے آنے والے برسوں میں شادی کی۔اب وہ 45برس سے آگے بڑھ رہی ہے اورخوشیوں بھری ازدواجی زندگی بسرکررہی ہے۔ اب اس کے تین بچے ہیں۔لزا، ماریہ اوریوشع۔ وہ آج بھی اپنے آپ کو دھتکاری ہوئی لڑکی خیال کرتی ہے کیونکہ آج بھی والدین اوردیگرگھروالے اس سے مکمل قطع تعلق کئے ہوئے ہیں۔ وہ اسے اپنی بیٹی ماننے سے آج بھی انکاری ہیں۔ جسوندر کہتی ہیں ’’ آج بھی جب میں اپنی بہنوں اوروالدین سے ملنے کی کوشش کرتی ہیں تو مجھے پہچاننے سے انکارکردیتی ہیں۔ میرے ایک فیصلے نے مجھے ایک دم سے ایک ایسا فرد بنادیاجس کا کوئی خاندان نہ ہو کیونکہ ان کے خیال میں نے ان کی گھریلو روایات سے بغاوت کی اوران کی عزت پر دھبہ لگایا‘‘۔ وہ کہتی ہے’’ اگرچہ میںاپنے خاندان کی بہت کمی محسوس کررہی ہوں،بالخصوص جب میری اوربچوں کی برتھ ڈے پارٹی ہوتی ہے لیکن میرے پاس اس کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگرمجھے دوبارہ ایسی صورت حال کاسامنا کرناپڑاتو میں یہی تدبیر اختیارکروں گی‘‘۔
جسوندر کے بچے جوان ہوچکے ہیں۔ایک طرف وہ اپنی زندگی کے تجربات کی روشنی میں اپنے بچوں کی پرورش کررہی ہے۔ انھیں پسند کی شادی کرنے کی کھلی اجازت ہے۔دوسری طرف اس نے ’’کرمانروانا‘‘ (Karma Nirvana) کے نام سے ایک گروپ قائم کرلیاہے جو جبری شادی کے ظلم اور غیرت کے نام پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کررہاہے۔یہ مظلوم لڑکیوں کی ہرقسم کی امداد کا کام کرتا ہے۔ جسوندر نے یہ گروپ اپنے ذاتی تجربہ اورروبینہ کی خودسوزی کے درد میں 1993ء میں قائم کیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی کہ کوئی دوسری لڑکی اس کی طرح گھر سے بے گھر ہو یاکوئی دوسری بیوی اپنے آپ کو جلانے کا فیصلہ کرلے۔ کرمانروانا ہی اب جسوندر کا خاندان ہے۔گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2008ء میں برطانیہ میں ڈھائی ہزارلڑکیوں نے اچانک سکول کی تعلیم چھوڑ دی، گروپ کو شبہ ہے کہ ان لڑکیوں کی بھی جبری شادی کی گئی ہوگی۔زیادہ تر سالانہ چھٹیوں کے بعد واپس سکول میں نہیں آئیں۔ جسوندر نے جبری شادیوں کی رسم کو ختم کرنے کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کررکھی ہے۔
’’کرما نروانا‘‘ کے تحت ایک ہیلپ لائن قائم ہے، جہاں گھریلوتشدد کی شکارلڑکیاں اورخواتین کسی بھی وقت فون کرکے اپنی شکایت درج کراسکتی ہیں۔جسوندر اساتذہ، سوشل ورکرز اور قانون نافذ کرنیو الے اداروں کے اہلکاروں کو مسلسل ابھارتی رہتی ہیں کہ انھیں جیسے ہی کہیں کسی لڑکی کی جبری شادی کرائے جانے کا شبہ ہو، وہ فوراً رپورٹ درج کرادیں۔ جسوندر نے2007ء میں برطانیہ میں جبری شادی کے خلاف ایک ایکٹ منظورکرانے کی مہم چلائی جس کے تحت والدین سے بچوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کا حق واپس لیاجائے گا کیونکہ انہی پاسپورٹس کااستعمال کرکے وہ اپنی بیٹیوں کو جبراً بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔ جسوندرکہتی ہیں کہ برطانیہ میں ابھی ہم اوپروالی سطح کو کھوج رہے ہیں، مزید گہرائی میں جائیں گے تو حالات بہت زیادہ خراب ملیں گے۔ بعض رپورٹس کے مطابق جبری شادیوں کا چلن امریکامیں بھی عام ہورہاہے۔ جسوندر امریکا میں بھی کام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
جسوندر کہتی ہے کہ بھارت میں جاکرمیری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔وہاں عورتیں دوسرے درجے کی شہری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسوندر بھارت میں بیویوں کے ساتھ ظلم کو ختم کرنے کے لئے کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا ایک پاؤں برطانیہ میں ہوتاہے تودوسرا بھارت میں۔ وہ بھارتی خواتین کوزیادہ بہتر اور محفوظ اندازمیں زندگی گزارناسکھارہی ہیں۔ اس کی پہلی ترجیح بیویوں کی ان کے خاندان والوں کے ساتھ مصالحت ہوتی ہے۔ اس کیلئے وہ ہرممکن تدابیراختیارکرتی ہے۔ایسانہ ہوسکے تو خواتین کی قانونی مدد کے لئے بہت کچھ کرتی ہے، شوہروں سے علیحدگی کی صورت میں انھیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوناسکھارہی ہیں، انھیں مختلف ہنرسکھاتی ہیں۔
جسوندرکہتی ہے ’’بھارت میں جو کچھ ہورہاہے، اس کے اثرات مغرب میں مقیم بھارتی خاندانوں پرمرتب ہورہے ہیں۔ بیویاں اپنے آپ کو آگ لیتی ہیں یاکسی دوسرے اندازمیں اپنے آپ کو نقصان پہنچالیتی ہیں۔ وہاںبیویوں کے ساتھ ہونے والے ظالمانہ سلوک کو جان کریہاں مقیم بھارتی لڑکیاں اپنے والدین کے فیصلوں سے بغاوت کررہی ہیں۔تاہم ایسی لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔باقی خاندان کے دباؤ کے سامنے جھک جاتی ہیں‘‘۔
جسوندر اب تک تین ناول بھی لکھ چکی ہیں ۔ تینوں برطانیہ میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ناولوں میں شامل ہیں:
اول: Shame، اس کی اپنی زندگی کی کہانی ہے جو دراصل انسانی خوشی اورخاندان کی ظاہری عزت کے درمیان ہونے والی کشمکش پر مشتمل ہے ۔ یہ اس تلخ حقیقت کے گردگھومتی ہے کہ کس طرح خاندان کی عزت کو ہرشے پر مقدم سمجھاجاتاہے۔چاہے بیٹی کو روزانہ بدترین گھریلوتشدد کا نشانہ بنناپڑے، اسے زندہ جلادیاجائے لیکن خاندان کی عزت کی پاسداری کرنااہم سمجھاجاتاہے۔ کہانی کی مرکزی کرداربالآخراس کشمکش میں فتح حاصل کرتی ہے۔
دوم:Daughters of Shame، ان برطانوی لڑکیوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے جو بھارت ، پاکستان اوربعض دوسرے ممالک سے تعلق رکھتی تھیں، جنھیں جبراً ان کے آبائی ممالک میں بغیر سوچے سمجھے بیاہ دیاگیا، انھیں بدترین سلوک کاسامنا کرناپڑا، تشدد، قید وبند، جنسی ہراسانی کے ادوار سے باربار گزرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بعض قتل کردی گئیں اوربعض منشیات بھری زن۔اس ناول میں ایک کردار ان کی مدد کرتاہے، یہ خود جسوندر ہوتی ہے۔
سوم:Shame travels:جسوندر کے والد نے اسے اپنے گاؤں ’’کنگ سابھو‘‘ کے بارے میں بتایاتھا جو مشرقی پنجاب میں واقع تھا۔باپ نے کہاکہ ہم وہاں جائیں گے۔جسوندرنے Shame میںکہانی بیان کی کہ وہ جبری شادی سے بچنے کے لئے کیسے فرارہوئی؟ اوربعدازاں اس کے ساتھ کیاپیش آیا؟ تیسرے ناول میں مصنفہ نے بتایاکہ اس کی والدہ باقی ساری بیٹیوں کو لے کر اپنے آبائی علاقے میں جاتی تھی لیکن اسے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی تھیں۔ پھر جسوندر نے اس پابندی کو بھی توڑنے کافیصلہ کیا اور اپنے فیصلے پر کیسے عمل درآمد کیا؟ جب جسوندر کی اپنی بیٹی کی شادی کا معاملہ آیاتو وہ خود اسے لے کر گاؤں جاتی ہے۔پھر وہ والدین کی موت تک اس جدوجہد میں مصروف رہتی ہے۔ بھارت جاکر جسوندر نے جو کچھ دیکھا، وہ اس نے اس ناول میں بیان کر دیا۔ اس میں دنیا جہان کے سبق موجود ہیں۔ یہ ناول بھی محبت کا ایک سفر ہے۔
ان تینوں ناولوں نے کرما نروانا کا کام پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جسوندر کا جبری شادی سے انکار مشرقی روایات سے بغاوت نہیں ہے، وہ اب بھی مشرقی خاتون ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی اپنے آبائی گاؤں کو نہیں بھولی، انگریزی زبان اس کی مادری پنجابی زبان پر حاوی نہیں ہوئی، وہ اب بھی چاہتی ہے کہ اس کے داماد مشرقی لڑکے ہوں لیکن بس! وہ یہی چاہتی کہ شادی کے معاملے میں بچوں کی پسند کو اہمیت ملنی چاہئے، والدین کو بیٹیاں اندھے کنویں میں نہیں پھینکنی چاہئیں۔شادی تو دودلوں کے رشتے کا نام ہے، اگروہ دونوں دل نہ مل سکے تو کیسی شادی اورکیسی خوشیاں!!!!