دنیا بھر میں ذہنی امراض میں سب سے زیادہ پایا جانے والا مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہے۔
ان دونوں امراض میں ایک باریک فرق یہ ہے کہ ڈپریشن کا تعلق ماضی سے جُڑی محرومیوں اور تلخیوں سے ہوتا ہے جب کہ اینگزائیٹی میں مستقبل سے جڑے شدید خدشات اور اندیشے انسان کو گھیر کر ذہنی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں۔ ان دونوں کی علامات میں بہت حد تک مشابہت بھی ہوتی ہے اور کہیں کہیں کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔
البتہ دونوں صورتوں میں دواؤں اور طریقہ علاج میں بہت زیادہ فرق نہیں۔ یوں تو یہ مرض پوری دنیا میں ہی پھیل رہا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بھی یہ تکلیف دہ ذہنی مرض تیزی سے سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جب جسمانی صحت کے حوالے سے ہی صورت حال تسلی بخش نہیں تو ذہنی صحت کی صورتحال تو اس سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے۔
اور تو اور اس حوالے سے قابل بھروسہ اعداد وشمار بھی موجود نہیں ہیں، کیوںکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ذہنی امراض کے حوالے سے بہت زیادہ تعلیم اور شعور موجود نہیں ہے، اس لیے مرض کا شکار شخص اپنی زبان سے اپنی کیفیات کے اظہار سے بھی خوف کھاتا ہے۔ اگر وہ ہمت کر کے اپنے گھر کے افراد کو اپنی کیفیت کے بارے میں آگاہ کر بھی دے تو وہ عام طور وہ اس صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق غیرمنطقی رائے قائم کر لیتے ہیں جس سے ڈپریشن کے شکار مرض کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
ڈپریشن کا شکار شخص اور اس کے گھر والے اس بات سے گھبراتے ہیں کہ کہیں پاگل یا نفسیاتی مریض ہونے کا لیبل نہ لگ جائے۔ وہ اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ انسان کی صرف جسمانی صحت ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ذہنی صحت بھی اتنی یا میرے ذاتی خیال میں اس سے زیادہ اہم ہے۔
جب اس مرض کی شدت بڑھ جانے سے جسمانی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں یا روزمرہ کی زندگی متاثر ہونے ہونے لگے تو زیادہ سے زیادہ فیملی ڈاکٹر ، نیورولوجسٹ یا غیرمتعلقہ ڈاکٹرز سے معائنہ کرا دیا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹرز طبعی علامات کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیکل ٹیسٹ کروالیتے ہیں مگر یہ بات بالکل واضح رکھے کہ ڈپریشن یا اینگزائیٹی کی تشخیص کے لیے آج تک کوئی میڈیکل ٹیسٹ دریافت نہیں ہوا۔ اس مرض کی تشخیص صرف کیفیات کی روشنی میں کی جاتی ہے۔
ڈپریشن کیا ہے؟
ڈپریشن کی اصطلاح انگریزی کے لفظdepress سے نکلی ہے جس کے لغوی معنی “اداسی” کے ہیں۔ وقتی طور پر اداس ہو جانا، مایوس ہوجانا یا طبیعت میں بے زاری محسوس کرنا مکمل طور پر ایک فطری عمل ہے۔ ہر نارمل انسان ان کیفیات سے گزرتا رہتا ہے ۔ یہ وہ تغیرات ہیں جو انسانی زندگی کا خاصہ ہیں۔ یہ قطعی طور پر ڈپریشن کا مرض نہیں ہے۔
ڈپریشن کے مرض کی بات کی جائے تو سادہ ترین الفاظ میں ڈپریشن ایک ایسے مرض کا نام ہے جس کا شکار شخص قطعی طور پر اپنی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے۔ وہ اس بات پر قائل ہوجاتا ہے کہ زندگی میں اس کے لیے کوئی امید نہیں بچی اور اب آنے والے وقت میں کچھ بھی اچھا یا خوش گوار ہونا ممکن نہیں۔
ڈپریشن کا مرض زیادہ تر کن لوگوں کو لاحق ہوتا ہے؟
مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے عمومی طور پر یہ مرض ان لوگوں کا لاحق ہوتا ہے جو ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ حساس بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو معاملات کو سطحی طور پر نہیں دیکھتے بلکہ ہر حقیقت کی گہرائی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک زاویے سے تو یہ بڑی خوبی ہے لیکن کچھ لوگ جینیاتی طور پر غیرمعمولی طور پر حساس ہوتے ہیں۔
ایک عام مقولہ ہے کہ حقیقت تلخ ہوتی ہے۔ یہ افراد تلخی کو اپنے اندر اتارتے چلے جاتے ہیں اور بتدریج زندگی کی ناخوش گوار حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے مایوسی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس تیزطرار، چالاک اور لاابالی افراد کا ان امراض کے شکار ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ڈپریشن کی عمومی علامات مندرجہ زیل ہیں:
ان تمام سرگرمیوں سے لاتعلق ہوجانا جن کو سرانجام دے کر لطف محسوس ہوتا تھا۔
عام لوگوں، رشتہ داروں، محلہ داروں، دفتر میں کام کرنے والوں اور حتٰی کہ گھر کے افراد کا سامنا کرنے سے کترانا۔
تمام ذاتی اور سماجی تعلقات کو ختم کر لینا۔
مرض کی شدت میں اپنے آپ کو ایک کمرے تک محدود کر لینا۔
نیند اور بھوک کا معمول سے بڑھ جانا یا کم ہو جانا۔
اپنی ذاتی صفائی اور پاکیزگی سے غافل ہو جانا۔
بغیر کسی وجہ کے دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہو جانا۔
خوداعتمادی کا ختم ہوجانا۔ سوچوں کا بے ترتیب ہو جانا۔ ضروری باتوں کو یاد رکھنے اور فوکس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جانا۔
مرض کی طوالت اور شدت کی صورت میں خودکشی کے خیالات کا آنا۔
ڈپریشن پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ سماجی ہیں اور کچھ انفرادی۔
انفرادی وجوہات:
زندگی میں کسی مقصد کا نہ ہونا۔
مشترکہ خاندان میں رہتے ہوئے رشتوں میں آپس کی تلخیاں۔
سگے رشتوں میں قطع تعلق ہونا۔
نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بروقت شادی نہ ہو پانا۔
ازدواجی تعلق میں ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھ بغیر مجبوری میں سمجھوتے کی زندگی گزارنا۔
جنسی خواہشات اور ضروریات کی بروقت تکمیل نہ ہو پانا۔
حالات کے جبر کے تحت اپنے رجحانات اور ترجیحات کے مطابق زندگی نہ گزار پانا۔
سماجی یعنی اجتماعی وجوہات:
ملک کی معاشی اور سیاسی بدحالی۔
دولت اور طاقت کا راج۔ جزا و سزا کے نظام کا نہ ہونا۔
فضول اور بے بنیاد معاشرتی رسوم و رواج۔
میڈیا پر مستقل منفی اور مایوس کن خبروں کی نشر واشاعت۔
بڑھتے جرائم اور لاقانونیت۔
معاشرے میں موجود متضاد روش اور قدروں پر چلنے کا دباؤ۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈپریشن کا بڑا سبب معاشی مشکلات کا ہونا ہے۔ اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ معاشی مسئلہ یقینا بہت اہم ہو سکتا ہے لیکن ڈپریشن اور اینگزائیٹی کا مرض غریب امیر، کالا گورا، مرد عورت، رنگ نسل کسی کی رعایت نہیں کرتا۔ اسی لیے یہ پہلو پیش نظر رہے کہ نشے اور سکون آور ادویات کا زیادہ تر استعمال پوش علاقوں میں ہوتا ہے۔
وہ گھسے پٹے مشورے جن سے ڈپریشن کا شکار مرض شخص چڑھ اور اذیت محسوس کرتا ہے۔ ان سے گریز کریں۔
منفی سوچنا چھوڑ دیں۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ سب دین سے دوری کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فوراً نماز اور وظائف شروع کردیں۔
باہر نکلا کریں۔ دوستوں میں آیا جایا کریں۔
آپ خود ہی اس کیفیت سے نکلنا نہیں چاہتے۔
ورزش اور واک کیا کریں۔
وقت پر سویا اور جاگا کریں۔
علاج کیا ہے؟
ڈپریشن اور اینگزائٹی دونوں کے علاج کے دو بنیادی اجزاء ہیں اور دونوں کی اپنی اپنی بہت اہمیت ہے۔ پہلا دوائیں اور دوسرا نئے سرے سے ذہنی تربیت۔ یہ دونوں چیزیں پہلو بہ پہلو چلتی ہیں۔
دواؤں سے طبی علاج:
بہت سے لوگ اس معاملے میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مرض میں فیملی ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں اور اگر مرض کی شدت زیادہ ہو تو نیورولوجسٹ کو دکھا لیتے ہیں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے ذہنی امراض جن کا تعلق خالصتاً انسانی سوچ اور جذبات سے ہو ان معاملات میں نیورولوجسٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایک سمجھ دار فیملی ڈاکٹر یا جنرل فزیشن مریض پر کسی تجربے میں جانے کے بجائے فوری طور پر مریض کو سائیکاٹرسٹ کی طرف ریفر کر دیتا ہے۔
جی ہاں دواؤں کے حوالے سے صرف اور صرف سائیکاٹرسٹ ہی متعلقہ ڈاکٹر ہے جو مریض سے گفتگو کرکے اور اس کی کیفیات کو سامنے رکھتے ہوئے دواؤں کا تعین کرتا ہے کہ کب کن دواؤں کا استعمال شروع کرنا ہے۔ ضرورت کے مطابق دواؤں میں ردوبدل کیا جاتا ہے اور دوا کی ڈوز میں اضافہ یا کمی کی جاتی ہے۔ عام طور پر مہینے میں ایک مرتبہ سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا ہوتا ہے تاکہ مریض کی کیفیات کی جائزہ لے کر دواؤں کی تعداد اور مقدار میں حسب ضرورت ردوبدل کیا جاسکے۔
دوائیں کیا اور کیسے کام کرتی ہیں؟
ہم جسے سکون یا خوشی کہتے ہیں دراصل ہمارے دماغ میں خارج ہونے والے دو نیوروٹرانسمٹرز یا کیمیکل سیروٹونن اور ڈوپرمین کا کرشمہ ہوتی ہے۔ انسانی دماغ کی ساخت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ جب ہم قدرتی طور سکون اور خوشی محسوس کرتے ہیں تو ان نیوروٹرانسمٹر کا اخراج ہوتا ہے۔
ڈپریشن اور اینگزائیٹی کا مریض کیوں کہ اپنے خیالات اور افکار کے ہاتھوں ایک ایسی بند گلی میں کھڑا ہوتا ہے جہاں ان کیمیکلز کا اخراج کم ہو جاتا ہے۔ یہ ادویات مصنوعی طور پر ان کے اخراج کا باعث بنتی ہیں جس کے نتیجے میں مریض کسی حد تک اپنی کیفیات میں بہتری محسوس کرتا ہے اور اصلاحی باتوں کو بہتر طور پر قبول کرنے کی حالت میں آجاتا ہے۔
ذہنی تربیت اور منفی سوچ کا تدارک:
وہ ذہنی کیفیات یا امراض جن کا براہ راست تعلق ہماری سوچ سے ہو، دوائیں بدقسمتی سے ان معاملات میںصرف ثانوی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ انسانی نظریات اور افکار ایک دن میں تشکیل پاتے ہیں اور نہ ہی ایک دن میں تبدیل ہوتے ہیں۔
مکمل اور دائمی علاج تو یہی ہے کہ ایک ایسا شخص جو ہر طرف سے منفی سوچ کے گھیرے میں ہے اور شدید مایوسی کا شکار ہے، بتدریج اس کے منفی خیالات کی شدت کو کم کرتے ہوئے مثبت سوچ کی طرف لایا جائے۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے۔ منفی سوچ کو مرحلہ وار مثبت میں تبدیل پیدا کرنے سے مایوسی کم ہوتے ہوتے امید میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ سب کچھ اکیلے کرنا ڈپریشن اور اینگزائٹی کے شکار شخص کے لیے قریب قریب ناممکن ہے۔
اس کے لیے اسے ایک مددگار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مدد ایک سائیکالوجسٹ مہیا کرتا ہے جس کی تعلیم اور تربیت ہی اسی کام کے لیے ہوتی ہے۔ ایک لائف کوچ، موٹیویشنل اسپیکر اور سمجھدار، ہمدرد اور مثبت سوچ کا حامل دوست بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کام میں کافی وقت اور توانائی صرف ہوتی ہے اور فوری نتائج نہیں ملتے۔ بہت سے لوگ اس طریقہ علاج سے بہت جلد دل برداشتہ ہو کر ترک کر دیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جب تک مریض اپنی قوت ارادی اور مستقل مزاجی کو بروئے کار لا کر مرحلہ وار منفی سوچوں سے آزاد نہیں ہوتا تب تک اس کا ایک خوش گوار زندگی کی طرف واپس آنا مشکل ہوتا ہے۔
آپ ایک ڈپریشن یا اینگزائیٹی کےمریض کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟
اگر آپ کے کسی عزیز کو ڈپریشن کا مرض لاحق ہے تو وہ بلاشبہہ آپ کی محبت اور توجہ کا مستحق ہے۔ اس کو آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے وہ آپ سے کسی مدد کا تقاضہ نہ کرے لیکن وہ جس حالت میں ہے، اس کے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس صورتحال سے نکل سکے۔ جب آپ اس سے بات کریں گے تو ممکن ہے اس کی بہت سی باتیں اور بیان کی گئی کیفیات آپ کے لیے نئی ہونے کی وجہ سے حیران کن بھی ہوں لیکن اس پر حیرت یا پریشانی کا اظہار بالکل مناسب نہیں۔
ڈپریشن میں مبتلا فرد کو صرف ہم دردی اور اس احساس کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا اس کی بات کو ٹھیک طرح سے سمجھ رہا ہے اور وہ اس کا مذاق نہیں اڑا رہا۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ کسی قسم کی نصیحت سے مکمل گریز کیا جائے اور مبتلا فرد کو موردالزام ٹھہرانے کی ہرگز کوشش نہ کی جائے۔ ایسا کرنے سے اس کا جو اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔
اگر ڈپریشن میں گرفتار فرد پہلے سے کسی معالج کے زیرعلاج نہیں ہے تو سب سے پہلے آپ کسی مستند اور تجربہ کار سائیکٹرسٹ کو خود تلاش کریں، اپنے مبتلا عزیز کی رضامندی سے ڈاکٹر کا اپائنٹمنٹ لیں اور دیے گئے وقت پر اس کے خاندان کے ساتھ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دوا باقاعدگی کے ساتھ استعمال کی جائے۔
اس سلسلے میں سائیکٹراسٹ کا فالو اپ معائنہ انتہائی اہم ہے۔ کیوں کہ یہ علاج دورانیے کے اعتبار سے کافی طویل بھی ہو سکتا ہے، اس لیے لازمی ہے کہ گھر کا کوئی ایک فرد مریض کے علاج معالجے پر مکمل نظر رکھے۔ فیملی کے باقی افراد، عزیز رشتہ دار اور دوستوں کا یہ فرض ہے کہ وہ نصیحتیں کرنے کے بجائے اپنی بساط کے مطابق دل جوئی کے فرائض انجام دیں۔
ذہنی پریشانیوں، خاص کر ڈپریشن اور اینگزائٹی کے متعلق تفصیلی راہ نمائی مہیا کرنے کے لیے ایک فیس بک گروپ Depression, Anxiety & Bipolar Support Group Karachi بھی قائم کر دیا گیا ہے تاکہ اگر آپ یا آ پ کا کوئی عزیز اس قسم کی مشکلات سے گزر رہا ہے تو اس گروپ کا حصہ بن کر خود بھی مستفید ہو سکے اور اپنے جیسے لوگوں کی آگاہی اور شعور میں اضافے کا باعث بھی بن سکے۔
The post ڈپریشن appeared first on ایکسپریس اردو.