Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

غزوات نبویﷺ

$
0
0

عالِم انسانیت کی خوش بختی ہے کہ ہزارہا پیغمبروں میں ایک پیغمبر ایسا بھی ہے جس کی پوری زندگی پر تاریخ کا سورج اپنی انتہائی روشنی اور تمازت کے ساتھ چمکتا رہا ہے اور جس کی پیغمبرانہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور جس کی الہامی فکر کا ایک ایک نکتہ تاریخ کے صفحات میں محفوظ کیا جاسکا ہے۔

جناب محمدؐ مصطفیٰ ﷺ نبیوں کی طویل فہرست میں واحد پیغمبر ہیں جن کے واقعات زندگی اور افکارِذہنی کے گرد نہ تو انسانی توہمات کی مکڑیاں روایات کا جالا بن سکیں اور نہ زمانے کا قافلہ اپنی گرد ڈال سکا۔ آپ کی زندگی پر تاریخ و سیر کے ماہروں کی ردّوقدح اور تنقید کا عمل تاریخی تسلسل کے ساتھ ابتدا ہی سے جاری رہا اور انتہا تک جاری رہے گا اور آپ کی حیات طیّبہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس پر انسانی ذہن نے بحث نہ کی ہو۔

یہ بات صرف مسلمانوں کے لیے ہی قابل فخر نہیں بلکہ پورے بنی نوع انسان کے لیے ذہنی طمانیت کا سبب ہے کہ تاریخ عالم میں ایک پیغمبرانہ شخصیت ایسی موجود ہے جس کی ہر ہر بات اپنی اصل شکل و صورت میں موجود ہے اور جس کے اعمال و افکار کی اسی تاریخی صداقت نے فکر انسانی کو ارتقاء کی اس راہ پر ڈال دیا جس پر سفر کرکے آج کا انسان اس منزل پر کھڑا ہوکر بڑے فخر سے اپنے دور کو تاریخ کا روشن ترین دور قرار دیتا ہے۔

محمدؐ مصطفیٰ ﷺ کا عہدنبوّت اپنے سے پہلے کے تمام ادیان و مذاہب اور روایات و نظریات کے طویل دور اور اپنے بعد کے سائنسی اور علمی ترقیوں سے چھلکتے ہوئے روشن تاریخی زمانے کے درمیان ایک ایسا انقلاب آفریں موڑ ہے جس نے انسانی فکر کی راہیں ایک دم بدل ڈالیں اور جس سے ارتقائے انسانیت کے لیے ایک بالکل نئی سمت متعین ہوگئی۔

پیغمبر اسلام نے انسان کے گرد بنے ہوئے تمام غیرضروری دائروں اور خطوط وحدانی کو مٹاکر اُسے مظاہر قدرت سے بالا و برتر اور کائنات پر حاوی ہونے کا احساس دلاکر انسان اور معبود کے درمیان ایک واضح خط مستقیم کھینچ دیا۔ رسول اکرم ﷺ کا دور تاریخ انسانی کا وہ منفرد اور روشن دور ہے جب آسمان اور زمین کے رشتوں کی اصل نوعیت واضح ہوگئی اور جس کے بعد وحی و الہام کے سلسلے منقطع ہوگئے۔

رسول اکرم ﷺ کے بعد پوری دنیا میں کوئی قابل ذکر ہستی ایسی نہیں جس نے یہ جرأت کی ہو کہ آسمانوں سے رشتہ رکھنے کا دعویٰ کرسکے یا دنیا والوں کے سامنے کوئی آسمانی دین پیش کرسکے۔

پیغمبرِاسلام کی شخصیت قدیم و جدید کے درمیان نورِہدایت کا ایک ایسا عظیم منارہ ہے جس نے اپنے سے پہلے کے تمام مذاہب کی دھندلائی ہوئی روشنیوں کو نور سمیٹ کر اسے الہامی تجلیّات سے جِلا بخشی اور علوم و افکار اور فلسفہ و سائنس کو نور کے ایسے سانچے میں ڈھال دیا جس کی ضیاپاشیوں نے فکرِانسانی کے لیے ارتقاء کی راہ کو ہمیشہ کے لیے منورہ اور تاب ناک بنادیا۔ دورِجدید کی علمی ترقی اور تکنیکی فروغ کا نقطۂ آغاز رسول اکرمﷺ اور آپ کی تعلیمات ہیں۔

یہ رسول مقبولﷺ کا فلسفہ توحید ہے جس نے انسان پر انسانوں کی حاکمیت اور انسانوں پر مظاہر قدرت کی برتری کا فسوں توڑ دیا اور انسانوں کے پیروں میں بادشاہوں کی ڈالی ہوئی بیڑیاں، انسان کی گردن میں پڑے ہوئے مذہب کے ماورائی تصوّر کے طوق، مظاہر قدرت کی ہیبت ناکیوں پر مبنی توہمات کی ہتھکڑیاں سب ٹوٹ کر گرگئیں اور اس پیغام کو سن کر انسانیت نے کُھلے آسمان کے نیچے پہلی مرتبہ آزادی کی ایسی سانس لی کہ پھر آج تک کوئی اسے نہ قیدی بناسکا نہ ڈرا سکا اور نہ انسان کے مرتبے کو گھٹا سکا۔ آج کا نڈر، بے باک، آزاد اور محترم انسان اپنی اس آزادی اور آفاقی احترام اور برتری کے لیے پیغمبر اسلام ؐ کا مرہونِ منت ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ہزار ہا سال پرانے وہ تمام تصورات اور روایات جو مذہب کی آڑ میں پروان چڑھ رہے تھے اور جو پیغمبروں سے وابستہ کیے جاتے ہیں یکسر ختم کردیے۔ یہ تصوّر باطل قرار پایا کہ پیغمبر دنیا کا انسان نہیں بلکہ آسمانی مخلوق ہوتا ہے۔ یہ بات انسانی ذہنوں سے محو کردی گئی کہ پیغمبر معجزات کے بل بوتے پر زندہ رہتا ہے اور اس کے تمام کام آسمانی امداد اور غیبی طاقت سے انجام پاتے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ نے زندگی کو آسمان، سادہ اور عام ذہنوں کو متاثر کرنے والے پاکیزہ اصولوں کے مطابق عین فطری انداز میں بسر کیا اور درجہ بدرجہ حاصل کی ہوئی قوت اور مقبولیت کے سہارے نیکی اور اخلاق کو فروغ دیا اور اپنے کردار و اعمال کی قوت سے اپنے عقائد و نظریات کو پھیلایا اور لوگوں کو اپنا مطیع و فرماںبردار بنایا اور اس طرح ایک ایسے ٹھوس عملی پیغمبر کا نمونہ پیش کیا جسے لوگ دیکھتے اور سمجھتے تھے اور متاثر ہوکر اس پر ایمان لاتے تھے۔ اس نبی آخرﷺ نے نہ معجزات سے لوگوں کو حیران اور بے بس کیا اور نہ غیبی طاقتوں سے انہیں محکم بنایا۔

رسول اکرم ﷺ نے آسمانی امداد کے تصوّر کو ختم کرکے انسانوں کو ذاتی تدّبر، نظریاتی قوت، مسلسل کوشش، مقصد کی سچائی، اصولوں کی حفاظت، جذبہ کی پاکیزگی، کردار کی صلابت اور قربانی و ایثار سے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کا درس دیا۔ غیبی امداد اور معجزاتی واقعات کی امید پر بیٹھے رہنے کے اس نظریے کو پیغمبر اسلام نے فنا کردیا کہ خُدا اپنے نیک بندوں کی خود حفاظت کرتا ہے ۔

آپ نے عملی طور پر حرکت، جہد حیات، قوت، وسائل دنیوی کے جائز حصول، حقوق کی حفاظت، بدی کے خلاف نبردآزمائی کی جرأت، نیکی کے اصولوں کی خاطر طاغوتی قوتوں سے پنجہ آزمائی کرنے کی صلاحیت اور نیکی کی بنیاد پر برتری قائم کرنے کے کے لیے ایثار و قربانی اور تقویٰ و پرہیزگاری کے بے شمار نمونے پیش کیے۔

آپ نے جہدللبقا کے اس نظریے کو کہ طاقت ور مچھلیاں کم زور مچھلیوں کو نقل کر خوراک حاصل کرتی ہیں باطل قرار دیا اور ایک نیا اور پاکیزہ تصوّر قائم ہی نہیں کیا بلکہ اپنے عمل سے اس کی صداقت کو ثابت کیا آپ نے کچھ ایسا کیا کہ کم زوروں کے دل و دماغ سے اپنی کم زوری کا خوف جاتا رہا۔ آپ نے کم زوروں کو نظریہ کی قوت دے کر انہیں طاقت ور بنادیا۔ آپ نے مال و دولت کی کمی اور وسائل سے محرومی کے سبب طاری ہونے والی بے بسی اور کم زوری کو اخلاقی عقائد کی قوت سے پورا کیا اور دولت کی آغوش میں پرورش پانے والی بدی کی قوتوں کو نیک انسانوں کی نگاہوں میں حقیر و ذلیل بنادیا۔

رسول اکرم ﷺ نے جنگ کے اصول اور کام یابی کے پیمانے بدل دیے اور انسانی زندگی کو مقصدیت کے سانچے میں ڈھال دیا۔ اخلاقی اقدار کی حفاظت، پاکیزہ اصولوں کی نگہ داشت اور مخلوق خدا کی خدمت اور بہبود جیسے مقاصد کے بغیر گزاری جانے والی زندگی کو جانوروں کی زندگی سے بدتر قرار دے کر انسان کو محترم اور باوقار زندگی گزارنے کے آداب سکھائے۔ زمین کی سطح سے چپک کر اور دنیا کی حدوں میں قید ہوکر رہنے کے بجائے انسان کو آسمان کی بلندیوں کو چھونے اور خدا کی روحانی وسعتوں میں پھیل جانے کے لیے خدائی صفات کے اعلیٰ ترین نمونوں سے روشناس کرایا۔

رسول اکرم ﷺ کی ان تمام تعلیمات میں عمل اور مسلسل عمل اور جہد اور جہد پیہم حرکت اور حرکت دوام کا ایسا تصور پوشیدہ ہے جس میں انسان کی اجتماعی بہبود اور کم زوروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بدی کا سر کچلنے اور خدائی عظمت کے لیے سرگرم عمل رہنا ہی مقصد حیات اور منشائے الٰہی ہے۔

یہی وہ مقصد ہے جس کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے ہم رحمۃ اللعالمین پیغمبر کو میدان جنگ میں دیکھتے ہیں۔ یہ بھی پورے عالم انسانیت میں محمدؐ مصطفیٰ ﷺ کا احسان ہے کہ آپ نے دنیا کو جنگ کا ایک منفرد طریقہ سکھایا۔ دنیا کی آنکھوں نے وسائل سے محروم کم زوروں اور نہتے لوگوں کے ایک مختصر سے گروہ کو منظم جنگ لڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ بات انسانی تصوّر میں بھی نہ تھی کہ سرداروں، فاتحوں، بادشاہوں اور حاکموں کے علاوہ بھی کوئی جنگ کا خیال دل میں لاسکتا ہے۔

دنیا نے مسلّح فوجوں اور آراستہ لشکروں کو صف آرا ہوتے تو دیکھا تھا دنیا نے طاقت اور دولت کی پشت پناہی پر کم زوروں کو کچلنے اور ان پر حاکمیت قائم کرنے اور ان سے ان کے مال و دولت کو ہتھیانے کے لیے ہتھیاروں سے لیس اور جارحانہ بربرّیت کے نشے میں بدمست طاقت ور لوگوں کو تو اپنے سے کم زور علاقوں اور قوموں پر حملہ آور ہوتے دیکھا تھا۔ جنگ صرف طاقت وروں کا حق سمجھی جاتی تھی۔

جنگ صرف دولت و طاقت کی برتری کے زعم میں فوجوں اور ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی۔ لیکن تاریخ کی آنکھوں نے رسول اکرم ﷺ سے پہلے کبھی بھی کم زوروں اور پسے ہوئے انسانوں کو طاقت وروں پر حملہ آور ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ دنیا نے کب دیکھا تھا کہ چند افراد اپنے عقائد و نظریات کی حقانیت کے ثبوت اور نیکی کے اقدار کی حفاظت کے لیے مسلح اور طاقتور فوجوں کے سامنے صف آرا ہوئے ہوں۔

پیغمبر اسلامﷺ نے جنگ کا تصوّر بدل ڈالا۔ جنگ، دولت و اقتدار کے بھوکے بادشاہوں کا شوق تھا۔ رسول اکرم ﷺ نے اسے حقوق کی حفاظت اور اعلیٰ اقدار حیات کے قیام کے لیے کم زوروں کا فرض بنا دیا۔

غزوات نبوی کا ذکر ہے لیکن دل نہیں مانتا کہ پیغمبر کے لیے فاتح اور سپہ سالار کے الفاظ استعمال کروں۔ ان الفاظ سے جنگ کا وہی عمومی تصوّر قائم ہوتا ہے جو قابلِ نفرت ہے جب کہ پیغمبر کی جنگ ایک قسمت آزما جنگجو اور عام فاتح کی جنگ سے قطعاً مختلف اور پیغمبرانہ نظریۂ جنگ بالکل جداگانہ ہوتا ہے۔ پیغمبر کی جنگ کارنبوت کا ایک حصّہ اور انسانیّت کے لیے ایک جاںفزا پیغام ہوتی ہے۔ پیغمبر کی جنگ ظلم کی گردنیں کاٹ کر انصاف کو زندگی عطا کرتی ہے۔ پیغمبر کی جنگ دوسروں کے حقوق چھیننے کے لیے مسلح اور طاقت ور گروہ کی مدد سے نہیں لڑی جاتی۔ پیغمبر کی جنگ میں کم زور افراد کم زوروں کی مدد اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے سربکف نظر آتے ہیں۔

عام جنگ میں جہاں تلوار چلتی ہے پیغمبر کی جنگ میں وہاں تلوار رک جاتی ہے۔ عام جنگ میں جہاں مخالف کے وجود کو فناکر دینا عین مصالحت قرار پاتا ہے۔ پیغمبر کی جنگ میں انہی مواقع پر فریق مخالف کی صرف بدی کی قوتوں کو زائل کرکے اس کے وجود کو بقا و زندگی کی آزادی عطا کرکے اسے نیکی کے فروغ کے لیے استعمال کرنا کارنبوّت ہوتا ہے۔ عام جنگ میں اپنی ذات کے فروغ و بقا کے لیے حیلہ و فریب سے کام لے کر دوسروں کو ختم کیا جاتا ہے اور پیغمبر کی جنگ میں حیلہ و فریب کے خلاف جنگ کرکے انسانیت کی بقا اور پاکیزہ اصولوں کے ارتقاء کے لیے خود اپنی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔

عام جنگ میں انسانوں کے بے دریغ قتل و غارت سے قوّت و ثروت حاصل کی جاتی ہے اور پیغمبر کی جنگ میں قوت و اقتدار کی بے لگام طاقتوں کو زیر کرکے انسانیت کو جلا بخشی جاتی ہے۔

عام جنگ میں طاقت ور کم زوروں کے حقوق چھین کر اور زیادہ طاقت ور بن جاتے ہیں لیکن پیغمبر کی جنگ میں طاقت وروں کو کچل کر کم زوروں کو ان کے چھینے ہوئے حقوق واپس دلاکر انہیں زندگی کا حوصلہ عطا کیا جاتا ہے اور ان کے ذہنوں پر سے خدا کی اور نیکیوں کی عظمت کے علاوہ دنیا کی مادّی طاقتوں کے خوف کا بوجھ ہٹادیا جاتا ہے۔ پیغمبر کی جنگ تمام انسانوں کو مساویانہ سطح پر لاکر انسان پر انسان کی حاکمیت کو ختم کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے جب کہ عام جنگ کا مقصد ہی ایک انسان یا ایک طبقہ کی دوسرے انسانوں پر حاکمیت کو اور زیادہ مستحکم طور پر قائم کرنا ہے۔

غزوات نبوی میں ظلم و تشدد میں پسی ہوئی مظلوم انسانیت کے لیے رنگ و نسل، مادی وسائل اور دولت و اقتدار کی بالادستی اور ان بنیادوں پر انسان کو انسان سے افضل و بہتر ماننے کے تصوّرات کے خلاف جنگ کرنے کے عملی نمونے ہیں، غزوات نبوی میں عقیدہ کی قوت، نظریات کی بالادستی اور پاکیزہ اصولوں کی فرماںروائی کی مثالیں ہیں۔ غزواتِ نبوی کم زور اور بے سہارا لوگوں کو جذبے اور عقیدے کی قوت سے طاقت ور بنانے کا زندہ و تابندہ ثبوت ہیں۔

یہ غزوات سچائی اور دیانت کے لیے سربکف ہوجانے کا عملی درست دیتے ہیں۔ یہ غزوات حق پرستوں کو جینے کا ڈھب اور سچائی کی علم بردار کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ یہ غزوات زندگی اور موت کی راہوں میں عزت و ذلّت کی سمتیں متعین کرتے ہیں۔ یہ غزوات کم زوروں کو اسلحہ اور بارود کی کمی اور محرومی کے باوجود فتح وکامرانی حاصل کرنے کے گُر سکھاتے ہیں۔

یہ غزوات نہّتے انسانوں کو سیسہ پلائی دیوار میں ڈھل جانے کی قوت بخشتے ہیں۔ یہ غزوات انسان کو اپنی انسانی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں اور اُسے اعلیٰ مقاصد پورا کرنے کے لیے خدائے واحد کا آلۂ کار بننے کا شرف بخشتے ہیں، اس کے ہاتھوں صداقت و اخلاق کے اعلیٰ مقاصد پورے ہوتے ہیں اور دنیا میں عدل و انصاف کی روایتیں قائم ہوتی ہیں۔

غزوات نبوی میں ابھرنے والی شجاعت و دلیری اور جرأت و بہادر میں خوں آشامی، قتل وغارت ، ظلم و بربرّیت اور انسانیت سوز حرکات کی داستانیں نہیں ہیں نہ ان غزوات میں طاقت کے طاقت سے ٹکرانے کی دل دہلادینے والی جھنکار ہے۔ نبیﷺ کی جنگیں سیرت سازی کی تربیت گاہ ہیں۔ یہ پوری انسانیت کے لیے آپریشن تھیٹر ہیں جہاں فاسد اور ناپاک خون نکالا جاتا ہے۔ اور جہاں صرف اتنا نشتر چلایا جاتا ہے جتنا اصلاح کے لیے ضروری ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ غزوات نبویﷺ کے تمام جزئیات کو تاریخی صداقت کے ساتھ بے کم و کاست اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کہ معاملات جنگ میں دنیا کی رہنمائی ہوسکے اور جنگ کے پاکیزہ مقاصد کا تصوّر بھی دنیا والوں کے مادّی ذہن میں سما سکے اور خود اہلِ اسلام بھی جنگی اصولوں کے اس انقلاب آفریں نظریۂ جہاد کی صداقت پر یقین کرکے اس پر عمل پیرا ہوسکیں اور اپنے نظریات جنگ کو اسلام کے فلسفۂ جنگ سے ہم آہنگ بناسکیں نہ کہ ہم اپنی جنگوں کا جواز تلاش کرنے کے لیے غزوات نبویﷺ کی تعبیرات و تفصیلات کو ایسے رنگ میں پیش کریں کہ عام لڑائیوں اور پغمبرانہ جنگ کا واضع امتیاز ختم ہوجائے۔

آپ نے ثابت کردیا کہ پیغمبر جنگ بھی لڑتا ہے تو لوگوں کو عقیدہ کی سچائی اور جذبہ کی صداقت کا درس دیتا ہے۔

The post غزوات نبویﷺ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles