ذکر رسول ﷺ ذکر الہٰی کی ہی ایک جہت ہے، یہ ذکر جہا ں دل کو سکون دیتا ہے، روح کو توانا اور طبیعت کو شاد رکھتا ہے وہیں آپ ﷺ کی سیر ت کے انوار و کما لات سے مستفید ہو نے کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔
آپ ﷺ کی عظمت اور جمال صوری و معنوی کا بیا ن اہل ایما ن کا بنیا دی وظیفہ رہا ہے۔آپ سے والہا نہ محبت ہی اہل ایما ن کا شعار ہے۔ نبی اکرم ﷺ پرایمان لانے کے بعد جو آپ کا اولین حق جو امت کے ذمے ہے وہ ہے آپ کی ذات اقدس سے سب سے زیادہ محبت کرنا ہے یعنی تمام محبتوں پرغالب آپ کی محبت ہو، ہر رشتے، شے اور نسبت کی محبت آپ کی محبت کے سامنے ہیچ ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ جانا جائے کہ محبت کی تعریف کیا ہے؟محبت ہوتی کیوں ہے اس کے تقاضے اوراثرات کیا ہیں۔ محبت، اس قلبی میلان کوکہتے ہیں جوکسی خوبی، فضل، کمال اور جمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔
محبت کے ساتھ ایک اوراصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس کا نام ہے عشق، قرآن وسنت میں محبت ہی کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، لیکن عربی، فارسی اور پھر بعد میں اردو ادبیات میں نثر و نظم میں عشق کا کثرت سے استعمال ہوا ہے ۔ محبت انسان کا فطری جذبہ ہے جواس کوتخلیقی طور پر بلکہ اس کو روحی طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ محبت وعشق ہی وہ قوت ہے جو حیات انسانی کا عظیم محرک ہے، عمل کی سب سے قوی اساس ہے منزل پر پہنچنے کا زادِ راہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’محبت میری بنیاد ہے اور شوق میری سواری ہے۔‘‘
اعمال کی اساس جب تک محبت پر نہ ہوگی عمل بے روح ہی رہے گا اور کسی شے کے حصول کا شوق بھی نہیں ہوگا۔ ہرعمل کی بنیاد جب عشق و محبت پر ہوگی تو پھرکوئی عمل بھی بے لذت اور بے کیف نہیں ہوگا۔ ہرعمل لذت سے آشناکرے گا ہرعمل گل ہائے رنگ رنگ کے مناظر پیش کرے گا ہرعمل وصل یارکی تڑپ اورشوق کی آتش کو بڑھائے گا۔
دین اسلام کاضابطہ محبت
یہ بھی ایک عجیب سوال ہے کہ ’’محبت کاضابطہ کیا ہو؟‘‘عشاق کوکسی ضابطہ کا پابند تو نہیں کیاجا سکتا لیکن اسلام چونکہ ہرجذبہ کی تہذیب و تصویب کرتا ہے تاکہ جذبات بے اعتدال ہوکرکہیں مقاصد سے دور نہ ہوجائیں۔
جذبات حصول منزل میں معاون ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔’’وہ کفار ان بتوں سے محبت کرتے ہیں، اللہ کی محبت کی طرح اور اہل ایمان اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘ کفار بتوں سے اپنی باطل خواہشات، فرسودہ رسومات اور اپنے باپ دادا کے باطل عقائد کی وجہ سے چاہت رکھتے ہیں جیسا کہ ان کو اپنے خالق سے رکھنی چاہیے تھی لیکن ایمانی، روحانی، دینی و آخروی فوائد و سکون کا انحصار حب الہٰی پر ہے، خالق سے محبت کا اظہار اور عملی رنگ محبت رسول ﷺ ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری (محمد رسول اللہ ﷺ کی) اتباع کرو (تو پھر) اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔‘‘ ایمان اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کا نام ہے یعنی اللہ کا عاشق ہونا، اتباع رسول ﷺ کے بغیر یہ صرف دعویٰ ہے۔
عشق الہٰی کی دلیل اتباع رسول ﷺ ہے اور اتباع رسول ﷺ، محبت رسول ﷺ کے بغیر صرف نقالی ہے، تو جب تک مومن کا قلب و روح عشق رسول ﷺ سے معمور نہ ہوگا نہ ایمان کی حلاوت نصیب ہوگی نہ حب الہٰی کا دعویٰ درست ثابت ہوگا نہ نور و ظلمت میں فرق واضح ہوگا اور نہ ہی ذنوب پرقلم عفو پھیرا جائے گا نہ ہی”صبغۃ اللہ” مومن کی حیات میں نظرآئے گا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ محبت الہٰی کا تقاضا ”صبغۃ اللہ” (اللہ کے رنگ) کو پردہ حیات (LifeCanvas) پر نمایاں کرنا ہے اور صبغۃ اللہ، اتباع رسول ﷺ ہی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ محبت ایک الگ جہت ہے اور اتباع الگ جہت ہے، گو کہ محبت کے رنگ اتباع میں نظر آتے ہیں لیکن جن کو اتباع کا موقع نہیں ملا اور انہوں نے آپ ﷺ سے محبت کی توکیا وہ محروم انعام رہیں گے؟ قطعاً نہیں۔ محبت کے ہر جذبے اور ہر پہلو کی قدر ہوتی ہے، عمل کی کمی کو محبت پورا کرے گی لیکن محبت کی کمی کو عمل پورا نہیں کرسکتا بغیر محبت کے اطاعت وہ کیفیت نہیں لا سکتی جو مطلوب ہے۔
ایک ہے اللہ کی محبت کا دعویٰ اور ایک ہے اللہ کا محبوب بننا دین نے اس حوالے سے واضح کیا ہے کہ اللہ کا محب یعنی اس کی محبت کا دعوے دار اس کا محبوب بن سکتا ہے خالق کا محبوب بننے کی سبیل اور کلید ’’فاتبعونی‘‘ ہے، فاتبعونی کی مختلف جہات کا ذکر قرآن نے کیا ہے اور پھر واضح کیا کہ ہر جہت سے اللہ کامحبوب بنا جا سکتا ہے چند امثال ملاحظہ ہوں، ارشاد ہوتا ہے: ’’بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کی پوری حیات مبارکہ احسان سے عبارت ہے حسنِ فکرکا اظہار، حسنِ عمل کی صورت میں پیش کرنا حقیقی معنوں میں آپ ﷺ ہی کا اسوہ حسنہ ہے۔ ہر معاملہ حسین، ہر پہلو دلربا، ہر صفت جمالِ یار کا مظہر، ہر وصف سے حسن وخیرکی رعنائیاں آشکار ہوئیں۔ اسی طرح صبر،تقویٰ، توکل، عدل، توبہ اورطہارت اختیارکرنے والوں کے لیے محبت الہٰی کا مژدہ سنایا گیا ہے، نبی اکرم ﷺ نے نہ صر ف ان سب اوصاف کانمونہ پیش کیا بلکہ ان کی کامل شرح فرماتے ہوئے اس پر اپنے نظامِ تعلیم و تزکیہ کی بنیاد رکھی، اسوہ حسنہ کا یہ ہمہ جہتی گلدستہ جو بندہ کومحبوبِ الہٰی بناتا ہے پر ہر عہد میں اہل اللہ نے تعمیرِ شخصیت وکردارکے نظام کومرتب کیا۔
اللہ تعالیٰ کے صالح اور مقبول بندے ہی فی الحقیقت اللہ کے محبوب و مقبول بندے ہیں اور اہل ایمان کے دلوں میں ان کی محبت ودیعت کردی گئی ہے۔ اللہ کا محبوب ہونا بھی اللہ کی محبت کا ثمر ہے، اللہ کی محبت کی دلیل، محبت رسول ﷺ اوراتباع رسول ﷺ ہے، پھراتباع رسول ﷺ اللہ کی بارگاہ میں محبوبیت کی دلیل ہے اوراللہ کی بارگاہ میں محبوب ہونادنیا والوں کا محبوب ہونے کی دلیل ہے، سچی محبت یعنی عشق حقیقی کے ثمرات دنیا میں ہی نظرآجاتے ہیں، اور ابھی عالم برزخ اورعالم آخرت میں محبت کے دائمی اور ابدی ثمرات سے اہل محبت کا فیض یاب ہوناباقی ہے۔
ذات رسالت ﷺسے محبت وعشق
نبی اکرم ﷺ سے محبت تقاضائے ایمان نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ اس حوالے سے”لایؤمن أحدکم”والی مشہور حدیث ذہن نشین رہے، بعض اہل علم محبت رسول کے ضمن میں اس حدیث کو کامل ایمان سے تعبیرکرتے ہیں، حالانکہ ایسی بات نہیں۔ معاملات میں نبی اکرم ﷺ کا ”لایؤمن”کہنا کاملیت کے لیے ہو سکتا ہے لیکن یہ معاملہ اعتقادی ہے۔
ذات رسول ﷺ سے وابستگی محبت کے بغیر ممکن نہیں، زبان سے کلمہ تو منافقین بھی پڑھتے تھے، لیکن ان کے قلوب محبت رسول ﷺ سے خالی تھے، اسی وجہ سے وہ ہرکام میں سود و زیاں کا پہلو سامنے رکھتے تھے۔ زبان سے کلمہ پڑھنا اور دل میں نبی اکرم ﷺ کی محبت کا نہ ہونا یہی نفاق ہے، جبکہ جن کے قلوب محبت رسول ﷺ سے معمور تھے، اس کا اثر ہر موقع اور ہر مقام پرذات رسالت سے فدا کاری کی صورت میں نظر آتا تھا، جان، مال، اولاد، ہر رشتہ اور تعلق نبی اکرم ﷺ کے سامنے کوئی معنی اور وقعت نہیں رکھتا تھا۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ’’فرما دیجئے! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور تجارت، جس کے کم ہونے سے تم ڈرتے ہو اورتمہارے گھرجن کو تم پسند کرتے ہو زیادہ محبوب ہیں اللہ اوراس کے رسول سے اوراس کی راہ میں جہادکرنے سے، تو پھر انتظار کروکہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ فاسقوں کوہدایت نہیں دیتا۔‘‘ انسان کوزندگی میں جن رشتوں اور جن چیزوں سے محبت ہوتی ہے ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان چیزوں کی محبت کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ توجہ آپ ﷺ کی محبت کی طرف دلائی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس کواللہ کریم نے اس طرح کا بنایا ہے کہ آپ ﷺ سے محبت کے بغیر اہل ایمان کا چارہ نہیں، آپ ﷺ کا اسم مبارک محمد ہے اور محمد کے لغوی معنی ہیں:
’’پس محمد اس کوکہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے۔‘‘ تعریف ہمیشہ کسی خوبی، کمال، وصف یا جمال کی ہوتی ہے ہر انسان میں کوئی ایک خاص خوبی ہوتی ہے جوا س کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اولین وآخرین میں صرف نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس ایسی ہے جوجمیع کمالات وخصوصیات کا منبع ہے۔ کوئی ایسی خوبی وکمال نہیں جو آپ ﷺ کی ذات میں موجود نہ ہو، کسی شخص کی خوبی کسی خاص وقت کے لیے ہوتی ہے، خاص گروہ، قبیلے یا علاقے کو متاثر کرتی ہے لیکن آپ ﷺ کے اوصاف وخوبیاں زمان و مکان کی حدود سے ماوراء ہیں۔ آپ نے خود فرمایا کہ ’’میں تمام پہلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں مگر اس پر فخر نہیں کرتا۔‘‘ آپ ﷺ کے محترم و مکرم ہونے کی ایک جہت آپ ﷺ کاخلق عظیم، کمالات جمیلہ، اوصاف حمیدہ میں سب سے ممتاز و نمایاں ہونا ہے۔
الغرض ایک انسان کسی بھی خوبی کی وجہ سے کسی کو پسند کرے گا تو وہ خوبی نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس میں پائے گا۔ نبی اکرم ﷺ سے انسان توکیا ملائکہ، جنات، پہاڑ، جانور، درخت سب نے ہی اپنے اپنے انداز سے آپ ﷺ کو سلام محبت پیش کیا ہے۔ پہاڑکو ہی دیکھ لیجئے، کون نہیں جانتا کہ اُحد پہاڑ نبی اکرم سے کس طرح محبت کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ محبت تو دل میں ہوتی ہے پہاڑ کا دل کہاں؟بلکہ جس دل میں محبت نہ ہو اس کوسنگ دل کہاجاتا ہے، سنگ پتھرکوکہتے ہیں، پتھرکے مجموعے کا نام ہی پہاڑ ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی ذات وہ ہے جس سے پہاڑ بھی محبت کرتے ہیں، اورآپ ﷺ کی اس کو معرفت بھی حاصل ہے، محبت کے بدلے محبت، جونبی پاک کامحبوب وہی اللہ کامحبوب اور جو اللہ کا محبوب کامیابی و نجات اس کا مقدر ہے۔ صحابہ کرام، ازواج مطہرات اوراہل بیت اطہار یہ سب پاک طینت و پاک باز رسول اکرم ﷺ کے محب بھی ہیں اورمحبوب بھی۔ ان کو سرفرازیاں اور رتبے محبت رسول ﷺ ہی کی وجہ سے حاصل ہوئے، کسی فرماں روا کے مصاحبین، کسی بادشاہ کی رعایا کسی معلم کے تلامذہ بلکہ کسی نبی کی اُمت نے عشق و محبت کی وہ داستاں رقم نہیں کی جو محبت کے رنگ اصحاب رسول، ازواج رسول اور اہل بیت کے ہاں نظر آتے ہیں وہ انہی کا کمال تھا۔
نبی اکرم ﷺ نے سب کے جذبہ محبت کی قدر کی، ان کوسراہا، شفقتوں اور عنایتوں سے نوازا اور فرمایا۔ ’’میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے ان میں سے ہر ایک شخص کی یہ خواہش ہوگی کہ کاش وہ اپنے تمام اہل اور مال قربان کرکے میری زیارت کر لے۔‘‘ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اہل ایمان میں سے ہرعہد میں ایسے عشاق کثرت سے گزرے ہیں جو اس حدیث کا مصداق تھے۔ محبت رسول ﷺ مومن کا کُل اثاثہ حیات ہے۔
’’ایک آدمی نے نبی پاک سے سوال کیا یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی، آپ ﷺ نے پوچھا تیری تیاری کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کچھ نہیں، مگر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، توآپ ؐ نے فرمایا تو اس کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت کرتا ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں ہمیں کسی شے سے اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی خوشی نبی پاک ﷺ کے اس فرمان:”أنت مع من أحببت”سے ہوئی، پس مجھ کو نبی پاک ﷺ سے حضرت ابو بکر، حضرت عمر سے محبت ہے، اور اُمید ہے کہ محبت کی وجہ سے میں ان کے ساتھ ہوں گا، گوکہ میرے اعمال ان کے اعمال کی طرح نہیں ہیں۔‘‘
اس حدیث میں نبی پاک ﷺ کے قیامت کے حوالے سے تیاری کے متعلق اس بندے نے کہا”لا شیء”یعنی کچھ تیاری نہیں، حالانکہ وہ صحابی تھے، اورصحابہ کرام کے اعمال سے امت بخوبی واقف ہے، لیکن اپنے ہرعمل پرفائق عمل وہ حُبِ رسول بتا کر یہ واضح کر رہے ہیں کہ اعمال میں اگرکوئی عمل سب سے زیادہ درجہ رکھتا ہے تو وہ محبت رسول ﷺ ہی ہے، اورپھرحضرت انس کا”فرحنا ”فرمانا کہ ہم خوش ہوئے سے بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام آخرت میں کامیابی کی کلید اپنے اعمال کونہیں بلکہ محبت رسول ﷺ کو قرار دیتے تھے۔
؎بخاری ہی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے قیامت سے متعلق سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تیری تیاری کیا ہے؟تواس نے عرض کیاکہ ’’میں نے بہت زیادہ نماز، روزہ اورصدقات کے لحاظ سے تیاری نہیں کی لیکن اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ محبت کرتا ہوں اس کے جواب میں نبی پاکﷺ نے فرمایا”انت مع من أحببت”تو اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔‘‘اس طرح کی ایک اور حدیث میں حضرت انس بن ما لک کے یہ الفاظ ہیں کہ :
’’پس اس دن (نبی پاک کی زبان مبارک سے یہ جملے سن کر) ہم بہت زیادہ خوش ہوئے۔‘‘ کیوں خوش ہوئے کہ صحابہ کرام کوسب سے زیادہ یعنی شدید محبت نبی پاکﷺ کی ذات اقدس سے تھی، اب ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ جس کریم ذات سے ہم اپنی جان سے بڑھ کرمحبت کرتے ہی۔ انہی کے ساتھ قبر، حشر اور جنت میں ہوں گے۔
احادیث میں یہ بھی آیا ہے۔ ’’آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے اس کی محبت ہوتی ہے۔‘‘ سائل کاسوال سن کر نبی پاک ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ صلوٰۃ و صوم اور صدقات کی کثرت کرو، معلوم ہوا کہ نجات کا دار و مدار اعمال پر نہیں حُبِ رسول ﷺ پر ہے، یہ اعمال، حسنات، صدقات سب حُبِ رسول ﷺ کانتیجہ ہوتے ہیں، اور پھرصحابہ کرام کے یہ اعمال کس درجہ کے ہوں گے، لیکن قیامت کی تیاری کے لیے انہوں نے اگرکسی شے پرانحصار کیا ہے تو وہ محبت رسول ﷺ ہے۔
اس سے کوئی اعمالِ صالحہ اور صوم وصلوٰۃ کی عظمتوں کی نفی نہ سمجھے بلکہ ان کا اپنا مقام ہے اور یہ محبت رسول ﷺ ہی کے رنگ ہیں، کیونکہ جب کوئی نماز پڑھتا ہے اور اگر وہ اپنے طریقے سے پڑھے گا تو وہ مردود ہوگی، اورجب نبی پاکﷺ کے طریقے کے عین مطابق پڑھے گا تو مقبول ہوگی کیونکہ اب اس نے اللہ کے محبوب کی محبوب اداؤں کودہرایا ہے۔ محبت رسول ﷺ کے بغیراعمال بے روح ہیں کوئی بھی عمل اگرجذبہ حبِ رسول کے بغیرکیاجائے گا توقبولیت توایک طرف رہی اس کا نہ انفرادی اثر ہوگا اور نہ اجتماعی، وہ ایک طرح کی بے اثر ریاضت و مشق ہوگی، جو سوائے وقت کے ضیاع کے اورکچھ بھی نہیں، سچ فرمایا تھا شاعر مشرق نے کہ۔
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
محبت کے تقاضے
ہرفکر، ہر عمل اور ہر جذبہ کا اظہار مختلف حوالوں سے ہوتا ہے جسے دیکھ کراس فکر، عمل اور جذبے کی صداقت کا پتہ چلتا ہے۔ محبت رسول ﷺ ایک پاکیزہ فکر بھی ہے، اعلیٰ عمل بھی ہے، اور جذبہ صادق بھی۔ آپ ﷺ سے محبت کرنے والوں کو دنیا نے ان کے کارناموں کی وجہ سے پہچانا، ان کے اعمال وکردار ان کے جذبہ محبت کی دلیل تھے۔
ان کواپنی محبت کے لیے اعلان کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ ان کا ہرعمل حُبِ رسول ﷺ کا مظہر تھا۔ یہ محبت جس کوعشق حقیقی بھی کہاجاتا ہے اس کے دوطرح کے تقاضے ہیں ایک تونظری اوردوسرے عملی۔ نظری تقاضا یہ ہے کہ محبوب کو بے مثل اور بے عیب ماناجائے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ’’تیری کسی سے محبت (اس کے عیوب دیکھنے سے) اندھا اور (محبوب کا عیب سننے سے) بہرہ کردیتی ہے۔‘‘
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا۔’’جوجس سے محبت کرتا ہے اکثر اس کو یاد کرتا ہے۔‘‘ یادکرنے اور یاد رکھنے میں بڑا فرق ہے، پھرکس طرح یاد کیا جائے، جیسے صحابہ کرام یادکرتے تھے، ان کی حیات کاکوئی لمحہ یاد رسول ﷺ کے بغیر نہ گزرتا، سفر وحضر، راحت ورنج، فرحت وانبساط، لیل ونہار ان کی خلوت ان کی جلوت ذکرِ حبیب سے خالی نہ رہتی، یادِ محبوب نے ان کواحکام محبوب سے کبھی غافل نہ کیا، زندگی میں آنے والاہر مسئلہ کا حل وہ نبی اکرم ﷺ کی سنت ہی میں تلاش کرتے اور وہاں اس کاجامع حل پاتے۔ محبت کاایک تقاضا یہ بھی ہے کہ محبوب کے محبوبوں سے بھی محبت رکھی جائے، نبی اکرم ﷺ نے جن لوگوں سے محبت کی، جن مقامات سے محبت کی، جن اشیاء کو پسند فرمایا ان سب سے محبت آپ ﷺ کی محبت کاتقاضاہے۔
شخصیات میں اہل بیت اطہار، ازواج مطہرات، صحابہ کرام مقامات میں مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، بیت المقدس، حجرِ اسود، مسجدقبا، احد پہاڑ، غارِ حرا ان سب سے محبت کی وجہ محبت رسول ﷺ ہے۔ اس طرح معاملات زندگی میں اشیائے خورونوش اوردیگرضروریات زندگی کی چیزیں، جن کونبی اکرم ﷺ نے پسند فرمایاان کی محبت بھی اہل ایمان کاشیوہ رہاہے۔
ایک محب کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ اس کامحبوب اس سے خوش رہے اگرہمیں نبی پاک ﷺسے سچی محبت ہے توہمیں یہ غورکرناچاہیے کہ ہمارے کس طر ح کے اعمال، کردار، معاملات، رویوں اوراخلاق سے نبی کریم ﷺ کو فرحت حاصل ہوگی، کیونکہ اگرہمارے کسی فعل سے ہمارے پیارے نبی ﷺ ہم سے ناراض ہوگئے توہماری محبت کا دعویٰ باطل ہوگا، اورمحبت کا وہ معیار جو مطلوب ہے وہ مفقود ہوجائے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم عاشقان رسول ﷺ خود ہی اپنی اداؤں پرغورکریں۔
عشاق ومحبین کی اپنی خاص علامات ہوتی ہیں، وہ اپنے محبوب جیسابننے کی کوشش کرتے ہیں، ظاہرمیں بھی، باطن میں بھی، خلوت میں بھی اور جلوت میں بھی۔علامہ قسطلانی، امام محاسبی کیحوالے سے علامات محبت کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’محبوں کی علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کاذکر کثرت سے دائمی طورپراس طرح کرتے ہیں کہ نہ توکبھی ذکرسے جداہوتے ہیں، اورنہ کبھی چھوڑتے ہیں اورنہ کبھی کوتاہی کرتے ہیں، اوراہلِ دانش کااس پراجماع ہے کہ محبوب محب کے دلوں پرایسا غالب ہوتاہے کہ نہ تو وہ اس کا بدل چاہتے ہیں اور نہ ہی اس سے پھرنا، اور اگر ان کے محبوب کا ذکر ان سے جدا ہو جائے تو ان کی زندگی تباہ ہو جائے اور وہ کسی چیزمیں لذت و حلاوت نہیں پاتے جو ذکر محبوب میں پاتے ہیں، ہر شے سے زیادہ حلاوت، لذت اور راحت ذکر محبوب سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اکابرین اسلام نے تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ، تصوف یادین اسلام کے کسی بھی پہلوکاذکرکیاہے اس کی بنیادمحبت رسول ﷺ ہی تھی، فقہ کے حوالے سے امت مسلمہ کاممتازترین نام حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے، ان کی علمی وفقہی خدمات اور ان کے حالات زندگی کامطالعہ کیجئے، ان کی تمام کے پیچھے حبِ رسول ﷺ ہی جذبہ نظر آئے گا۔‘‘ اسی طرح علم حدیث میں امام بخاری نمایاں ترین ہستی ہیں، ان کی کتاب کوبعد کتاب اللہ صحیح ہونے کاجورتبہ ملاہے وہ محبت رسول ﷺ ہی کانتیجہ ہے۔ دنیائے تصوف کے امام حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے جو احیائے دین کی خدمت کی وہ بھی محبت رسول ﷺ ہی کافیضان تھا۔
کس کس کانام لیاجائے علماء ہوں یاخطباء، واعظین ہوں یامتکلمین، مصنفین ہوں یامولفین، شہید ہوں یاغازی، سب ہی نے اپنے انداز اوراپنی استعدادکے مطابق محبت ہی کااظہارکیاہے، محبوب کانام محبین جب سنتے ہیں توکیاانداز ہواس حوالے سے علامہ محاسبی فرماتے ہیں۔ ’’نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی علامات میں سے یہ ہے کہ آپ کے ذکرمبارک کے وقت آپ کی تعظیم کی جائے، اورخصوصاً آپ ﷺ کانام مبارک سنتے وقت خشوع وخضوع اورعاجزی کااظہارکیاجائے۔‘‘مزید لکھتے ہیں۔ ’’اوریہ بھی آپ ﷺ کی محبت کی علامتوں میں سے ہے کہ آپ ﷺ کامحب آپ ﷺ کے ذکرشریف سے (روحانی)لذت وسرورپائے اورآپ ﷺ کانام مبارک سنتے ہی خوش ہوجائے۔‘‘ایک مومن کوجس قدرآپ ﷺ سے محبت ہوگی اس قدرہی وہ اظہارکرے گا۔
غزوہ تبوک کے موقع پرانفاق کااعلان سب اہل ایمان کے لیے تھا، سب نے اپنے کریم محبوب کی صداپرلبیک کہالیکن عشق کے رنگ جوصدیق وفاروق نے پیش کیے، تاریخ اسے کبھی فراموش نہ کر پائے گی اور ان کے جذبہ حبِ رسول ﷺ کوسلام پیش کرتی رہے گی، نبی اکرم ﷺ نے اس موقع پر سب کو دعائوں سے نوازا، جو جتنا لایا قبول کیا، سب کے اظہار چاہت کو نگاہ محبت سے دیکھا۔ صحابہ کرام ہرلمحہ حُبِ رسول ﷺ میں اتنے سرشار رہتے تھے کہ آپ کی اتباع و رضا کا موقع تلاش کیاکرتے تھے۔
قرب کی وجہ سے وہ مزاج آشنا بھی ہوگئے تھے جوجتناقریب تھا وہ اتنا ہی مزاج آشنا تھا، آپ ﷺ کااشارہ، آپ ﷺ کے الفاظ کا مفہوم اور چہرہ مبارک کے تاثرات سے آپ ﷺ کی پسند و ناپسندکوسمجھ لیاکرتے تھے، عشق رسول کی تمازت ان کے چہروں سے عیاں ہوتی تھی، آپ ﷺ کودیکھ کر ان کے سارے رنج، ملال اور تکا لیف دور ہو جاتی تھیں، دبستان عشق ہی سے یہ صدا آتی تھی کہ (یارسول اللہ! آپ کے ہوتے ہوئے کسی آنے والی تکلیف کی پرواہ نہیں)۔
یہ سب ان کی اپنے کریم آقا سے محبت کے بیانیے، تقاضے اور اظہار کے رنگ تھے، احکامات شریعہ کی پابندی کے علاوہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھ محبت کاکوئی مخصوص عمل متعین نہیں کیا، لیکن ہر صحابی آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ذوق و وجدان کے ساتھ محبت کا اظہار کرتا، نبی اکرم ﷺ ہرایک کے جذبہ محبت کوسراہتے اورتحسین کی نگاہ سے دیکھتے، نبی اکرم ﷺ سے عظمت توحیدکا سن کرایک صحابی خود ہی سورۃ اخلاص کو خاص کر بیٹھے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ۔ ’’نبی اکرم ﷺ نے ایک سریہ کے لیے ایک صحابی کو مقررکیا وہ جب اپنے ماتحتوں کونماز پڑھاتے تواختتام سورۃ اخلاص پرکرتے، جب صحابہ کرام واپس لوٹے تو انہوں نے اس کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اس سے پوچھوکہ وہ کس وجہ سے ایسا کرتا ہے؟صحابہ کرام کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ اس لیے کہ اس میں رحمٰن کی صفات ہیں، پس اس وجہ سے مجھے پسند ہے کہ اسے پڑھوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ اسے خبر دو کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ یہ ہے عشق و محبت کاجہان صرف ذکرکے بدلے ذکر ہی کا وعدہ نہیں بلکہ محبت کے بدلے میں بھی محبت کی جائے گی۔
محبت رسول ﷺ کے اثرات
خیر کا ہرجذبہ نہ صرف اثر دکھاتا ہے بلکہ اثر پذیر بھی ہوتا ہے، محبت رسول ﷺ سب سے بڑی خیر ہے جس میں جتنا اضافہ ہوگا، جتنی شدت آئے گی، اس کا مثبت اثر ہی ظاہر ہو گا، کیونکہ صرف یہی محبت ہے جو پاک و منزہ ہے، محبت اگرسچی ہوگی تواس کا اثر عمل سے بھی نظر آئے گا، لیکن بشری کمزوریوں کی وجہ سے اگرکہیں غلطی وکوتاہی ہوجائے گی تو اس سے محبت کی صحت پر اثر نہیں آئے گا۔ محبت کا جذبہ اپنی جگہ ٹھوس اور اٹل ہی رہے گا۔ گوکہ عملی کمزوری نا پسندیدہ ہے اس پرافسوس اور ندامت تو ہوگی لیکن لعن طعن کی ممانعت ہے۔ محبت کے اثرات مختلف صورتوں میں سامنے آتے ہیں، کبھی امتحان وآزمائش کی صورت میں، کبھی فقر و فاقہ کی صورت میں، اللہ تعالی اپنے حبیب ﷺ کے چاہنے والوں کو اُن کے جذبہ محبت کے مطابق آزماتا ہے۔
سچا محب بے خوف وخطرنتائج کی پرواہ کیے بغیر اپے سفرِ عشق کو جاری رکھتا ہے، اور راہ میں آنے والے جاںگُسل مرحلوں سے بخوبی گزرتا ہے۔ اس امت کے اولین عشاق جنہوں نے نہ صرف عشقِ رسول میں جینا سیکھا، بلکہ محبتِ رسول ﷺ ہی میں دیارِ محبوب میں مرنے کادرس دیا۔ اسی طرح حضرت عمرفاروق یہ دعا مانگاکرتے تھے۔
’’اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے رسول کے شہر(مدینہ منورہ) میں موت نصیب فرما۔‘‘ اہل محبت اپنا مزاج وفور محبت کی وجہ سے جدا ہی رکھتے ہیں، غلبہ محبت نے ان کی طبیعتوں پر اثر ڈال اہوتا ہے کہ ان کا ہرعمل عقل کے زیرِ اثر نہیں بلکہ محبت کے زیرِ اثر ظہور میں آتا ہے۔ کیونکہ عشاق سود و زیاں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ عشق رسول ﷺ کی داستاں کا ایک منظرِجمال، ذکر ِسید نا بلال بھی ہے۔ ذات رسول ﷺ کا یہ فریفتہ مکہ کی سنگلاخ و ریتلی تپتی گلیوں میں جب پھیرایا جاتا تھا توکس کی محبت کے جام اس کے قالب و روح کوسیراب کرتے۔
جی ہاں!یہی بلال وصالِ یار کے بعد دیدار یارکی مہجوری کے غم میں اس شہرخوباں سے کوچ کرگیا، ماہ وسال گزرتے گئے، جب اس عاشق صاد ق کے وصال کا وقت قریب آیا تو وفا شعار بیوی تڑپ کے بولی، ہائے غم!آپ نے فرمایا: بہت خوشی کا مرحلہ ہے، کل میں اپنے محبوب کریم ﷺ اور ان کے اصحاب سے ملاقات کروں گا۔ محبتِ رسول ﷺ کا کیا اثر ہے کہ موت کے لمحات کوب ھی سیلیبریٹ(Celebrate)کیا جا رہا ہے، قلوب جب محبتِ رسول ﷺ سے معمور ہوں گے توحزن وملال یا خوف و رنج کا وہاں کیا کام! محبوب کے محبوبوں کی یاد بھی راہِ محبت میں اکسیرکا کام کرتی ہے۔ بدر و اُحد حق و باطل کا معرکہ تھے، لیکن کفرکاسامنا اس وقت قوت عشق سے تھا، عشق ہرشے کوخس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتاہے۔
کفارکے مقابلے میں جنگی ساز وسامان سے مسلح ہوکرنکلنا اور استعدادکے مطابق تیاری کرنا ہی شریعت کا تقاضا ہے۔ میدانِ بدرکے مناظر پر دنیا آج بھی حیران ہے کہ گنتی کے چند لوگوں کو جو بے سر وسامانی کے عالم میں تھے، ایک لشکرِ جرار ’جس کے پاس ہرطرح کی جنگی قوت موجود تھی، کو زیرکرگئے اہل ایمان کو تو سمجھ آگئی کہ ہر طرح کی مادی قوت اگر کسی قوت کے سامنے ڈھیر ہو سکتی ہے تو وہ عشق و محبت ہی کی قوت ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدہ تصورات
صدق خلیل بھی ہے عشق صبرحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
۔۔۔
’وہ نبیوں میں رحمت ﷺ لقب پانے والا‘
ریطہ طارق
شکم مادر ہی میں یتیم ہوجانے والے محمد ﷺ پر لاکھوں درود ، لاکھوں سلام!!
مصطفی ﷺ کے شب و روز بچپن سے لے کر لڑکپن تک دادا حضرت عبدالمطلب کے بعد تایا حضرت زبیر عبد المطلب کے پاس بیشتر وقت بکریاں چرانے میں گزرتے ہیں ، عمر کی اس سیڑھی پر تایا جان زبیر عبد المطلب سے بھی بچھڑ جاتے ہیں اور اپنے چچا ابو طالب کی ہمراہی میں آجاتے ہیں۔
جوانی کی چمکتی عمر آپ کی خاندانی پیشے سے مامور ہے، تجارت میں اپنی شخصیت کا حسن دیانت داری ، راست بازی ، معاملہ فہمی ، حسن تدبیر ، خوش اخلاقی و سچائی سے نور افشاں ہوتا ہے، جس کی بدولت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں آجاتے ہیں۔
راتوں کے قیام میں عبادت کے لیے سجدوں کی چاہت کے متمنی ، رب کی محبت سے لبریز رو رو کر دست دعا اٹھے رہتے ہیں، یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ آکر فجر کی نماز کے لیے آواز دیتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول خدا ﷺ کو اشک بار دیکھتی ہیں تو فرماتی ہیں: ’’ یا رسول اللہ!!آپ اس قدر روتے ہیں ، حالانکہ آپ معصوم ہیں۔‘‘ ، فرماتے ہیں: ’’ تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ‘‘
اپنی امت کے لیے رات کے پہر میں عبادتوں کے پہرے دینے والے، قران مبین فرقان الحکیم کی جیتی جاگتی تصویر ، جو تپتے ہوئے گمراہی کے صحرا میں سمندر بن جاتے ہیں۔
غزوہ بدر کے موقع پر سوائے سرور کونین ﷺکے ہر شخص سوتا ہے اور آپ ﷺ درخت کے نیچے رات بھر نماز پڑھتے اور روتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سحر نمودار ہوتی ہے۔
راتوں کی عبادت میں اپنی امت کے لیے فرط گریہ رہتے ہیں ، درگزر کی وہ شان کہ روز کچرا پھینکنے والی کافر بڑھیا سے تب ملنے چلے جاتے ہیں جب وہ ایک دن آپ پر کچرا نہیں پھینکتی،آپ ﷺ اس کا حال و خبر لینے جاتے ہیں ، بیمار دیکھ کر عیادت کرتے ہیں ، اس حسن اسلوب اور اعلیٰ ظرف مبارک پر وہ بڑھیا مسلمان ہوجاتی ہے۔
علم کی پیاس بجھانے سے لے کر دعوت الی اللہ کی جا بجا جدوجہد ، مکہ کے 13 سال کا صبر آزما سفر ، طائف کی وادیوں میں پتھروں کی سجدہ ریزی بھی گواہی بن گئی کہ مجسمہ ابریشم و فولاد نے طاغوتوں کے ان گنت بچھائے جال میں آنا گوارا نہ کیا۔
مکہ کے مشہور سردار عتبہ آپ ﷺ کی خدمت میں آتے ہیں اور کہتے ہیں:’’ میرے بھتیجے محمد ﷺ ! اگر تم اس طرح مال و دولت جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم خود اتنی دولت تمہارے پاس جمع کردیتے ہیں،کہ تم مالا مال ہوجاؤ ، اگر تمھیں اقتدار اور عزت کی طلب ہے تو ہم سب تمھیں اپنا رئیس مان لیتے ہیں ، اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب تمھیں عرب کا بادشاہ بنا دیتے ہیں ، تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کو حاضر ہیں ، بشرطیکہ تم اپنا طریقہ چھوڑ دو اور اگر تمہارے دماغ میں کچھ خلل آگیا ہے تو ہم تمہارا علاج کرائیں گے‘‘۔
آپ ﷺ جواب دیتے ہیں:’’ مجھے نہ دولت چاہیے نہ حکومت، نہ میری عقل پر فتور ہے‘‘ ۔ پھر اپنا کلام سناتے ہیں جسے سن کر عتبہ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے وہ سر جھاکر اُٹھ جاتا ہے۔
قلب مصطفیٰ رحمۃ العالمین نے کبھی دنیا کے رئیسوں ، بڑی طاقتوں سے اپنے ایمان کا سودا نہ کیا ، جس محاذ پر قدم رکھا ، آواز حق بلند کرتے رہے، مجاہدانہ زندگی کا اسوہ تھا کہ جوق در جوق لوگ آپ کے ہم نوا ہوتے رہے۔
سورہ الاحزاب میں ’ سراج المنیرا ‘ کے نام سے جلوہ گر ہوتے ہیں،’’ اے نبی ﷺ بے شک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ، مومنین کو بشارت دے دیجیے کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔‘‘
پھر فرمایا گیا:’’ در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے ، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
حیات طیبہ کا مظہر،آفتاب رسالت لوگوں کے دلوں کی زینت کہ ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کا آپ کی تعلیمات پر ایمان لانے کا جذبہ۔ محمد ﷺکی خبر سن کر ان کے بارے میں لوگوں سے دریافت کرتے ہیں ، ابوذر رضی اللہ عنہ کو حضور پاک ﷺ داد سخن سن کر بھی چین نہین آتا ، اپنی آنکھوں کی پیاس بجھانے آخر مکہ مکرمہ روانہ ہوتے ہیں، نبی کی پہچان نہیں پاتے تو زم زم کے نزدیک کعبہ ہی میں لیٹے رہتے ہیں ، سید نا علی رضی اللہ عنہ ادھر آنکلتے ہیں ، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے نزدیک آکر پوچھتے ہیں:’’ مسافر معلوم ہوتے ہو‘‘۔
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہاں ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ انھیں اپنے ساتھ لے آتے ہیں، رات وہیں گزرتی ہے، پھر درمیان میں کوئی بات نہیں ہوتی ، صبح ابوذر رضی اللہ عنہ پھر کعبہ آجاتے ہیں۔ دل میں تلاش محمد ﷺ پنپتی رہتی ہے، تڑپ کا طوفان برپا ہے، سید نا علی رضی اللہ عنہ پھر آپہنچتے ہیں۔ فرماتے ہیں :’’ ابوذر ! شاید تمہیں ٹھکانہ نہیں ملا ‘‘ ،جواب ملتا ہے:’’ ہاں ‘‘۔
سید نا علی رضی اللہ عنہ پھر انھیںساتھ لے جاتے ہیں ، پوچھتے ہیں: ’’ کون ہو؟کیوں آئے ہو؟‘‘
ابوذر اپنا ماجرا سناتے ہیں۔سید نا علی رضی اللہ عنہ انہیں لے کر خدمت نبوی ﷺ میں پہنچتے ہیں،اسلام کیا ہے دریافت کرتے ہیں،زرخیزی دل کی کہ رسول خدا کی تعلیم سن کر اسلام لے آتے ہیں اور حق کی اشاعت پر معمور ہوجاتے ہیں۔
دل مضطر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو آواز حق پر ایک لمحہ نہیں لگاتے،ایسے جانباز غفار و قہار دل ہر طرف مخالفتوں کے اٹھتے طوفان میں سمندر کی مجاہد موجیں بن کر چٹانوں سے ٹکراکر بے کراں رہنے والے پانیوں کی مثل تھے۔
دعوت الی اللہ کے پیروکار اس پیغمبر کے مرید اکیسوی صدی میں بھی اپنی تجلی سے نمایاں ہیں،گرچہ جن کی آنکھوں نے نبی ﷺکا دیدار نہ کیا،مگر کلمہ حق پر سرگرداں ہیں۔
قیامت تک کے لیے دنیا کا سچا رہبر خیر و صلاح کا لازوال باب،خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، یہ روشنی تا قیامت انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔
تعصب و تنزل کے گھور اندھیروں میں اس جاوداں چراغ نے مسلمانون کا پلیٹ فارم بناکر باطل کی تمام طاقتوں کے قلعے گرا ڈالے۔
امت مسلم ایمان کے اس روحانی تلاطم کی معرفت عصر حاضر میں آج بھی تنہا نہیں۔
زندگی کی تکمیل بجز اس کے ناممکن ہے، سرکار دو عالم ﷺ جنھیں ہمارے لیے شاہکار بناکر بھیجا گیا، تو کیوں نا تقاضہ دین اس مظہر کے مطابق روز و شب کے معاملات میں ادا نہ ہو؟
کیوں نا رسول خدا کا مشن ہماری قابلیتوں میں تحلیل نہ ہو؟
کیوں نا پیاسی انسانیت کے لیے یہ آب حیات تشنہ و شکستہ فصلوں کو سیراب کرے؟
کیوں نا منزل تک پہنچنے کے لیے راہ حق کا ہر سپاہی ایوان عالم میں اس کے نام ڈنکا بجائے؟
کیوں نا قانون ساز ادارے اور عدالتیں محمدﷺ کی ریاست مدینہ کے سانچے میں ڈھلیں؟
کیوں نا نبی آخر الزماںﷺ کی تعلیمات علم کی متلاشی نگاہوں کی زینت بنیں اور نصاب کی روح کو اس علم مبارک سے معمورکر دیا جائے؟
وہ نبی جو سب سے پہلے اپنے خاندان قبیلے اور قوم سے ہر کسوٹی پر پرکھا گیا ہے، فکر و فاقہ سے لے کر جان و مال کے ضرر سے جس کی زندگی مختلف اذیتوں سے گزری۔ پیام حق کے داعی اعظم نے اپنی اُمت کے لیے خدائے بزرگ سے بخشش کی دعا فرمائی، اس نبی پر لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔
من گھڑت تاویلیں دے کر اپنے آپ کو رسول کہلانے والوں کے لیے کیا یہی آیت کافی نہ تھی’’ رسول جو تمھیں دیں، اسے قبول کرو، اور جس بات سے منع کریں، اس سے رک جاؤ۔(سورہ حشر)‘‘
امیر حرم جن کی طلب ہر لب پر ہے، عطاؤں کے اعلیٰ درجے پر فائز ، قرآن اقامت ہے ، رسالت مآب ﷺ تمام صفوں کے امام ،جن کا اسوہ تفسیر عرش بریں کا منبر ہے۔
بھٹکی ہوئی پیاس اس حقیقت کے سمندر سے بجھی جاتی ہے، معراج الہدیٰ ، آفتاب رسالت و جبریل امیں۔
درودوں کی دستار باندھے امت مسلمہ کے سرتاج ، سدرۃ المنتہیٰ و مصطفٰی و مجتبیٰ۔
کائنات کا ذرہ ذرہ گوشہ گوشہ رحمۃ اللعالمین کی دید کامنتظر،آپ کے عشق کی گواہی دینے کے لیے برسر پیکار ہے اور رہے گا۔
تحفہ انسانیت کا عظیم کرشمہ جس کی جاودانی تاقیامت بشر مومن کے لیے گوہر نایاب ہے
تمنا مدتوں سے ہے ، جمال مصطفٰیؐ دیکھوں
امام الانبیاؐ دیکھوں ، حبیب کبریاؐ دیکھوں
The post حُب رسول ﷺ تمام اعمال صالح کی بنیاد ہے appeared first on ایکسپریس اردو.