کہنے میں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے دفاتر اور مختلف اداروں اور کارخانوں وغیرہ میں خواتین کے واسطے کسی قسم کا کوئی خاص بندوبست تک نہیں ہوتا، جیسے ان کے لیے ’کامن روم‘ الگ بیت الخلا یا ’ڈے کیئر سینٹر‘ وغیرہ اور یہ صورت نچلی سطح پر ہی نہیں بہت سے بڑے اداروں میں بھی موجود ہے۔
ایسے بڑے ادارے جو ملک کے بڑے شہروں میں قائم ہیں اور ان کی ساکھ اور شہرت بھی مختلف حوالوں سے اچھی اور قابل قدر ہوتی ہے، لیکن ملازمین اور خواتین ملازمین کے لیے کہیں نہ کہیں سقم ہوتا ہے۔
کام کی جگہ پر خواتین کو صرف ہراسانی ہی کا سامنا نہیں ہوتا، بلکہ انھیں مذکورہ بالا سہولتیں بنیادی طور پر دست یاب ہونی چاہئیں، مگر مختلف ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ اور وغیرہ وغیرہ سیمینار زیادہ تر خواتین کو ہراساں کرنے یا خدانخواستہ اس سے بھی بڑھ کر پیدا ہونے والے مسائل ہی تک محدود رہتے ہیں، جب کہ بات تو یہ بھی ہے کہ انھیں خاتون سمجھ کر اس لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ کم تنخواہ لیں گی اور پھر جب چاہیں گے انھیں خاتون ہونے کا طعنہ دے کر کاموں کا دباؤ بھی ڈالا جاسکے گا۔
سلمی جہانگیر ریڈیو پاکستان پشاور میں 2019ء تک تقریبا 11 سال ’خبر خواں‘ کے طور پر منسلک رہیں، وہ کہتی ہیں کہ ریڈیو پاکستان پشاور میں عورتو ں کے لیے الگ واش روم کی سہولت میسر نہیں تھی۔ مجھے گردوں کہ تکلیف تھی۔ دوا لینے کی وجہ سے مجھے بار بار واش روم جانا ہوتا تھا۔ ایک روز مجھے واش روم کی شدید طلب ہوئی مگر واش روم کے باہر مردوں کی لمبی قطار تھی جس کی وجہ سے مجھے تقریبا آدھا گھنٹے انتظار کرنا پڑا اور میری گردوں کی تکلیف نے شدت اختیار کی۔
ایک اور خاتون صبا کے دفتر میں خواتین ملازمین کے لیے علاحدہ سے کوئی بیٹھک موجود نہیں، جہاں خواتین سستا سکیں یا ذرا دیر کو پرسکون ہو کر بیٹھ سکیں، نتیجتاً انھیں تمام دفتری وقت اپنی کرسی ہی پر گزارنا ہوتا ہے، یہی نہیں بلکہ ان کے ہاں خواتین کے مسائل کے حوالے سے بھی عمومی رویہ یہ ہے کہ یہ کام نہیں کرنا چاہتیں، انہیں صرف چھٹی چاہیے ہوتی ہے، ان کو بچے پالنے ہیں۔ یہ کہنا ہے وفا کا جو ایک نجی چینل میں کام کرتی ہیں۔
انھیں بچے کی پیدائش کے موقع پر بھی کسی قسم کی رخصت یا سہولت نہیں دی گئی۔ بلکہ یہ سننے کو ملتا کہ اگر کام کرنے کے لیے نکلی ہیں، تو پھر مردوں کی طرح کام کریں یہ نخرے مت دکھائیں، پھر تین ماہ کی چھٹی پر بے دخلی کی دھمکی ملی اور پھر بغیر تنخواہ کی یہ رخصت دی گئی۔
آجران عورت کے مسائل کو کبھی اہمیت نہیں دیتے، بلکہ ان کے نزدیک عورت صرف وقت گزاری کے لیے نوکری کے لیے نکلتی ہے۔ اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کہ حقیقت میں وہ کٹھن معاشی صورت حال میں خاندان کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔
خواتین کے مخصوص مسائل اور کسی بھی خصوصی سہولت کے حوالے سے آجران اور اعلیٰ افسران کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جیسے یہ فقط ’بہانے بازی‘ ہے۔ اس وقت خواتین دفاتر سے باہر بھی کافی تعداد میں کام کر رہی ہیں مگر وہ خواتین آج بھی اپنے ذاتی مسائل پر کھل کر بات نہیں کر سکتیں۔
اس حوالے سے ایک اور خاتون شگفتہ کہتی ہیں سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین زچگی کے لیے تین ماہ کی چھٹی تو لے لیتی ہیں، مگر نجی اداروں میں یہ ایک ناممکن بات ہے۔ پیدائش اور بچے کی شیرخوارگی کے عرصے کے لیے بھی ہمارے ادارے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور اس کے لیے کوئی بھی سہولت سرے سے فراہم ہی نہیں کرتے۔
یہ تمام معاملات اور مسائل کے دوران کسی بھی قسم کی رخصت اور چھٹیاں نہ ملنا خواتین کو مسلسل ذہنی اذیت کا شکار کر رہا ہے۔ شگفتہ کے دفتر میں خواتین کے علاحدہ بیت الخلا تو موجود ہے، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہاں صفائی کے لیے خواتین عملے کے بہ جائے مرد عملہ متعین ہے، جو نہایت عجیب وغریب اور مضحکہ خیز سی صورت حال معلوم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت حال میں پھر الگ واش روم کا مقصد کیا باقی رہ جاتا ہے۔
بہت سے ادراے اور تنظیمیں نعرہ تو صنفی مساوات کا لگاتی ہیں، لیکن جب تنخواہ اور دیگر مراعات کے حوالے سے بات آتی ہے تو براہ راست صنفی امتیاز برتا جاتا ہے اور خواتین ملازمت کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس کے جواز کے طور پر ان رخصت اور چھٹیوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپ تو اتنی چھٹیاں گزار کر آئی ہیں، آپ کی کس کارکردگی کی بنا پر آپ کی تنخواہ بڑھوانا چاہتی ہیں۔
The post کس سے بات کریں۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.