پشاور: ذرا چشم تصور میں لائیں کہ ایک طرف چلچلاتی دھوپ ہو، گرمی کا پارہ 40 درجے سینٹی گریڈ سے اوپر ہو، دن کے وقت لوُ پہلے سے مرجھائے چہروں سے ٹکرا کر ان کے صبر کا امتحان لے رہی ہو، سر چھپانے کو جگہ جب کہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو گھونٹ پانی کا ملنا تک دشوار ہو، کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار زندگی کا کٹھن امتحان ہو ، تو کیسے کوئی کہہ سکتا ہے کہ صنف نازک مذکورہ حالات یا حوادث کا مقابلہ کر پائے گی۔
کیسے وہ اپنے زخمی جگر کو چھپا کر اپنے اہل و عیال کے لیے ڈھارس بن جائے گی، لیکن ان سب کا مقابلہ ملک بھر سے سیلاب کے باعث نقل مکانی کرنے والی باہمت خواتین کررہی ہیں، جی ہاں واقعتاً یہاں بھی کچھ ایسا ہی ماحول ہے یعنی ہمت جواں، عزم پختہ اور حوصلے بلند ہیں، یہ کسی میدان جنگ میں صنف نازک کی حوصلے کی بات نہیں، بلکہ بے یارو مددگار اور لٹے پٹے ان خاندانوں کی خواتین کی کہانی ہے جو اس بات پر یقین کامل رکھتی ہیں کہ ’’رب راضی تو سب راضی‘‘ لیکن لبوں پر صرف ایک گلہ، ایک شکوہ، کہ ہمیں بھوکا رہنا منظور ہے لیکن ہمیں اپنی بے پردگی کسی صورت منظور نہیں، ان کو صرف یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے سروں سے زمانے کا طوفان آنچل نہ سرک دے، کیوں کہ پختون اور قبائلی روایات کے امین لوگ سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں لیکن یوں خواتین کا گھر سے بے گھر ہونا کسی طور قابل برداشت نہیں۔
اسی تناظر میں خیبرپختون خوا کے کسی سیلاب زدہ علاقے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی پھیلی، جس میں ایک باپردہ خاتون یہ فریاد کرتی سنائی دے رہی ہے کہ ’’خدارا، ہمیں اگر امداد نہیں دینی تو نہ دیں، لیکن یوں ہمیں رسوا اور بے پردہ نہ کریں، امداد دیتے وقت یہ موبائل اور کیمرے ہٹادیں ،آپ کی ماں ، بہن اور بیٹیاں بھی تو ہیں ،خدا ناخواستہ اگران کے ساتھ یہ رویہ اپنایاگیا توکیا تم یہ سب کچھ برداشت کرسکو گے؟‘‘
ایسے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں اسی بنا خواتین نے امدادی اشیاء لینے سے انکارکردیاجب ان کی فوٹو کھینچنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے ہاں اب یہ ایک عمومی رویہ بنتا جارہاہے کسی بھی عام سرگرمی،حرکت کو دیکھتے ہوئے موبائل کے کیمرے سے ویڈیوز یا تصاویر بنانا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر بلا سوچے سمجھے، کہ ان کا اثر کیا پڑے گا، ان کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔
شاید ہم وہ بد قسمت قوم ہیں جو نئی چیز یاکسی نئی ایجاد کو سب سے برے طریقے سے استعمال کرنے لگتے ہیں ، پہلے پہل تو اس پر فتوے آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بعد میں اس کا منفی استعمال سب سے زیادہ ہمارے ہاؒں ہی ہونے لگتا ہے، جس کی تازہ اور حالیہ مثال سوشل میڈیا ہے شاید ہی دنیا کے کسی کونے یا ملک میں اس کا اتنا بے دریغ اور برے طریقے سے استعمال ہوتا ہو جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا ہے، اگر دیکھا جائے، تو دیگر چیزوں کے بے جا استعمال نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا یہ سوشل میڈیا کا اژدھا ہمیں سالم نگلنے کو تیار ہے اورجو ہمیں تباہی کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جا رہا ہے۔
خیر یہ تو ایک پہلو ہے، مجموعی طور پر سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے لاکھوں متاثرین کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے اس کی محسوسات کوئی ان سے پوچھیں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے، اس وقت کسم پرسی کی حالت میں اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین سیلاب کیمپوں کے علاوہ مختلف علاقوں میں کرایہ یا اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہائش اختیار کر چکے ہیں لیکن بدقسمتی سے تاحال وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود ان کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے، وہ غذائی اجناس کے حصول کے لیے خوار ہوتے پھرتے ہیں، جس کے باعث خواتین اور بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
جب کہ قابل افسوس امرتو یہ ہے کہ زیادہ ترخواتین کے پاس قومی شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ان کی رجسٹریشن نہیں ہو رہی ہے، جس کے باعث یہ خواتین حکومتی امداد سے محروم ہورہی ہیں، جب کہ کثیر تعداد میں خواتین مرد افراد کے بغیر ہی نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں جس کے باعث زچگی کے معاملات میں مشکلات بڑھ رہی ہیں، جب کہ لیڈی ڈاکٹر بھی کم ہونے کے باعث متاثرہ خواتین دوہری عذاب کاشکار ہیں۔
جب یہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے تو اپنے گھر کی دہلیز پار کرنا ان کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا بہرحال جب یہ ہجرت کا سفر شروع ہوا تو زیادہ ترکو بے سروسامانی کی حالت میں نکلنا پڑا، بہت سی مائیں اور بیٹیاں صرف ایک دوپٹے میں اپنے گھروں سے نکل سکیں جب کہ زیادہ تر کا پیدل ہی سفر کا آغاز ہوا، خصوصاً سندھ میں خواتین اور بچے راستے کی مشکلات، پانی اور غذائی اجناس کی عدم دست یابی کے باعث بیمار پڑنے لگے، جب کہ بہت سے جوہڑوں کا گندا پانی پینے پر مجبور ہوئے جس کے باعث قے، دست اور دیگر بیماریاں ان پر حملہ آور ہوئیں، دوسری جانب ایک ایک سکول میں سترکے قریب متاثرین کو ٹھیرایا گیا، جب کہ ایک ہائی سکول میں دو سو کے قریب افراد کوجگہ دی گئی۔
ان کیمپیوں میں ایک طرف مردوں اور دوسری جانب عورتوں اور بچوں کوالگ الگ ٹھونسا گیا جوحکومتی اوردیگر انسانی حقوق کی عَلم بردار تنظیموں کے دعوؤں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے، اسی طرح کھلے آسمان تلے پناہ حاصل کرنے والوں کے علاوہ ایسے خاندان بھی ہیں، جو بہ امر مجبوری ایک ہی کمرے کے سایہ بان میں پناہ لیے ہوئے ہیں ایسے خاندانوں کے ارکان کی اوسطاً تعداد 15 سے 20 ہوتی ہے۔
یوں ان پناہ گزین خواتین کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں، ایسے میں یہ پناہ گزین خواتین آپ کو سڑکوں پر چلتی پھرتی یا راشن کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑی تو نظر نہیں آئیں گی، لیکن ان کی پریشانی کسی بھی مرد سے کم نہیں، کیوں کہ آخر کار دن بھر انہیں اپنے بھوکے پیاسے بچوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، ایسی حالت میں یہ خود بھوکی تو رہتی ہیں، لیکن اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے لیے کھانے پینے کے لیے کسی نہ کسی طرح فکرمند رہتی ہیں، ان متاثرہ خواتین کو ان پناہ گاہوں میں بے پردگی کا بھی خوف لاحق رہتا ہے، یعنی بے پردگی کے ڈر سے ساری لڑکیاں کھڑے کھڑے وقت گزارتی ہیں۔
سیلابی پانی اترتے ہی جب یہ خواتین اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں، تو اس سمے اس کی حالت دیدنی ہوتی ہے کہ اس بے چاری پر کیا بیت رہی ہوگی اورجب گھر کی بحالی اورآبادکاری کاعمل شروع ہوتا ہے، تو ایسی ہر خاتو ن کوایک نئے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
اس بات سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ خاتون ہی ہوتی ہے جو اس کے گھرانے کو بساتی ہے، ہرچیز سلیقے سے رکھتی ہے، وہ اسے کسی طرح بھی کھونا نہیں چاہتی،ایسے میں سیلاب کی صورت میں گھر سمیت ہرچیزکو جب نقصان پہنچتا ہے، تو اس پر کیاگزرتی ہوگی یہ کوئی اس خاتون سے پوچھیں، جس کی زندگی کا محور یہی گھر ہوتا ہے۔
حالیہ سیلاب کے باعث صرف خیبرپختون خوا میں ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھربار چھوڑ کر کیمپوں یا رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لینا پڑی، صوبے میں سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی تعداد 43 لاکھ 50 ہزار سے متجاوز کر گئی ہے،کیمپوں میں موجود متاثرین کی مدد کے لیے گھر گھر چندہ مہم اور سڑکوں پر امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں۔
تاہم ان کیمپوں میں موجود خواتین کے مسائل پر کسی نے اب تک لب کشائی نہیں کی، سیلاب سے زیادہ تر متاثرہ علاقے دیہی ہیں اور دیہات میں اس حوالے سے خواتین اپنی والدہ اور بہنوں سے بھی گفتگو کرنے سے گریز کرتی ہیں، ایسے میں سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد کیمپ میں زندگی گزارنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے، ان خواتین کے لیے امداد کی صورت میں اشیا خورونوش کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کا ہونا لازمی ہے۔
متاثرین میں بڑی تعداد حاملہ خواتین کی ہے اور ان خواتین کے ساتھ ایک اور زندگی بھی جڑی ہوئی ہے، حاملہ خواتین کے لیے ادویات اور خوراک انتہائی قلیل ہے، ان کی متوازن خوراکتو تیار کرنا اب ممکن نہیں رہا، تاہم ان کے لیے تازہ خوراک اور باقاعدگی سے ان کا طبی معائنہ کرانا لازمی ہے۔
اگرہم صرف خیبرپختون خوا کی بات کریں، تو یہاں سیلاب کے باعث 25 ہزار حاملہ خواتین متاثر ہوئیں، جو سیلاب سے تو بچ گئیں، لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث مشکلات کا شکار ہیں،حفظان صحت نہ ہونے کی وجہ سے زچہ و بچہ دونوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے جس کے سد باب کے لیے خیبرپختون خوا حکومت نے 300 سے زائد زچہ و بچہ کیمپس قائم کیے ہیں۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف خیبر پختون خوا کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 25 ہزار حاملہ خواتین متاثر ہوئی ہیں، جن کے لیے حکومت کی جانب سے 13 اضلاع میں زچہ و بچہ کیمپس قائم کیے گئے ہیں، زچہ و بچہ میڈیکل کیمپس کے لیے نیوبورن اور سیفٹی کٹس مہیا کی گئی ہیں، اب تک پندرہ ہزار حاملہ خواتین کی اسکریننگ کی گئی ہے، متاثرین میں زچہ و بچہ کیسز کی مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
اگرچہ سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے، تاہم ان رضاکاروں میں بڑی تعداد مردوں کی ہے، جو اشیا خورونوش پہنچانے سے لے کر ’ریسکیو‘ تک کی خدمات انجام دے رہے ہیں، متاثرین میں نصف سے زائد خواتین ہیں۔
لیکن رضاکاروں میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، مردوں کے ساتھ مسلسل رابطہ ہونے اور ان سے اشیا خورونوش کا مطالبہ کرنے والی متاثرہ خواتین کے لیے یہ کڑا وقت ہے، ایک ان جان مرد سے مدد کی درخواست کرنا اور ان جان مرد کو اپنی مشکل بیان کرنا بلاشبہ ان خواتین کے لیے آسان نہیں ہے، ایسے میں خواتین رضاکاروں کی موجودگی انتہائی ضروری ہے،
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹرمیاں افتخارحسین کاکہناہے کہ ان کیمپوں میں موجود مرد و خواتین کے لیے اس وقت غیر یقینی کی صورت حال سب سے زیادہ خطرناک ہے، انھوں نے جس گھر کو بنانے میں برسوں لگا دیے، آج وہ گھر پانی میں ڈوب گیا ہے، انھیں پھر سے ان گھروں کو آباد کرنا ہے، ان کے سروں پر اس وقت اپنی چھت کو دوبارہ قائم کرنے کا سہم سوار ہو گا۔
ان کے مطابق اپنی پوری زندگی پردہ میں گزارنے والی آج ان جان نظروں میں گھری ہوئی ہیں اور یہی خوف انھیں ذہنی دباؤکا شکار کر رہا ہے، کسی بھی سانحے کے بعد کی صورت حال میں ان کی بحالی سب سے اہم ہے اور ان خواتین کو بطور گھر کے سربراہ ہونے کے سب سے زیادہ بحالی کی ضرورت ہے جو نہ صرف گھروں کی تعمیر کی صورت میں ہونی چاہیے، بلکہ ان کے لیے نفسیاتی بحالی کے اقدام کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت بچوں میں سب سے زیادہ فوڈ پوائزنگ یعنی غیرمعیاری خوراک کھانے کے بعدکے مسائل سامنے آ رہے ہیں، بچوں میں پیٹ کی بیماریاں بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے انھیں خصوصی معائنہ کی بھی ضرورت ہے، ان کے مطابق قوت مدافعت کی سب سے زیادہ کمی بچوں اور خواتین میں ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں بیماریاں سب سے زیادہ بچوں اور خواتین میں ہیں، سیلاب کا پانی اترنا شروع ہو گیا تاہم بیماریوں کے حوالے سے خدشات موجود ہیں، جس کی بڑی وجہ اس گندے پانی کا جگہ جگہ کھڑا ہونا ہے، جس کے باعث ڈینگی، ملیریا اور اسہال کی بیماریاں ان علاقوں میں شدت سے سامنے آرہی ہیں جن کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔
مذکورہ بالا باتوں کے تناظر میں ہم سب پر یہ ذمہ داری آن پڑتی ہے کہ جن وجوہات کی بنا پر یہ لوگ نقل مکانی پر مجبورہوئے، ہمیں صرف بحیثیت مسلمان اور پاکستانی یہ سوچنا ہے کہ ان متاثرین کے لیے ہمارا کردار انصار مدینہ جیسا ہونا چاہیے، ہمیں ان کی تکالیف کوکم سے کم کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش، تعاون اور امداد کرنی چاہیے تاکہ اس کٹھن اور امتحان کی گھڑی میں یہ لوگ بھی آپس میں مل بیٹھ کر کم از کم دو وقت کی روٹی اطمینان سے کھا سکیں، یہی انسانیت اورمسلمانیت کا تقاضا اور اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
مصیبت کی اس گھڑی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی سیاست بازی سے بالاتر ہو کر صدق دل سے ان متاثرین کو آسانیاں بہم پہنچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں اورجس امدادی پیکیج کااعلان کیا گیا ہے، اس کی فوری فراہمی کے لیے انتظامیہ کو مستعد اور چوکس رکھا جائے، اور صحت اور بے گھر بچوں اور بچیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ مرکوز رکھی جائے ، تاکہ یہ متاثرین ،یہ محب وطن لوگ مزید کسی محرومی اور پریشانی کا شکار نہ ہونے پائے۔
The post آفت کی گھڑی میں پردہ رکھ لیجیے! appeared first on ایکسپریس اردو.