مصر کے آخری بادشاہ، شاہ فاروق نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ دنیا میں بلاآخر پانچ بادشاہتیں رہ جائیں گی جن میں چار بادشاہ تاش کے ہوں گے اور ایک بادشاہت برطانیہ کی ہوگی۔
وہ نصف صدی پہلے ہی اس بات کا ادراک کر چکا تھا کہ برطانیہ کے عوام اور شاہی خاندان کے افراد اتنے محب وطن اور باشعور ہیں کہ وہ جمہوریت کو اپنی بادشاہت کے ساتھ اپنی روایت، تہذیب اور تمدن کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں جمہوریت کے استحکام کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں بادشاہت صرف علامتی ہے اور ملکہ الزبتھ کے کوئی اختیارات نہیں تھے۔
یہ درست ہے کہ میگنا کارٹاچارٹر جو 1215ء میں طے پایا اس میں بادشاہ کے بہت سے اختیارات برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز نے لے لیے تھے۔ پھر آنے والے آٹھ سو سال میں اختیارات ہاؤس آف کامن تک منتقل ہوتے رہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے دور میں بھی برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم کو جو اختیارات حاصل تھے ایسے اختیارات دنیا کے بہت سے سربراہوں کو حاصل نہیں، البتہ یہ ملکہ برطانیہ کا ظرف تھا کہ اُنہوں نے بہت سے اختیارات استعمال نہیں کئے۔
ان خصوصی اختیارات میں بغیر لائسنس کے ڈرائیو کرنا، ملکہ کو پاسپورٹ کی ضرورت نہیں، برطانیہ کا تاجدار چاہے وہ بادشاہ ہو یا ملکہ اگر وہ موسم سرما میں پیدا ہوا ہے تو وہ دو سالگرہ منائے گا ایک اپنے حقیقی یوم پیدائش پر اور ایک گرمیوں کے موسم میں کسی بھی دن ہمارے بادشاہوں کی طرح ملکہ کا ایک ذاتی شاعر بھی ہے البتہ یہاں اس اعزاز کے لئے ضروری ہے کہ شاعر کا تخلیقی کام قومی نوعیت کا ہو۔
اس وقت ملکہ کی ذاتی شاعر Coral Ann Duffy ہیں جو اس منصب پر 2019ء تک فائز رہیں۔ ملکہ الزبتھ دوئم کے دستخط کے بغیر پارلیمنٹ کامنظور کیا ہوا کوئی بل قانون نہیں بن سکتا، ملکہ حکومت کی تجویز پر کسی کو لارڈ بنا سکتی تھی، ملکہ کو ٹیکس کی مکمل چھوٹ حاصل تھی مگر ملکہ الزبتھ نے آج کے دور کے قومی تقاضوں کے پیشِ نظر 1992ء سے رضا کارانہ طور پر ٹیکس دینا شروع کیا اور یہ اُن کی موت تک جاری رہا۔ یہ برطانیہ کی بادشاہت کے اعتبار سے روایت کا حصہ بن گیا ہے۔
ملکہ نائٹ کا خطاب عطا کرتی تھیں مگر اس میں ملکہ جمہوری اقدار کا از خود خیال رکھتی تھیں۔ ملکہ معلومات تک رسائی کے قانون سے مستثنیٰ رہیں مگر ملکہ نے کبھی کچھ چھپایا نہیں تھا۔
ملکہ شدید آئینی بحران میں حکومت کی تجویز کو رد کر سکتی تھیں، ملکہ برطانیہ آسٹریلیا کی حکومت کو برخاست کر سکتی تھیں مگر آج تک ایسا نہیں کیا گیا، ملکہ چرچ آف انگلینڈ کی سربراہ تھیں وہ ہرایسٹر پر جتنی ان کی عمر ہو تی پینشزوں کی اتنی تعداد کو سکے دیتی تھیں، ملکہ برطانیہ کسی بھی عدالتی پیشی سے مستثنیٰ تھیں ۔
ملکہ الزبتھ 21اپریل 1926ء کو 17برؤٹن اسٹریٹ Mayfair لندن میں پیدا ہوئیں۔ وہ 6فروری 1952ء میں 26سال کی عمر میں برطانیہ کے ساتھ پاکستان سمیت اسوقت تقریباً 36ملکوں کی آئینی ملکہ بنیں۔ 1956ء تک ہم نے اپنا آئین نہیں بنایا تھا لہذا یہاں 1935ء کا برطانوی انڈیا ایکٹ نافذالعمل تھا اس لئے ملکہ الزبتھ نے علامتی طور پر ہی سہی مگر خواجہ ناظم الدین ، محمد علی بوگرا اور چوہدری محمد علی کو پاکستان کا وزیراعظم تعینات کیا تھا۔
اب بھی آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے 16ممالک ایسے ہیں جو آئینی طور پر برطانیہ کی بادشاہت کو تسلیم کرتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ملکوں کے پرچم کے چوتھائی حصے میں برطانیہ کا جھنڈا بنا ہوا ہے۔
ان تمام کے وزراء اعظم کو ملکہ برطانیہ ہی تعینات کرتی تھیں۔ ملکہ الزبتھ کو دنیا بھر میں ایک یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ وہ دنیا کی سب معمر اور طویل عرصہ تک ریاست برطانیہ کی حقیقی ملکہ اور 16ملکوں کی آئینی ملکہ تھیں۔ وہ دماغی اور اعصابی طور پر مکمل صحت مند رہیں۔
برطانیہ کی تاریخ میں یوں تو اور بھی ملکائیں گذریں ہیں مگر ملکہ الزبتھ دوئم سے قبل دو اور نامور ملکائیں ایسی گذریں ہیں جن کو آج بھی برطانوی عوام یاد کرتے ہیں ان میں ایک ملکہ الزبتھ اول تھیں اور ان ہی کے نام اور کارناموں سے متاثر ہوکر آج کی برطانوی ملکہ کا نام ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔ الزبتھ اول 1533ء میں پیدا ہوئی اور 1603ء میں ستر سال کی عمر میں وفات پا ئی وہ تیس کی عمر میں ملکہ بنیں اور 45 سال تک برطانیہ کی حکمران رہیں۔
یہ خاتون بلا کی ذہین اور بہت کمال کی منتظم تھیں اس نے بڑی خوبی سے برطانیہ کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیاد کی خانہ جنگی سے بچایا۔ اس نے آرمیڈا کی جنگ میں اسپین کو شکست دی۔ ملکہ الزبتھ اول کی خارجہ پالیسی بھی کمال کی تھی کہ اس نے جنگ کے بعد فرانس اسکاٹ لینڈ سے تعلقات کو متوازن اور بحال رکھا۔
اس کے دور میں برطانیہ نے نہ صرف شعر و ادب میں ولیم شیکسپئر دنیا کو دیا بلکہ مہم جوئی میں مارٹن، جان ڈیوس، سرفرافسس، سروالٹر نے عزم و ہمت کے ساتھ روس ، مشرقِ وسطیٰ امریکہ اور ہندوستان میں انگریزوں کے لیے راہیں ہموار کردیں۔ ملکہ الزبتھ اول کے 234سال بعد برطانیہ کی تاریخ کی دوسری عظیم سربراہ مملکت ملکہ وکٹوریہ اقتدار میں آئیں۔
ملکہ وکٹوریہ 24مئی 1819ء کو کینسنگٹن محل لندن میں پیدا ہوئی۔ 20جون 1837ء کو اقتدار میں آئی اور اپنی وفات 22 جنوری 1901ء تک یعنی 64سال برطانیہ کی حکمران رہیں۔ ملکہ الزبتھ اول نے برطانیہ کو ایک مضبوط اور طاقتور ملک بنا دیا تھا جب کہ ملکہ وکٹوریہ کا دور دنیا میں برطانیہ کی فتوحات اور نو آبادیات کے استحکام کا دور تھا اور برطانیہ اس وقت کی سپر پاور بن گیا تھا۔
1901ء میں جب ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوا تو برطانوی سلطنت اتنی وسیع ہوچکی تھی کہ اس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ جب ہندوستان کی ملکہ بنیں تو انہوں نے محمد کریم نامی ہندوستانی سے اُردو لکھنا پڑھنا سیکھا اور اُردو میں ان کے ہاتھ کے لکھے دو تین صفحات برطانیہ میں محفوظ ہیں۔
ان کا موازنہ اگر حال ہی میں وفات پا جانے والی ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم سے کریں تو آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم کو اس لحاظ سے فوقیت حاصل ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی مجموعی مدت 64 سال تھی جب کہ آنجہانی ملکہ الزبتھ دوئم کی حکمرانی 70 برس پر محیط ہے۔
آنجہانی ملکہ الزبتھ 97 برس کی عمر میں میں وفات پائی۔ ملکہ الزبتھ نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل برطانیہ دولت مشترکہ کا نیا اور جدید سیٹ اپ 1990ء تک جاری رہنے والی سردجنگ سے آج تک پہنچنے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ، نیٹو اور وارسا پیکٹ کے قیام یورپی یونین کی تشکیل کے بعد برطانیہ کی کنارہ کشی کے علاوہ امریکہ کے حلیف کے طور پر دنیا میں ہونے والی بہت سی جنگوں میں برطانیہ کی شرکت جیسے واقعات نہ صرف دیکھے بلکہ ان سے متعلق دستایزات پر ان کے دستخط موجود ہیں۔
ان کی حکمرانی کے آغاز پر برطانیہ دنیا کے بڑے سیاستدان اور برطانیہ کے معروف وزیراعظم سرونسٹن چرچل وزیراعظم تھے۔ ان کے بعد 6 اپریل 1955ء کو سرانتھونی کو ملکہ الزبتھ نے برطانیہ کا وزیراعظم تعینات کیا اور پھر بل ترتیب ہیرولڈ میکین، سرای لک ڈیگلس ہوم، وارولڈولسن، ایڈورڈہیتھ، وارولڈولسن، دوسری مرتبہ، پھر جیمس کلاہین، مارگریٹ تھچر، جان ٹونی بلیئر، گورڈاؤن براؤن، ڈیوڈکیمرون، ٹریسا مے، بورس جانسن اور Liz Truss لیز ٹریس کو برطانیہ کا وزیراعظم تعینات کیا۔
برطانوی عوام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روایات کو عزیر رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ ان کی ایک ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے ولیم فاتح کے بعد نہ صرف اپنے اس چھوٹے رقبے کے ملک کا ایسا دفاع کیا کہ کسی دشمن کے قدم یہاں نہیں جم سکے بلکہ سولہویں صدی کے بعد تو یہ قوم دنیا کی سپر پاور بن گئی اور دو صدیوں تک دنیا کے بہت سے ملکوں پر حکمرانی کرتی رہی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ رہی کہ اس قوم نے ہر اس غلط روایت کو ترک کر دیا جو حقیقت پسندی کے حق میں نہیں تھی۔
عوام اور حکمران دونوں نے ہر اچھی روایت کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور ہر ایسی روایت کو جو ترقی، جمہوریت کے فروغ اور قوم و ملک کی خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ تھی اس کو ترک کر دیا۔ اس مشترکہ رویے کو عوام اور حکمرانوں نے جاری رکھا ہوا ہے اور ملکہ الزبتھ دوئم اس کی ایک زندہ مثال تھیں۔ملکہ برطانیہ آنجہانی الزبتھ نے صدر جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان کا طویل دورہ کیا تھااس دوران ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا تھا۔
اس دوران ایک جگہ ملکہ پھسل کر گر نے لگیں تھیں تو صدر ایوب نے انہیں بازوسے پکڑ لیا تھا ، جس پر برطانیوی پریس نے اپنا حاکمانہ انداز اختیار کیا تھا ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب صدر ایوب خان نے اپنی بیٹی کے ہمراہ بر طانیہ کا سرکاری دورہ کیا تھا تو بر طانیون حکومت اور ملکہ نے بھی اُن کا شاندار استقبال کیا تھا۔
The post ملکہ الزبتھ دوئم؛ تاریخِ عالم پر اَنمٹ نقوش ثبت کرنے والی شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.