10 مئی 2022 ء مدرز ڈے کی ایک روشن صبح تھی ۔ ’ لی جینگزی ‘ اپنے کام میں مصروف تھیںکہ شیان کے پبلک سکیورٹی بیورو سے ایک فون کال آئی جس کا انھیں برسوں سے انتظار تھا۔آنسوؤں نے ان کے چہرے کو بھگو دیا ۔ بتیس سال کا عرصہ انھوں نے جس اذیت اور دکھ میں گزارا ، یہ ان کا دل ہی جانتا تھا ۔
’’ ماما ! ماما‘‘ کی پکار ان کے کانوں میں گونجتی رہی لیکن اس آواز تک پہنچنا ماں کے بس کی بات نہیں تھی ۔ وہ آواز ان کے اس بیٹے کی تھی جو دو سال آٹھ ماہ کی عمر میں کھو گیا تھا ۔ انھوں نے اسے کہاں کہاں تلاش نہیں کیا ۔ جب یادوں کی کھڑکی کھلتی گئی اور اپنے بیٹے ماؤین کے ساتھ گزرا ہر لمحہ ان کی روح کو سرشار کرتا چلا گیا ۔
ماؤین ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔ وہ اپنے شوہر اور ننھے ماؤین کے ساتھ شنگھائی کے مرکزی شہر زیان میں رہتی تھیں ۔ اس وقت ان کے بیٹے کی عمر ڈیڑھ سال تھی۔ ان دنوں چین میں ’ ون چائلڈ پالیسی ‘ پر سختی سے عمل کروایا جا رہا تھا ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا پڑھے ، لکھے اور کام یاب ہو ۔ ماؤین بہت سمجھ دار اور خوبصورت بچہ تھا ۔ وہ رونے والا بچہ نہیں تھا بل کہ خوش باش اور ہنس مکھ طبیعت کا مالک تھا ۔
اس لیے انھوں نے اپنے بچے کا نام ’ جیا جیا ‘ یعنی عظیم رکھ دیا تھا ۔ وہ اور ان کے شوہر صبح کام پر جانے سے پہلے اسے بچوں کے کئیر ہوم میں چھوڑ تے اور شام کو واپسی پر لے لیتے ۔ جینگزی باقی کا سارا وقت اپنے بیٹے کے ساتھ گزارتی ۔ وہ ایک سپلائر کمپنی میں کام کرتی تھیں ، اسی وجہ سے انھیں کچھ دن کے لیے ایک ٹرپ کے ساتھ جانا پڑا ۔
جیا جیا اپنے والد کے ہمراہ گھر پر ہی تھا کہ اچانک والد کو اپنے افسر کا پیغام ملا کہ جلدی آفس پہنچیں ۔ ان دنوں ٹیلی کمیونیکیشن کا نظام اتنا جدید نہیں تھا۔ ٹیلی گراف کے تین حرفی میسج پر وہ حیران پریشان دفتر آئیں ۔ مینجر نے انھیں جو خبر سنائی اس نے ان کے اوسان خطا کر ڈالے۔
’’ تمھارا بیٹا لاپتہ ہو گیا ہے۔‘‘
یہ اکتوبر 1988 کا دن تھا۔ جیا جیا کو ان کے شوہر نے کئیر ہوم سے لیا تھا اور راستے میں وہ جیا جیا کو پانی پلانے کے لیے ایک ہوٹل پر رکے تھے ۔ پانی کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے ایک دو منٹ کے لیے بچے کو اکیلا چھوڑا تھا اور جب واپس آئے تو جیا جیا وہاں موجود نہیں تھا۔ دونوں میاں بیوی بچے کی تلاش میں لگ گئے۔ انھیں لگتا تھا کہ شاید ان کا بیٹا راستا بھول گیا اور کوئی اسے گھر پہنچا دے گا۔
ایک ہفتہ گزر گیا لیکن اس کا کچھ پتا نہ چلا ۔ ایک لاکھ پمفلٹ اور جیا جیا کی تصویر چھپوا کر جگہ جگہ لگائی گئی ۔ اخبارات میں گم شدگی کا اشتہار دیا گیا۔ جینگزی کا دل چاہتا تھاکہ خوب روئے ، چیخے چلائے۔ بے بسی کی انتہا تھی۔ ان کے دل کی کیفیت کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
دکھ اور اداسی انھیں اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی ۔ دن گزر رہے تھے لیکن وہ اپنے بیٹے کو تلاش کرنے میں ناکام تھیں۔ جیا جیا کے کپڑے اور کھلونے دیکھ کر وہ روتی رہتیں ۔ ان دنوں چین میں بچوں کی اسمگلنگ ہو رہی تھی لیکن جینگزی اس بارے میں نہیں جانتی تھی ۔
1979 ء میں چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ’ ون چائلڈ پالیسی‘ اپنائی گئی ۔ شہر میں رہنے والے صرف ایک بچہ پیدا کر سکتے تھے ، ہاں ! البتہ دیہات میں رہنے والے صرف اس صورت میں دو بچے پیدا کر سکتے تھے اگر پہلی اولاد بیٹی ہو ۔ اس لیے جو شہری چاہتے تھے کہ ان کی نسل آگے بڑھے، بچے ان کے بڑھاپے میں دیکھ بھال کریں ، وہ اپنی خواہش کی تکمیل نہیں کر سکتے تھے۔
لوگوں کو مقررہ تعداد سے زائد بچے پیدا کرنے کی صورت میں جرمانوں کی سزا بھگتنا پڑتی ۔ اور زائد بچوں کو حکومت کی طرف سے سہولیات نہ ملتیں ۔ حکومت کی اس پالیسی کا نتیجہ کچھ یوں نکلا کہ ملک میں بچوں کی سمگلنگ شروع ہوگئی ۔
جینگزی کو معلوم نہیں تھا کہ چین میں بچوں کی سمگلنگ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ جیا جیا کے لاپتہ ہونے کے بعد جینگزی کو اپنے شوہر پر شدید غصہ تھا کہ اس کی لاپرواہی کے نتیجے میں بچہ گم ہوا ۔ اس کے بعد ایک روز اسے خیال آیا کہ شوہر کے ساتھ ہی مل کر بیٹے کو تلاش کرنا چاہیے، لیکن پھر دونوں کے تعلقات خراب ہوتے چلے گئے ، آخر کار چار سال بعد ان کی علیحدگی ہو گئی۔
جینگزی نے ہمت نہ ہاری اور اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھی ۔ جمعہ کے دن کام ختم کرنے کے بعد وہ اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل جاتیں جہاں انھیں خبر ملتی کہ کسی نے بچہ گود لیا ہے وہ اسے دیکھنے پہنچ جاتیں وہاں جا کر وہ شدید مایوس ہوتیں۔
ایک بار انھیں معلوم ہوا کہ کسی نے شیان سے ایک بچہ گود لیا ہے اور وہ ایک قصبے میں لے گئے ہیں وہ لمبی مسافت کر کے وہاں پہنچ گئیں ۔ انھیں بہت امید تھی کہ یہ ان کا ’ جیا جیا ‘ ہی ہوگا لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا اور وہ جیا جیا نہیں تھا ۔ واپسی پر لی جینگزی بہت روئیں ۔ مایوسی نے اپنی چادر تنگ کر دی تو وہ آہستہ آہستہ بیمار ہوتی چلی گئیں ۔ نفسیاتی بیماری نے انھیں نیم پاگل بنانا شروع کر دیا ۔ ڈاکٹر نے انھیں تاکید کی کہ انھوں نے خود کو نہ سنبھالا تو جلد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی ۔
ایک دن لی نے اپنے دل کو حوصلہ دیا اور سوچا کہ اگر ان کی یہ ہی حالت رہی تو وہ جیا جیا کو کیسے تلاش کریں گی اور اگر جیا جیا خود واپس آگیا تو انھیں موجود نہ پا کر کتنا دکھی ہوگا !! اس کا خیال کون رکھے گا !!! یہ سوچ کر جینگزی نے اپنے آپ کو مضبوط بنایا اور دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔
اس وقت جینگزی کو معلوم ہوا کہ بہت سے والدین اس کی طرح اپنے بچے کھو بیٹھے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ مل کر بچوں کی تلاش پر کام کرنے لگی ۔ انھوں نے چین کے صوبوں میں نیٹ ورک تشکیل دیا جس کے ذریعے وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے اور بتاتے کہ انھیں کوئی سراغ ملا ہے یا نہیں ۔
جیا جیا کو گم ہوئے انیس سال کا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران لی جینگزی چین کے دس صوبوں میں اپنے بیٹے کو تلاش کر چکی تھیں ۔ اب انھوں نے چین میں کام کرنے والی ’’ بے بی کم ہوم ویب سائٹ ‘‘ کے ساتھ رضا کارانہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا ۔
اب وہ مطمئن تھیں کہ انھوں نے بہت سے بچوں کو ان کے والدین سے ملایا تھا ۔ اس کے بعد چین کی حکومت نے2009 ء میں ڈی این اے کے ذریعے گم ہونے والے یا اغوا ہونے والے بچوں کی تلاش شروع کی جس کے تحت والدین کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا ڈی این اے رجسٹر کرائیں۔ اپریل 2020 ء میں انھیں کسی نے ایسے شخص کے بارے میں بتایا جو بہت سال پہلے شیان سے اغوا ہوا تھا۔
اس کی تصاویر بھی جینگزی کو دی گئیں جو انھوں نے پولیس کو کاروائی کے لیے دیں ۔ تحقیق کے بعد پولیس نے بتایا کہ وہ شخص سیچوان صوبے میں ہے جو یہاں سے سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس شخص کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا۔جینگزی کا بھی ڈی این اے ٹیسٹ ہوا اور نتیجہ دس مئی کے دن آیا اور بلاشبہ وہ دونوں ماں بیٹے ثابت ہوئے۔
بتیس سال کے ان تھک انتظار کے بعد انھیں اپنا بیٹا مل گیا۔ اب وہ چھوٹا سا جیا جیا نہیں بل کہ ایک بھرپور شادی شدہ مرد تھا اور اپنا کاروبار چلا رہا تھا ۔ جینگزی پریشان تھیں کہ شاید وہ مجھے نہ پہچانے، ہو سکتا ہے وہ مجھے بھول گیا ہو لیکن جب جیا جیا شیان پہنچااور جب اپنی ماں کو دیکھا تو ’’ ماما ‘‘ کہہ کر ، بھاگ کر ان کے گلے لگ گیا ۔ یہ منظر دیکھ کر رضا کار ٹیمیں اور سکیورٹی بیورو کے عملے کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔
جیا جیا کا باپ بھی اس سے ملنے کے لیے موجود تھا ۔ جیا جیا نے ایک ماہ اپنی ماں اور باپ کے ساتھ گزارا۔ جینگزی کو معلوم ہوا کہ جیا جیا کو اغوا کیے جانے کے سال بعد کسی بے اولاد کو اسے بیچ دیا گیا ۔
گود لینے کے بعد اس کے ماں باپ نے اس کا نام گوننگنگ رکھا ۔ جینگزی خوش ہیں کہ انھیں اپنا بیٹا مل گیا ہے۔ اگرچہ وہ ان کے ساتھ نہیں رہتا لیکن وہ اسے دیکھ تو سکتی ہیں۔ وہ زندہ ہے یہی اس کے لیے کافی ہے۔ جینگزی اکثر سوچتی ہیں کہ اگر کبھی وہ اغوا کار انھیں مل جائے تو وہ اس سے کہیں گی کہ وہ اسے بتیس سال واپس لا کر دے جو انھوں نے بیٹے کی جدائی میں گزارے تھے۔
The post بیٹے کی تلاش appeared first on ایکسپریس اردو.