’’اٹھ اوئے جیلے چیٹا لا لے،اوئے جیلے ویکھ پر ے ہوئے سگرٹ تیرا انتظار کر رئے نیں،ہائے اوئے جیلے جے تو نہ اٹھیا تے فیر عسی وی پَنی نہیں لانی‘‘۔ (او جیلے اٹھو اور اٹھ کے نشے کا سگریٹ پی لو،او جیلے دیکھو ہیروئن کے بھرے ہوئے سگریٹ تمھارا انتظار کر رہے ہیں،ہائے او جیلے اگر تم نہ اٹھے تو ہم بھی نشہ نہیں کریں گے‘‘)۔
یہ غریب بستی میں ایک جنازے کا منظر تھا۔ 32 سالہ جوان جلیل کی لاش چارپائی پر پڑی تھی اور اس کے نشئی دوست ارد گرد جمگھٹا لگائے آہ و زاریوں میں مگن تھے جبکہ بستی کے نوعمر لڑکے جنازے کے اطراف کھڑے نشیئوں کی آہ و زاریوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے بلکہ گاہے بہ گاہے ایک دوسرے کی جانب شرارت بھری نطروں سے دیکھتے ہوئے نشیئوں پر پھبتیاں بھی کس رہے تھے ۔ ان کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔
آئے دن کوئی نہ کوئی نشئی اس نشہ کی بھینٹ چڑھتا رہتا تھا، مگر اپنے آخری وعدے کے بر خلاف رات کو وہ نشئی پارٹی پھر نشے کے اڈے پر بیٹھی اپنا خون اور صلاحیتیں زہریلے دھوئیں کے مرغولوں میں اڑانے میں غرق نظر آتی تھی،فرق صرف اتنا تھا کہ اب جلیل ان کے درمیان نہ تھا۔ وہ اس زہر کو اپنی رگوں میں سمائے لحد میں جا سویا تھا۔ نشے نے اس کی تپسیا کو آخری آشیرباد دیتے ہوئے اسے تمام نشوں کی طلب سے آزاد کر دیا تھا ۔
جلیل ایک غریب گھرانے کا واحد سہارا تھا اور دو بچوںکا باپ بھی۔ اچھی بھلی نوکری کرتا تھا مگر تقریباً 12 سال قبل وہ نشے کی لت میں مبتلا ہو گیا ۔ پہلے پہل تو وہ ہفتے میں ایک دو بار چرس کے سوٹے لگا لیا کرتا تھا ۔ جب اس کی بیوی کو اس حقیقت کا ادراک ہوا تو اس نے جلیل کو پیار محبت، نا راضگی،لڑائی جھگڑا غرضیکہ ہر طریقہ سے روکنے کی کوشش کی مگر جلیل کا اصرار تھا کہ’’ ہفتے میں ایک دو بار تھوڑا بہت نشہ عادی نہیں بناتا بلکہ یہ تو ذہن کو تفکرات سے آزاد کر کے انسان کو ہلکا پھلکا کر دیتا ہے اور انسان آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تازہ دم ہو جاتا ہے‘‘۔ مگر اس کا یہ یقین آنے والے دنوں میں ایک خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ پہلے اس کی چرس پینے کی تفریح عادت میں بدلی اور وہ بلا ناغہ سوٹے لگانے لگا ۔ اس کا جسم چرس کے نشے کا عادی ہو گیا اور اس کی طبیعت میں چڑچڑا پن،لڑائی جھگڑا عود آیا۔
گھر والوں اور بیوی بچوں کے ساتھ لڑائی مار کٹائی اب ایک معمول بن چکی تھی۔ اس کے نشئی دوست شاید اسی موقع کا انتظار کر رہے تھے۔انھوں نے اسے ہیروئن پرلگا دیا۔اب کون ماں باپ،کون بیوی بچے اور کیا روزی روٹی ،نوکری وغیرہ۔اب وہ تھا ،اس کے نشہ باز دوست اور ہیروئن کا زہر۔اس کی قابلِ رشک صحت بھی قابلِ رحم ہو چکی تھی۔ اس کی بیوی نے بھی اس سے قطع تعلق کر کے اس دن سے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا کہ جب جلیل نشہ پورا کرنے کیلئے سوتے میں اس کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار کر لے گیا ۔
میکے وہ اس لئے نہ جا سکی کہ اس کے اپنے والدین بھی بہت غریب تھے جبکہ اس کے اپنے دو بھائی بھی نشے کی لت میں مبتلا تھے ۔اب وہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ جلیل کی ماں بھی جوان بیٹے کا غم سینے سے لگائے اس کو سمجھاتے سمجھاتے پانچ برس قبل قبر میں جا سوئی تھی اور آج جلیل بھی اپنے بیوی بچوں کو بے یارو مددگا روتا ہوا چھوڑ کر چل بسا تھا ۔ یہ ایک جلیل کی کہانی ہے ،مگر اس جیسے کئی جلیل آج بھی اپنی رگوں میں یہ ناسور اتارتے ہوئے غلیظ موت کی راہ پر گامزن ہیں۔
صحت مند افراد ہی صحت مند معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔کسی بھی معاشرے کے پنپنے کیلئے ایک بنیادی شرط صحت کا اعلیٰ معیار ہے۔ جن معاشروں میں صحت کا خاص خیال نہیں رکھا جاتا، ان میں محنت کرنے اور آگے بڑھنے کی لگن بھی خاصی کمزور ہوتی ہے۔ آج دنیا کا کوئی بھی ملک یا خطہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی نشے کی لت میں مبتلا نہ ہو، منشیات کی فراہمی اور فروخت میں ملوث گروپ اس قدر طاقتور ہیں کہ چند ایک ممالک میں تو وہ حکومت کو بھی بڑی آسانی سے زچ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ حکومتیں یا ان کے اربابِ اختیار خود اس گھنائونے کاروبار میں ملوث ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ غربت اور ذہنی دبائو سے چھٹکارا پانے کے لئے لوگوں کو سب سے آسان طریقہ یہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر ذہنی سکون کے حصول کی خاطر منشیات کی گود میں پناہ لینے والے شاید اس حقیقت سے نابلد ہوتے ہیں کہ یہی وقتی سکون ان کو دائمی کرب میں مبتلا کرنے کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہوہاں لوگ زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کی تلاش میں اپنے اعصاب کو منشیات کی مدد سے بہلا کر ہی خوش ہو لیتے ہیں،مگر افسوس یہ بہلاوا ہی ان کیلئے موت سے قبل موت کی لوری بن جاتا ہے ۔
آج دنیا بھر میں منشیات کی مقبولیت کا اہم سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی عدم استحکام ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی اس زہر کو معاشرے میں پھیلانے میں مہمیز کا سا اثر رکھتے ہیں۔ ڈپریشن سے نجات پانے کے لئے سادہ منشیات استعمال کرنے والے وقتی طور پر اعصاب کو سلا کر مطمئن ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس طریقے سے ڈپریشن کو ختم کرنا ناممکن ہے ۔ نشہ اترنے کے بعد مسائل زیادہ گھمبیر ہو کر سامنے آتے ہیں اور انسان ان سے نبرد آزما ہونے کے بجائے کنی کترانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے کیونکہ نشہ انسان کے اعصاب پر اثر انداز ہو کر آہستہ آہستہ فکر وعمل کی طاقت چھین لیتا ہے۔
تمام معاشروں میںمنشیات کی لعنت کو پروان چڑھانے میں ان نشہ آور جڑی بوٹیوں کا کردار مرکزی نوعیت کا ہے، جنہیں اگانا اور منشیات استعمال کرنے والوں تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں۔ افغانستان اس کی ایک مثال ہے کہ جہاں سے منشیات پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچائی جاتی ہیں۔ چند ایک معاشروں میں سستی منشیات اب عادات و اطوار میں شامل ہو چکی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں بھنگ یا گانجا اس قدر شوق سے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال پر قابو پانا تقریباً ناممکن ہے۔ بھارت میں بھنگ پینے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ آسانی سے مل جاتی ہے اور اسے پینے کے لئے تیار کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اسی طرح تمباکو چبانے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ پان کے ذریعے تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ جنوبی امریکا کے بہت سے ممالک میں کوکا کی پیداوار غیر معمولی حد تک ہوتی ہے جس کے باعث کوکین کی تیاری اورترسیل بلا تعطل جاری رہتی ہے۔
منشیات استعمال کرنے والے معاشروں میں تین چوتھائی ایسے ہیں، جو ہیروئن کے بھی عادی ہیں، جب کہ ایسے دو تہائی معاشرے کو کین بھی بہت شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کی تاریخ موجود ہے۔ صدیوں سے مختلف نشہ آور اشیاء اور ان کے اجزاء کو سادہ طریقے سے ذہنی قوت اور پھرتی کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ صدی قبل مختلف نشہ آور جڑی بوٹیوں اور پھولوں کے نچوڑ کی شکل میں انتہائی خطرناک نشہ آو راشیاء تیار کرنا ممکن ہو گیا تھا۔کیمسٹری اور ادویہ سازی کے شعبے میں غیر معمولی ترقی اور نئی ٹیکنالوجی کے طفیل نشہ آور اجزاء کی مدد سے انتہائی طاقت ور منشیات تیار کرنا اب انتہائی آسان ہو چکا ہے۔
اب بہت سے لوگ نشہ آور اشیاء کو کھاتے، پیتے، سونگھتے اور انجیکشن کے ذریعے جسم میں اتارتے ہیں۔ بہت بڑی مقدار میں نشہ آور اشیاء کو ٹیکنالوجی کی مدد سے Condesne کر کے بہت چھوٹی مقدار میں ہر نشہ کرنے والے کے لئے آسانی سے فراہم کرنا معاملے کو الجھانے کا سبب بنا ہے۔ سوچنے، محسوس کرنے اور کسی بھی معاملے میں طرز عمل تبدیل کرنے کے لئے دنیا بھر میں psychoactive اشیاء استعمال کی جاتی ہیں جو رفتہ رفتہ عادت اور لت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔
ماضی میں افیون سے ہیروئن، گانجے سے حشیش اور چرس، جبکہ کوکا سے کوکین تیار کی جاتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی نے خاصی پیش رفت کی ہے جس کے باعث ایسی منشیات تیار کرنا ممکن ہو گیا ہے جن میں کئی چیزوں کا عرق شامل ہوتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے متعدد نشہ آور اجزا کو ملا کر ایک ایسی چیز تیار کی جا سکتی ہے، جو تاثیر میں بہت بڑھ کر اور قیمت میں بہت کم ہو۔ یہ صورت حال دنیا بھر میں منشیات کی غیر قانونی تجارت کو بڑھانے اور ان کے بارے میں شعور کی سطح گرانے کا باعث بن رہی ہے۔ ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کی پیش رفت نے منشیات کی تجارت کو مزید فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی نے منشیات فروشوں کے مابین رابطے مزید مستحکم کر دئیے ہیں۔
دوسری طرف بدعنوان سرکاری مشینری کی مدد سے منشیات فروش جہاں چاہتے ہیں اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی مقدار میں منشیات پہنچا دیتے ہیں۔ یہ پورا معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ اس کی مکمل بیخ کنی صرف اقوامِ عالم کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی حکومت اور اربابِ اختیا کو قوم کی نوجوان نسل کو اس زہر سے بچانے کیلئے قرار واقعی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ورنہ ہو سکتا ہے کہ جیلے کے جنازے پر نشیئوں کی آہ و زاریوں پر پھبتیاں کسنے والے نو عمر لڑکے ،سارے نہیں تو تھوڑے بہت،مستقبل میں جیلے کی جگہ پڑے ہوں اور آئندہ نسل کے نوجوان ان پر ہنس رہے ہوں۔
انسدادِ منشیات کے لیے اقوامِ متحدہ کے اقدامات
1987ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ہر سال 26 جون کو دنیا بھر میں انسداد منشیات اور منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن منانے کی منظوری دی تھی۔عوامی سطح پر منشیات کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کر کے زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنا اس دن کا بنیادی مقصد ہے، تاکہ منشیات جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے میں آسانی ہو،نوجوانوں میںاس سے نفرت کی امنگ پیدا ہو اور اور دنیا بھر میں جرائم کی شرح کو کم رکھنے میں مدد ملے۔ منشیات سے ہی جڑا ہوا معاملہ جرائم کا بھی ہے۔ منشیات کی سمگلنگ اور فراہمی میں ملوث گروہ منظم جرائم کو بھی اپنے وجود کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ جو لوگ منشیات کے دھندے سے وابستہ ہیں، وہ لازمی طور پر دیگر جرائم کی سرپرستی بھی کرتے ہیں، کیوں کہ منشیات کے تمام ڈانڈے کسی نہ کسی سطح پر جرائم کی دنیا سے جا ملتے ہیں اور ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ منشیات اور دیگر جرائم کے موثر خاتمے اور روک تھام کیلئے بہت بڑے پیمانے پر اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ لعنت پاکستان سمیت ہر معاشرے کی جڑوں میں سما چکی ہے اس لئے ان کی بیخ کنی کے لئے جو اقدامات ناگزیر ہیں ان کا جامع اور انتہائی موثر ہونا بھی بنیادی شرط ہے کیونکہ نیم دلی سے کئے گئے اقدامات کے نتائج مثبت کی بجائے مزید منفی ہی نکلیں گے۔ 1961ء میں اقوام متحدہ نے ’’سنگل کنونشن آن نارکوٹک ڈرگس‘‘ اور 1971ء میں ’’کنونشن آن سائکوٹروپک سبسٹنس‘‘ کے ذریعے نشہ آور ادویہ کو غیر قانونی قرار دینے، اور ان کے بارے میں دنیا بھر میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔
اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیمیں انسداد منشیات کے لئے کام کر رہی ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کو جیتنا کسی ایک یا چند اداروں اور تنظیموں کے بس کی بات نہیں۔ اس کیلئے حکومتوں اور بڑے عالمی اور علاقائی اداروں، تنظیموں اور گروپوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ نے منشیات اور جرائم کے انسداد ے حوالے سے تحقیق کرنے اور سفارشات مرتب کرنے کی غرض سے ’’دی گلوبل پروگرام فار پالیسی اینڈ ٹرینڈ اینیلیسز‘‘ کے نام سے ایک باضابطہ ادارہ قائم کیا ہوا ہے جو دنیا بھر میں منشیات کے تدارک کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات پر نظر رکھتا ہے اورزیادہ حکومتوں اور اداروں کو قائل کرنے اور ساتھ ملانے کیلئے سر گرامِ عمل رہتا ہے تاکہ اقدامات کی تاثیر بڑھانا ممکن ہو۔
ادارہ کے تحت دنیا بھر میں منشیات اور جرائم کی بیخ کنی کے لئے روبہ عمل طریقوں کا تجزیہ کر کے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہر اقدام زیادہ سے زیادہ ثمر آور ثابت ہو۔ اس پروگرام کے تحت تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے تحت معاشرتی اور معاشی پہلوئوں کا بھی سیر حاصل جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ کسی بھی معاشرے کو منشیات اور جرائم کی لعنت سے مکمل طور پر پاک کرنے میں خاطرہ خواہ مدد ملے۔
مختلف منشیات کے اثرات
منشیات کے ممکنہ اثرات کے بارے میں سوچیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی جانے والی LSD منشیات استعمال کرنے والوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور پڑتی جاتی ہے، دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے اورو قت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی اور اعصابی خلل بھی بڑھتا جاتا ہے۔ ہیروئن استعمال کرنے والوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا کمزور پڑ جانا عام بات ہے، انہیں بولنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر وقت غنودگی سر پر سوار رہتی ہے اور اگر استعمال متواتر جاری رہے تو اعصاب کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں جس کے باعث وہ ہر معاملے میں انتہائی سست ہو جاتے ہیں۔ ہیروئن کا متواتر استعمال دل کی دھڑکن کو بے ترتیب کرنے کا باعث بنتا ہے۔
ہیروئن وہ نشہ آور شے ہے جو متواتر استعمال کئے جانے کی صورت میں اپنے آپ پر انحصار خطرناک حد تک بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ اسے ترک کرنے کی صورت میں جسم ٹوٹتا بکھرتا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہیروئن زیادہ استعمال کرنے والوں کو خارش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کوکین اور اس سے تیار کی جانے والے دیگر منشیات استعمال کرنے والوں میں ہائپر ٹینشن، دھڑکن کی بڑھتی ہوئی رفتار، غنودگی اور سر میں شدید درد عام شکایات ہیں۔نشہ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ بعض افراد سکون آور ادویات کو بھی بطور نشہ استعمال کرے ہیں۔اینٹی ڈپریسنٹ وہ ادویات ہیں جو اعصاب کو سلانے کا کام کرتی ہیں، اور انسان کے اعصاب رفتہ رفتہ کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری طرف وہ نشہ آور ادویہ ہیں جو بہت حد تک عمل انگیز کا کام کرتی ہیں۔ انہیں Stimulant کہا جاتا ہے۔ یہ منشیات عموماً اعصاب کو بیدار کرنے اور پھرتی پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ انہیں استعمال کرنے والوں کے دل زیادہ تیزی سے دھڑکنے لگتے ہیں اور اگر متواتر استعمال کی عادت پڑ جائے تو ان منشیات کا استعمال اچانک ترک کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ تیسرے نمبر پر Hallucinogens ہیں، جن کا استعمال انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر خاص انداز سے اثر ڈالتا ہے، اور انسان تصوراتی دنیا کا باسی بن کر رہ جاتا ہے۔
ان منشیات کو استعمال کرنے والے خیالی پلائو پکاتے اور ہوائی قلعے تعمیر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں سست الوجودی اور کاہلی پسند ہوتی ہے۔ انہیں ڈپریشن بھی ہو جاتا ہے بلکہ یہ عام طور پر ڈپریشن میں ہی رہتے ہیں کیونکہ اعصاب کمزور ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسائل بھی انہیں پہاڑ معلوم ہوتے ہیں جبکہ ان کے احسا سات بھی رفتہ رفتہ کمزور پڑتے جاتے ہیںجس کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی معاملے میں بروقت ردعمل ظاہر نہیں کر پاتے۔
منشیات اورجواء
رشوت اور سیاسی دباؤ بڑے مگر مچھوں کو پکڑنے کی راہ میں حائل ہے
نوجوانوں کی موت پہ کبھی اطمینان اوراظہارتشکرنہیں کیاجاتا الیکن نشئی نوجوانوں کی موت پہ میں نے ورثاء کواظہارِتشکرکے جذبات سے لبریزدیکھا ہے۔اس لعنت نے پورے ملک اور خاص کر چھوٹے شہروںکے حُسن کوگہنا دیا ہے۔ نشیئوں کی جانب سے چوری چکاری عام ہے۔اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ملک کے مقدس ترین مقامات مساجد،علم کی روشنی پھیلانے والی درسگاہیںاور انسانی صحت کے رکھوالے ہسپتال تک ان کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔ ہسپتالوں کی اینٹیں تک چوری کر لی جاتی ہیں۔ سکولوں کے اندرپانی کی موٹریں،پنکھے،وائرنگ ،واٹرسپلائی پائپ ،کھڑکیوں پہ لگی لوہے کی جالیاں اورواش بیسن تک محفوظ نہیں۔اس سے اساتذہ اور طلبہ میں بددلی پھیل رہی ہے، بچوں کی تعلیم کا نقصان عظیم ہورہا ہے۔
ریلوے اسٹیشنز کے پاس غیرآباد اور آباد رہائشی کوارٹرزاکھیڑکربیچ دیئے جاتے ہیں ،انہی نشئی افرادکی طرف سے چوری کئے گئے ریلوے اورفیکٹریوں کے سکریپ اورلوہے کی برکت سے کئی سکریپ خریداری کی دکانیں آباد ہیں۔ان نشئی افرادکی بدولت ملک میں بے راہ روی بڑھ رہی ہے،غیراخلاقی سرگرمیوں میں اضافہ ہورہاہے اور شرفاء کی پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ جن افرادکے پاس کچھ وسائل ہیںاوربچوں کی کچھ فکررکھتے ہیں،وہ ایسے مقامات سے نقل مکانی کر جا تے ہیں، البتہ منشیات فروش اور نشئی ثابت قدمی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسے محفوظ پناہ گاہ سمجھ کروہاں پر ہی رہنے کوترجیح دیتے ہیں۔ منشیات کے ساتھ ساتھ جواء کی لعنت بھی وبائی صورت اختیارکرچکی ہے۔
اکثرہوٹلوں، کیرم اور بلیئرڈ کلبوں میں نشئی نوجوان سا را سارا دن لوڈو،کیرم بورڈ اور بلیئرڈ پرپیسے لگا کروقت گزاری کرتے ہیں،کیبل چینلزپرکھیلے جانے والے جواء کے خریداروں کی بھی بہتات ہے، میچوںکی آڑ میں ہزاروں نہیں لاکھوں روپے کاجواء معمول کی بات ہے۔ عیدین کے موقعوں پرشہروںکے مرکزی بازاراورگلی محلوں میں جواء کھیلنے کے میلے لگے ہوتے ہیں۔ شراب کے نشے میں دھت گلیوں میں لڑکھڑاتے، اُول فول بکتے نوجوانوں،ہوٹلوں پہ بیٹھ کرچرس کے کش لگانے والے اورافیون کے ذریعے نکما پن کاشکارہوجانے والے نوجوانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
ایک سروے کے مطابق یہ منشیات اورجواء کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔اس کے متعلق ہرشخص کی اپنی منطق ہے۔کچھ کاخیال ہے کہ بے روزگاری اس کی بنیادی وجہ ہے،کچھ تعلیم کی کمی کوموردِالزام ٹھہراتے ہیں، اکثرکاخیال ہے کہ نشئی لوگ آزادمنش ہوتے ہیں،بس اپنے دل کی مانتے اورکرتے ہیں،کئی افراداپنے سیاست دانوں کومکمل ذمہ دارسمجھتے ہیںاور ان کا موقف ہے کہ سیاست دان جانتے بوجھتے انھیں تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ان لوگوںکا کہنا ہے کہ ہمارے ایم پی ایز،ایم این ایز ،اربابِ اختیار اور پولیس غرضیکہ کسی کوکبھی توفیق نہیں ہوئی کہ منشیات کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ اقدامات کا سوچیں۔ یہ لوگ انتظامیہ پردبائوڈالناتودُورکی بات اُلٹا لاپرواہی کابرتائوکرتے آئے ہیںاور منشیات فروشوں اورجوئے بازوں کے پشتی بان بن جاتے ہیں۔
یہ منشیات فروش اتنے طاقتور اور با اثر ہیں کہ جوایس ایچ اوان ناسوروں کے خلاف سخت ایکشن کرے یا ان کی بیخ کنی کی کوشش کرے اورعوام کی اکثریت اُس کے گن گاناشروع کردے توجلداُس کاتبادلہ کرا دیا جاتا ہے جبکہ کرپٹ اورنکمے ایس ایچ اوکے خلاف عوامی سطح پراحتجاج ہوتو اکثر با اثر افراد اورسیاست دان اُس کی پشت پناہی شروع کردیتے ہیںکیونکہ الیکشن میں سیاست دان نشئی افرادسے سستے داموں ووٹ خریدنے کادھندا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ ہماری کئی با اثر شخصیات چاہتی ہیں کہ نشئی افراد کی کھیپ موجودرہے تاکہ سستی لیبرمیسررہے جبکہ سکریپ فروشوں کو چوری چکاری کاسامان سستے داموں انھیں حاصل ہوتا رہے۔کچھ علاقوں کاماحول ہی کچھ ایسابن گیا ہے کہ سے منشیات آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں بلکہ باہرسے بھی نشئی افرادوہاں آجاتے ہیں۔
پولیس منشیات کے گیٹ وے کوبندکرنے میں ناکام نظرآتی ہے،شہروں اور دیہات میں منشیات فروش کوئی سینکڑوں کی تعدادمیں نہیں ہیں لیکن پھربھی قابونہیں آتے۔ منشیات کی روک تھام کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اکثرپولیس پر یہ الزام لگاتی ہیں کہ وہ چندنشئی افرادکوپکڑکراپنے پرچوں کی تعدادپوری کرلیتی ہے جبکہ بڑے مگرمچھوں پر منتھلیوں کے حصول کی خاطر ہاتھ نہیں ڈالتی، جبکہ پولیس کاہرباریہی جواب ہوتا ہے کہ عوامی سطح پرہماراکوئی ساتھ نہیں دیتاجس کی بدولت بڑے مگرمچھ بچ نکلتے ہیں۔
بیان کی گئی یہ صورت ِ حال اصل سنگینی کوواضح نہیں کرسکتی ،حقیقی تصویراس سے بھی بھیانک ہے۔بیوائوں اوریتیم بچوں کی کسمپرسی دِل دہلادینے والی ہے۔نوجوان نشئیوں کے جھکتی کمر والے والدین کی حسرت بھری آنکھیں،آہوں بھری سانسیں جسم پہ کپکپی طاری کردیتی ہیں،لیکن صرف اُن کے لئے جوسینے میں انسانیت کیلئے دردِ دل رکھتے ہیںمگر ان منشیات فروشوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے اربابِ اختیار کی آنکھ میں درد کا احساس تو ایک طرف پشیمانی کے آنسو بھی درنہیں آتے کیونکہ وہ اپنا عیش و طرب انہی نوجوان نشیئوں کی رگوں میں نشے کا زہر اتار کر کشید کرتے ہیں۔