’’فلاحی اداروں کی مدد درست مگر۔۔۔‘‘
سیلاب زدگان کے لیے جہاں ملک کے بہت سے روایتی فلاحی اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر امدادی سامان متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ کیا ہے، اور کر رہے ہیں، وہاں گلی محلوں کی سطح پر بھی لاتعداد افراد بھی اپنے اپنے طور پر متاثرین سیلاب کے لیے راشن اور دیگر امدادی سامان جمع کر رہے ہیں۔
یقیناً کسی بھی سماج میں یہ امر خوش آئند ہوتا ہے کہ وہاں نامساعد حالات میں بھی لوگ خلق خدا کی مصیبت دور کرنے کے لیے آگے آگے ہیں، لیکن وہیں تصویر کا ایک رخ اس موقع پر ریاست کے کردار اور سیاست دانوں اور دیگر ’اہل اقتدار‘ کا بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی سطح پر ہمارے ہاں ایسی آفات سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا سہولتیں موجود ہیں۔۔۔؟ دوسرا یہ کہ ملک وقوم کے درد میں روز بہ روز ’دُبلے‘ ہونے والے ہمارے نام نہاد راہ نماکب عوام کی مصیبت دور کرنے کے لیے اپنی جیبیں ڈھیلی کریںگے۔۔۔؟ یہ دونوں سوالات ہماری غیر سرکاری تنظیموں کی فلاحی سرگرمیوں کے پیچھے چھپنے نہیں چاہییں!
مانا کہ غیرسرکاری تنظیموں بہت کام کر رہی ہیں، مگر خبردار، یہ کام بدترین ریاستی غفلت کا پردہ نہ بننے پائے۔۔۔! ریاست اپنے عوام سے پورا پورا ٹیکس لیتی ہے، پھر ریاست کی غربت اور اس کے حکم رانوں کی رئیسی اس پر مستزاد! آئے دن کے بھاری بھرکم وفود کے ساتھ بیرون ملک دورے، وہاں کے اثاثے اور معلوم اور نامعلوم جائیدادیں۔۔۔! کوئی ایک تو خبر آئے کہ ہمارے ان ’بڑوں‘ نے قوم کے لیے اپنی کوئی زمین عوام کے لیے عطیہ کر دی ہے۔
کسی نے دبئی کے اقامے کی آمدن سے کچھ ان سیلاب زدگان کے لیے پیش کر دیا، کسی نے لندن کے فلیٹوں کی قربانی دے دی، کسی نے سوئٹزرلینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں بنائے گئے اپنے بینک کھاتوں سے سب یا آدھا نہ سہی، مگر کچھ حصہ ان بے گھر بدنصیب شہریوں کے لیے دے دیا ہو کہ جن کی ریاست کی بار بار حکم رانی انھی گنے چنے خاندانوں میں ہی گھومتی رہتی ہے۔
کسی کو اسی ریاست میں کوئی بہت بڑا اور قابل قدر رتبہ ملا ہو، اور وہ محسوس کرے کہ اس وقت اس کے ملک کے عوام مصیبت میں ہیں، چلیے وہاں سے کچھ عطا ہوجائے، لیکن نہیں! انھوں نے جب بھی واہ واہ کرائی، سرکاری خزانے ہی سے کرائی، کبھی اپنی جیب خاص کا ذکر ہی نہیں کرتے!
وہی روایتی بیانات، ویڈیو پیغامات اور وہی امداد کے لیے کشکول لیے دنیا کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا اور اندرون بیرون ملک پاکستانی شہریوں سے بھی تقاضا کرنا کہ ’قوم مشکل میں ہے، بس پیسہ دیے جائو۔۔۔!‘ ارے، یہی تو موقع ہے کہ آپ بھی تو اپنے ذاتی خزانے کے کچھ تو منہ کھولیں، تاکہ پتا چلے کہ قوم کی فلاح وبہبود، اور عوام کی ترقی کے لیے آپ کتنا کشٹ اٹھاتے ہیں، کبھی مقدمے بھگتتے ہیں، تو کبھی قیدوبند اور کبھی جلاوطنی۔۔۔ لیکن عوام کی خدمت کے لیے ’بے چین‘ رہتے ہیں۔
یہی تو موقع ہے دکھا دیجیے اپنی حب الوطنی۔۔۔! آخر کیوں اس ملک کے عوام ریاست کو ٹیکس بھی دیں، اور پھر مصیبت میں امداد کے لیے بھی آپ کی نظر ان کی جیبوں پر ہو۔۔۔ یہ جواب دہی کیوں نہ ہو کہ بتائیے، وہ ٹیکس کہاں خرچ ہوا؟ حکمرانوں کو تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ملک کے فلاحی اداروں کی بات کریں، مگر وہ خوش ہیں، لوگ بھی مطمئن ہو رہے ہیں کہ بڑی امداد کی جا رہی ہے۔
کیوں کہ بہ الفاظ دیگر یہ فلاحی ادارے ان کی مجرمانہ غفلت ڈھانک رہے ہیں۔۔۔ نہیں صاحب، ’این جی اوز‘ یا یہ غیر سرکاری تنظیمیں کسی بھی ملک کے نظام کا حل کبھی نہیں ہوتیں! یہ ریاست کا بنیادی ذمہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے! وہ اگر عوام کے جان ومال کا تحفظ ہی نہ دے سکے، تو پھر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔
آج ہم 2005ء کے زلزلے، 2010ء کے سیلاب کے بعد ایک بار پھر ہم خیراتی تنظیموں کے آسرے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں ایک گاڑی ندی کے سیلابی ریلے میں بہہ جاتی ہے، تو اس کے لیے بھی فلاحی تنظیم کے رضاکار بلائے جاتے ہیں، کیا یہ تماشا نہیں ہے۔۔۔؟ لیکن اس طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیتا اور یہ بات بھی بالکل معمول کا حصہ ہے کہ پولیس تک فون کر کے شہر کے فلاحی ادارے کی ایمبولینس ہی بلاتی ہے۔
دراصل یہ ہمارے نظام کی بہت بنیادی غلطی ہے، اور یہ تب تک درست نہیں ہوگی، جب تک یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ آخر کب تک اس ملک کے جاگیر دار، وڈیرے اور حاکم عوام کا روپیا لے کر انھیں خیراتی اداروں کے ذریعے ڈوبنے سے بچائیں گے؟ ریاست کب اپنی ذمہ داری پوری کرے گی؟ کب امیر ’اہل حَکم‘ کی ریاست یونہی غریب تر اور کنگال ہوتی رہے گی اور عوام اپنی غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی سے اتنے مطمئن ہوں گے کہ وہ یہ سوال ہی نہیں کریں گے کہ یہ ساری امدادی کارروائیاں تو متعلقہ ریاستی اداروں کا بنیادی فریضہ ہیں، نہ کہ مختلف غیر سرکاری تنظیموں کا۔۔۔!
۔۔۔
الگ وطن
کرن صدیقی
اگست یوں تو ہم سب کے لیے ماہِ آزادی ہے، لیکن فرید احمد کے لی یہ دِن بہت تکلیف دہ ہوتے تھے۔ پاکستان بنتے وقت فسادات میں اُن کا پورا خاندان شہید ہوا تھا۔ اگرچہ اس وقت وہ بہت کم عمر تھے، لیکن وہ سب کچھ اُنھیں یاد تھا۔ جشنِ آزادی کی خوشی تو اپنی جگہ لیکن ان کی یاد بھی سوگوار کردیتی تھی، جنھوں نے آزاد مسلم وطن کی تعمیر کے لی اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ گھر والوں کی شہادت کے بعد خالہ نے انھیں اپنی کفالت میں لے لیا تھا پاکستان آکر انھوں نے بہت سخت وقت گزارا۔ جیسے تیسے اپنی تعلیم مکمل کی، ملازمت کی۔ معاشی حالات کچھ بہتر ہو تو ایک معقول خاندان میں شادی کی۔
کچھ وقت گزرا تو اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔ یوں زندگی مکمل ہوگئی، لیکن فرید احمد کو اپنی ہر خوشی ادھوری لگتی۔ ان کے ذہن سے وہ لمحہ جاتا ہی نہیں تھا، جب ان کے والدین اور بہن بھائیوں کو اُن کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ یہ منظر وہ کبھی نہیں بُھولے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں پاکستان سے محبت بھی بہت تھی اور اِس کی قدر بھی کیوں کہ اس وطن کی بنیادوں میں ان کے پیاروں کا لہو بھی شامل تھا۔
فرید احمد کو محسوس ہوتا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے جشنِ آزادی کی اصل روح ختم ہوگئی۔ اب صِرف ہلّا گُلّا اور تفریح ہوتی ہے، پاکستان کِس مقصد کے لی بنا تھا، یہ جاننے سے کسی کو دِل چسپی نہیں رہی ہے۔
اِس مرتبہ ان کے پوتے معیز نے جشنِ آزادی منانے کا پروگرام بنایا اسی سلسلے میں اس کے دوست گھر پر جمع تھے۔ پروگرام میں ہندوستانی گانوں پر رقص کرنا تھا، چناں چہ ڈیک پہ زور شور سے بھارتی گانے بج رہے تھے اور معیز سمیت اس کے دوست لڑکے لڑکیاں ان گانوں پہ رقص کررہے تھے، فرید احمد جو شور کی آواز سُن کے یہ دیکھنے آ تھے کہ ہو کیا رہا ہے۔ رقص کناں لڑکے لڑکیوں کے بے حجابانہ انداز دیکھ کر ان کی نظریں شرم سے جُھک گئیں۔
ڈیک کی آواز کم کرتے ہو معیز نے اپنی دوست ثمین سے کہا: ’’ یار ثمین تم کِتنا آفت ڈانس کر رہی تھیں۔ کترینہ کیف بھی تمھارے سامنے کچھ نہیں۔ تم اگر ممبئی میں ہوتیں ناں تو دھوم مچا دیتیں۔‘‘
ثمین نے اِک ادا سے کہا: ’’ کاش کہ میں ممبئی میں پیدا ہوتی، تو میں وہاں کی فلموں میں کام کرتی۔ مجھے بہت شوق ہے ہندوستانی فلموں میں کام کرنے کا اور شاہ رخ وہ تو میرے سپنوں کا راجا ہے۔‘‘
دوسروں لڑکیوں نے بھی ثمین کی تائید کی۔ لڑکے کیوں پیچھے رہتے، وہ بھی کترینہ اور کرینہ کا نام لے لے کے آہیں بھرنے لگے اور اِس بات پہ افسوس کا اظہار بھی کہ وہ بھارت میں کیوں نہ پیدا ہوئی۔ فرید احمد دروازے کے قریب تھے اور یہ ساری باتیں بھی سن رہے تھے۔
اُنھیں یوں لگا جیسے اُن کے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو، لڑکھڑا کر انھوں نے دیوار کا سہارا لیا۔ تبھی معیز کے دوست رافع کا تمسخرانہ انداز میں کہا گیا یہ جملہ تو جیسے ان جسم تو کیا روح تک کو جھلسا گیا۔ رافع معیز سے کہہ رہا تھا،
’’یار تمھارے دادا ہر وقت ہجرت ہجرت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نے اتنی قربانیاں دیں، تب یہ وطن حاصل ہوا۔ نہ دیتے قربانیاں نہ کرتے الگ وطن حاصل۔ ہم اگر انڈیا کے ساتھ ہوتے تو کتنا اچّھا ہوتا ناں۔‘‘
’’ہاں تو اور کیا۔ آج اگر ہم انڈیا میں ہوتے تو کتنا مزہ آتا۔ ہر طرح کی آزادی ہوتی۔ ہولی کھیلتے، ڈِسکو جاتے۔‘‘
’’ہاں میں وہاں ہوتی، تو رنویر کپور سے تو ضرور ہی ملنے جاتی۔‘‘
سب اپنی اپنی خواہشات کا اظہار کررہے تھے، تبھی معیز کی تلخ آواز اُن کے کانوں میں آئی۔
’’آخِر ہمارے بڑوں کو ضرورت کیا تھی الگ وطن کی۔ وہیں سب مل کے رہتے۔ کاش پھر سے انڈیا پاکستان ایک ہوجائے!
اور فرید احمد کے دِل میں جیسے کسی نے تیز خنجر گھونپ دیا۔ بدن میں جان نہ رہی۔ انھیں یوں لگا جیسے پاکستان کی خاطر جان دینے والے شہدا کی روحیں ان سے سوال کر رہی ہیں۔ کیا ہم نے اسی لی سب کچھ لٹا کر ایک الگ وطن حاصل کِیا تھا؟؟؟
۔۔۔
روح کے زخم
بدرالنساء
میرا نام شمیم احمد ہے میں ایک اسپیشل کیئر سینٹر میں بطور اکائونٹنٹ کام کرتا ہوں، اس ادارے میں کام کرنے کی وجہ میں آپ کو اپنی روداد میں سناتا ہوں جو میری زندگی کے ساتھ ہوا، وہ مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔
یہ بات ہے آج سے تقریباً 30 سال پہلے کی، جب میں جماعت ہفتم کا طالب علم تھا، میرا اسکول ایک چھوٹے سے قصبے میں واقع تھا جس میں سہولتوں کا فقدان تھا اور اس پر ماشا اللہ استاد ایسے تھے کہ جیسے ہم پر کوئی عذاب مسلط ہو، ہمارا اسکول لڑکوں اور میٹرک تک تھا۔ لوگوں کے لیے یہ اسکول غنیمت تھا کہ سرکاری ہونے کی وجہ سے کوئی فیس تھی اور نہ ہی کوئی اور اخراجات، اس لیے لوگ اپنے بچوں کو لازمی اسکول بھیجتے تھے، مگر ان سادہ لوح عوام کو یہ نہیں پتا تھا کہ ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی، بلکہ وہ اخلاقی پستی میں گر رہے ہیں۔
جماعت ہفتم کا بچہ کتنے سال کا ہوگا، یہی کوئی 12یا 13سال کا، لیکن یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ اس عرصے میں جو وقت گزرا ہوتا ہے، وہ تاحیات اس کی یادداشت میں محفوظ رہتا ہے، میں اپنی جماعت میں ہر روز تقریباً دیکھتا کہ استاد کس بری طرح سے بچوں کو سزائیں دیتے ہیں۔
ان خوف ناک سزائوں کی وجہ سے کتنے ہی بچے اسکول، استاد اور تعلیم سے متنفر ہو کر چلے گئے، میں یہ تماشا روز دیکھتا اور ڈر کے مارے خوف سے کانپ جاتا۔ گھر آکر ماں، باپ کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہ کر پاتا، ہماری کلاس میں خواتین اور مرد دونوں اساتذہ پڑھاتے تھے اور نہایت غیر مناسب انداز بیان اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہم بچے سمجھ نہیں پاتے تھے، مجھے بس اپنا وہ وقت جب یاد آتا تو کلیجہ منہ کو آجاتا ہے، میں ایک اچھا طالب علم اور کم گو تھا، ایک دن جس بس سے میں اسکول آرہا تھا وہ خراب ہوگئی اور مجھے اسکول پہنچنے میں دیر ہوگئی۔
جب جماعت میں پہنچا، تو ریاضی کی کلاس ہو رہی تھی، خاتون ٹیچر نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا اور مرغا بنادیا، میں نے بولنا چاہا تو میرے پائوں پر زور زور سے ڈنڈے برسانے لگیں کہ مجھے کچھ پھر ہوش نہ رہا، مجھے پھر اسپتال میں ہوش آیا ،ڈاکٹر نے مجھے والد صاحب سے کہا کہ بچے کی کمر پر کوئی ایسا بوجھ ڈالا گیا کہ اب یہ چل نہیں سکتا، انھیں وہیل چیئر پر رہنا ہوگا۔
اس کے بعد میں پھر کبھی اسکول نہیں گیا، پرائیویٹ طور پر اپنی تعلیم مکمل کی۔ کلاس میں اس طرح کی سزائیں معاشرے میں تشدد کو فروغ دیتی ہیں، یہ سزائیں طالب علموں کی روحوں پر کاری ضرب لگاتی ہیں، ایک استاد کو بچے کے لیے ایک رول ماڈل ہوتا ہے، وہ اپنی ان حرکات کی وجہ سے ایسا حیوان بن جاتا ہے کہ بچہ تعلیم اور متعلم دونوں سے متنفر ہو جاتا ہے۔
آج کئی سال بعد جب میں نے دیکھا کہ استاد بچے کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا، ان کے لیے قانون سازی کر دی گئی کہ اگر استاد نے بچے کو مارا تو سزا ہو گی۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قانون اچھا ہے کہ کم از کم کسی بچے کا مستقبل تو تاریک نہیں ہوگا۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.