کراچی: سُنبے کریو بھَئین(بھَئی ین) تنسی بات ہماری
وادیس چلبے کریں بھَئین باری باری
یا سُسَرو ا دیس ایسا پاپی بھَئیو
ساتھ دیبے نہ کریں مہروا اولادیا ہماری
(مفہوم: سُنو بھائی ذرا،ہماری بات، بھائی ہم سب ہی اُسی دیس یعنی آخرت کو باری باری سفرکرتے ہیں۔یہ سُسرا دیس یعنی دنیا گناہوں سے اس قدر پُر ہے کہ یہاں تو ہماری اولاد بھی ساتھ نہیں دیتی۔سُسر کو سُسرا کہہ کر وہی انداز اپنایا ہے جو آج کل سالا کہہ کر کسی معاملے میں سخت سُست کہتے ہوئے ہوتا ہے)۔
یہ نمونہ کلام ہے میرے داداجان سمیع الدین صدیقی (مرحوم) کی پوربی شاعری کا جو(میرٹھ سے آبائی تعلق کے باوجود)، حسب ِ منشاء پنجابی میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ پوربی سے واقفیت بچپن میں اُنھی کا کلام سن کر ہوئی، مگرتب اس کی ادبی حیثیت معلوم نہ تھی۔
اردو(نیز ہندی) زبان کی قدیم وزندہ بولیوں میں سب سے منفرد، مزے دار اور مستحکم بولی، پُوربی ہے جسے پُربی بھی کہا جاتا ہے۔ پُوربی کا مصدر ہے، ہندی الاصل لفظ ” پُورَب“ یعنی مشرق، وہ جگہ جہاں سے سورج نکلتا ہے یعنی طلوع ہوتا ہے۔اس کا متضاد ”پَچھِم“ (مغرب) ہے۔ پُوربی سے مراد ہے ہندوستان (غیرمنقسم) کے مشرقی علاقوں میں بولی جانے والی بولی،(نیز اُن علاقوں کا کوئی باشندہ، اس خطے سے تعلق رکھنے والا) اور ایک قسم کی راگنی جو مغرب کے وقت سے قبل گائی جاتی ہے۔
پرانے وقتوں میں عورتیں ایک خاص قسم کا ”لمبے پٹھے“ کا تیزتمباکو بکثرت کھاتی تھیں جسے ”پوربی زَردا“ کہا جاتا تھا۔ بنگال میں اگنے والے چانول(چاول) کی ایک قسم بھی اسی نام سے موسوم ہے، جبکہ فنّ کُشتی میں حریف کو پِچھاڑنے کے لیے لگایا جانے والا ایک داؤں بھی پُوربی کہلاتا ہے۔
بطوراسم پُورَب کا استعمال، اردو اَدب میں سب سے زیادہ نمایاں اورمشہور، میرؔ کے اُس قطعے میں ہوا جو اُنھوں نے لکھنؤ میں اپنا مضحکہ اُڑانے والوں کے روبرو، بطور تعارف فی البدیہ کہہ سنایا تھا:
کیا بُود وباش پوچھو ہو پُورَب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے، ہنس ہنس کے پکار کے
دِلّی جو ایک شہر تھا، عالَم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اُس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں، اُسی اُجڑے دیا رکے
ذرایہ کہاوت دیکھیں،”پورب نہ پچھم،گھر ہے اتم۔جو سکھ چبارے بلخ نہ بخارے“ تو اَنگریزی کی مشہور کہاوت East and west home is bestکا بالکل ترجمہ معلوم ہوتی ہے۔زبانوں میں اس طرح کی مماثلت بعض اوقات اتفاقاً بھی ہواکرتی ہے۔
مشرق سے چلنے والی ہوا جو پانی لاتی ہے اور مرطوب ہوتی ہے، پُرواکہلاتی ہے۔یہ لفظ درحقیقت ”پُوروا“ یعنی پُوربا کی ایک شکل ہے، جسے بگاڑ کر پُوربیا بھی کہاگیا یعنی مشرق سے تعلق رکھنے والا یا مشرقی باشندہ۔ہواکے معنوں میں یہ مؤنث ہے، جبکہ اس کا ماخذ، مذکر۔پُروا سے متعلق اشعار بھی تلاش کے بعد مل سکتے ہیں، سردست خاکسار اَپنی ایک ہائیکو پیش کرتا ہے:
پیپل اور پُروا
تیری یادوں کی بارش
بھیگا ہوں تنہا
(سہیل احمد صدیقی)
جدید تحقیق کی رُوسے،اردو کے قدیم ترین مصنف وشاعرقرارپانے والے، حضرت مخدو م شرف الدین احمد(بن مخدوم یحیٰ) مَنیری بِہاری(رحمۃ اللہ علیہ)]جون 1263 ء تا 3 جنوری 1381ء[ کے کلام (بشمول دوہوں)میں پوربی کی ابتدائی شکل نظر آتی ہے، مگر ”بِہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1204ء سے 1857ء“ کے مصنف ڈاکٹر اخترؔ اورینوی نے اس کا کہیں ذکر نہیں کیا اور اسے بِہاری بولی کا نمونہ قراردیا۔ویسے تو انھوں نے امیرخسروؔ سے بھی پہلے کے بِہاری شاعر (نام نمعلوم) کا مع حوالہ (بِہار اور اُردو شاعری از معین الدین دردائی، صفحہ نمبر 2) ذکر کرتے ہوئے اُس کا یہ شعر نقل کیا ہے جو بظاہر سلطان ناصرالدین محموداور اُس کے بیٹے مُعِزالدین کَیقُباد کی جنگ کے وقت کہا گیا تھا:
مَنکی(من کی) اوجڑی(اُجڑی) نگری کو تب کریں آباد دان
ناصر دیں ؔ (ناصر الدین محمود) سے جب ملیں موجدین کبادان(مُعِزالدین کَیقُباد)
مگریہ حوالہ معروف نہیں، نیز یہاں نام مذکورنہیں۔البتہ اخترؔ صاحب نے مخدوم شرف ؔ کے تلمیذِ ارشد، حضرت مظفر شمس بَلخی (رحمۃ اللہ علیہ)کے دوہے نقل کرتے ہوئے پوربی کا اثر ظاہر کیا ہے اور قوسین میں اَودھی وبِہاری لکھا ہے، گویااُن کے نزدیک پوربی، ان دوبولیوں کے امتزاج سے بننے والی بولی ہے۔میری دانست میں پوربی، بِہاری سے بہت قریب ہے اور آج بھی بعض بِہاری بزرگوں کی گھریلو گفتگو میں یہ قربت ومماثلت سننے کو ملے گی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے بزرگ معاصر،گوپی چند نارنگ نے پوربی کو اَودھی اور بھو ج پوری کا مجموعہ قراردیا ہے:”کبیر کا درجہ سنت کوئیوں میں بہت اونچا ہے۔ ان کی پیدائش سمت 1455 وکرمی (1398ء) کی بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پوری پندرہویں صدی اور کچھ بعد تک زندہ رہے۔
وہ کاشی(بنارس۔ س ا ص) میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کی پوربی یعنی اودھی اور بھوجپوری کا قدیمی روپ جیسا اس وقت کاشی اور اس کے نواح میں بولا جاتا ہوگا، وہی کبیر کے بچپن کی زبان رہا ہوگا۔ لیکن چونکہ وہ زندگی بھر جوگیوں، سادھوؤں، سدھوں اور فقیروں کے ساتھ جگہ جگہ گھومتے رہے، اس زمانے کی عوامی زبان بھی ان کی زبان پر چڑھ گئی ہوگی۔
ان کی شاعری، شاعری کے لیے تھی ہی نہیں، بلکہ عام لوگوں تک اپنا روحانی پیغام پہنچانے کا وسیلہ تھی۔ چنانچہ اس زمانے میں جو بولی یا بھاشا عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی ہوگی، کبیر نے کاشی کی بولی کے علاوہ اس کا اثر بھی قبول کیا ہوگا۔ اسی لیے کبیر کی بھاشا ملی جلی بھاشا ہے۔ اس میں پوربی کا پُٹ تو ہے ہی، کھڑی کا انداز بھی ہے، جس نے ان کی شاعری کی قبولیت میں خاص کردار ادا کیا اور ہوتے ہوتے کبیر کے بول ملک کے طول وعرض میں ہر دل کی دھڑکن بن گئے۔“ (زبان کے ساتھ کبیر کا جادوئی برتاؤ: گوپی چند نارنگ)۔پروفیسر حبیب اللہ غضنفر کے قول کے مطابق، ”مشرقی ہندی کی تین بولیاں اَوَدھی، بگھیلی، چھتیس گڑھی اہم ہیں، جن میں اَوَدھی ادبی حیثیت میں سب سے آگے ہے، اس کے افعال پر مغربی ہندی کا اثر ہے اور اَسماء وضمائر میں بِہاری سے متأثر ہے“۔گویا راقم کی بات کی تصدیق ہوگئی۔(زبان وادب: مطالعہ وتحقیق)۔
یہاں رک کر ایک انکشاف: ماہرلسانیات ڈاکٹر سہیل بخاری کی تحقیق کے مطابق، مرہٹی کے شاعر،پنڈِت گیانیشور(پ: 1275ء)، قدامت کے لحاظ سے، اردو کے سب سے پہلے شاعر تھے۔(”اردو کی کہانی“)۔گیانیشور کی شاعری کا ایک نمونہ پیش کرتے ہوئے موصوف نے ارشادفرمایا کہ اُن کے یہاں برج بھاشا کے کچھ بولوں کے سوا، پوری کی پوری عمارت کھڑی بولی (قدیم اردو) پر کھڑی ہے۔گیانیشور کی چھوٹی بہن مکتا بائی(پ: 1279ء) بھی مرہٹی اور کھڑی بولی کی شاعرہ تھیں۔ اس طرح انھیں بھی اردوشاعرات ِ قدیم میں اولیت کا درجہ حاصل ہوگیا۔
1540-41ء میں ہندی /ہندوستانی کے ممتاز شاعر ملِک محمد جائسی نے ”پَدما وَت“ نامی رَزمیہ کلام قلم بند کیا جسے پروفیسر حبیب اللہ غضنفر نے اپنی کتاب ’ہندی ادب‘ میں پوربی اور اَوَدھی کا نمونہ قراردیا، جبکہ انٹرنیٹ پر دستیاب مواد میں اسے اَوَدھی کا اولین رزمیہ لکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر سہیل بخاری کی تحقیق کی رُو سے ”جائسی ؔ کی زبان اَوَدھی (پوربی) ہے، بلکہ اَوَدھی کا بھی وہ رُوپ ہے جو جائسیؔ کے آس پاس چالوہے۔اس میں عربی،فارسی کے بھی کافی الفاظ استعمال ہوئے ہیں“: ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ۔جائسیؔ نے پدماوَت میں ایک جگہ فرمایا: ترکی،عربی،ہندوی،بھاشاجیتی آہ+جا میں مار گ پریم کا سبے سراہے تاہ
یہ داستان کچھ تاریخی اور کچھ تمثیلی یعنی غیرحقیقی وفرضی ہے اور اس کی بنیاد پر، سلطان علاؤ الدین خلجی اورجزیرہ سنگلدیپ کے راجا گندھرپ سین کی حسین بیٹی، شہزادی پدماوتی کا عشق بہت مشہور کیا گیا۔جدید دورمیں بھی اس کی بازگشت سنائی دی، جب بھارت میں ایک فلم کے ذریعے اس حکایت کو پردہ سیمیں کی زینت بنایا گیا،ایسے میں متعصب ہندوؤں نے مسلمان حکمرانوں کی بڑھ چڑھ کر برائیاں بیان کیں، حالانکہ یہ قصہ تاریخ سے ثابت نہیں۔ جائسیؔ کو ہندو مذہب کی تعلیمات اور متعلق تمام مواد پر عبور حاصل تھا، انھوں نے پوری مثنوی میں جابجا ہندودیو مالا کے حوالے، سامان ِ حرب (جنگ) کی تفصیل اور آلات ِ مُوسیقی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی علمیت کا ثبوت دیا،نیز منظر کشی میں کمال کی مہارت دکھائی۔چیچک سے متأثرہونے والے یک چشمی شاعر نے اپنی صلاحیتوں سے ایک عالَم کو مرعوب کیا۔
عہد مغلیہ میں اردو کی تشکیل کا سفر بہت سُرعت سے طے پایا۔مقامی بولیوں کے غیرشعوری، فطری اختلاط سے وہ ڈھانچا بنا جس نے بعدمیں ایک مکمل، باضابطہ، باقاعدہ زبان، اردو کی شکل اختیار کی۔بانی سلطنت بابُر سے بھی ایک آدھ ہندوی (قدیم اردو)شعر منسوب ہے، مگر تحقیق سے ثابت نہیں، اس کے بعد، اُن کے پوتے، اکبر کی ہندی/ہندوی شاعری کے نمونے ملتے ہیں، جن میں کہیں نہ کہیں، پوربی مل جائے گی، جبکہ اکبر کے رَتن،عبدالرحیم خان ِ خاناں کو ہندی شاعری میں بہت ممتاز مقام حاصل ہوااور اُس دورمیں یہ رُوپ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا، ہرچند کہ وہ بہ یک وقت عربی،فارسی،ترکی،سنسکِرِت، پُرتگیز سمیت متعدد زبانوں پر حاوی تھے اور قیاس ہے کہ انگریزی سے بھی شاید واقف ہوگئے تھے۔اسی فہرست میں بعض دیگر شعراء کے ساتھ ساتھ، بادشاہ جہانگیر کے فرزند،شہزادہ شہریارکا نام بھی آتا ہے، جن کا ہندوی کلام بہت صاف ہے۔
مغل تاجداروں میں بطور شاعر سب سے زیادہ شہرت آخری بادشاہ بہاد رشاہ ظفرؔ کو ملی، مگر اُن سے بہت پہلے شاہ عالم ثانی،آفتاب (1727 تا 1806)ؔکے تخلص سے اپنی شعرگوئی کا چراغ جلا چکے تھے۔وہ اردو، پنجابی، برج،عربی، فارسی، سنسکرت اور ترکی سے بخوبی واقف اوردینی تعلیم سے بہرہ وَر تھے، (گزشتہ کالم زباں فہمی’اردو اور ترکی کے سے لسانی روابط پر ایک نظر‘،مؤرخہ 14اگست 2022ء میں راقم نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ شاید اورنگزیب عالمگیر کے جانشیں آخری بادشاہوں میں کوئی ترکی سے واقف بھی نہ ہوگا، اس کی اب تردید ہوگئی)،جبکہ انھوں نے فارسی، اردو، برج، پوربی اور پنجابی میں شعر کہے۔اُن کے دیوان میں تقریباً تمام اصناف سخن پر طبع آزمائی موجود نظر آتی ہے۔اُن کی تصانیف میں دیوان اردو،مثنوی منظوم اقدس،نادرات،دیوان فارسی اور عجائب القصص۔ مؤخرالذکر کو اٹھارویں صدی کے نثری ادب میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔اردو میں شاہ عالم ثانی آفتابؔ کا یہ کلام ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے:
صبح اُٹھ جام سے گزرتی ہے
شب دلا رام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گزرتی ہے
جدید دورکی شاعری میں بھی پوربی کا وجود باقی ہے۔ہمارے بزرگ معاصرپیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی چشتی(14 نومبر 1949ء تا13 فروری 2009ء) اردو، فارسی،پنجابی، عربی، ہندی، پوربی اور سرائیکی زبانوں میں شعرگوئی کے سبب”شاعر ہفت زبان“ کے لقب سے ملقب ہوئے۔اُن کی کتاب ”عرشِ ناز“ میں شامل پوربی شاعری کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
ہم کا دِکھائی دیت ہے ایسی رُوپ کی اگیا ساجن ماں
جھونس رہا ہے تن من ہمرا نِیر بھر آئے اَکھین ماں
دُور بھئے ہیں جب سے ساجن آگ لگی ہے تن من ماں
پُورب پچھم اُتر دکھن ڈھونڈ پھری مَیں بن بن ماں
یاد ستاوے پردیسی کی دل لوٹت انگاروں پر
ساتھ پیا ہمرا جب ناہیں اگیا بارو گُلشن ماں
درشن کی پیاسی ہے نجریا ترسِن اکھیاں دیکھن کا
ہم سے رُوٹھے منھ کو چُھپائے بیٹھے ہو کیوں چلمن ماں
اے تہاری آس پہ ساجن سگرے بندھن توڑے ہیں
اپنا کرکے راکھیو موہے آن پڑی ہوں چرنن ماں
چَھٹ جائیں یہ غم کے اندھیرے گھٹ جائیں یہ درد گھنے
چاند سا مکھڑا لے کر تم جو آنکلو مورے آنگن ماں
جیون آگ بگولا ہِردے آس نہ اپنے پاس کوئی
تیرے پریت کی مایا ہے کچھ، اور نہیں مجھ نِردھن ماں
ڈال گلے میں پیت کی مالا خود ہے نصیر اب متوالا
چتون میں جادو کاجتن ہے رس کے بھرے تورے نینن ماں
ایک اور پوربی نمونہ کلام آن لائن تلاش میں دستیاب ہوا جو محترم محمدسہیل عارف معینی کا ہے:
جب پورب پچھم اس کے ہیں دن رات پہ جھگڑا کاہے کا
سب تانا بانا اُسکا ہے پھر کات پہ جھگڑا کاہے کا
تم سادھو ہو؟،کیا جوگی ہو؟، یا شُبھ چنتک ہو تاروں کے؟
جب چاند چڑھا سب دیکھیں گے پھر چھات پہ جھگڑا کاہے کا
ہم دل کی گُولک توڑ چکے،اور جان لگا دی بازی پہ
جب سانس کی نقدی ہار گئے، پھر مات پہ جھگڑا کاہے کا
خود روگ لیا جب جیون کا،کیوں رنج کریں کیوں بین کریں
الزام دھریں کیوں قسمت پر حالات پہ جھگڑا کاہے کا
اِس وحشی جی کی بِپتا کو وہ الہڑ گوری کیا جانے
جس بات کا اُس کو بھید نہیں اس بات پہ جھگڑا کاہے کا
ہم پیت نگر کے کوچے میں اک ڈھونگ رچا کر آئے ہیں
اب ٹھکراوے یا بھکشا دے اُس ہاتھ پہ جھگڑا کاہے کا
جدیددورمیں بھی بعض بزرگوں کے طفیل،ہمارے یہاں پوربی الفاظ، خواہ مخصوص گھرانوں ہی میں، سننے کو ملیں گے،البتہ اکثر اُردو گوطبقے کے لیے نامانوس ہیں،جیسے:
کوچھا: گودمیں لینا، بستیاہ: چھپکلی، نیز بِستُوئیا۔جیسے ”بھیا! بِستُوئیاکے بھگائے دو،تب ہم بورچہ (یعنی باورچی)خانے میں آؤ“۔وِنّیس: اُنیس، وَنتیس: اُنتیس،کلچھلی:باورچی خانے میں راکھ کو چولھے سے نکالنے کا اوزار۔ یا۔ آلہ،منسیدو: شوہر،بھَتار: شوہر، بھَبیا: بھابھی،ڈیڑھ سس: سالی، ججھر: پانی کا برتن، حس دہس: پہاڑ، پتو: بہو، ماٹی: مٹی، گیندا: گیند، چھک چھک پھک پھک: ٹرین، سَنسی: باورچی خانے کا ایک خاص اوزار، ننچا: خاص قسم کا اچار، کھیوڑی: بیسن سے بنی ہوئی سالن کے ساتھ پکائی جانے والی چیز (یہ غالباً وہی ہے جسے ہمارے یہاں ”اُلٹے پَلٹے“ اور پنجاب میں ”کھنڈوِیاں“ کہتے ہیں)،دلائی: لحاف کی ’بہن‘ یعنی رَزائی (رضائی بھی لکھتے ہیں،مگر اس سے اشتباہ ہوتا ہے رِضاعی یعنی دودھ شریک کا)، کتھری: بستر کی چادرکے نیچے کا حصہ، گوڑھ: پاؤں، سوچالا/سونچالا: بیت الخلاء، سوچائیدو: آب دست کرادو،بریٹھا: دھوبی، بریٹھن: دھوبن، آہیر: گوالا، کُلہڑ: مٹی کا آب خورہ یا پیالہ، کابُک: کبوتر کا گھر، مُٹَٹّا: منھ لٹکایا ہوا شخص، گورَےّا: چڑیا، کُوکر: کُتّا،پہاڑی گِلو: چھُپن چھُپائی، آنکھ مچولی، سپایانہ(سپاہیانہ): کمتر ذات برادری والا،گھُمنڈی کھانا: قلابازی کھانا،پھُلوری: پکوڑے،چھوآوت: اچھا لگنا، چِنار: پہچاننا، دیکھنا، نِہارنا: دیکھنا، کیوٹی: ماش اور چنے کی دال کا ملغوبہ، چھُڑَےّا: پتنگ کو دُھرکانا، لٹائی: پتنگ کی چرخی،بھوُرَڑی: ناف،تِیتھ: تیز مرچیلا، مرچ والا، کَنور لہروا: رُ ک رُک کر بارش ہونابھِنسارے: تڑکے،صبح سویرے، بھُوئی: زمین، اِتّی جُول: اسی وقت،ابھی ابھی، فوراً، بھَورا: گرم راکھ، چولھے کی، اَندھوری: برسات میں نکلنے والے گرمی دانے، گھام: تیز دھوپ،پھُک وا: باجرے کے گُڑوالے شکرپارے جن پر تِل لگاتے ہیں، کھربوجنا: جسم پر، خصوصاً مچھروں کے کاٹے سے ہونے والی کھجلی، جس سے آپ بے اختیارجسم کو نوچ ڈالتے ہیں، گُنیا: سہیلی، مور: میری
نوٹ؛ اس ذخیرہ الفا ظ کے لیے اپنے بزرگ معاصر، مصنف، نشریات کار، فن کارڈاکٹر فریداللہ صدیقی اور اُن کے الہ آبادی دوستوں کا صمیم قلب سے ممنون ہوں۔
The post زباں فہمی 154؛ کچھ پُوربی ہوجائے appeared first on ایکسپریس اردو.