آج سیدعلی شاہ گیلانی سے محرومی کا ایک سال مکمل ہونے پر پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے سری نگر کے علاقے حیدرپورہ میں سید علی گیلانی کی قبر کی طرف مارچ کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔گزشتہ برس یکم ستمبر کو کشمیری قوم کے بے مثل قائد سید علی شاہ گیلانی دوران نظربندی انتقال کر گئے تھے۔ ان کا ناتواں جسم مقبوضہ کشمیر میں متعین دس لاکھ سے زائد بھارتی افواج سے زیادہ مضبوط ثابت ہوا۔
ریاست جموں و کشمیر پر قابض بھارتی سرکار سید علی گیلانی کی زندگی میں ان سے خوفزدہ رہی، انھیں قابو کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا ، برسوں تک گرفتار اور نظر بند رکھا۔ اس دوران بھارتی سرکار نے متعدد بار پینترے بدل کر سید گیلانی کو ترغیب و تحریص کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن سید علی گیلانی اپنے عزم اور نظریے پر ثابت قدم رہے۔
بھارتی حکومت عمر بھر سید علی گیلانی کی قائدانہ صلاحیتوں سے خوفزدہ رہی۔ 1981ء میں ان کا پاسپورٹ ضبط کرلیاگیا، کہاگیا کہ وہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ تب سے تادم آخر انھیں پاسپورٹ جاری نہ ہوا، سوائے2006ء کے ، جب انھیں حج کے لئے پاسپورٹ جاری کیاگیا اور واپسی پر پھر ضبط کرلیا گیا۔ سید علی گیلانی گردے کے کینسر میں مبتلا تھے۔ 2006ء ہی میں ڈاکٹروں نے ان کے لئے بیرون ملک علاج تجویز کیا۔ اس وقت تک کینسر ابتدائی مرحلے پر تھا۔ تاہم ڈاکٹروں نے اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے سرجری کی تجویز دی ۔ اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے براہ راست حکم پر پاسپورٹ گیلانی صاحب کے فرزند کے حوالے کیا گیا۔
ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق سرجری امریکا یا پھر برطانیہ میں ہونا تھی، تاہم امریکی حکومت نے انھیں ویزا دینے سے انکار کردیا۔ سبب یہ بتایا گیا کہ سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر کے ضمن میں پُرتشدد سوچ کے حامل ہیں۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ اور احباب نے اس فیصلے پر شدید احتجاج کیا ، کیونکہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے رہنے والی امریکی حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھا لیکن امریکی حکمران پوری ڈھٹائی سے اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ نتیجتاً انھیں ممبئی ( بھارت) سے آپریشن کروانا پڑا۔
سید علی گیلانی کی جیل میں قید اور گھر میں نظربندی کی مدت کو جمع کیا جائے تو وہ دنیا میں سب سے زیادہ قید رہنے والے حریت پسند رہنما تھے۔ وہ صرف بھارتی قیادت ہی کے دل میں کانٹے کی طرح نہیں کھٹکتے تھے بلکہ بہت سے اپنوں کی نظروں میں بھی نہیں جچتے تھے۔ ایک واضح موقف رکھنے والا ، جرات مند شخص منافقوں کے لئے پسندیدہ نہیں ہوسکتا !!! بالخصوص ایسے ممالک کے لئے جو مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر بھی روٹی روزی کماتے ہیں۔
سید علی گیلانی کا انتقال ہوا تو بھارتی قیادت اس خوف کا شکار ہوئی کہ نمازجنازہ کا اجتماع بڑے احتجاج کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ جب اہل خانہ نماز جنازہ کی تیاری کر رہے تھے تو بھارتی قابض فوج کی بھاری نفری نے سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، اہل خانہ کو ہراساں کیا اور ان کی میت قبضے میں لے کر ، ان کی آخری وصیت کے برخلاف زبردستی فوجی محاصرے میں حیدر پورہ قبرستان میں رات کی تاریکی میں تدفین کر دی۔
مودی حکومت نے امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر سید علی گیلانی کی جبری تدفین کے بہیمانہ اقدام کو جواز دینے کی کوشش کی تاہم کشمیری عوام نے اسے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ سیدعلی گیلانی کے اہل خانہ اور دیگر کشمیری رہنمائوں نے بھارتی حکومت کے اس اقدام کو انتہائی متعصبانہ قرار دیا۔
کشمیری قیادت نے اس اقدام کو کشمیر کی مسلم آبادی کو سزا دینے کی ایک کوشش قرار دیا ۔92 سالہ قائد حریت کی نماز جنازہ کی ادائیگی اور تدفین کے سلسلے میںبھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی او آئی سی نے مذمت کی تھی اور اسے ’ رائٹرز‘ ، ’ واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’ فرانس 24 ‘ جیسے اہم بین الاقوامی خبر رساں اداروں اور اخبارات نے نمایاںجگہ دی تھی۔ پاکستان نے بھی سید علی گیلانی کی میت چھیننے کے بھارت کے وحشیانہ عمل کی مذمت کی تھی۔
بھارت کا یہ طرز عمل واضح طور پر ظاہر کر رہا تھا کہ وہ تمام تر جبر اور قوت استعمال کرنے کے باوجود کشمیریوں کو خوف زدہ نہ کرسکا ، ان کے دلوں سے سید علی گیلانی کی محبت کم نہ کرسکا ۔ بابائے حریت کشمیر کی تدفین کے بعد بھی بھارت خوف و دہشت میں مبتلا رہا ۔ نتیجتاً سری نگر اوراردگرد کے پورے علاقے کامحاصرہ کر کے لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ پابندیاں مسلسل جاری ہیں۔ بھارت کی پوری کوشش رہی کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد مقبوضہ کشمیر میں موجود غم و غصہ کو زیادہ بڑے احتجاج میں تبدیل نہ ہونے دیا جائے۔ تاہم کشمیریوں نے اس پورے عرصہ کے دوران بحیثیت مجموعی خاموش احتجاج جیسی کیفیت کا مظاہرہ کیا۔
کشمیری قوم سید علی گیلانی کے بعد
بھارتی قیادت کا خیال تھا کہ سید علی شاہ گیلانی کے بعد تحریک آزادی جموں و کشمیر کا رنگ ڈھنگ ماند پڑ جائے گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ سبب یہ ہے کہ بابائے حریت سید علی گیلانی نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے جس کی رگوں میں خون کے ساتھ آزادی کے جذبات رواں دواں ہیں۔ سید علی گیلانی کا اپنی قوم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے کشمیری قوم کو ایسی جعلی قیادت سے نجات دلائی جو بظاہر تو کشمیری تھی لیکن بباطن بھارتی سرکاری کے مفادات کے لئے کام کر رہی تھی۔ ان میں سب سے بڑا نام اپنے آپ کو ’’ شیر کشمیر ‘‘ کا نام دینے والے شیخ محمد عبداللہ کا تھا۔
انھوں نے بھارتی قیادت کے ساتھ ساز باز کی اور تحریک حریت کشمیر کو بھارت کے ہاتھ فروخت کرڈالا۔ یہ وہ رہنما تھا جسے بھارتی قیادت نے ’’ وزیراعظم ریاست جموں کشمیر ‘‘ قرار دیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی حیثیت ایک وزیر سے زیادہ نہ تھی۔ بعدازاں اس کے ساتھ جو کچھ بھارتی سرکار نے کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ آنے والے برسوں میں مقبوضہ کشمیر کے ’’ حکمران ‘‘ کے لئے وزیراعظم کے بجائے ’’ وزیراعلیٰ ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دہلی کی طرف بھیجا جانے والا گورنر تمام تر اختیارات کا مالک ہوتا تھا اور وزیراعلیٰ کے لئے گورنر کے تمام احکامات کی بجاآوری فرض تھی۔
ایسے میں سید علی گیلانی اپنے واضح اور مضبوط موقف کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کی سیاست میں نمایاں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا : ’’ میں سر زمین کشمیر پر بھارتی فوج کے قبضے سے کبھی ذہنی مطابقت پیدا کر سکا نہ سمجھوتا کرسکا۔ یہ موقف اور اس پر استقامت میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سب اسلام کی دین ہے۔ میرا پختہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ اسلام کامل ضابطہ حیات ہے۔اور دوم، یہاں بھارت کا قبضہ جبری اور بلا جواز ہے۔جتنا خدا وند کریم کے وجود پر یقین ہے اتنا ہی ان دو باتوں کی صداقت پر یقین ہے۔‘‘ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ’ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ‘ جیسا عظیم نعرہ دیا جس نے جد وجہد آزادی کے بارے ہر طرح کے ابہام کا خاتمہ کر دیا۔
سید علی گیلانی کا کہنا تھا : ’’ اس سر زمین پر گذشتہ عشروں سے بھارت کا فوجی تسلط ہے۔ اتنے لمبے عرصے میں مفتوحہ عوام کا تقسیم ہونا، یا دیگر طور پر متاثر ہونا،ناممکن نہیں ہے۔ یہ فطری ہے، اور یہ تحریک آزادی کے لیے بالکل مایوس کن نہیں ہے۔ اقتدار کاچسکا بھی ایک وجہ ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے ضمیر بیچنا پڑے یا پوری قوم کو دائو پر لگانا پڑے۔لیکن اس سب کے باوجود آزادی کی امنگ ہر جگہ موجود ہے، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پونچھ راجوری میں سب سے زیادہ فوجی ارتکاز اور دبائو ہے، لیکن وہاں بھی عوام کے سینے جذبہ آزادی سے خالی نہیں ہیں۔‘‘
سید علی گیلانی 1972ء سے 1982ء تک ، پھر 1987ء سے 1990ء تک جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے تاہم انھوں نے دیکھا کہ ریاستی اسمبلی کا حصہ بن کر کشمیری قوم کے مفادات کو تحفظ نہیں دیا جاسکتا، نتیجتاً وہ انتخابی سیاست سے باہر آگئے۔ انھوں نے ایک نئے انداز سے تحریک حریت کشمیر شروع کردی جس نے اس قدر زور پکڑا کہ بھارتی قیادت سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ وہ اس تمام تر صورت حال کی ذمہ دار جماعت اسلامی اور اس کے رہنما سید علی گیلانی کو سمجھتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ گیلانی صاحب سمیت جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتے رہے، آنے والے برسوں میں ان سے اس سے بھی زیادہ سخت سلوک روا رکھا گیا حتیٰ کہ انھیں قتل بھی کیا گیا۔ تاہم سید علی گیلانی کی تربیت یافتہ نسل بے خوف ہے، بھارت سے آزادی کے خواب اس کی آنکھوں میں روشنی بن کر چمکتے ہیں۔
بھارت کسی بھی قیمت پر مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اپنا قبضہ تسلیم کروانا چاہتا ہے۔ گزشتہ آٹھ برس سے نریندر مودی سرکار بھی مقبوضہ کشمیر پر اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کیلئے ہر حربہ اختیار کرچکی ہے لیکن نتائج ( مودی سرکار کی ) توقع کے برعکس دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وہ ایک طرف جبر اور وحشت کا راستہ اختیار کرتی ہے ، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے عوام کے سامنے ترقی اور امن کی باتیں بھی کرتی ہے۔کشمیری قوم اب مزید دھوکہ کھانے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی سرکاری سخت فرسٹریشن کی شکار ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا فسطائی مودی حکومت کی کشمیریوں کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنانے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فوجی جوانوں کو ان کے گھروں، چوکوں، سڑکوں اور بازاروں سے اغوا کرتے ہیں اور انہیں دوران حراست لاپتہ کر دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ مغوی نوجوانوں کو کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں میں لے جا کر جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد انہیں عسکریت پسند قرار دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن کے مطابق بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے1989 سے اب تک 8ہزار سے زائد کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا ہے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ان لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بعد گمنام اجتماعی قبروں میں دفن کیا۔ مقبوضہ علاقے میں اب تک ہزاروں گمنام اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں اور یہ قبریںان لاپتہ کشمیریوں کی ہوسکتی ہیں۔
فوجیوں نے امسال اگست ہی میں ضلع بارہمولہ کے علاقے اْوڑی میں تین نوجوانوں کو ماورائے عدالت شہید کیا اور انہیں عسکریت پسند قرار دیا۔ فوجیوں نے ضلع راجوری کے علاقے نوشہرہ میں دو نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ رواں برس 28 جون کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کیرن میں جعلی مقابلے میں دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا تھا اور مقامی لوگوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ فوجیوں نے نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا اور بعد میں انہیں جعلی مقابلے میں شہید کر دیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ فوجیوں نے گزشتہ برس 29 جون کو سری نگر میں ایک کشمیری نوجوان کو جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔ فوجیوں نے نوجوان کو شہر کے علاقے پارم پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی کے دوران حراست میں لینے کے بعد شہید کیا۔ رپورٹ میں بتایاگیا کہ بھارتی فورسز نے 13 دسمبر 2021 کو سری نگر کے علاقے رنگریٹ میں بھی دو کشمیری نوجوانوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے تین برس مکمل ہوچکے ہیں، اس دوران مقبوضہ کشمیر کے حالات ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی سرکار اپنے اس اقدام سے جن نتائج کی توقع تھی ، وہ نہیں مل سکے۔ معروف صحافی افتخار گیلانی کے مطابق بھارت کی چند مقتدر شخصیات پر مشتمل فکر مند شہریوں کے ایک گروپ، جس کی قیادت دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اجیت پرکاش شاہ اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے کر تے ہیں، نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور خطے کو دولخت کرنے کے تین سال بعد بھی عوام شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
مزید اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے’’ اقتصادی خوشحالی اور سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات، پچھلے تین سالوں میں جموں و کشمیر میں بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہواہے۔ عوا کی قوت خرید میں خاصی کمی آئی ہے۔ آٹو موبائل، جو امارت کا ایک اشاریہ ہے،کی خرید و فروخت میں 30فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ گو کہ بھارت میں بے روزگاری کی شرح جون کے ماہ میں 7.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، جموں و کشمیر میں یہ شرح اوسطاً 16.37 فیصد ہے اور اس میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 5 اگست 2019 سے قبل یہ شرح اوسطاً 13.5فیصد تھی۔ مارچ 2022 میں یہ شرح 25 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ایک اور سروے کے مطابق مارچ میں 15سے 29سال کی عمر کے افراد میں 46.3 فیصد بے روزگاری کی شرح ریکارڈ کی گئی۔‘‘
یہ ہیں وہ حالات ، جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کمزور پڑنے کے خواب دیکھتا ہے۔ امسال بھی کشمیریوں نے اپنے آپ کو بھارتی قوم سے الگ تھلگ رکھا۔ پاکستان کے ساتھ یوم آزادی منایا ، اور بھارت کے یوم آزادی ( پندرہ اگست ) کو ’ یوم سیاہ ‘ کے طور پر منایا گیا۔ بطور ثبوت پندرہ اگست کو سری نگر کے لال چوک کا منظر دیکھنا چاہیے۔ ریاست جموں و کشمیر کے دیگر علاقوں کی طرح ریاستی دارالحکومت سری نگر حتیٰ کہ لال چوک میں صرف بھارتی فوجی سخت ترین پہروں میں کھڑے تھے۔
تمام بین الاقوامی خبر رساں اداروں نے تصاویر کی صورت میں یہ مناظر دکھائے۔ یہ ہے وہ مقبوضہ کشمیر جو سید علی گیلانی چھوڑ کر گئے ہیں اورکشمیری قوم آج بھی اپنے قائد حریت کے پیغام کو سینے سے لگائے مصروف عمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیری قوم بھارت کی چال بازیوں کو گزشتہ پون صدی سے بخوبی دیکھ رہی ہے، وہ بھارتی قیادت کے کھلے اور چھپے دونوں چہرے دیکھ چکی ہے، ایسے میں اسی راستے کو نجات کی راہ قرار دیتی ہے جس پر سید علی گیلانی چل رہے تھے۔
obaid.abid@express.com.pk
The post ’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ appeared first on ایکسپریس اردو.