کراچی: کسی کو کبھی کچھ سکھانا ہو تو اس کے سیکھنے کی خواہش کو برقرار رکھنا اور اس جاننے کی کوشش کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اور جب آپ خود سے آگے بڑھ کر کسی کی اصلاح کر رہے ہوں، تو تب اس حوالے سے اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہوا یوں کہ کچھ دنوں قبل قبرستان میں ایک تدفین کے موقع پر جانا ہوا، جہاں تدفین کے بعد سب لوگ تین، تین مٹھی مٹی لحد پر ڈال رہے تھے۔۔۔ وہاں ایک نوعمر سا لڑکا، کاندھے پر بستہ سنھالتے ہوئے آگے بڑھا اور لگا وہ بھی مٹی ڈالنے۔۔۔ اب اس لڑکے نے شاید مٹی ڈالنے کے لیے ایک ہاتھ سے مٹھی بنا کر مٹی ڈالی تھی، جسے دیکھ کر قریب ہی موجود ایک ادھیڑ عمر صاحب نے طنز کیا اور بہ آواز بلند اپنی برہمی دکھائی کہ ”لوگ فلاں سائنس پڑھ لیتے ہیں، فلاں مضمون پڑھ لیتے ہیں، لیکن انھیں قبر پر مٹی تک ڈالنی بھی نہیں آتی۔۔۔!“
وہ کسی کالج کا سا طالب علم دکھائی دینے والا لڑکا ان صاحب کے اس ردعمل پر ہکا بکا سا رہ گیا کہ جیسے اس سے ان جانے میں کوئی بہت بڑا پاپ یا کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہو کہ اس طرح اس پر بھرے مجمع میں آواز لگا دی گئی! اس کے چہرے کا تو جیسے رنگ ہی اتر گیا، اسے شاید سمجھ میں بھی نہیں آسکا کہ اس نے کیا ”غلطی“ کی۔ ہم نے اس لڑکے کے قریب ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ذرا دھیمے سے بتایا کہ ’دیکھیے، ایسے دونوں ہاتھوں میں مٹی اٹھا کر پھر قبر پر ڈالتے ہیں۔‘
جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے، نہایت افسوس کے ساتھ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم سب آسمان سے تو سب کچھ سیکھ کر نہیں آئے، یہ ہمارے والدین، اساتذہ، بزرگ اور ہمارے گردوپیش کے ماحول نے ہمیں دھیرے دھیرے سکھایا ہے، اب اگر کوئی بچہ کسی بات سے نابلد ہے، تو کیا یہ اس بچے کا قصور ہے یا پھر بہ حیثیت بڑوں کے ہم جیسوں کو دوش ہے۔۔۔؟
ہم اگر آج کچھ سیکھ گئے ہیں، تھوڑا بہت کچھ جانتے ہیں اور کچھ کر سکتے ہیں، تو یہ ہمارے بڑوں کی مہربانی اور محنت ہے اور اگر ہمارے بعد آنے والے بچے کسی چیز سے ناواقف ہیں تو یہ نوجوان اور یہ بچے نہیں، بلکہ ہم بہ حیثیت سینئر اس کے اصل قصور وار ہیں! ہم کیسے کسی بچے کو منہ اٹھا کر ایسے طعنے تشنے دے سکتے ہیں؟ یہ تو اس بچے کا ماحول رہا ہوگا، ممکن ہے وہ کبھی قبرستان نہ آیا ہو، یا اور کسی بھی سبب وہ اس کام کے باقاعدہ طور طریقے سے ناواقف رہ گیا ہو، تو اب کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے کہ اسے سلیقے اور طریقے سے کچھ بتانے کے بہ جائے ایسے بہ آواز بلند پکار کر ’بے عزت‘ کردیا جائے کہ کل کو وہ کوئی اصلاح بھی چاہے تو سو بار سوچے کہ کہیں میرا مذاق نہ اڑایا جائے، کہیں میرے بڑے مجھے کچھ بتانے سے پہلے میری بھد نہ اڑائیں کہ اتنے بڑے ہوگئے ہو تمھیں ابھی تک اتنی سی بات ہی نہیں پتا۔
اب اس سب کا نتیجہ کیا ہوگا؟ یہی کہ اس کے سیکھنے اور تربیت کے عمل کی بیخ کنی ہوگی، کیوں کہ اس نے دیکھ لیا کہ اس کے بڑے طعنہ دینا ضروری سمجھتے ہیں، نہ کہ اسے محبت اور توجہ سے کچھ سکھانا۔۔۔! ہم نے بھی اس بچے کے تاثرات دیکھے تھے، اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی۔۔۔ اسے ایک ایسے عمل کے لیے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے لیے وہ اتنا سا بھی قصور وار نہیں تھا۔ یہ اس کے اردگرد کے ماحول اور اسے کے بڑوں کو دوش تھا، کہ وہ اب تک اس طریقے سے ناواقف رہا۔
بدقسمتسی سے ہمارے اکثر اساتذہ بھی اپنے طالب علموں کے سوالات اور سیکھنے کے عمل کا جواب تو دے دیتے ہیں، لیکن پہلے ایک طنزیہ مسکراہٹ یا برہمی ضرور رکھتے ہیں، کہ تمھیں یہی بات نہیں پتا ابھی تک! اب بچہ اپنی کلاس میں بھی کچھ نہ پوچھے تو پھر کہاں سے سیکھے؟ باہر سماج میں بھی اسے سکھانے سے زیادہ ذلیل کرنے پر توجہ ہو اور پھر شکوہ ہو کہ نئی نسل کو تو کچھ پتا ہی نہیں ہے! ارے ہمیں کبھی اپنے گریبان میں بھی تو جھانکنا چاہیے کہ کیا انھیں جو کچھ تربیت، اقدار، ذمہ داریاں اور فرائض پہنچانے تھے، ہم وہ اچھی طرح پہنچا سکے یا نہیں۔
اگر ہمیں یہی احساس ہو جائے کہ اگر نئی نسل کو کچھ نہیں پتا، یا نئی نسل ایسی ہے، ویسی ہے تو اس میں نئی نسل نہیں، بلکہ ہم اس کے ذمے دار ہیں۔ یہ ہماری نسل کی اور اس نسل کے بزرگوں کا ذمہ تھا کہ اگلی نسلوں کو وہ سب کچھ سکھاتے کہ جو ہمیں ہمارے بڑوں نے سکھایا۔ اور ہمیں اگر بچپن سے فلاں فلاں باتیں آتی ہیں، تو اس میں بھی ہمارا نہیں، بلکہ ہمارے بزرگوں کا کمال ہے، کہ انھوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی تھی۔ آج ہم اپنے اس فریضے سے بے پروا ہیں اور شکایت نوجوانوں سے کرتے ہیں، جب کہ ہم انھیں سکھانے جو کا چھوڑتے ہی نہیں، ان کے سیکھنے کی خواہش کو پروان ہی نہیں چڑھاتے، انھیں دھتکار دیتے ہیں، تو بتائیے ایسے میں کوئی کیسے کچھ سیکھے گا؟
The post نوجوانوں کی تربیت کیجیے، تضحیک نہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.