عیدالاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا: ’’جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔‘‘
قربانی ایسی فضیلت والی چیز ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے۔ یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے۔ ہر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے کہ رمضان کے مہینہ میں روزے، حج کے ایام میں حج، نماز کے وقت میں نماز اسی طرح قربانی کے دنوں میں قربانی ایک بڑا مقبول عمل ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لیے رقم خرچ کرنا اﷲ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)
قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں: گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو۔ گائے، بیل، بھینس، بھینسہ کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے۔ چوں کہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے جانور خوب عمدہ موٹا تازہ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ قربانی کا وقت بقرہ عید کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام تک کا وقت ہے چاہے جس دن قربانی کرے لیکن قربانی کرنے کا سب سے افضل دن بقرہ عید کا پہلا دن ہے پھر گیارہویں تاریخ پھر بارہویں تاریخ۔
قربانی ہر عاقل و بالغ، آزاد، مقیم، مسلمان صاحب نصاب مرد و عورت پر واجب ہے۔ صاحبِ نصاب سے مراد جس پر زکوٰۃ فرض ہو یا جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت ہو یا اتنی قیمت کا سونا، چاندی ، نقدی مال تجارت، ضرورت اصلیہ سے زاید سامان موجود ہو اور سب کو جمع کر کے اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو جائے تو اس پر قربانی اور صدقہ فطر واجب ہو جاتے ہیں۔ ایک فرق اور بھی ہے وہ یہ کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا اس وقت فرض ہوتا ہے جب صاحب ِنصاب پر چاند کے اعتبار سے بارہ مہینے یعنی سال گزر جائے اور قربانی واجب ہونے کے لیے قربانی کی تاریخ آنے سے پہلے چوبیس گھنٹے گزرنا بھی ضروری نہیں ہے اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے یا قربانی کے ان تین ایام میںہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔
قربانی کا مقصد ریا کاری نہیں بل کہ ایک شرعی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خالص اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایک جان قربان کرنا ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں بندے کی نیت اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ’’اﷲ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے بل کہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے یہ سب کچھ محض اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لیے تھا اور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اﷲ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اسی جذبۂ ابراہیمی اور اپنی رضا کے لیے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
The post فضائل قربانی appeared first on ایکسپریس اردو.