حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ ان قربانیوں کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ فرمایا: ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔ عرض کیا: اور اون (جن جانوروں میں بال کے بہ جائے اون ہوتی ہے، ان سے ثواب کس طرح ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا: اون کے بھی ہر بال کے بدلہ ایک نیکی۔ (ابن ماجہ)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک ایسا دنبہ لانے کا حکم فرمایا جس کے سر پر سینگ ہوں، وہ سیاہی میں چلتا ہو (یعنی اس کے پاؤں سیاہ ہوں) اور سیاہی میں بیٹھتا ہو۔ (یعنی پیٹ اور منہ کالا ہو) اور سیاہی میں دیکھتا ہو۔ (یعنی آنکھوں کا حلقہ سیاہ ہو) پس ایسا ہی دنبہ آپؐ کی قربانی کے لیے لایا گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر آپؐ نے فرمایا: پتھر پر چھری تیز کرلو اس کے بعد آپؐ نے چھری کو ہاتھ میں لیا دنبہ کو لٹایا اور پھر بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدِ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّد کہہ کر اسے ذبح کردیا۔
حضرت ابویعلی شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقہ سے ذبح کرو اور تم میں سے کوئی اپنی چھری بھی تیز کرلے تاکہ ذبیحہ کو ذبح کے وقت آرام پہنچے۔‘‘ (رواہ مسلم)
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب عیدالاضحی کا پہلا عشرہ آئے تو تم میں سے جو لوگ قربانی کا ارادہ کریں وہ نہ تو اپنے بال منڈوائیں اور نہ ترشوائیں اور نہ ناخن کٹوائیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھے اور قربانی کا ارادہ کرے اسے چاہیے کہ نہ بال منڈوائے نہ ترشوائے نہ ناخن کاٹے۔ (رواہ مسلم)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دو دنبوں کو ذبح کیا جو سینگ دار ابلق اور خصی تھے۔ (رواہ ابوداؤد)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اولادِ آدم نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو خدا کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو، خون بہانے (قربانی) سے اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور آئے گا اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ، اور فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے ہاں قبول ہوجاتا ہے پس تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ مدینہ میں دس سال تک رہے اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے یوم الاضحی (قربانی کے دن) کو عید کا حکم دیا گیا جسے اﷲ تعالیٰ نے اس امت کے لیے عید بنایا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
یوم عرفہ یعنی نویں تاریخ کی فجر کی نماز سے تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بہ آواز بلند ایک مرتبہ یہ تکبیر پڑھنا واجب ہے اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے اور اکیلے نماز پڑھنے والے دونوں کے لیے تکبیر پڑھنا واجب ہے، صاحبینؓ کے نزدیک مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ البتہ عورت بلند آواز سے تکبیر نہ کہے بل کہ آہستہ آواز میں کہے۔ (شامی)
عید الاضحی کے دن یہ چیزیں مسنون ہیں
صبح جلدی اٹھنا، غسل کرنا، مسواک کرنا، عمدہ سے عمدہ کپڑے پہننا جو پاس موجود ہوں، خوش بُو لگانا، شرع کے موافق آرائش کرنا، عید گاہ میں جلدی جانا، عید گاہ میں نماز عید کے لیے جانے سے پہلے کوئی چیز نہ کھانا بل کہ نماز کے بعد قربانی کے گوشت میں سے کھانا۔ عیدگاہ میں نماز پڑھنے کے لیے پیدل جانا، جس راستہ سے جائیں اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا، راستہ میں بلند آواز سے اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد پڑھتے جانا۔
حضرت خالد بن سعدؓ سے مروی ہے کہ آپؐ کی عادت کریمہ تھی کہ عیدالفطر یوم النحر اور یوم عرفہ میں غسل فرماتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ عید کے دن خوب صورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے۔ حضور ﷺ کبھی سبز و سرخ دھاری دار چادر اوڑھتے تھے، یہ چادر یمن کی ہوتی تھی جسے بردیمانی کہا جاتا ہے۔ عید کے لیے زیب و زینت کرنا مستحب ہے لیکن لباس مشروع ہو۔(مدارج النبوۃ)
حضور ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ نماز عید عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے تھے۔ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور جب نماز سے فارغ ہوتے تو کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے۔
The post احکام عیدالاضحی appeared first on ایکسپریس اردو.