16 جون کو دنیا بھر میں ’’ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد گھریلو ملازمین کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حقوق و تحفظ کیلئے اقدامات کرنا ہے۔اس حوالے سے 2011ء میں عالمی ادارہ برائے لیبر نے ایک کنونشن منظور کیا جس کی توثیق کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں گھریلو ملازمین موجود ہیں جنہیں ماسوائے پنجاب کے وفاق یا کسی دوسرے صوبے میں قانونی تحفظ نہیں دیا گیا۔ پنجاب میں 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کیا گیا مگر تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔ ملک میں ڈومیسٹک لیبر کی کیا صورتحال ہے، ان کیلئے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، پنجاب میں قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے کیا کام ہو رہا ہے۔
عالمی کنونشنز اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی روشنی میں ڈومیسٹک لیبر کے حوالے سے کیا کام ہورہا ہے، اس طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’ڈومیسٹک ورکرز کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور ڈومیسٹک ورکرز کے نمائندوں نے سیر حاصل گفتگو کی اور گھریلو ملازمین کے مسائل اور حقوق و تحفظ کے حوالے سے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
فیصل ظہور
(ڈائریکٹر جنرل محکمہ لیبر پنجاب)
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب میں ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے سروے کیا جارہا ہے۔ ادارہ شماریات پنجاب یہ سروے کر رہا ہے جو فروری 2023ء تک مکمل ہوجائے گا۔ یہ ایک تفصیلی سروے ہے جس میں کام کی نوعیت، اوقات کار سمیت دیگر معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں، اس سروے کی روشنی میں ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے۔
پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے 2019ء میں پہلی مرتبہ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کیا۔ سیاسی حالات اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے اگلے مراحل میں تاخیر ہوئی اورصورتحال یہ ہے کہ تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔ اب موجودہ حکومت اس ایکٹ میں بہتری کیلئے ترمیم کرنے جارہی ہے، ہم نے بھی اپنی تجاویز دے دی ہیں، فائنل ہونے کے بعد یہ کابینہ ڈویژن میں جائے گا، وہاں سے منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ امید ہے آئندہ 3 ماہ میں ترمیم کا کام مکمل ہوجائے گا جس کے بعد ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت، کام کے اوقات کار سمیت بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے۔پیسی نے گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کے کام کا آغاز کیا جو بعد ازاں روک دیا گیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملازمین کو صحت کارڈ جاری ہوگئے لہٰذا جو سہولت پیسی نے دینی تھی وہ سرکار کی جانب سے انہیں مل گئی۔ ہیلتھ کارڈ منصوبہ مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے شروع کیا جسے تحریک انصاف نے آگے بڑھایا اور اب موجودہ حکومت بھی اسے جاری رکھے ہوئے ہے، لہٰذا ایسے میں پیسی کی جانب سے دوبارہ کارڈ کے اجراء کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، اس میں حکومت، سول سوسائٹی اور معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈومیسٹک ورکرز کے معاملات ان کے حوالے سے پاس کردہ قانون سے جڑے ہیں، قانون سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد ان کے ’پے سکیل‘ بن جائیں گے، کمیٹیوں و دیگر حوالے سے بھی اقدامات میں بہتری آئے گی۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ گھروں میں چائلڈ لیبر موجود ہے۔
اس کے خاتمے کیلئے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس ضمن میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو جیسے ادارے اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کی تعلیم، صحت و دیگر حوالے سے بھی کام کیا جا رہا ہے۔ سکولوں میں ملازمت پیشہ بچوں کیلئے آفٹر نون کلاسز کا آغاز کیا گیا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔ گھریلو ملازمین کے مسائل کے حل کیلئے مختلف ادارے اپنی اپنی حدود میں کام کر رہے ہیں، سول سوسائٹی بھی اچھا کام کر رہی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ڈومیسٹک ورکرز کے کیلئے کام کرنے والے افراد انتہائی کم ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے رولز آف بزنس بننے کے بعد سے ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے خصوصی ہیلپ لائن بھی بنائی جاسکتی ہے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی)
پاکستان میں ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن منانے پر زیادہ گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ دن زیادہ ہائی لائٹ ہوتا ہے۔ چند سماجی تنظیمیں کچھ سرگرمیاں کرتی ہیں تاہم سرکاری سطح یا بڑے پیمانے پر اس دن کی گونج سنائی نہیں دیتی۔ ڈومیسٹک ورکرز تقریباً ہر دوسرے گھر میں موجود ہیں،یہ ایک بہت بڑی ورک فورس ہے جو ملکی معیشت میں بڑا حصہ ڈال رہی ہے مگر اس کے حوالے سے زیادہ بات نہیں ہوتی۔
عالمی سطح کی بات کریں تودنیا میں گھریلو ملازمین کے حوالے سے کافی کاکام ہو رہا ہے۔میں نے 2010ء میں امریکا کا دورہ کیا تو وہاں گھریلو ملازمین نے ایک بہت بڑا اور زبردست مظاہرہ کیا اور دنیا کو اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ وہاں ڈومیسٹک ورکرز اقوام متحدہ میں تقاریر بھی کرتے ہیں، بڑے فورمز پر نمائندگی بھی کرتے ہیں اور اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں۔ 2011ء میں عالمی ادارہ برائے لیبر ’’آئی ایل او‘‘ نے کنونشن نمبر 189 میں ڈومیسٹک ورک کو بطور کام تسلیم کیا اور ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کی بات کی۔
مختلف ممالک نے اس کی توثیق کی اور اپنے اپنے ملک میں اس حوالے سے کام کا آغاز کیا۔ 11 برسوں میں دنیا بھر میں اس پر بہت کام ہوا۔ دنیا میں ڈومیسٹک ورکرز کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ان کی بہتری کیلئے اقدمات کیے گئے، قانون سازی کی گئی اور انہیں تنظیم سازی کا حق بھی دیا گیا۔ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ اگر ڈومیسٹک ورکرز کو حقوق و تحفظ نہ دیا گیا تویہ مزدوری نہیں بلکہ غلامی کی ایک جدید شکل ہے۔ فیکٹری ملازمین تو مخصوص اوقات کیلئے کام کرنے آتے ہیں اور پھر واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں جبکہ ڈومیسٹک ورکرز تو رہتے ہیںمالک کے رحم و کرم پہ ہیں، اسی لیے لیبر کی یہ قسم خطرناک ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ صوبہ پنجاب نے گھریلو ملازمین کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کیا جو خوش آئند ہے مگر تین برس گزرنے کے باجود اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے۔میرے نزدیک ماسوائے ایک شق کے، یہ قانون اچھا اور ترقی پسند ہے لہٰذا اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔
اس قانون میں گھریلو ملازمت کیلئے کم از کم عمر 15 برس مقرر کی گئی ہے، اسے 18 برس ہونا چاہیے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اس ایکٹ کے رولز آف بزنس بنا کر موثر طریقے سے عملدرآمد کیا جائے، اور اس میں عمر کی حد سمیت دیگر ضروری ترامیم بھی ساتھ ساتھ کر لی جائیں کیونکہ قانون کے نفاذ میں تاخیر سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ گھریلو ملازمین میں خواتین اور لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے، ان کے مسائل بھی سنگین ہیں لہٰذا ترجیحی بنیادوں پر ڈومیسٹک ورکرز کے مسائل حل کرنے پر کام کیا جائے۔اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ہدف نمبر 8 مہذب کام کے حوالے سے ہے ۔ 8.7 ڈومیسٹک لیبر ، چائلڈ لیبر و غلامی کی جدید اشکال کے بارے میں ہے۔
دنیا نے ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ ہمارے لیے گائیڈ لائن ہے، ہم ان کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ آئی ایل او کے مطابق 8 سے 10 لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں، میرے نزدیک تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ہمیں تو ہر گھر میں ورکرز نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے اعداد و شمار اکٹھے کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب تک ہمیں ان کی تعداد کا معلوم نہیں ہوگا تو صحیح معنوں میں کس طرح اقدامات کرسکیں گے۔ سول سوسائٹی اپنی کپیسٹی کے مطابق ڈومیسٹک ورکرز کیلئے کام کر رہی ہے۔
ہم سرکاری محکموں کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ پیسی نے سوشل سکیورٹی کارڈ دینے کیلئے گھریلو ملازمین کی رجسٹریشن کا آغاز کیا۔ ہم نے ان کے ساتھ مل کر ملازمین کی رجسٹریشن کروائی مگر افسوس ہے کہ صرف فہرستیں تیار کی گئی جبکہ برسوں گزرنے کے باوجود انہیں سوشل سکیورٹی کارڈز جاری نہ ہوسکے۔اس عمل کو روکنے کے بجائے، اسے آگے بڑھایا جائے اور گھریلو ملازمین کو سوشل پروٹیکشن دی جائے۔ اسی طرح چائلڈ لیبر کے حوالے سے بات ہوتی ہے مگر اس کے خاتمے کیلئے جس پیمانے پر کام ہونا چاہیے وہ نہیں ہورہا، اس کا قانون بھی موجود ہے تاہم آگاہی اور عملدرآمد کے مسائل ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ گھریلو ملازمین کی کم از کم اجرت 25 ہزار کے لیے میکنزم بنا کر یقینی بنایا جائے۔
ان کی تنخواہ کو گھنٹوں کے حساب سے مقرر کیا جائے اور انہیں جائز معاوضہ دلایا جائے۔ گھریلو ملازمین کے تنازعات کے حل کیلئے کمیٹیاں بننی تھی مگر مقامی حکومتوں کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے تاحال ان پر کام نہیں ہوسکا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر گھریلو ملازمین ملازمت نہیں کر رہے بلکہ غلامی کی جدید شکل کے تحت غلامی کر رہے ہیں۔ ہمارا ادارہ حکومت اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر مختلف جہتوں میں کام کر رہا ہے۔ ہم قانون سازی کیلئے بھی لابنگ کرتے اور اپنی سفارشات دیتے ہیں۔ آگاہی کیلئے بھی کام کرتے ہیں۔ ہم نہ صرف گھریلو ملازمین بلکہ معاشرے کے دیگر افراد کو بھی ایجوکیٹ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں قانون سازی اچھی ہوئی ہے لیکن اگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوگا تو یہ محض ایک کاغذ کا ٹکرا ہے جس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
شازیہ سعید
(جنرل سیکرٹری ڈومیسٹک ورکرز یونین )
ہم خوش ہیں کہ ہمارے کام کو تسلیم کر کے دنیا بھر میں ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن ہماری محنت کو سراہا کر ہمیں عزت دی جاتی ہے جس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ہمارے مسائل سنگین ہیں اور ہمارے دکھ بھی زیادہ ہیں۔ لوگ ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لوگ ہمیںا ور ہمارے بچوں کو طعنے دیتے ہیں، ہمیں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور نارروا سلوک برتا جاتا ہے۔ ہمارے برتن الگ کر دیے جاتے ہیں، ماسی اور صفائی والی کہہ کر پکارا جاتا ہے، ہم مزدور ہیں لہٰذا ہمارے ساتھ اس طرح سے برتائو کیا جائے۔ ہمیں ایک کام بتا کر زیادہ کام لیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کپڑے دھونے کا کام کہہ کر، ساری ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جس میں کپڑے دھونا، انہیں خشک کرنا، پھر تہہ کر کے الماری میں رکھنا اور بسااوقات تو کپڑے پریس بھی کروائے جاتے ہیں۔ مزدور کی کم از کم اجرت 25 ہزار روپے ماہانہ ہے مگر بدقسمتی سے ہمیں ہمارے کام کا جائز معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ ہمیں ہراسمنٹ سمیت مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ہماری کہیں شنوائی نہیں ہے۔اگر گھر والوں کو ہراسمنٹ کی شکایت کی جائے تو وہ ہمیں ہی برا بھلا کہہ کر ملازمت سے نکال دیتے ہیں۔ ہماری کوئی پہچان نہیں ہے، ہمارے پاس ملازمت کارڈ یا کوئی اور شناخت نہیں ہے۔ ہمیں قومی دھارے میں لایا جائے ، عزت اور حقوق و تحفظ دیا جائے۔
ہمارے بچوں کو تعلیم، صحت و دیگر بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ جو تنخواہ ہمیں ملتی ہے اس میں اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو گھریلو ملازم نہیں بنانا چاہتے بلکہ انہیں پڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا استحصال نہ ہو اور وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کر سکیں ۔یہ المیہ ہے کہ گھروں میں چائلڈ لیبر موجود ہے۔
والدین بچوں کا معاوضہ لے کر اسے مالکان کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بچہ وہاں چار دیواری میں قید، ظلم و سمت کا شکار ہوتا ہے۔ ہراسمنٹ، زیادتی اور قتل جیسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس میں والدین پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کریں اور انہیں ملازمت میں نہ جھونکیں۔ حکومت پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے قوانین پر عملدآمد کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آگاہی دے۔
حکومت کو چاہیے کہ ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی کو آگے بڑھائے، ہمارے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے عملدرآمد کا میکنزم بناکر ریلیف دے۔ ڈومیسٹک ورکرز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، شارٹ کورسز کروائے جائیں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں، اس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔
The post قانون سازی کے ذریعے گھریلو ملازمین کے استحصال کا خاتمہ کرنا ہوگا! appeared first on ایکسپریس اردو.