Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

19 جون 1992ء کا حساب کون دے گا۔۔۔؟

$
0
0

کراچی کی تاریخ میں اکثر لوگ 19 جون 1992ء کو صرف سیاسی جماعت کے خلاف ہونے والے ایک فوجی آپریشن کے حوالے سے ہی جانتے ہیں، جب کہ وہ سیاسی جماعت یعنی ’ایم کیو ایم‘ ہر سال اس کا ایک ’سوگ‘ منا کر چُپکی ہو لیتی ہے، لیکن آج 30 سال بعد بھی کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ آخر 19 جون 1992ء کے خوں ریز واقعات کا حساب کون دے گا۔۔۔؟ کہ جس کے ایک ماہ بعد 19 جولائی 1992ء کو ’ایم کیو ایم‘ کے مرکز ’نائن زیرو‘ سے مبینہ طور پر ایک علاحدہ ریاست ’جناح پور‘ کے نقشے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا اور پھر 2009ء میں ’آئی بی‘ کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر امتیاز نے اُن نقشوں کو جھوٹا قرار دیا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ آپریشن سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف تھا، جس کا رخ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنی ہی اتحادی جماعت ’ایم کیو ایم‘ کی جانب موڑ دیا تھا، جب کہ نواز شریف ہمیشہ یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ وہ ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف اس آپریشن سے بالکل بے خبر تھے، لیکن یہ سچ ہے کہ نواز شریف نے 1999ء کے کارگل آپریشن سے بھی بے خبری کا دعویٰ کیا، اور کئی بار وہ اپنا یہ موقف دہراتے رہے ہیں، لیکن ’کراچی آپریشن‘ کے حوالے سے انھوں نے کبھی معذرت کی اور نہ ہی کبھی زیادہ بات کی۔

آج اتنے چینل اور صحافتی آزادی ہونے کے باوجود کبھی ان سے کسی نامہ نگار یا ٹی وی میزبان نے اس حوالے سے کھل کر سوالات ہی نہیں کیے، کہ جس سے صورت حال واضح ہو پاتی کہ آیا 19 جون 1992ء کے اس آپریشن کا اصل ماجرا تھا کیا۔۔۔؟ کس کے کہنے پر ’ایم کیو ایم‘ سے خارج کیے جانے والے ارکان کو سرکاری سرپرستی میں واپس لایا گیا، جنھوں نے پھر ’حقیقی‘ ایم کیو ایم ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کے ساتھ ان کے مخالف ’الطاف گروپ‘ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور شہر کے مختلف علاقوں میں ’ایم کیو ایم‘ کے دونوں گروپ کے درمیان خوں ریز تصادم ہونا شروع ہوئے، جس میں بلا مبالغہ ہزاروں نوجوان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔۔۔

ایک طرف ایسا ریاستی جبر تھا کہ جس کے ردعمل نے کراچی میں ’عسکری سیاست‘ کی وہ پنیری لگا دی کہ شہری برسوں اس کا خمیازہ بھگتتے رہے۔۔۔ محاصروں اور گھروں پر سرکاری فورسز کے چھاپوں کے دوران جن گھرانوں سے کارکنان نہ ملتے، ان کے گھر کی خواتین، بھائی، بہن اور دیگر بزرگ تک عتاب کا نشانہ بنتے۔ پورے پورے محلے سے عام لڑکوں کو باہر دیوار کی طرف منہ کر کے بٹھا دیا جاتا، باعزت شہریوں سے بدتمیزی کی جاتی۔ یہی وہ مناظر تھے، جس پر کراچی کے اچھے بھلے نوجوانوں، جو سیاست میں بھی نہیں تھے، مگر اب ’انتقام‘ کی آگ میں جلنے لگے۔

دوسری طرف پڑھے لکھے اور صاف ستھرے سیاسی کارکنوں کے گھروں پر جب پولیس آئی، تو ان کے خاندانوں نے انھیں سیاسی سرگرمیوں سے دور کرلیا، نتیجتاً اچھے گھرانوں کے سیاسی کارکنان صرف ووٹ دینے تک محدود ہوگئے، جب کہ ان کا خلا منہ زور اور کم پڑھے لکھے کارکنان نے پُر کیا۔ جب کہ ’حقیقی‘ گروپ سے بھی باقاعدہ ’جنگ‘ کے ماحول کا سامنا تھا۔ دونوں گروپ شہر میں اپنی طاقت دکھانے کے درپے تھے، ایک کا علاقہ دوسرے کے لیے ’نوگو ایریا‘ قرار پاتا۔۔۔ کہیں محلے بٹے، تو کہیں گلیاں تقسیم ہوگئیں۔۔۔ شہری اپنے محلے میں اپنے ہی ہم زبانوں کے درمیان خوف سے سسک سسک کر زندگی بسر کرنے لگے۔۔۔ بعض ’’حساس‘‘ علاقوں میں انھیں بار بار مخالف دھڑے کے لیے ’مخبری‘ کرنے کے شبے میں سخت پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑتا۔۔۔ حتیٰ کہ لوگوں کو جان کی امان پانے کے لیے دونوں گروپوں سے ’’دوستی‘‘ کر کے رکھنی پڑتی تھی۔

دنیا نے شہرِ قائد میں یہ تماشا بھی دیکھا کہ محض چھے برس قبل جس ’مہاجر‘ سیاست اور ’مہاجر حقوق‘ کے نام پر ایک سیاسی انقلاب برپا ہوا تھا، انھی میں سے ایک گروہ ’مہاجر‘ نام پر بہ نام ’حقیقی‘ بنوایا گیا، جب کہ دوسرا گروہ (الطاف گروپ) اب اپنے ہی ’جیے مہاجر‘ کے نعرے کو غداری اور دشمنی کے خانے میں شمار کرنے لگا۔۔۔ اس بدترین سیاسی تقسیم کا یہ عالم تھا کہ ملیر، لانڈھی، کورنگی، شاہ فیصل اور لائنز ایریا کے سیکڑوں خاندان منقسم ہو کر گئے۔۔۔ ایک ہی قوم کے لوگ اب ایک دوسرے کی گردنیں اتارتے تھے، اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ کئی گھروں میں یہ حال ہوا کہ ایک بھائی ’ایم کیو ایم‘ تو دوسرا بھائی ’حقیقی‘ کا ہوگیا۔۔۔ اور پھر دونوں ایک دوسرے کے دشمن۔ کتنے ہی خاندان ایسے تھے، جو شہر میں برسوں روپوش رہے، اپنے دوسرے رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے کہ اگر وہ اپنے علاقے میں گئے، تو مخالف گروپ کی جانب سے مار دیے جائیں گے۔

’ایم کیو ایم‘ اور ’حقیقی‘ کی یہ تقسیم بہ ظاہر اس وقت کی ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کو ’متحدہ قومی موومنٹ‘ بنانے کے عمل کے حوالے سے ایک نظریاتی اختلاف تھا۔ تبھی ’حقیقی‘ کے پرچم تلے شدومد سے یہ احتجاج کیا گیا کہ ’ایم کیو ایم‘ کے پرچم سے لفظ ’مہاجر‘ کیوں ہٹایا گیا۔ تاہم بعض لوگ اِسے تنظیم پر گرفت حاصل کرنے کی دھینگا مشتی بھی بتاتے ہیں۔ یہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا، جب مینارِ پاکستان اور پنجاب میں اس وقت کی ’حزب اختلاف‘ کے جلسوں میں ’بانی متحدہ‘ کی جانب سے ممکنہ ’متحدہ سیاست‘ کے حوالے سے تقاریر کی جانے لگی تھیں کہ پورے ملک کو متوسط طبقے سے اپنی نمائندگی اسمبلیوں میں بھیجنی چاہیے۔

جس کے بعد اختلافات پیدا ہوئے اور 1991ء میں آفاق احمد اور عامر خان کو تنظیم سے باقاعدہ خارج کر دیا گیا، جو اس وقت کراچی میں تنظیم کے تین زونز میں سے دو کے انچارج تھے، یہ ’ایم کیو ایم‘ کا ایک بہت زبردست تنظیمی بحران تھا، کیوں کہ سارے کارکنان براہ راست ’زونل انچارج‘ ہی کی ماتحتی میں تھے۔ اس بحران میں تنظیم کے بانی رکن جوائنٹ سیکریٹری بدر اقبال کو بھی فارغ کیا گیا تھا، اسی دوران الطاف حسین لندن چلے گئے اور ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کو ’متحدہ قومی موومنٹ‘ میں بدلنے کا عمل موخر کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں کراچی کے مشہور ومعروف سیاسی جریدے ہفت روزہ ’تکبیر‘ نے اپنے سرورق پر ’ایم کیو ایم‘ پر ’’منتشر قومی موومنٹ‘‘ کی بھپتی بھی کسی تھی!

پھر 19 جون 1992ء کو آفاق احمد اور عامر خان کی صورت میں ایک نئی ’ایم کیو ایم‘ (جو اُس زمانے میں ’حقیقی‘ کے نام سے معروف ہوئی) سامنے لائی گئی، جس میں بدر اقبال کے ساتھ ساتھ ’ایم کیو ایم‘ کے بانی رکن سیکریٹری اطلاعات اور موجودہ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کو بھی جبراً ’حقیقی‘ میں لیا گیا۔ ’حقیقی‘ نے کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ بھر میں ’ایم کیو ایم‘ کے دفاتر پر قبضہ کر کے الطاف حسین کی تصاویر اتار کر اپنے پرچم لہرا دیے۔ کئی علاقوں میں اس قبضے کے دوران زبردست مسلح تصادم بھی ہوئے اور لانڈھی، کورنگی، ملیر اور شاہ فیصل کالونی کے علاقے تو باقاعدہ کئی برس تک اس باہمی کشت وخون کا میدان بنے رہے۔

مہاجروں کے حقوق کی ’تحریک‘ کس قدر افسوس ناک طریقے سے آپس میں نبرد آزما کر دی گئی کہ آج تک کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ اس سارے عمل میں ریاست کہاں تھی۔۔۔؟ کیوں سرکاری سطح پر یہ تصادم اور جنگ وجدل روکنے کے بہ جائے ایک گروہ کی باقاعدہ سرپرستی کی گئی۔۔۔؟ 1992ء میں پیدا کی جانے والی اس تقسیم کے بعد کراچی میں ہزاروں نوجوانوں کے قتل کے خون آخر کس کی گردن پر ہے۔۔۔؟

دوسری طرف ’ایم کیو ایم‘ اور ’حقیقی‘ بھی برابر ان سارے واقعات کی ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ آخر ریاست سے اپنے حقوق لینے کے نعرے لگاتے لگاتے ’حقیقی‘ اور ’مجازی‘ کے دھوکے میں آخر کیوں اپنے نوجوانوں اور کارکنوں کو مارتے اور مرواتے رہے اور اپنے شہر ہی کو جلاتے رہے۔۔۔؟ وہ کون سے حقوق تھے، جو اس باہمی لڑائی میں دونوں دھڑوں نے حاصل کیے۔۔۔؟ ’حقیقی‘ کی جانب سے اگرچہ سرکاری سرپرستی میں مخالفین کو نقصان پہنچایا جا رہا تھا، ان پر جبر وتشدد کیا جا رہا تھا، تو دوسری جانب سے بھی برابر کا جواب مل رہا تھا اور بعد کے سالوں میں جب بھی موقع ملا، انھیں بھرپور ردعمل دیا گیا۔

یہاں تک کہ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد ’متحدہ قومی موومنٹ‘ حکومت میں شامل ہوئی، تو اس کی جانب سے ’’حقیقی‘‘ (جو 1997ء میں ’الطاف گروپ‘ کے ’متحدہ‘ بن جانے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کہلاتی تھی) کے زیراثر علاقے ’لانڈھی، کورنگی اور لائنز ایریا وغیرہ میں سرکاری کارروائی کی گئی، اور یہاں 10 برس بعد ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے دفاتر کھل سکے۔ پھر ’حقیقی‘ کے دونوں مرکزی راہ نما آفاق احمد اور عامر خان گرفتار ہوئے اور انھوں نے کئی برس جیل کے سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اس دوران لانڈھی میں ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کا مرکز ’بیت الحمزہ‘ بھی مسمار کر دیا گیا اور تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 22 اگست 2016ء کے واقعات کے بعد شروع ہونے والے آپریشن میں خود ’متحدہ قومی موومنٹ‘ کے سیکڑوں دفاتر ’غیر قانونی‘ قرار دے کر توڑ دیے گئے اور مرکز ’نائن زیرو‘ گذشتہ چھے برسوں سے سیل ہے۔

آج بھی 19 جون ہے۔ یعنی تاریخ کے اس وقوعے کو پورے تین عشرے ہو چکے ہیں، جس میں کراچی کے ہزاروں نوجوان سیاسی تصادم، جعلی پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل میں موت کی نیند سلا دیے گئے۔ کوئی ذمہ دار نکلا اور نہ ہی کسی نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ کراچی کی تاریخ کے خوف ناک اور طویل ترین سیاسی تصادم کے ذمہ داران کو سامنے لایا جائے۔ اس وقت کی ’حقیقی‘ اور آج کی ’مہاجر قومی موومنٹ‘ کے سربراہ آفاق احمد آج ایک بار پھر ’مہاجر سیاست‘ اور ’مہاجر حقوق‘ کے نام پر مہاجر نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بہت سے نوجوان ان کی ’مہاجر شناخت‘ کے حوالے سے گرویدہ بھی ہوئے جاتے ہیں۔ وہ جس طرح شدومد سے مہاجروں کے مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں، اس ملک میں مہاجر قوم سمیت تمام کے درمیان مساوات اور برابر کے حقوق کا نعرہ بلند کرتے ہیں، تو نئی نسل کے بہت سے حلقے ٹھیر ٹھیر جاتے ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ وہ بھی 1992ء کے اپنے اس کردار سے ’داغ دار‘ ہیں کہ آج جس مہاجر اتحاد اور مہاجر یگانگت کا عَلم وہ بلند کر رہے ہیں، 30 برس پہلے آپس میں لڑ کر اور قتل وغارت میں ساجھے دار بن کر وہ خود اس کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کا سبب رہ چکے ہیں۔

The post 19 جون 1992ء کا حساب کون دے گا۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>