نتھو دور افق پر سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا تھا ، نورے کمہار نے جب اپنے ننھے بیٹے کو یوں سورج کو تکتے دیکھا تو پیا ر سے اپنی گود میں اٹھا لیا اور پوچھنے لگا ’’کیا دیکھ رہے ہو بیٹا !۔
نتھو نے مسکراتے ہوئے معصومیت سے کہا’’ ابا بس ایسے ہی سورج کو ڈوبتے دیکھ رہا ہوں‘‘۔ نورے کمہار کو اپنے بیٹے کی معصومیت پر پیار آیا اور کہنے لگا ’’بیٹا سورج کے ڈوبنے کو مت دیکھو ، اس کا طلوع ہونا ہر روز ایک نئی امید دلاتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ حالات چاہے نہ بدلیں مگر سورج کا چمکنا امید کی علامت ہے ‘‘۔ اس بات کو گزرے چالیس سال ہو گئے تھے مگر نتھو کو یوں لگتا تھا جیسے یہ کل کی بات ہو، آج بھی سورج ویسے ہی تابانی سے چمک رہا تھا مگر حالات نہیں بدلے تھے، اس نے ساتھ کھڑے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سورج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’ بیٹا ، حالات ضرور بدلیں گے ، ہر روز چڑھتا سورج اسی کی نوید دیتا ہے‘‘۔
پاکستانی قوم کا عالم بھی نورے اور نتھو جیسا ہے، جس طرح پہلے نورا اپنے بیٹے نتھو کوچڑھتے سورج کو تبدیلی کا استعارہ قرار دے کر حالات کی تبدیلی کی امید دلاتا رہا اور پھر نتھو اپنے بیٹے کو ، ویسے ہی پاکستانی قوم بھی اس امید پر زندہ ہے کہ حالات ضرور بدلیں گے۔ وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے 65سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، تیسری نسل جوان ہو چکی ہے مگر پاکستان کے معاشی حالات ہیں کہ ٹھیک ہونے کو نہیں آرہے، بلکہ کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پاکستان بنا کر ہم نے کیا حاصل کیا ، یہ مایوسی کی انتہائی کیفیت ہے۔
جس میں فرد اپنے وجود سے بھی انکاری ہوتا ہے،ایسے افراد کا تعلق اس طبقے سے ہے جو ہر کام کا نتیجہ اپنی مرضی کے مطابق چاہتے ہیں حالانکہ زندگی مختلف نشیب و فراز سے عبارت ہے اور ہر کام طے شدہ منصوبے کے تحت انجام نہیں پاتا اور پھر قوموں کی نمو کو فرد کی زندگی سے تطبیق نہیں دی جا سکتی، قوم کو اپنے وجود کو منوانے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے، اس دوران وہ کئی مرتبہ پستیوں میں گرتی اور بلندیوں کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور جغرافیائی طور پر دنیا کے اہم خطے میں واقع ہے مگر اس کے باوجود معاشی بہتری اس کا مقدر نہیں بن سکی ، حالانکہ اس کے بعد آزاد ہونے والا پڑوسی ملک چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے جبکہ پاکستان معاشی ترقی کی شاہراہ پر چیونٹی کی طرح رینگ رہا ہے ۔ ہر دور میں اقتدار میں آنے والوں نے معاشی ترقی کے خواب ضرور دکھائے مگر پھر ذاتی مفادات کا شکار ہو گئے اور ملکی مفادات ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے گئے۔
موجودہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی پارٹی مسلم لیگ ن نے الیکشن مہم کے دوران معاشی ترقی کا نعرہ لگایا تھا، اب چونکہ ان کی حکومت بن رہی ہے اور انھیں اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل رہا ہے اس لئے ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آ گئی ہے، مگر ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ معیشت کی بحالی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہو گا کیونکہ گزشتہ دور میں معاشی حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوئے ہیں ۔
جس کی بڑی وجہ پاکستانی معیشت کو درپیش مسائل کا حل نہ ڈھونڈھ سکنا ہے۔ پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا ہے ان میں غیر ملکی سودی قرضوں کا بوجھ ، وسائل کا صحیح طریقے سے استعمال نہ کرنا، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، کمزور مانیٹری پالیسی ، کرپشن، غربت، برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن، دہشت گردی،توانائی کا بحران ، کمزور ٹیکس سسٹم، افراط زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی شامل ہیں۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ توانائی کا بحران ہے جس نے گزشتہ سات سالوں سے پورے ملک کو اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے ۔ پرویز مشرف کے اقتدار کے آخری دور میں اس مسئلے نے سر اٹھانا شروع کیا اور اقتدار کے خاتمے تک بہت شدت اختیار کر گیا ، جس کی اصل وجہ مشرف حکومت کی نااہلی تھی کیونکہ اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں بجلی کی پیداوار میں ایک یونٹ بھی اضافہ نہیں کیا گیا تھا جبکہ ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ، اسی طرح بغیر منصوبہ بندی کے سی این جی پمپ اور نئے کنکشن دینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ نہ دی گئی یوں بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی کمیابی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گئی ۔ یہ دونوں مسئلے پیپلز پارٹی کی حکومت کو وراثت میں ملے ۔
پیپلز پارٹی نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کے بارے میں شور تو بہت مچایا مگر عملاً کچھ نہ کیا جا سکا اور حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر توانائی کا بحران سنگین تر ہو چکا تھا، کیونکہ پیداوار میں اتنا اضافہ نہیں ہو ا تھا جتنی تیزی سے طلب بڑھی تھی۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ، لوکل اور چھوٹی انڈسٹری کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے ، ہزاروں یونٹ بند ہو چکے ہیں ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موسم گرما میں بجلی کا استعمال بڑھ جانے کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال سات ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے جو کسی ایک بڑے ڈیم کے ذریعے بھی پورا نہیں کیا جا سکتااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طلب بڑھنے سے شارٹ فال میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے عوام میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے اس لئے نئی حکومت کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے ، اس سے معاشی ترقی کا پہیہ صحیح رفتار سے رواں دواں رکھنے میں مدد ملے گی۔
معیشت پر ایک بہت بڑا بوچھ غیر ملکی قرضے ہیں جو ہر دور میں بھاری سود اور کڑی شرائط پر حاصل کئے جاتے رہے ہیں اور ہر مرتبہ جواز یہی بتایا گیا کہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے قرضہ حاصل کرنا ناگزیر تھا۔ پاکستان کا مجموعی قرضہ 1600کھرب روپے ہے جس میں سے 750 کھرب روپے غیر ملکی قرضہ ہے، اس وقت ہر پاکستانی 88ہزار روپے کا مقروض ہے ۔ 2008 ء میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو اس وقت غیر ملکی قرضے 38.8بلین ڈالر تھے، خزانہ خالی ہونے کا رونا رویا گیا اور نئے قرضے حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کی گئی تو پتہ چلا کہ آئی ایم ایف کے سوا کوئی قرضہ دینے کو تیا رنہیں، یوں کڑی شرائط پر قرضے حاصل کئے گئے۔
2008ء میںغیر ملکی قرضہ 38.8ارب ڈالر تھا جو 2009ء میں بڑھ کر 44.15 ارب ڈالرہو گیا، 2010ء میں قرضہ 53.62 اربڈالر اور2011ء میں 57.21ارب ڈالر ہو گیا اور صرف پانچ سالوں میں یہ قرضے بڑھ کردوگنا یعنی 61.83ارب ڈالر ہو چکے ہیں اور سلسلہ یہاں رکنے میں نہیں آ رہا ، ہر سال ایک ارب ڈالر سے زائد سودقسطوں کے ساتھ ان قرضوں کی مد میں ادا کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود قرضے ہیں کہ ہر سال بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ ملکی معیشت کا زوال،بروقت اور پوری ادائیگی نہ کرنا ہے۔
اگر یہی صورتحال رہی تو2015ء تک یہ قرضے بڑھ کر 75بلین ڈالر ہو جائیں گے ، یوں ملکی بجٹ میں سے ایک بہت بڑی رقم ان قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں جاتی رہے گی جس سے ملکی معیشت کی ترقی کی رفتار بری طرح متاثر ہو گی۔ اس لئے حکومت کا ان سودی قرضوں کے چکر سے نکل کر خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ملکی معیشت کو بحال کرنا ہو گا ، جو ہے تو ایک بہت بڑا چیلنج مگر مستقبل میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ٹیکس سسٹم پوری طرح فعال نہیں یا پھر یوں کہہ لیں کہ ٹیکس سسٹم بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے بجٹ میں طے کیا گیا وصولیوں کا ہد ف کبھی بھی پورا نہیں کیا جا سکا، یوں ہر سال اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، ٹیکس بجٹ کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جس میں سے تمام صوبوں کو حصہ دیا جاتا ہے ، جب طے شدہ حصہ نہیں ملتا تو اس کا اثر تمام شعبوں پر پڑتا ہے، یوں مسائل پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور قرضوں کے حصول کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے تاکہ بجٹ خسارہ کسی طریقے سے پورا کیا جا سکے۔
گزشتہ سال ٹیکس وصولیوں کا ٹارگٹ2.381کھرب روپے رکھا گیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کی جانے لگی کیونکہ کمزور ٹیکس سسٹم کی وجہ سے ہد ف پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا ، پہلی مرتبہ ہدف کم کر کے 2.183کھرب روپے رکھا گیاجب یہ بھی پورا ہوتا دکھائی نہ دیا تو ہدف میں مزید کمی کی گئی، نیا ہدف 2.193 کھرب روپے رکھا گیا ، مالی سال کے پہلے 9مہینوں کے لئے ٹیکس کا ہدف1.700کھرب روپے تھا مگرتمام تر کوشش کے باوجود 1.344کھرب روپے اکٹھے کئے جا سکے تھے یعنی 31مارچ تک ٹیکس کے ہد ف میں کئی ارب روپے کی کمی ہو چکی تھی۔
اس لئے موجودہ حکومت کے لئے ٹیکس وصولی کے نظام کی بہتری بہت ضروری ہے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے ، اس کے ساتھ ایسے اقدامات بھی کئے جائیں جس سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے اور ٹیکس چوروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ اسی طرح کرپشن بھی ہمارے ملک کا ناسور بن چکی ہے ، کرپٹ ممالک کی فہرست میں پاکستان نمبر 42واں ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 12600ارب روپے کی کرپشن کی گئی ، نئی حکومت کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ اداروں کو کرپشن سے پاک کرے۔
گزشتہ دور میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہت کمی ہوئی ہے اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہونے کے علاوہ ٹیکس کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ دہشت گردی ، امن و امان کی خراب صورتحال اور توانائی کے بحران کو قرار دیا جاتا ہے، امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ، اب تک 49ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ یعنی 25ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ، وجوہات جو بھی ہوں حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تحفظ کا یقین دلاتے ہوئے واپس لانا ہو گا ، اس ضمن میں بھی اس پہلو کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ بیرون ملک سے آنے والا سرمایہ پاکستان میں گردش کرے تاکہ پاکستانی معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں ہو سکے۔
انفلیشن یعنی افراط زر ملکی معیشت کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ، سکے کی قدر میں کمی اوراشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراد کی قوت خرید میں کمی ہو تی ہے اور اگر کوئی ملک ایسی صورتحال سے مسلسل دوچار رہے تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہوتے ہیں، گزشتہ چند سالوں میں افراط زر میں بہت اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی ڈالر جس کی قیمت صرف چھ سال قبل تقریباً 64 روپے تھی اب سو روپے تک پہنچ گیا ہے۔
افراط زر میں سب سے زیادہ اضافہ 11.8فیصد2011 ء میں ہوا جبکہ اپریل 2013ء میں اس کی شرح 5.8فیصد رہی، اس کا یہ مطلب نہیں افراط زر میں کمی ہوئی بلکہ یوں کہا جائے گا کہ اس سال کم اضافہ ہوا۔ گویا ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بہت سی مشکلات حائل ہیں ، نئی حکومت کو ان تمام تر چیلنجز سے نمٹنا ہو گا تاکہ عوام نے انھیں جو بھاری مینڈیٹ دیا ہے وہ اس پر پورا اتر سکے۔