تھین سین 2011 میں برما (میانمار) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سادگی پسند اور اصلاح پسند ہیں۔ اس سے پہلے وہ ملک کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی اصلاح پسندی کے تحت وہ کئی سیاسی اصلاحات نافذ کر چکے ہیں جس میں ذرائع ابلاغ پر برسابرس سے عائد پابندیاں ہٹانا، برما کی جیلوں میں بند بے شمار سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا وغیرہ شامل ہے اور مغربی دنیا انہیں اس کی بھی داد دیتی ہے کہ انہوں نے چین کا بہت بڑا ہائیڈروپاور پراجیکٹ بھی روک دیا ہے۔
ان خدمات کے اعتراف میں میانمار کو 2014 کے لیے آسیان کی مسند نشینی عطا کی جا رہی ہے ورنہ اس سے قبل اس ریاست کو اچھوت یا ’’حقہ پانی بند‘‘ ریاست کے طور پر لیا جاتا رہا ہے، جس کا باعث یہاں کئی دہائیوں تک بلاتعطل قائم رہنے والا فوجی راج تھا جس نے ملک میں سیاسی بلیک آؤٹ مسلط کیے رکھا، قوم کے وسائل پر قبضہ جمایا اور حقوق انسانی کو بری طرح پامال کیا، خاص طور پر ملک کی مذہبی اقلیتوں کو یک سر نظرانداز رکھا اور ان پر مذہبی اور نسلی اکثریت کے ڈھائے گئے مظالم پر ہمیشہ آنکھیں بند رکھیں۔
صدر تھین سین کے آنے سے ملکی صورتِ حال فی الحال بہتر نہیں ہوئی تاہم مغربی صاحبانِ دانش کے مطابق آثار دکھائی دینے لگ گئے ہیں کہ اگر ملک جمہوری پٹڑی پر چل پڑا اور دوبارہ کوئی ناگہانی نہ آن پڑی تو حالات بہ ہرحال بہتر ہو جائیں گے تاہم اکثریت کا مذہبی تعصب و تفاخر ختم ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ صدر تھین سین بہ ظاہر مدبر شکل اور خاصے متین خدوخال کے مالک ہیں، وہ امریکا کی قربت کے بڑے حامی اور شائق دکھائی دیتے ہیں۔
دراصل یہ ریاست گزشتہ صدی کے نصف آخر سے ایک ’’در، دریچے بند ریاست‘‘ رہی ہے، خاص طور پر امریکا اور یورپ پر اس کے دروازے ایک طرح سے بند ہی رہے ہیں جب کہ یہاں کی فوجی جنتا کو چین کا ساتھ زیادہ راس آتا رہا ہے، چین کے ساتھ تعلق کو مغرب کبھی مثبت نہیں سمجھتا اور خاص طور پر ماؤزے تنگ والا چین تو انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، اب جب چین کیپیٹلسٹ ہو چکا ہے تو بھی کسی ملک کا چین سے تعلق قریبی ہو تو اسے شک و شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے (پاکستان کی مثال سامنے ہے)۔
بہ ہرحال تھین سین نے چین کے توانائی کے ایک منصوبے کومعطل اور چند دیگرایسے اقدامات کر دیے کہ جس سے امریکا کسی حد تک پسیجا اور پٹا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے میانمار کا دورہ کیا، اس طرح وہ میانمار کا دورہ کرنے والے پہلے صدر بنے اور اسی طرح تھین سین نے بھی امریکا کا دورہ کرکے یہ ہی اعزاز حاصل کیا۔
تھین سین گزشتہ سوم وار کو امریکا پہنچے جہاں وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر اوباما نے 47 سال سے عالمی تنہائی کی شکار قوم کے سربراہ کا استقبال کیا۔ یہ امریکی سرکار کی شفقت کا ایک اظہار تھا لیکن متعدد امریکی حلقوں نے اوباما کے لتے لیے ہیں اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں، وہی نسلی اور مذہبی تشدد ہے جو برما میں اب تک جاری ہے جس میں ہزارہا روہنگی نسل کے مسلمانوں کو مارا جا چکا ہے، ان کی بستیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا کر انہیں بے گھر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ صدر تھین سین خود بھی ریٹائرڈ جنرل ہیں، فوج میں ان کی موجودی کے دوران بھی برما کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ یہ ہی سلوک روا تھا اور آج جب وہ ایک سویلین صدر کے طور پر مسند نشین ہوئے ہیں تو بھی وہ سلسلہ جاری ہے اور ان پر اس شک و شبہے کا اظہار کیا جا رہا ے کہ وہ آج بھی اس ناروا سلوک کو برداشت کر رہے ہیں اور اس طرف سے اپنی آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں جب کہ برمی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک دشتِ بے اماں میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ برما سے بھاگ کر کسی اور ملک میں جا بھی نہیں سکتے۔
قریب ترین ملک بنگلہ دیش ہے اور یہ لوگ جب بنگلہ سرحدوں پر پہنچتے ہیں تو بنگلہ فوج اور سکیورٹی فورسز سنگینیں تھامے انہیں دوبارہ برما میں دھکیل دیتے ہیں۔ پیچھے بھیڑئیے اور آگے کھائی، جائیں تو جائیں کہاں، لاچار لوٹ آتے ہیں اور جنگلوں اور ویرانوں میں موسم کے جبر میں زندگی اور موت کے درمیانی رقبے میں پڑے آسمان سے کسی دستِ غیب کے منتظر ہیں۔ بنگلہ دیش کے اپنے مسائل ہیں، سب سے بڑا یہ کہ اس پر یہ الزام آتا ہے کہ وہاں مجاہدین کے گروہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برما کے جغرافیے کو سکیڑنا چاہتے ہیں۔
تھین سین کی امریکا یاترا سے چھے ماہ قبل امریکی صدر اوباما نے برما کا دورہ کیا تھا بہ ظاہر ان کا مقصد یہ لگتا ہے کہ وہ میانمار اور اقوام عالم کے درمیان جمی برف پگھلانے میں برما کی مدد کرنا چاہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ بھی ہے کہ چین میانمار پر بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اوباما اس کسے ہوئے اثر و رسوخ کو کچھ ڈھیلا کرنا چاہتے ہیں۔ تھین سین کے حالیہ دورۂ امریکا کے حوالے سے قصر سفید (وہائیٹ ہاؤس) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تھین سین کو خوش آمدید کہ کر اوباما دراصل ان رہ نماؤں کا حوصلہ بڑھانا چاہتے ہیں جو اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ امریکا نے میانمار پر اپنی منڈی کے دروازے کھولنے کا عندیہ دیا تھا، تاہم امریکا فی الحال میانمار کو ’’برما‘‘ ہی کے نام سے سرکاری طور پر پکارے گا کیوں کہ اس کے خیال میں برما کو ’’میانمار‘‘ کا نام یہاں کی آمر عساکر نے 1989 میں دیا تھا جسے واشنگٹن نے تاحال سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا کیوں کہ نئے نام سے منسوب کرنے کے لیے برمی عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا البتہ وہائیٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران توقع کی جا رہی تھی کہ صدر اوباما گفت گو کے دوران برما کو اس کے نئے نام میانمار سے ہی پکاریں گے۔
حقوق انسانی کے محرکین امریکی انتظامیہ پر تابڑ توڑ تنقیدی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ اسے ایک ایسے ملک کے صدر کو امریکا میں بہ طور سرکاری مہمان داخل ہونے کا اعزاز نہیں دینا چاہیے تھا جہاں حقوق انسانی کو بری طرح پامال کیا جا رہا ہو، وہاں کے سفید و سیاہ میں اب بھی جرنیلوں کا عمل دخل جاری ہو اور جن کے سروں سے تکبر کا خناس ابھی نہیں اترا۔ یہ خناس ان کے اندر 1962 سے گھسا ہوا ہے اور ابھی جمہوری عمل کے بہت سے اعادے اس کو نکالنے کے لیے درکار ہیں۔ جہاں ایک بار فوج کے منہ کو اقتدار کا لہو لگ جائے تو یہ ذائقہ پھر جاتے جاتے جاتا ہے، اس ’’بھگیاڑ‘‘ کو بار بار روکا جاتا ہے اور وہ بار بار پنجرے سے باہر نکل آتا ہے۔
حکومتی امتیازی برتاؤ کی کریہ صورت ملاحظہ ہو کہ روہنگیا مسلمان مغربی برما میں آباد ہیں، اِن مسلمانوں پر ماضی کی فوجی حکومت نے پابندی عاید کیے رکھی کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے۔ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پالیسی پر عمل درآمد غالباً معطل ہو گیا ہوگا لیکن اس قانون کا ایک بار پھر احیا کیا جا رہا ہے اور اِس بار اسے ’’ایک بچہ پالیسی‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت روہنگیا مسلمان جوڑا ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا مجاز نہیں ہوگا ۔ اندھیر یہ ہے کہ یہ قانون صرف اور صرف مسلمانوں ہی پر لاگو ہوگا۔ ’’ون چائیلڈ پالیسی‘‘ کا قانون چین میں بھی لاگو ہے لیکن یہ بلا امتیاز ساری آبادی پر نافذ ہے۔ برما میں اس قانون سے بودھ تو خیر مستثنیٰ ہیں ہی دوسری اقلیتوں پر بھی اس کا اطلاق نہیں ہوگا، صرف مسلم ہی اس کا پابند ہوگا۔
یاد رہے کہ برما میں مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے جن میں سے پچاس ہزار سے زیادہ تاحال مارے جا چکے ہیں اور اتنے ہی یا کچھ زیادہ ہجرت کر چکے ہیں جب کہ ملک بودھوں سے تھل تھل بھرا ہوا ہے یعنی وہ چھے کروڑ کل آبادی والے ملک کا 89 فی صد ہیں اور مسلم صرف 4 فی صد، اسی طرح مسیحی بھی 4 فی صد ہیں۔ اب اگر آبادی میں اضافے کا خدشہ ہے تو بودھوں کو پہلے اس قانون کا پابند بنانا چاہیے لیکن یہ پابندی محض مسلمانوں پر عاید کی جا رہی ہے، دوسری اقلیتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ جواب بالکل سیدھا سادہ ہے یعنی مسلم آبادی کی نسل کُشی، ایک طرف یہ پابندی اوپر سے مارا مار، یا تو مسلمان ہجرت کر جائیں گے یا نہیں تو مارے جائیں اور جو تھوڑے بہت بچ جائیں انہیں اس پابندی کے تحت آہستہ آہستہ نابود کر دیا جائے۔
دنیا بھر میں ایسے قانون کے نفاذ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ گذشتہ دس برس کی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور سارا عالم یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔ گذشتہ دس برسوں میں مشرقی برما میں تین سو بھرے پرے گاؤں تاراج کر دیے گئے، دو لاکھ سے زیادہ روہنگی مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے جب کہ باقی تمام اقلیتیں چین کی بنسی بجا رہی ہیں۔ وجہ؟؟؟ وجہ یہ کہ مسلمان ریاستیں دنیا میں اپنی حیثیت ہی نہیں منوا سکیں، خوش حال لیکن ذہنی غلام، غلاموں کی یا حیثیت ہو سکتی ہے۔
حالیہ امتیازی قانون کے خلاف نوبل انعام یافتہ مادام سوچی بھی بالآخر بول ہی پڑیں تاہم بڑے گول مول انداز یوں گویا ہوئیں ’’اگر یہ اطلاع سچ ہے تو خلافِ قانون ہے‘‘ جیسے ابھی انہیں یقین نہیں کہ ایسا کوئی قانون ہے۔ سوچی محترمہ کو برما میں بودھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی مذمت کرنے کی توفیق بھی نہیں ہو سکی جس سے ان کی عالمی سطح پر خاصی کرکری ہوئی تھی۔
اوباما صاحب فرماتے ہیں کہ برما کی نئی قیادت کے اقدامات قابل تعریف ہیں کیوںکہ صدر تھین سین برما کو بہتر راہ پر لے جا رہے ہیں، اسی لیے امریکا اپنے رویے کو نرم کر رہا ہے، ایسا نہیں کہ انہوں نے روہنگی مسلمانوں کا ذکر نہیں کیا، کیا، ضرور کیا لیکن بہ طور اتمامِ حجت! جیسے ہمارے پنجاب میں ایسے مواقع پر کہا جاتا ہے ’’ذرا ہتھ ہولا رکھو!‘‘ اور بس اللٰہ اللٰہ خیر صلّا۱ انہوں نے کہ دیا اور برما کے ’’بگڑے منڈے‘‘ نے اپنی اصلاح کرلی۔ کس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ امریکا، برما پر چین کے اثر و رسوخ سے بدمزہ ہے۔
صدر تھین سین کا اس موقع پر عذرِ لنگ بھی ملاحظہ ہو، فرمایا ہمارے ہاں جمہوریت کو آئے دن ہی کے ہوئے ہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن، ہم اس معاملے ابھی بالکل کورے ہیں، ذرا جمہوریت کچھ دن پنپ لے تو مسلمانوں کو بھی تحفظ دے لیں گے یعنی مسلمانوں پر آگ اور خون کا جاری عرصۂ حشر فی الحال رکنے کا نہیں۔ جمہوریت کی یہ زلف کب تک سر ہوگی اس کی انہوں نے کوئی تاریخ نہیں، برمی مسلمانوں کو زیادہ عرصے تک نظرانداز کیے رکھا گیا تو خدشہ نہیں یقین ہے کہ روہنگیا نسل کے مسلم کرۂ ارض سے معدوم ہو جائیں گے، ان کی حالت اب چراغِ سحری کی سی رہ گئی ہے۔