نظیر کی غزلیں
انتخاب و پیش لفظ: سید ایاز محمود
زیراہتمام: بیونڈ ٹائم پبلی کیشن، کراچی
صفحات:151، قیمت:250 روپے
نظیر کی نظموں کے جس مشہور و معروف لہجے سے ہم آشنا ہیں، وہ ہمیں ان کی غزلوں میں نہیں ملتا۔ ہمیں یہاں ایک الگ لہجے کے شاعر کا سامنا ہے۔ حیرت ہے کہ نظیر نے اپنے ٹکسالی طرزنگارش کو بدل کر معنویت سے بھرپور اسلوب کیسے اپنالیا اور وہ بھی بغیر دقت۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ اور تراکیب تو ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جیسے ہاتھ باندھے نظیر کے درِسخن پر کھڑے ہوں۔ سید ایاز محمود ان کی غزلوں میں ایسی تہ داری کو دریافت کرتے ہیں جس سے اغماز نہیں برتا جاسکتا۔ لیکن تہ داری سے کہیں زیادہ جو خصوصیت ہمیں حیران کرتی ہے، وہ خیال آفرینی ہے۔ ایسے ایسے موتی پڑے ہیں جنھیں دیکھ کر اظہار حیرت کیے بنا زبان کو قرار نہیں آتا۔ کہیں کہے گی یہ تو میر ہے، کہیں کہے گی یہ تو غالب ہے۔ بلاشبہہ نظیر نے یہاں بھی ایک نظیر چھوڑی ہے۔
یہ نظیر کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ غزل میں نہ صرف خیال آفرینی اور سلیقہ رکھتے ہیں، بلکہ رچاؤ کی ایسی کیفیت پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو قاری کے داخلی ماحول میں ازبس رنگِ مسرت بھر دیتی ہے۔ نظیر کے ہاں مرصع الفاظ و تراکیب تو ہیں، لیکن تصنع نہیں۔ جیسے مالا ٹوٹ جائے اور موتی یکے بعد دیگرے فرش پر گرکر بکھرتے جائیں۔
نظیر کے اسلوب پر بات کی جائے تو نظموں کا ایک الگ جہان پوری آن بان کے ساتھ ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے۔ یہاں ان کی غزلوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ان کی غزلیں پڑھی ہیں؟ جواب کوئی بھی ہو، آپ سید ایاز محمود کا انتخاب پڑھیں، جس میں اُنھیں آفتاب مضطر کی مشاورت حاصل رہی۔ ’’نظیر کی غزلیں‘‘ کے عنوان سے یہ خوب صورت انتخاب بیونڈ ٹائم پبلی کیشن نے چھاپا ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ تو ہے ہی بہت اچھا، لیکن انتخاب پڑھ کر آپ پر نظیر کی غزلوں کا نئے سرے سے انکشاف ہوگا۔
یہ اس دور کی غزلیں ہیں جب وہ ایک طرف مغل تہذیب کا زوال دیکھ رہے تھے، دوسری طرف برطانوی استعمار کے عروج کا مشاہدہ کررہے تھے، تیسری طرف اردو شاعری کو ارتقا کے مدارج طے کرتے ہوئے تماشا کررہے تھے، اور کئی بڑے ناموں کا ڈنکا بج رہا تھا؛ کیا میر، کیا سودا، کیا ناسخ و آتش، غرض دیوار سے لگایا گیا یہ بے مثال شاعر ایک ایسے عجیب دور کو بے نیازی سے دیکھ رہا تھا، جس کے تاروپود میں اس کا حصہ بھی بھرپور تھا لیکن اسے حقارت کے ساتھ منظرنامے ہی سے نکال باہر کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی دھن میں اپنے ہی رنگ کی شاعری کی اذان دیتے رہے۔ کوئی لبیک کہنے والا ملے نہ ملے، کسے پروا۔
خاموش آئینوں کی طرح (شعری مجموعہ)
ناشر: رنگ ادب، کراچی،
شاعر: ڈاکٹر اختر ہاشمی
صفحات:192
قیمت:300 روپے
ادبی حلقوں میں ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ اُن کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ شاعر ہیں، افسانہ نگار ہیں، نقاد ہیں۔ تحقیقی میدان میں بھی سفر کیا۔ کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بنیادی طور پر اُن کی غزلوں کا مجموعہ ہے، البتہ اُن میں چند نظمیں بھی شامل ہیں۔مقدمہ محسن اعظم محسن ملیح آبادی کے قلم سے نکلا ہے، جنھوں نے ڈاکٹر اختر ہاشمی کی شاعری کو متحرک اور جدید اور قدیم اقدار کا حسین امتزاج قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’وہ سلیقۂ شاعرانہ رکھتے ہیں۔
یہ ہنر ان کا ایک اچھا شاعر ہونے کی شہادت ہے۔ اُن کی شاعری صرف منظوم خیالات و مشاہدات ہی نہیں، اس میں شعریت کا جمال بھی ہے۔‘‘ مزید کہتے ہیں: ’’اُن کی شاعری لمحۂ موجود کی آواز بھی ہے، اور اِس میں روایت کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔‘‘بات دُرست ہے۔ اختر ہاشمی کہنہ مشق شاعر ہیں۔ سہل ممتنع اور چھوٹی بحر میں کئی خوب صورت شعر اِس مجموعے میں ملتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق غزل ان کی جدید اور قدیم آہنگ کا ملاپ ہے۔ مافی الضمیر خوبی سے بیان کرتے ہیں۔کتاب ’’ڈسٹ کور‘‘ کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری اور قیمت مناسب ہے۔
جوگی پہلے منتر سمجھے (سرائیکی شاعری)
شاعر: محمد صابر عطاء،
ناشر: نگاہ پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز، چوک اعظم
قیمت:200 روپے، صفحات:64
سیدھا سادہ سا جوان، نظریں جھکائے، دھیمے لہجے میں اپنا مدعا بیان کرنے والا اور گفت گو کرنے سے زیادہ سننے والا، خاکساری اور عاجزی میں گندھا ہوا یہ جوان جو صابر بھی ہے اور عطاء بھی۔ وہ اپنے نام کا عکس ہے۔ اس سے جب میری ملاقات ہوئی تھی، تو میں اسے نوآموز سمجھا تھا، جو مجھ جیسے عامی سے راہ نمائی کا طلب گار تھا۔ لیکن محمد صابر عطاء چھپا رستم نکلا۔ وہ ایک صحافی ہے، خلق خدا کے دکھوں میں گھلنے والا، کچھ کر گزرنے کی دھن اس پر سوار ہے اور وہ اپنی راہیں نکال رہا۔
اس نے بنے بنائے راستے پر سفر کرنے کی بجائے اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ بیساکھیوں سے آپ چل تو سکتے ہیں لیکن دوڑ نہیں سکتے۔ وہ دوڑنا چاہتا ہے اسی لیے وہ کسی بھی طرح کی بیساکھیوں سے بے نیاز ہے۔ اس نے اظہار اور مکالمے کا ہر ذریعہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ شاعری اظہار کا موثر ذریعہ تو ہے لیکن اس وادی خار زار میں قدم رکھنا اور پھر اس پر ثابت قدمی سے آگے کا سفر کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ اس وادی میں وہی سرخ رو ہوتے ہیں جو حوصلہ رکھتے ہوں، عزم رکھتے ہوں اور پھر صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر پیہم سفر کریں۔ بدنصیبی سے ہمارے ہاں شاعری کے نام پر الفاظ کی الٹ پھیر ہورہی ہے، شاز و نادر ہی کوئی نیا خیال نئے آہنگ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔
اس نئے آہنگ میں صابر عطاء بھی ہے۔ ’’جوگی پہلے منتر سمجھے‘‘ اس کا پہلا مجموعہ ہے جو سرائیکی زبان میں ہے۔ یوں بھی سرائیکی اتنی مٹھاس لیے ہوئے ہے کہ انسان شاد ہوئے بنا نہیں رہ سکتا لیکن اس مٹھاس میں جو دکھ، محرومیاں ہیں وہ اس زبان کو مزید دل سوز بناتی اور چاشنی بخشتی ہیں۔ صابر عطاء جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے جبڑوں میں پھنسی ہوئی دکھی، مقہور، مغضوب، معتوب، لاچار و بے بس خلق خدا کی آواز بننے کے مراحل طے کررہا ہے۔
وقت دے شاہو قوم دے بارے کجھ تاں سوچو
بکھ توں مر گئے لوگ وچارے کجھ تاں سوچو
ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنا سفر جاری رکھے گا اور منزل پر پہنچ کے دم لے گا۔