کوئٹۃ: بی این پی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے وطن واپسی اور اسلام آباد میں وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد بلوچستان کا دورہ شروع کردیا ہے۔
پہلے مرحلے میں اُنہوں نے نوشکی اور دالبندین میں عوامی جلسوں سے خطاب کیا جس میں اُن کا لہجہ انتہائی سخت دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے قبل سردار اختر جان مینگل نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد اپنے انٹرویوز میں یہ کہا تھا کہ ان کی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر غور کر رہی ہے۔ اُنہوں نے وطن واپسی کے بعد بلوچستان کی مخلوط حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اب عوامی جلسوں میں اُنہوں نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان چونکہ اپنے ہیں اس لئے اُن سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ حکومت بلوچوں کو غیر سمجھتی ہے اس لئے اُن سے مذاکرات نہیں کئے جا رہے ، معلوم نہیں بلوچوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔سیاسی حلقوں کے مطابق سردار اختر جان مینگل کے لب و لہجہ میں جو سختی ہے گو کہ وہ پہلے بھی رہی ہے لیکن اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کی جماعت نے اندرونی طور پر فیصلہ کر لیا ہے ۔ عوامی رابطہ مہم کا آغاز بھی اس بات کو تقویت دے رہی ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے دن بلوچستان کی سیاست میں اہم ہوں گے، خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی سردار اختر مینگل سے ملاقات کے دوران اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ رواں سال بلوچستان میں بہت سی سیاسی تبدیلیوں کا سال ہوگا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق صوبائی بجٹ2014-15ء کے بعد بلوچستان میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری نے کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت مری معاہدے کی پابند ہے ورنہ بلوچستان میں دو گھنٹے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اپنی اسی گفتگو کے دوران اُنہوں نے پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہاتھ مضبوط کرے گی اور حکومت کے ہر اچھے اقدام کی حمایت کرے گی۔ ایک سوال پر کہ کیا مری معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اڑھائی سال بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور اگلے اڑھائی سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوگی؟ تو نواب ثناء اﷲ زہری نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا تاہم ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اس بات میں کافی دم ہے تاہم اُنہوں نے اس سے انکار بھی نہیں کیا کہ معاہدے میں ایسی کوئی بات شامل نہیں۔ نواب ثناء اﷲ زہری نے شہداء زہری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ شہداء زہری کے حوالے سے جو ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کی گئی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں انہیں گرفتار کیا جائے۔ اُنہوں نے بتایا کہ شہداء زہری کے حوالے سے صوبے میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی جس کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں، تاجروں اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں سے رابطے کئے گئے ہیں اور اُنہوں نے اس کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
صدر مملکت ممنون حسین گزشتہ دنوں دو روزہ دورے پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ تشریف لائے جہاں انہوں نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں خطاب کے علاوہ گورنر ہاؤس میں سیاسی جماعتوں، اراکین اسمبلی، کابینہ کے ارکان اور سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں ، صدر مملکت نے یہ دو دن مصروفیات میں گزارے۔ صدر مملکت ممنون حسین کا بھی یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کئے جائیں اور انہیں قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ صدر مملکت نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے کہا کہ وفاق صوبے کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گا اور صوبے کی ترقی اور امن و امان کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اس کے لئے وفاق صوبائی حکومت کی مکمل سپورٹ کرے گا۔