بچے ہماری دُنیا کا سب سے خوب صور ت اور انمول حصہ ہیں۔
یہ والدین کے لیے قدرت کا سب سے بڑا تحفہ ہوتے ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر یہ والدین کے لیے ایک امتحان ہوتے ہیں جس میں کئی والدین کام یاب نہیں ہوپاتے۔ اس کی ایک عام اور سادہ سی وجہ والدین کا بچوں کی تربیت کے امتحان کے لیے بروقت اور مناسب تیاری نہ کرنا ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اپنے حالات بدلنا چاہتے ہیں لیکن اپنے خیالات بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بے شک تبدیلی وہ ہے جو ظاہری ہوتی ہے لیکن اس کا آغاز باطنی تبدیلی سے ہی ہوتا ہے۔
آج کے تیزرفتار دور میں والدین کے لیے بچوں کی تعلیم وتربیت کرنا کسی بھی چیلنیج سے کم نہیں لیکن بدقستمی یہ ہے کہ والدین اس جانب بالکل بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اسی ڈگر پر اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں جن نکات پر ان کے والدین نے اُن کی تربیت کی تھی۔
آج دور، وقت اور زمانہ بدل چکا ہے۔ نئے دور کے نئے تقاضے ہیں جو ان تقاضوں کو سمجھتا ہے وہ اس چیلینج کو بہتر انداز میں ہینڈل کرسکتا ہے۔ تمام بچے ہی حساس ہوتے ہیں اور پُرتجسس بھی، لیکن کچھ ان میں بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں جن پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
انتہائی حساس بچے اپنے احساسات اور تجربات کا بہت زیادہ گہرائی سے تجربہ کرتے ہوتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر زیادہ ردعمل نہیں دیتے ہیں۔ ایسے بچے بہت لچک دار ہوسکتے ہیں۔ ایسے بچے حیرت انگیز اور تھکا دینے والے بھی ہوتے ہیں۔ والدین کو سمجھنا اور ان کا مناسب انتظام کرنا بہت متحرک اور مشکل امر ہوسکتا ہے۔
تقریباً سبھی خاندان جو ماہرین سے مدد کے لیے رابطہ کرتے ہیں ان کے بچے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ یہ بچے دُنیا میں اپنے تجربات کو دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ گہرائی سے پروسیس کرنے اور ان پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔
یہ حیرت انگیز بچے ہیں جو سخت اور پرجوش، مستقل مزاج اور جوشیلے ہوتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین حد تک دوراندیش اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ اپنے حساس شدت کی وجہ سے، ایسے بچے زندگی کی توقعات اور حدود کے مطابق خود کو ڈھالنے میں عام بچوں کی نسبت زیادہ چیلینجوں کا شکار بھی ہوتے ہیں۔ ’’سائیکالوجی ٹوڈے‘‘ نامی معروف جریدے میں بچوں کی نشوونما اور والدین کی تربیت کرنے کے حوالے سے ماہرسماجی ورکر اور ماہر نفسیات کلیئر لرنر نے ایک خصوصی ریسرچ شائع کی ہے۔
Claire Lerner ایک قومی سطح پر مستند بچوں کی نشوونما اور والدین کی تربیت کرنے کے حوالے سے ماہر ہیں جن کا 30 سال سے زیادہ کا تجربہ ہے جو کہ ابتدائی سالوں میں ان کے سامنے آنے والے چیلینجنگ رویوں کو سمجھنے اور انتہائی حساس اور مؤثر طریقے سے جواب دینے کے لیے خاندانوں کے ساتھ تعاون کرتی ہیں۔ کلیئر ‘Why Is My Child in Charge’ نامی کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ گذشتہ 30 سال میں سیکڑوں خاندانوں کے ساتھ اپنے کام کے ذریعے، میں نے اس بارے میں کافی تجربہ حاصل کیا ہے کہ ان بچوں کو کس طرح ہینڈل کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے بچے کیوں اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
آئیے ان انتہائی حساس بچوں کی 10 حساس عادات کو جانتے ہیں۔
1۔ حساس بچے جذباتی انتہا کا تجربہ کرتے ہیں: ایسے بچے دُنیا میں اپنے احساسات اور تجربات کو دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ گہرائی سے محسوس کرتے ہیں۔ والدین اکثر اپنے حساس بچوں کو یا تو پرجوش یا مشتعل ہونے والے بچے بیان کرتے ہیں وہ انتہائی حد کے رویوں کا اظہار کرتے ہیں۔
2 ۔ حساس بچوں کی حس بہت زیادہ ردعمل ظاہر کرتی ہے: وہ بچے جو انتہائی حساس ہوتے ہیں، جذباتی طور پر اپنا ردعمل دینے کے لیے بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں۔
وہ نظاروں، آوازوں، ذائقوں، بو اور ساخت کا زیادہ شدت سے تجربہ کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کی عام مثال یہ ہے کہ وہ عوامی غسل خانوں سے خوف زدہ ہو سکتے ہیں کیوںکہ فلشر بہت زیادہ گمبھیر اور نامناسب ہوتا ہے۔ وہ ان کھانوں کو مسترد کر سکتے ہیں جن کا ذائقہ اور بو بہت زیادہ ہو۔ اگر ان کے پسندیدہ، آرام دہ سویٹ اور چاکلیٹ دست یاب نہ ہوں تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوسکتے ہیں۔ وہ اکثر چیزوں کے نظر آنے کے انداز میں بہت زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں اور جب وہ توقع کے مطابق ظاہر نہیں ہوتے ہیں تو بے چین ہوجاتے ہیں۔
3۔حساس بچے جلد جذباتی رویوں کا شکار ہوتے ہیں: ان کی حساسیت کی وجہ سے، حساس بچوں کو زیادہ تیزی سے تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے گہرے جذبات اورحساس حس پرشدید ردعمل سے مغلوب ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں قدرتی طور پر زیادہ اور بار بار اور شدید دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
4۔حساس بچے ہر چیز پر گہری نظر رکھتے ہیں: حساس بچے ایک کمپیوٹر کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا دماغ کبھی رکتا نہیں۔ وہ ہر چیز پر گہری توجہ دیتے اور تجزیہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بچے کی والدہ وضاحت کرتی ہیں۔ ’’نسرین (فرضی نام) نے دوسری بار میرے اور سلیم (میرے شوہر) کے درمیان لہجے میں تبدیلی محسوس کی اور مجھے لگا کہ وہ مداخلت کرنے کی کوشش کرے گی۔ وہ ہمارے درمیان آتی ہے اور حکم دیتی ہے۔
’’اسے ابھی بند کرو! مزید بات نہیں! ڈیڈی آپ کو امی سے آرام سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس کوئی اندرونی فلٹر نہیں ہے۔ یہ انہیں انتہائی دوراندیش اور ہم درد بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ آسانی سے مغلوب ہوجاتے ہیں کیوںکہ وہ عام حالات سے زیادہ جذب کر رہے ہوتے ہیں جو وہ سنبھال نہیں سکتے ہیں۔
5۔ حساس بچے کنٹرول کی زیادہ شدید ضرورت ہے: حساس بچے ایک ایسی دُنیا پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرنے کرتے ہیں جو بہت زیادہ لچک دار ہو سکتی ہے۔ حساس بچے اس بارے میں متعین خیالات اور توقعات کے ساتھ آتے ہیں کہ روزمرہ کی زندگی کو مزید قابل انتظام بنانے کے لیے چیزوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ یہ بتانا کہ لوگ کہاں بیٹھیں گے، وہ اپنے بال کیسے پہنیں گے، ان کا کھانا کس رنگ کے پیالے میں آنا چاہیے۔
وہ کون سے کپڑے پہنیں گے اور کیا نہیں پہنیں گے، یا مرغی ان کے کھانے کی پلیٹ میں گاجر کے کتنے قریب ہو سکتی ہے ۔ بظاہر غیر معقول مطالبات ہیں۔ مقابلہ کرنے کے تمام طریقہ کار حساس بچے ایسے ماحول کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو بصورت دیگر قابو سے باہر محسوس ہوتا ہے۔ بچے جتنا اندر سے باہر محسوس کرتے ہیں، اتنا ہی وہ باہر سے کنٹرول کرتے ہیں۔
6۔حساس بچے نئے حالات میں زیادہ خوف زدہ اور محتاط ہوتے ہیں: جب حساس بچے کسی نئی صورت حال میں داخل ہوتے ہیں چاہے وہ کلاس روم ہو، سال گرہ کی تقریب ہو یا میوزک کی کلاس ہو ان کے رویے بدل جاتے ہیں۔ وہ حیران ہوتے ہیں۔
یہ کون سی جگہ ہے؟ یہاں کیا ہوگا؟ یہ لوگ کون ہیں؟ میں ان سے کیا اُمید رکھ سکتا ہوں؟ کیا وہ مجھے پسند کریں گے؟ کیا میں محفوظ رہوں گا؟ یہاں مجھ سے جو بھی توقع کی جاتی ہے کیا میں اس میں اچھا رہوں گا؟ ان کے ماحول کا یہ مسلسل تجزیہ حساس بچوں کو انتہائی روشن اور بصیرت والا بناتا ہے۔ لیکن یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے اور خاص طور پر نئے حالات میں انہیں زیادہ پریشانی کا شکار کرسکتا ہے۔
ایسے حالات اور صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اپنے کمفرٹ زون سے سختی سے چمٹے رہتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ اکثر کسی بھی نئی چیز کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ وہ اپنے والدین سے الگ ہونے پر مشکل وقت گزارتے ہیں۔ جب حساس بچے پلے گروپ یا پری اسکول شروع کرتے ہیں تو ان کو ایڈجسٹ ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ وہ فٹ بال یا ڈرامے کی پریکٹس میں جانے سے انکار کرتے ہیں، حالانکہ یہ ان سرگرمیوں کو پسند بھی کرتے ہیں۔
7۔حساس بچے بہت جلد مایوس ہو جاتے ہیں: حساس بچوں کو زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ کسی مشکل کام کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ اکثر زیادہ آسانی سے ہار مان لیتے ہیں۔ فطری تکلیف ہم سب کو محسوس ہوتی ہے، جب ہم اس جگہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن یہ بچے اتنی جلدی کسی نئے ہنر میں مہارت حاصل نہیں کرپاتے تو ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ اس سے ان کے لیے ان لمحات میں خود کو مضبوط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
8۔حساس بچے کاملیت کا شکار ہوتے ہیں: انتہائی حساس بچوں میں پرفیکشنسٹ ہونے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جب یہ کچھ ایسا نہیں کر پاتے جیسا ان کا دماغ انہیں بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ ایسے ہونا چاہیے، تو وہ اس صورت حال میں اپنا قدرتی کنٹرول کھوجاتے ہیں جو اُن کے لیے برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بچے زیادہ آسانی سے شرمندگی محسوس کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ اُنہیں یہ ایک ’’ناکامی‘‘ کی طرح محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حساس بچوں کے لیے ہارنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
9۔حساس بچوں کو اپنی اصلاح برداشت کرنے میں مشکل پیش آتی ہے: حساس بچے یہاں تک کہ بظاہر بے شمار بیرونی سمتوں کو بھی ذاتی الزامات کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ انہیں اپنی درستی کے لیے قبول کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔ وہ ایسے حالات اور شرمندگی کے نتیجے سے بچنے کے لیے ہنسنے، اپنی نظریں ہٹانے، غصے میں آنے، یا بھاگنے کی صورت کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ اس صورت حال سے نمٹنے کے بہترین طریقہ کار ہیں جو مشکل حالات وجذبات کے سیلاب سے تحفظ دیتے ہیں اور اُنہیں راحت فراہم کرتے ہیں۔
10 ۔حساس بچے بہت زیادہ محتاط رویوں کے مالک ہوتے ہیں: حساس بچوں میں اس بات میں مشغول ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے کہ دوسرے انہیں کیسے دیکھتے ہیں۔ جب ان کی طرف کوئی توجہ دی جاتی ہے تو وہ بہت زیادہ بے چین ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے والدین یا دوسرے لوگ جب ان کے بارے میں تعریفی باتیں کر رہے ہوں تو یہ جانچ پڑتال یا اندازہ لگانے کے لیے حساس ہوجاتے ہیں کہ ان کی تعریف کیوں کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی تعریف کے لیے خاص طور پر بے چین ہوجاتے ہیں۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی متضاد رائے ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے اس لیے یہ دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
یاد رکھیں! حساس بچے چیزوں کو بہت زیادہ ذاتی طور پر لیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے اعمال کی غلط تشریح کرنے پر بھی مائل ہوجاتے ہیں۔ یہ اپنی ذہنیت کے ذریعے اپنے تجربات کو فلٹر کرتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ تمام حساس بچوں میں یہ تمام خصلتیں نہیں ہوں گی، اور بہت سے بچے جو انتہائی حساس نہیں ہیں، ان چیلینجوں کے ساتھ کسی حد تک جدوجہد کریں گے۔ ان کی حساسیت کی وجہ س سے یہ بچے بے چینی اور دیگر ذہنی صحت کے چیلینجوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے بچے کے رویے دوسروں کے ساتھ صحت مند تعلقات میں مشغول ہونے، گھر اور اسکول میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کی اس کی صلاحیت میں مداخلت کر رہے ہیں آپ کو ان تربیت کے لیے پیشہ ورانہ مدد لینا ضروری ہے۔ ایسے بچوں کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے کس طرح مدد کی ضرورت ہے یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
والدین کی جانب سے بروقت، مناسب اور معیاری توجہ اور دیکھ بھال ایسے بچوں کی زندگی کو بہت زیادہ مشکلات سے بچا سکتی ہے۔ اس سے قبل کے زمانے کے لوگ ان بچوں کے ان رویوں کو کم زوریاں اور برائیاں بنا کر پیش کریں والدین کو اپنے رویے بدلنے اور حالات و صورت حال کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کیوںکہ فصلوں اور نسلوں کی بروقت اور مناسب دیکھ بھال نہ کی جائے تو یہ تباہ ہو سکتی ہیں۔ آئیں اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے بچوں کی خوب صورت زندگی کواپنے بہترین رویوں سے بہترین بنائیں۔
The post حساس بچوں کی خاص عادات appeared first on ایکسپریس اردو.