Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
ازبر تھی مجھے میں نے لگاتار بنائی
تصویر تری جب بھی مرے یار بنائی
پوچھاجوعدونے مرے شجرے کاتو میں نے
کاغذ پہ مچلتی ہوئی تلوار بنائی
اکثرنظر آتی ہیں تماشے کی طلبگار
خالق نے مری آنکھ عزادار بنائی
اک تجھ کو نکالا تو لگا مجھ کو خدا نے
دنیا جو بنائی ہے وہ بے کار بنائی
ہر بار ہٹائی تھی یہ دیوارِ تنفر
دشمن نے بھلے بیچ میں صد بار بنائی
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
مرے اچھے دنوں کا استعاراکھو گیا ہے
کہاں جانے مقدر کا ستارا کھو گیا ہے
مری آنکھوں میں اب ویرانیاں ٹھہری ہوئی ہیں
مری نظروں سے ہر اچھا نظارا کھو گیا ہے
اسے کھویا ہے جس دن سے یہی لگتا ہے جیسے
اسی کے ساتھ ہی سب کچھ ہمارا کھو گیا ہے
لرزتی رہ گئی ہاتھوں میں کچی ڈور یارو
ہواؤں میں کہیں میرا غبارہ کھو گیا ہے
کبھی اتنی بھی تو نعمان کب تھی بے یقینی
یقیں جانے کہاں سارے کا سارا کھو گیا ہے
(نعمان راؤ۔ ساہیوال)

۔۔۔
غزل
آج کی شام نے کچھ اور حسیں ہونا ہے
دل میں اک حسن کے پیکر نے مکیں ہونا ہے
وعدۂ دید کو محشر پہ نہ ہرگز ٹالو
جو بھی ہونا ہے مرے دوست یہیں ہونا ہے
آنکھ میں جلوے ترے دھوم مچائے ہوئے ہیں
دل کی دنیا کو ترے زیرِ نگیں ہونا ہے
دوست کرتے ہو بچھڑنے کی ہمیشہ باتیں
کیسے مجھ کو تری چاہت کا یقیں ہونا ہے
روز دکھلاتے ہو بیزاری کے جلوے مجھ کو
روز کہتے ہو مجھے تیرا نہیں ہونا ہے
جب تمہیں میری محبت کا یقیں آئے گا
میں نے ہونا ہے کہیں،دل نے کہیں ہونا ہے
لیجیے آ ہی گئے خیر سے وہ بھی احمدؔ
میری محفل میں جنہیں جلوہ نشیں ہونا ہے
(احمد حجازی ۔لیاقت پور)

۔۔۔
غزل
نہیں آج تک تو جواب لایا سلام کا
اے پیام بر تو نہیں رہا مرے کام کا
اسے آندھیاں نہ بجھا سکیں گی گمان کی
جو چراغ میں نے جلا دیا ترے نام کا
وہ تمام وعدے بھلا چکا ہے جو عشق کے
اسے کیسے واسطہ دوں میں وصل کی شام کا
مری زندگی کے خوشی سے گزرے ہیں سال کچھ
ترا شکریہ بڑا میرے دل میں قیام کا
بنا التجا کے عنایتیں کریں غیر پہ
کبھی ترس کھا کے تو پوچھ حال غلام کا
(شان رضا ۔کوٹ ادو)

۔۔۔
غزل
میں انا میں قید ہوں اس بات میں بھی شک نہیں
یہ بھی سچ ہے دوستوں نے حال پوچھا تک نہیں
میں مزاجا اس طرح کا ہوں سو ہوں اب کیا کروں؟
میرا شیوہ صرف اک آواز ہے دستک نہیں
آپ کو دعوت نہیں دیتا خود آ سکتا نہیں
معذرت یارو! یہ میری قبر ہے بیٹھک نہیں
آج اپنی پارسائی کے لیے درکار ہے
ہائے پیشانی پہ سجدوں کی وہی کالک نہیں
دل بہت خستہ ہے اس کے ختم ہونے کے لیے
عشق کا گھن ہی بہت ہے یاد کی دیمک نہیں
(شاکر خان بلچ۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
ترکِ تعلقات کا الزام دیجیے
لیکن اس احتراز کو کچھ نام دیجیے
کر دے جو میری روح کو دنیا سے بے خبر
مے خانۂ نگاہ سے وہ جام دیجیے
یہ دشتِ بے امان ہے بارش کا منتظر
آنکھوں کو اپنی دید کا انعام دیجیے
محفل میں اپنا سامنا ہو جائے بھی اگر
ترچھی نظر سے پیار کا پیغام دیجیے
دنیائے انبساط میں جس کی سحر نہ ہو
مجھ کو دیارِ عشق سے وہ شام دیجیے
دل چیرنا ہی آپ کا شیوہ سہی مگر
کارِ رفو گری بھی تو انجام دیجیے
آتی ہے میرے رو برو چٹھی کھلی ہوئی
قاصد کو اب تو دوسرا کچھ کام دیجیے
دل کے معاملات جو چھپتے نہیں تو کیا
ہاتھوں میں اپنا ہاتھ سرِ عام دیجیے
(منزہ سید۔ساہیوال)

۔۔۔
غزل
بچنے کے لیے اپنے ہی احباب کے شر سے
اک شخص نکلتا ہی نہیں شام کو گھر سے
اک بار محبت سے پکارے گا ہمیں تو
اس آس پہ برسوں تری آواز کو ترسے
کمزور ہیں ڈرپوک نہیں گاؤں کے باسی
گھر بار نہ چھوڑیں گے یہ آسیب کے ڈر سے
ہے بیس برس سے مرے کمرے میں اداسی
کوئی تو نکالے یہ مصیبت مرے گھر سے
اک شخص ملاقات کو آئے گا کسی روز
یہ بات مجھے روک کے رکھتی ہے سفر سے
اب بھی نہ نکلتا تو مری لاش نکلتی
میں اپنی جنوں خیز طبیعت کے اثر سے
اب تیری حقیقت سے زمانہ ہوا واقف
اب کام نہیں چلنا اگر اور مگر سے
(حماد زیف۔ چکوال)

۔۔۔
نظم:’’ تیری آواز کے تعاقب میں‘‘
میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں
گھپ اندھیری ہے زندگی میری
روشنی کا کوئی اشارہ نہیں
رہنمائی کو اب ستارہ نہیں
منزلوں کی تلاش، لاحاصل
اک سفر ہے کہ جو مسلسل ہے
تیری آواز کے تعاقب میں
وقت کا زاویہ بدلنے سے
تیری آواز کے تعاقب میں
کتنی دشواریوں سے گزارا میں
ہاں مگر حوصلہ بلندی کا
میرے اندر قیام کرتا رہا
تو مسلسل کلام کرتا رہا
بے خیالی کے پانیوں سے پرے
وحشتوں کے عظیم صحرا میں
میری نظریں بھٹکتی رہتی ہیں
تیری آواز کے تعاقب میں
آسماں کی طرف میں کیوں جاؤں
جانتا ہوں کہ بس اندھیرا ہے
اک خلا ہے جہاں تری آواز
مشکلوں کو بھی دستیاب نہیں
بے سکونی ہی بے سکونی ہے
میں زمیں زاد اپنے کمرے کے
بام و در میں سکون ڈھونڈوں گا
تیری آواز کے تعاقب میں
زندگی کیا ہے اک ٹریفک جام
سب کے سب مرحلے رکے سے ہیں
نجم آسودگی کے سگنل پر
ناامیدی کے بے تحاشا فقیر
کاسۂ کرب لے کے بیٹھے ہیں
اور میں منتظر ہوں جب سگنل
پھر ہرا ہو،اگرچہ مشکل ہے
میں کہ پھر سے سفر میں کھو جاؤں
تیری آواز کے تعاقب میں
(نجم الحسن کاظمی۔ حویلیاں،ایبٹ آباد)

۔۔۔
غزل
جب کسی غیر کے آگے یہ تلی جاتی ہے
تب تو چہرے پہ ندامت ہی ملی جاتی ہے
اس لیے میں نے کسی سے نہیں رستہ پوچھا
تیرے کوچے سے بھی جنت کو گلی جاتی ہے
کون سا بغض ترے سینے میں ہے کھل کے بتا
تیرے اندر کی جو ہر چیز جلی جاتی ہے
کیا کروں گا میں یہی عشق دوبارہ کر کے
اب مری عمر تو ویسے بھی ڈھلی جاتی ہے
ہے اثر ماں کی دعاؤں میں بڑا ہی شافی
موت بر حق بھی مرے سر سے ٹلی جاتی ہے.
(بلال شافی ۔ جڑانوالہ)

۔۔۔
غزل
اتر کے چاند سے رکھا قدم اندھیرے میں
سیاہ زلف کے اس محتر م اندھیرے میں
تمام رات کٹی روشنی کے پہلو میں
کسی نے پھینک دیا صبح دم اندھیرے میں
وہ جگنوؤں کے قبیلے نگل کے لوٹ آئے
ہوا تھا جن پہ خدا کا کرم اندھیرے میں
وہ روشنی کے جزیروں کا پاسباں نکلا
کلام کرتے رہے جس سے ہم اندھیرے میں
وہاں ہے موت اندھیرا جہاں زیادہ ہو
نویدِزندگی ملتی ہے کم اندھیرے میں
میں نورِخلد کے طعنوں سے تھک چکا تھا بہت
بدل لیا تھا سو اپنا دھرم اندھیرے میں
پھر اپنے واسطے تقدیر بن گئی عادل
چلا دیا جو خدا نے قلم اندھیرے میں
(عادل گوہر۔ کوٹ ادو)

۔۔۔
غزل
کوئی درکار ہے مصیبت میں
دل گرفتار ہے مصیبت میں
بند ہیں آج فون یاروں کے
چونکہ اک یار ہے مصیبت میں
مانا مہمان رب کی رحمت ہیں
پر جو نادار ہے مصیبت میں
خوش ہے مردِ شریف سے بستی
اور گھر بار ہے مصیبت میں
ایک بیٹی کی سر کشی کے سبب
ایک دستار ہے مصیبت میں
اس گلستاں کی خیر ہو مولا!
یہ چمن زار ہے مصیبت میں
تُو اکیلا نہیں یہاں باصرؔ
جو لگاتار ہے مصیبت میں
(عبداللہ باصر۔ گوجرانوالہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles