Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

نمک یا زہر؟

$
0
0

کراچی اور شاید ملک بھر میں ہی کرسیوں پر نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

ضعیف العمر افراد کے ساتھ اب نوجوان بلکہ نوجوان بھی کرسی پر نماز ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، اندیشہ ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن بھی آ سکتا ہے جب مسجدوں کی صفوں میں کرسیاں زیادہ ہوں گی اور عام طریقے سے نماز پڑھنے والے کم۔ کمر اور گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے ہم خود بھی کرسی پر نماز پڑھنے پر مجبور ہیں۔

بیماری کی ابتدا میں معروف طریقے سے نماز کی ادائی میں تکلیف ہوتی تھی، علاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انھوں نے کچھ دوائیں تجویز کیں، فزیو تھراپی کروانے کو کہا اور ساتھ ہی نماز کرسی پر بیٹھ کر ادا کرنے کا حکم دیا۔

ڈاکٹر صاحب کے پاس دوسرا یا تیسرا وزٹ تھا تب ہم نے مساجد میں کرسیوں کی بڑھی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا:

’’ڈاکٹر صاحب! مساجد میں کرسیوں پر نماز ادا کرتے نمازیوں کی بڑھتی تعداد سے اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ شہر میں ہڈیوں خصوصاً کمر اور گھٹنوں کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ شہر کی خستہ حال سڑکیں تو نہیں؟‘‘

ڈاکٹر صاحب نے چونک کر ہماری طرف دیکھا، مسکرائے اور کہا: ’’بالکل یہ وجہ ہو سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر صاحب خاصے مصروف ہوتے ہیں۔ ہمارے بعد بھی بہت سے مریض منتظر تھے۔ ان سے لمبی بات کرنا مناسب نہ ہوتا اس لیے مزید کچھ نہ کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے نسخہ لکھ کر ہمارے حوالے کیا اور بولے: ’’آپ کا خیال درست ہو سکتا ہے۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔‘‘ یوں ہم گذشتہ کئی برسوں سے کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھ رہے ہیں، علاج معالجہ بھی جاری ہے اگر کچھ فرق پڑا ہے تو بس اتنا کہ پہلے قیام کرسکتے تھے، کئی ماہ ہوئے اس سے بھی گئے کہ کھڑے سے بیٹھنے میں اور بیٹھ کر اٹھنے میں شدید تکلیف، تقریباً ناممکن۔

ابھی چند روز پہلے ایک تقریب میں شریک تھے، مہمانوں کی آمد جاری تھی، ہم سے دو میزیں چھوڑ کر کچھ لوگ بیٹھے تھے، ایک صاحب کہہ رہے تھے:

’’پچھلے کئی برسوں سے میں ایسی تقریبات میں شرکت سے بچتا ہوں جہاں کھانے کا اہتمام ہو مگر میرے بڑے پیارے دوست کا ولیمہ ہے اس لیے آنا پڑا اور کھانا بھی پڑے گا، کہ اس کی ناراضی کا خدشہ ہے، تاہم کوشش ہوگی کہ کم سے کم کھاؤں۔‘‘

کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا: ’’نمک۔۔۔۔اس کی وجہ نمک ہے۔‘‘

’’کیا نمک حرامی کا خدشہ ہے؟‘‘ کسی اور نے کہا، جس پر ایک قہقہہ پڑا۔

’’نہیں، ایسی بات نہیں!‘‘ وہ صاحب ہنستے ہوئے بولے: ’’بات یہ ہے کہ شہر میں رنگ برنگے پیکٹوں میں جو نمک فروخت ہو رہا ہے وہ انسانی صحت کے لیے بڑا خطرناک ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ نمک پہاڑی (لاہوری) ہے مگر اصل میں یہ سمندری نمک ہی ہوتا ہے۔‘‘

’’تو سمندری نمک خطرناک کیسے ہو گیا، دنیا کے اکثر ممالک میں تو یہی استعمال ہوتا ہے۔‘‘ کسی نے نکتہ اٹھایا۔

’’ٹھیک کہہ رہے ہو!‘‘ ان صاحب نے جواب دیا: ’’مگر ہمارے ہاں پیکٹوں میں فروخت ہونے والے اس سمندری نمک میں صفائی کے دوران ایک کیمیکل ملایا جاتا ہے جس سے وہ شفاف اور بھربھرا ہو جاتا ہے، لاہوری نمک جیسا۔ مگر یہ کیمیکل انسانی ہڈیوں، جوڑوں کے درمیان موجود لعاب کو خشک کردیتا ہے اور جوڑ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں جس سے اٹھنا بیٹھنا، حرکت کرنا نہایت تکلیف دہ ہو جاتا ہے اور نوبت معذوری یا اپاہج پن تک پہنچ جاتی ہے، وغیرہ۔‘‘

ہم نے ان صاحب کی باتیں سنیں ضرور مگر اس پر زیادہ توجہ نہیں دی کہ لوگ عموماً اس طرح کی باتیں کیا ہی کرتے ہیں، تاہم ذہن سے محو ہو جانے والی یہ باتیں گذشتہ جمعہ کو اس وقت تازہ ہوگئیں جب ہم نماز جمعہ کی ادائی کے لیے معمول کے مطابق اپنے وقت پر مسجد پہنچے اور وہاں کوئی کرسی خالی نہ پائی۔ مستقل لگی رہنے والی کرسیوں کے علاوہ ’’ریزرو اسٹاک‘‘ بھی ختم ہو چکا تھا، ہمارے علاوہ کئی اور نمازی بھی کرسی ڈھونڈتے دکھائی دیے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے والوں میں کچھ اور بھی شامل ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس تحریر کے پیچھے کسی بھی قسم کی کوئی بدنیتی ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں اب بھی وہی خطرناک نمک استعمال کیا جا رہا ہے کہ خاتون خانہ ہمارے اس پہلے خیال سے سو فیصد متفق ہیں کہ ’’لوگ تو ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں‘‘ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو اپنے اور اپنی قوم کے بچوں کے حوالے سے ایک خدشہ ذہن میں ضرور سر اٹھاتا ہے اور وہی خدشہ اس تحریر کے لکھنے کا محرک بھی بنا ہے۔

اس لیے مذکورہ نمک تیار اور فروخت کرنے والی کمپنیوں سے گزارش ہے کہ وہ اس حوالے سے قوم کے سامنے اپنی وضاحت ضرور پیش کریں جب کہ حکومت خصوصاً محکمہ خوراک سے اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری تحقیقات کا اہتمام کرے، اس کے نتیجے سے عوام کو آگاہ کیا جائے اور اگر اس نمک کا مضر صحت ہونا ثابت ہوجائے تو اس کی تیاری اور فروخت پر فوری پابندی لگائی جائے۔

حاضر اسٹاک تلف کیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے کہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کی صحت سے کھلواڑ اور انھیں معذوری کی دلدل میں دھکیل دینے جیسا جرم کسی بھی صورت قابل معافی نہیں ہو سکتا۔

The post نمک یا زہر؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>