قدرت نے انسان کو سب سے بڑا طاقت ور معجزہ جو عنایت فرمایا ہے وہ ہے لفظ، یعنی زبان اور اسی زبان کے ذریعے ایک انسان اپنے خیالات و محسوسات کو دوسرے انسانوں تک پہنچاتا ہے۔
اس لحاظ سے انسان کے سارے جذبات، تصورات، خواہشات، امیدیں اور خواب عرض یہ کہ انسانی زندگی کا ہر پہلو انہی الفاظ (زبان) کا محتاج رہا ہے۔ پشتو ایک قدیم زبان ہے جدید تحقیق کے مطابق تقریباً پانچ ہزار سال قبل از مسیح سے پختون قوم اور اس کی زبان کے وجود کی نشان دہی ہوئی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قوم بغیر زبان کے پیدا نہیں ہوتی، کروڑوں افراد کی بولی اور لکھی جانے والی اس زبان کو کچھ ماہرین لسانیات نے سنسکرت کی ماں قرار دیا ہے۔
ابتدا میں اس زبان کا رسم الخط خروشتی بنایا گیا جو کہ دائیں سے بائیں طرف لکھا جاتا تھا۔ آج سے کافی عرصے پہلے ایران کے علاقہ سیستان میں ایک بہت ہی قدیم کتبہ ملا ہے جس کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ وہ تقریباً چار ہزار سال قبل از مسیح کا ہے۔ اس کتبے پر خروشتی زبان کی طرز تحریر میں درج ذیل تین جملے لکھے ہوئے ہیں:
نہ اڑیک یم (نہ میں ضدی یا اڑیل ہوں)
نہ درو زن یم (نہ میں جھوٹا ہوں)
نہ زور کڑے یم (نہ میں زور آور یعنی جابر ہوں)
ان حوالوں کی موجودگی سے پشتو زبان کی قدامت مسلم ہے کیوں کہ ’’اوستا‘‘ وید اور مہابھارت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اس طرح یونانی مورخین سترابو اور ہیرو ڈوٹس نے بھی سکندر کے حملے سے پہلے اس زبان کا ذکر کیا ہے، اس کتاب کا نام ’’دفتر شیخ ملی‘‘ بتایا ہے جہاں تک جدید تحقیق سے معلوم ہو سکا ہے تو سن 200 ہجری سے سن 700 ہجری تک کئی پشتو کتابیں جن میں (د سالو وگمہ، بستان الاولیاء، د خدائے مینہ، غور غشت نامہ اور تاریخ سوری ) کا ذکر موجود ہے مگر صرف ناموں کی حد تک، خود کتابیں تاحال ناپید ہیں۔ ان ذکر شدہ کتابوں میں صرف تذکرہ الاولیاء نام کی کتاب کے چند اوراق ملے ہیں جس کا مولف سلیمان ماکو ہے۔
یہ کتاب 612 ہجری میں لکھی گئی جو غالباً سب سے قدیم کتاب ہے اور اب تک دست یاب ہے۔ چوں کہ پشتو زبان میں شاعری کا ذخیرہ بہت زیادہ اور نثر کا کم رہا ہے، اس وجہ سے اس زبان نے علمی میدان میں دیگر زبانوں کی طرح ترقی کی وہ منزلیں طے نہیں کیں جو اسے طے کرنی چاہیے تھیں۔
انگریزوں کی آمد اور چھاپا خانے کی ایجاد سے آہستہ آہستہ اس زبان میں بھی طباعت کا کام شروع ہوا۔ انگریزوں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ پشتو زبان کے علاوہ دوسری زبان کو بہتر طور پر پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے تو انہوں نے یہاں معاشرتی لین دین، سیاسی رابطوں اور خصوصاً اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کے لیے سب سے پہلے پشتو زبان میں اپنی مذہبی کتاب انجیل کا ترجمہ کر کے 1818ء میں شائع کیا۔
دوسری کتاب یعنی کتاب مقدس کا آخری حصہ 1824ء میں اس کے بعد 1847ء میں بابو جان کی دعائے سریانی، دیوان عبدالرحمٰن بابا سے انتخاب، افضل خان خٹک کے علم خانہ دانش سے انتخاب اور اخون درویزہ کے محزن الاسلام کا کچھ حصہ کتابی صورت میں منظر عام پر آیا۔ افغانستان میں بھی بہت زیادہ کتابیں چھپیں، اس طرح 1818ء سے 1892ء تک بے شمار مذہبی ادبی اور تاریخی کتابیں شائع ہوئیں جن کی تعداد 167 تک بنتی ہے۔
بعد میں پشتو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے حکومت افغانستان اور یہاں کی مشہور اصلاحی تحریک ’’تحریک اصلاح افغانیہ‘‘ جس نے بعد میں خدائی خدمت گار تحریک کی شکل اختیار کی اور اس کی قیادت خان عبدالغفارخان المعروف باچا خان کر رہے تھے، نے بھی پشتو زبان کے سلسلے میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں انیس سو اٹھائیس میں پشتو کا ماہ نامہ ’’پختون‘‘ جاری کیا جو آج بھی باقاعدگی کے ساتھ چھپتا ہے۔
دورجدید میں قدم رکھتے ہی پشتو زبان ایک نئی دنیا سے متعارف ہوئی، نئے نئے تجربوں سے گزری، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ آج کے دیگر مشینی ذرائع ابلاغ یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، موبائل فون، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بے پناہ سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پختونوں نے اپنی زبان کو دیگر زبانوں کے ساتھ ترقی کی اس دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر تگ و دو شروع کی ہے۔ آج پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکالوجی کا دور دورہ ہے۔
ان مشینی حالات میں ہر قوم کو اپنی زبان، تہذیب اور ثقافت کو زندہ اور محفوظ رکھنے کے لیے بہ امر مجبوری اس مشینی دوڑ اور مقابلے میں شامل ہونے کے لیے ان تمام ذرائع ابلاغ کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا ہو گا جو آج کی دنیا کے لیے ضروری ہے۔ اس سے غفلت برتنے، ڈرنے اور شکست کھانے والی قوم کو یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ یہ رویہ اور عمل قوم اور ان کی زبان و ثقافت کو صفحہ ہستی سے بھی مٹا سکتی ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اکیسویں صدی میں ایک منظم کلچر کی شکل میں مختلف تہذیبوں اور زبانوں کے سامنے آکھڑی ہوئی ہے۔ آئی ٹی کلچر کی اس یلغار کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی، نقصانات یہ ہیں کہ جو تہذیب، جو قوم یا جو زبان اس کلچر کا راستہ روکنے کی کوشش کرے۔ اس کی اپنی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی یا جس زبان نے بھی اسے توجہ نہ دی اور خود کو اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا یہ اقدام خود اس کے زوال کا باعث بنے گا۔
فائدہ ایک نہیں ہزار فائدے ہیں۔ پشتو زبان بھی آج اسی آئی ٹی کلچر کی یلغار کی زد میں ہے، سوچنے والے سوچتے ہیں کہ پشتو زبان اس کلچر کے سامنے ٹک نہیں سکے گی اور خدشہ ہے کہ یہ زبان بہت پیچھے رہ جائے گی، لیکن پشتو زبان کی ترویج کے لیے آئی ٹی شعبے میں کام کرنے والے پرامید ہیں، بل کہ وہ تو دعویٰ کرتے ہیں کہ آج پشتو زبان اس حوالے سے انگریزی کا مقابلہ کر رہی ہے اور اسے کئی زبانوں پر اس وقت سبقت حاصل ہے۔
اس کی ابتدا 80ء کی دہائی سے ہوتی ہے جب کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے پرپُرزے پھیلانے شروع کیے، افغانستان میں سردجنگ جاری تھی۔ جب اس خطے کی اہمیت کے پیش نظر 1985ء میں ایک امریکی ملٹی نیشنل ادارے نےMLS کے نام سے وائس آف امریکا کے تعاون سے پشتو سافٹ ویئر تخلیق کیا۔ اس کے بعد کام ہوتا رہا اور بعد میں نورمحمد لیوال نامی نوجوان نے 1992-94ء میں ورڈ پرفیکٹ میں پشتو ڈھال کر پشتو زبان و ادب کے شعبہ میں انقلاب برپا کردیا۔
اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور 1994-95ء میں پشتو ونڈوز کی بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ مائیکروسافٹ کے ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ اس طرح پشتو معیاری رسم الخط نے آئی ٹی میں قدم رکھا اور پھر ای میل، چیٹنگ، ویب سائٹس سب کچھ پشتو میں دست یاب ہوا۔
اس سے پشتو طباعت و اشاعت میں نہایت تیزی سے ترقی ہوئی اور رسائل، جرائد و کتب اس ٹیکنالوجی سے کام لینے لگے، دھڑا دھڑ چیزیں شائع ہوئیں، بی بی سی یعنی برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے معروف بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے بھی پشتو میں اپنی علیحدہ ویب سائٹ بنا دی۔ کمپیوٹر کے ذریعہ پشتو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی آگے حرکت کی اور ڈیجیٹل ساؤنڈ ریکارڈنگ سے لے کر پشتو ڈبنگ تک ہر چیز پر دست رس حاصل کی۔
پشتو سافٹ ویئر کی دنیا میں آج اس مقام پر ہے کہ آپ اسے کسی بھی سافٹ ویئر میں پیش کر سکتے ہیں، کیوں کہ اب اس کے معیار مقرر کر دیے گئے ہیں اور اس کے پاس وہ بنیاد موجود ہے جو اسے آئی ٹی کی دنیا میں مزید آگے لے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔
یہاں تک کہ اب گوگل نے پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو ترجمہ بھی شامل کردیا ہے۔ پشتو شعراء خوشخال خان خٹک، رحمان بابا، غنی خان، قلندرمومند، اجمل خٹک، امیر حمزہ خان شنواری سمیت دیگر معروف شعراء وادباء کا کلام اس وقت انفرادی طور پر مختلف ویب سائٹس پر موجود ہے لیکن سب سے زیادہ کام پشتو کلچر، تاریخ اور خبروں پر ہوا ہے۔
چوں کہ دنیا کو ان چیزوں کی ضرورت تھی اور مارکیٹ میں ان کا رواج تھا اس لیے یہ چیزیں پشتو زبان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے کردی گئی ہیں۔ اس وقت پشتو کی سیکڑوں ویب سائٹس موجود ہیں جو بڑے بڑے خبررساں اور اطلاعاتی اداروں کے توسط سے چل رہی ہیں مثلاً ڈوئچے ویلے، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو آزادی، ڈیوہ ریڈیو، ریڈیو تہران، مشال اور ھیواد وغیرہ کے علاوہ بے شمارپشتوایف ایم ریڈیوز اپنی نشریات پیش کررہے ہیں، کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے ہی پشتو زبان میں جدید ترین آڈیو ویڈیو ایڈیٹنگ کا کام ہو رہا ہے۔ اس وقت ہجے درست کرنے یعنی ’’Spll Check‘‘ کے مسئلے پر کام ہو رہا ہے۔
فی الوقت آواز کی پہچان یعنی ’’Voice Recognition‘‘ اور ’’سیکنر‘‘ پر زیادہ کام نہیں ہوا ہے، البتہ حال ہی میں پشتو سے انگریزی اور انگریزی سے پشتو زبان میں ڈکشنری کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا اور یہ پراجیکٹ بھی نوجوان افغان کمپیوٹر سائنٹسٹ نورمحمد لیوال ہی نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
ان کے بقول ’’پوری دنیا میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے پشتو میں کام ہو رہا ہے، افغانستان، پاکستان، ایران، امریکا، جرمنی، ہندوستان، یورپ ہر جگہ اس حوالے سے انفرادی جدوجہد جاری ہے اور ہر کوئی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے۔ ان کوششوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئی ٹی کلچر میں پشتو زبان و ادب نے اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ ترقی کی منزلیں سر کرے گا۔
اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں تحقیق کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا ہے۔ یعنی کوئی ایسی منظم کوشش جس سے زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکیں بل کہ اکثریتی پختون آبادی کی تو رسائی بھی کمپیوٹر تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ جانتے تک نہیں کہ پشتو زبان میں کتنا کام کیا جا چکا ہے۔ اپنے گذشتہ دور گورنری میں سابق گورنر خیبرپختون خوا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید افتخار حسین شاہ مرحوم نے پشتو اکیڈمی پشاور میں ایک لینگویج لیبارٹری قائم کی اس لیبارٹری کے قیام کا مقصد پشتو زبان سے نابلد افراد کو پشتو زبان سکھانا تھا اور یہ سارا کام کمپیوٹر کے ذریعے سرانجام دینا تھا۔
اس سلسلے میں ایک علیٰحدہ ویب سائٹ بھی تیار کی گئی۔ اس سارے عمل کا مقصد افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر تجارت کے شعبے میں آگے جانے کے لیے کاروباری نقطہ نظر سے پشتو کی ترویج تھی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس لیبارٹری نے ابھی تک اتنا کام نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا کہ چوں کہ یونیورسٹی کے پاس کمپیوٹر کے ماہر کو رکھنے کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے یہ لیبارٹری وہ کام نہ کرسکی، سابق گورنر نے تو جتنا کرنا تھا کردیا باقی کام تو صوبائی حکومت، یونیورسٹی اور محکمۂ تعلیم کا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے اس کو چلائیں۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ سرکاری امداد کے بل بوتے پر یہاں ادارے جس رفتار سے چلتے ہیں اور جو کارکردگی دکھاتے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت یہ دنیا ایک مواصلاتی گاؤں بن چکی ہے اور دیہات کے اپنے بھی کچھ مسائل ہوتے ہیں لیکن اس سارے سلسلے میں اگر کہیں چوٹ پڑی ہے تو وہ ادب پر پڑی ہے۔
اسی ٹیکنالوجی کی بدولت جہاں شعروادب ہتھیلی پر ہے وہیں تخلیق کے چشمے بھی ابلنے لگے ہیں۔ اب ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں اور بہترین ادب تخلیق ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادب تک رسائی آسان ہوچکی ہے، لیکن تحقیق کا وہ کام نہیں ہو رہا ہے جیسا کہ کبھی ہوا کرتا تھا اور صرف پشتو کا نہیں دیگر زبانوں کے ادب کا بھی یہی حال ہے تو پھر کیا کیا جائے؟ یہ اب ادیبوں کو سوچنا ہے شعراء کو سوچنا ہے، پختون قوم پرست سیاسی جماعتوں اور پختون قوم کو سوچنا ہے۔
The post پشتو زبان اور گلوبلائزیشن appeared first on ایکسپریس اردو.