(پہلی قسط)
(زیرنظر مضمون مدرسری سماج کے تصور کے رد میں تحریر کیا گیا ہے۔ اس میں پیش کردہ رائے سے اختلاف کی صورت میں جواب لکھنے والوں کے لیے ایکسپریس سنڈے میگزین کے صفحات حاضر ہیں۔)
دنیا کی معلوم تاریخ کا اندازہ آثارقدیمہ کی کھدائیوں کی مدد سے اب ساڑھے پانچ ہزار تک جا پہنچا ہے۔ اس کی سب سے حیرت انگیز دریافت میسوپوٹیمیا میں ملنے والی دستاویزات ہیں جو مٹی کی الواح پر تحریر کی گئیں اور سومیر و ابلا، اب تک کی دریافت ہونے والی وہ سب سے پرانی تہذیبیں ہیں جنہوں نے اپنا تحریری سرمایہ بھی چھوڑا ہے۔
انسان کی تاریخ کے اس معلوم دور میں کہیں بھی ایسا نشان نہیں پایا جاتا جو “زنان شاہی یا مادر سری یا عورت راج” کی طرف ہلکا سا بھی اشارہ کرتا ہو۔ زنان شاہی یا مادرسری معاشرے کے وجود کے تصور کی بنیاد 1861ء میں “جوہان جیکب بوخوفن “نامی ایک سوئس پروفیسر نے ڈالی۔ اس نے یونانی تاریخ و اساطیر سے وہ تمام روایات کھوج نکالیں جو عورت راج کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔
بعد میں اس”انقلابی نظریے” کی حمایت میں ہربرٹ اسپنسر، لوئیس ہنری مورگن، سر جون لیوبوک، ولیم رابرٹسن وغیرہ جیسے اسکالرز بھی شریک ہوگئے۔ 19 ویں صدی میں کم و بیش 30 سال تک اس نظریے کی خوب اشاعت ہوئی اور سگمنڈ فرائڈ اور کارل مارکس جیسے لوگ بھی اس سے کچھ متاثر ہوئے۔
لیکن پھر کچھ ماہرین بشریات کی سخت تنقید کے سامنے اس نے دم توڑ دیا اور 20 ویں صدی کی شروعات پر ماسوا روسی ماہرین کے کوئی بھی قابل ذکر اسکالر اس کا قائل نہ رہا۔ جب ماہرین بشریات اس کے مزید قائل نہ رہے تو پھر فلسفیوں کی ایک نئی پود بمثل جین ایلن ہیری سن، جارج تھامسن وغیرہ نے 20 ویں صدی عیسوی کے آغاز پر اس کام کا بیٹرا اٹھا لیا۔ کچھ ماہرین آثارقدیمہ جیسے کرافورڈ بھی وقتاً فوقتاً اس تھیوری کو دہراتے رہے اور سر جیمس جارج فریزر نے بھی اس معاملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
ان میں سے زیادہ ترکا ماننا یہ نہیں تھا کہ ماقبل از تاریخ میں عورت کی پوجا کی جاتی تھی لیکن وہ اس بات کے قائل تھے کہ عورت معاشرے کی سربراہ تھی اور یہ ایک مادرپدر آزاد معاشرہ تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آثارقدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والے نسوانی خدوخال کی حامل مورتیوں کو بطور شہادت پیش کیا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ سب نظریات “ماقبل از تاریخ” کو اپنی خیال آرائیوں کی جولان گاہ بنائے ہوئے تھے کیوںکہ “تحریر شدہ تاریخ” سے ملنے والے نتائج ایسے واضح تھے کہ اس بات کا انکار ممکن ہی نہ تھا کہ ایک پدرانہ معاشرے کا انکار کیا جاسکے۔
اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نظریہ بھی گھڑا گیا کہ پانچ ہزار سال پہلے کیوںکہ مردوں کا غلبہ ہوچکا تھا، چناںچہ اس دور سے ہمارا تعلق نہیں! 1960 تا 70 کی دہائی میں جب امریکا و یورپ میں نسوانی تحاریک برپا ہونا شروع ہوئیں تو یہ نظریہ ان کے ہاتھ آگیا۔
اور وہ اس بات پر بھی جم گئیں کہ ماقبل از تاریخ عورت کا صرف رتبہ ہی بڑا نہ تھا بلکہ باقاعدہ اس کی پوجا کی جاتی تھی! یہ تاریخ اور نام کافی طویل ہیں اور مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس کا پورا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ حالیہ زمانے میں اس کی سب سے بڑی داعی “ماریا جیمبوتاس” تھی جو اپنی موت (1921 تا 1994) تک اس نظریے کی اشاعت کرتی رہی۔ اس کا شمار خود بھی ماہرین آثار قدیمہ میں کیا جاتا ہے لیکن اس نے سب سے زیادہ نام “ماقبل از تاریخ میں زنان شاہی اور اس کی پوجا” کے متعلق مختلف نظریات پیش کرکے پیدا کیا۔
یہ نظریہ تاریخی حوالے سے کیا ہے اس پورے منظر نامے کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دنیا کی کئی تہذیبیں تمام کی تمام ایک “زنان شاہی دور” کا حصہ تھیں۔ پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں۔
بچوں کی پیدائش کو پراسرار سمجھا جاتا۔ یہ حد درجہ ضروری بھی تھا اور قابل حسد بھی۔ عورتوں کی اس وجہ سے پوجا کی جاتی تھی، وہ اسی وجہ سے برتر سمجھی جاتیں۔ مرد بستی کے بالکل کناروں پر رہتے تھے، وہ محض ایک قابل تبدیل مزدور تھے اور عورتوں کے مرکز کے عبادت گزار! جو زندگی کا سرچشمہ تھیں۔ پدرانہ نظام کی دریافت، جنسی تعلق صرف بچے جنم دینے کے لیے، معاشرے کے لیے اتنا ہی تباہ کن تھا جتنا آگ کی دریافت یا ایٹم کو پھاڑنے کا راز دریافت کرلینا! رفتہ رفتہ “مردوں کا بچوں کے سرپرست” ہونے کے نظریے نے بھی طاقت پکڑ لی۔
“مادر سری” نظام خانہ بدوش لوگوں کے پے در پے حملوں سے بھی متاثر ہوا۔ کسانوں اور شکاریوں کے درمیان کا جھگڑا درحقیقت مرد غالب تہذبیوں اور عورت غالب تہذیبوں کے درمیان کی لڑائی تھی! نتیجہ کار عورتیں بتدریج اپنی آزادی، پراسراریت اور برتری کھوتی گئیں۔ کم و بیش پانچ ہزار سال تک زنان شاہی کا زمانہ امن اور پیداوار کا زمانہ تھا۔ “یہ وہ تاریخ ہے جو فیمنسٹ کی ایجادکردہ ہے اور جس کا کم و بیش تاریخ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی آثارقدیمہ سے! مختصر الفاظ میں اس نظریے کے اہم نکات یہ ہیں کہ
“تاریخ کے لکھے جانے کا آغاز ہونے سے پہلے، معاشرے کا مرکز و محور عورت تھی جو کہ اپنے “پراسرار پیدائشی عمل” کی وجہ سے برتر اور پوجا کے قابل سمجھی جاتی، کیوںکہ مرد جنسی عمل سے تو واقف تھا لیکن ابھی یہ نہ جانتا تھا کہ بچے کی پیدائش اس عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔
چناںچہ وہ اس عمل کو درختوں پر پھول اور پتے اگنے کے عمل سے تشبیہ دیتا۔ اور جیسے ہی یہ پھل و پھول لے آتے ویسے ہی وہ سمجھتا کہ عورت ہی اس امر پر قادر ہے کہ بچے اکیلے بھی پیدا کرسکے۔ کسی خاص صلاحیت کی بنا پر یہ عورت ہی تھی جس نے سب سے پہلے زراعت کا پیشہ ایجاد کیا اور کھیتی باڑی پر قادر ہوگئی۔
اس کھیتی باڑی کی حدود یہاں تک تھیں کہ وہ زمین میں بیج بو دیتی جو قدرتی ماحول میں فصلیں پیدا کردیتا۔ ہل چلانا، نظام آب پاشی وغیرہ کا وجود ابھی نہیں ہوا تھا۔ عورتیں ہی تھیں جو کے بچوں کو مل کر پالتیں، تمام عورتیں بلاتفریق بچوں کی پرورش میں حصہ لیتیں۔ عورتیں جب چاہتیں کسی مرد کے ساتھ جسمانی تعلق پیدا کرلیتیں۔ مستقل جوڑوں کا رواج نہ تھا۔ عورتوں میں ہم جنس پرستی چنداں معیوب نہ تھی۔ زنا یا دوسری اقسام کی بدکاری کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا۔
مرد چوںکہ پیدائش پر قادر نہیں تھے چناںچہ ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی تھی۔ یہ حالت لاکھوں یا ہزاروں برس قائم رہی۔ پھر آج سے کم و بیش پانچ ہزار سال قبل ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی، اچانک ہی مردوں کو یہ ادراک ہوگیا کہ پیدائش کے عمل میں وہ برابر کے حصے دار ہیں اور اگر وہ عورت کے ساتھ مباشرت نہ کریں تو افزائش نسل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے عورتوں کی حیض کی حالت میں کم زوری کا فائدہ اٹھایا اور پھر اس حیض سے انہوں نے یہ بھی سیکھ لیا کہ دوسرے کا خون بہایا جاسکتا ہے۔
اسی اثنا میں انفرادی طرز پر کھیت یا فصل کو کاشت کرنے کا عمل ختم ہوگیا اور لوگ ہل چلانے اور نہریں کھود کر قابل کاشت زمینوں تک پانی لانے کے قابل ہوگئے، کیوںکہ یہ کام زیادہ مشقت و طاقت کا تقاضا کرتے تھے جو کہ مردوں میں پائی جاتی تھی، چناںچہ وہ ان کاموں پر بھی غلبہ پاگئے۔ مردوں نے جانوروں کو سِدھانا بھی سیکھ لیا اور اس عمل کے دوران وہ پٹائی کے عمل اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہوئے اور بعد میں یہی طریقے انہوں نے مظلوم عورتوں پر بھی استعمال کیے۔
اسی اثنا میں غالباً خانہ بدوش قبائل، جہاں پر جہالت کی وجہ سے مرد غالب تھے ، کے حملوں یا ان کے ساتھ روابط استوار ہوجانے کے بعد ان مادری معاشروں کے مردوں کو ایک دم احساس ہوا کہ مرد ہونے کا کیا مطلب ہے۔ ان آفتوں اور بے انتہا معاشرتی تبدیلیوں کے سبب معاشرے پر ظالم مردوں کا غلبہ ہوگیا اور وحشت و بربریت کے پانچ ہزار سالہ دور کا آغاز ہوگیا۔ گوکہ یہ تبدیلی جو کے کم و بیش پانچ ہزار قبل رونما ہوئی وحشت ناک تھی لیکن ضروری بھی تھی تاکہ دنیا مزید آگے بڑھے۔ اب یہ وحشت و بربریت اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ زنان شاہی کا دور واپس لایا جائے۔ ”
فیمنسٹ کے نزدیک دنیا کی ہر قدیم تہذیب کو پڑھنے کا یہ واحد طریقہ ہے کہ پہلے اس میں کوئی دیوی ماں تلاش کی جائے چاہے آثارقدیمہ یا تاریخ اس کی شہادت نہ دے رہی ہو، کیوںکہ معلوم انسانی تاریخ میں جس کا تحریری سرمایہ بھی ہمارے ہاں موجود ہے ایسا ہونا ناممکن ہے، اس لیے ان کی واحد دلیل عورتوں کی وہ مورتیاں ہیں جن کا تعلق ماقبل از تاریخ سے ہے۔ سید سبط حسن نے اپنی کتاب “ماضی کے مزار ” میں ایسی ہی ایک کوشش کی ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
“ثمریابی کے دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں رہتا تھا۔ ان قبائل کا طرزمعاشرت، پنچایتی یا اشتراکی تھا اور ان میں عورت مرد، چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہ کی جاتی تھی بلکہ پورا قبیلہ ایک وحدت تصور ہوتا تھا۔ البتہ عورت کو مرد پر ایک فوقیت حاصل تھی۔ وہ یہ تھی کہ پھل پھول جمع کرنے علاوہ وہ بچے بھی پیدا کرتی تھی۔ یعنی قبیلے کے وجود اور افزائش کی براہ راست ذمے دار عورت تھی۔ عورت مرد کی مباشرت اور بچے کی ولادت میں جو رشتہ ہے اس وقت تک انسان اس رشتے سے واقف نہ ہوا تھا۔ اس لیے وہ افزائش نسل کو واحد عورت کا ہی کارنامہ سمجھتا تھا۔
آسڑیلیا اور امریکا کے بعض پرانے قبائل اب تک یہی خیال کرتے ہیں۔ حجری دور کے آغاز پر قبیلے کی وحدت تو بدستور برقرار رہی بلکہ اور زیادہ مضبوط ہوگئی، البتہ قبیلے کے اندر عورت کی حیثیت ضمنی ہوگئی۔ یہ دور جنگلی جانوروں کے شکار کا دور تھا، کیوںکہ اب انسان پتھر کے نکیلے ٹکڑوں کو لکڑی سے جوڑ کر کلہاڑے اور بھالے بنانے لگا تھا۔”
پھر موصوف نے جرمو اور حلاف سے ملی مورتیوں کا ذکر کیا ہے اور حیران کن طور پر صرف نسوانی مورتیوں کا فرماتے ہیں:
“عراق میں سب سے پرانی مورتیاں جرمو اور حلاف میں ملی ہیں، یہ مورتیاں اسی زرعی اور اَموی نظام کے دور کی ہیں۔ یہ مورتیاں حاملہ عورتوں کی ہیں اور ان میں پستان اور پیٹرو کا ابھار بہت نمایاں ہے۔ اس نوع کی مورتیاں کریٹ کے جزیرے میں، اناطولیہ کے پلیٹیو پر، دریائے سندھ کی وادی میں اور یونان، مصر اور فونیقیا میں کثرت سے دست یاب ہوئی ہیں۔ دراصل دنیا کا شاید ہی کوئی پرانا خطہ ایسا ہو جہاں سے حاملہ عورت کی مورتیاں نہ ملی ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ بغداد، قاہرہ، استنبول، موہن جودڑو، ایتھنز، روم، پیرس، ماسکو، لندن، نیویارک، برلن، پیکنگ اور ٹوکیو غرض یہ کہ دنیا کے سبھی عجائب گھروں میں حاملہ عورت کی مورتیوں کی بہتات ہے۔”
سید سبط حسن نے یہ کلمات اس وقت سپردقلم کیے جب 70 کی دہائی میں امریکا اور یورپ میں فیمنسٹ تحاریک زور پکڑ رہی تھیں اور قدیم تہذیبوں کو بھی ان کی عینک لگا کر دیکھا جارہا تھا۔ اسی وقت “مادر ارض” کا نظریہ تشکیل پارہا تھا، اور اس نظریے کی تاریخی بنیادیں “معلوم تاریخ” میں نہیں بلکہ “نامعلوم تاریخ” یا جس کو ہم ماقبل از تاریخ بھی کہتے ہیں اس میں رکھی جارہی تھیں۔
ان کے نزدیک وہ تمام قدیم آثار جو ماقبل از تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی وضاحت کرنے کے لیے کوئی تحریری مواد موجود نہیں ہے، وہ اسی “مادرسری یا زنان شاہی” والے معاشرے کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، چاہے یہ یورپ کے غاروں میں ماقبل از تاریخ کے انسانوں کی کھینچی ہوئی کچھ لکیریں ہوں یا بہت ہی قدیم مورتیں جن کے خدوخال کے متعلق یہ گمان پیدا ہوتا ہو کہ یہ نسوانی ہیں۔
نفسیات میں بندے کے لاشعور میں ابھرنے والے خیالات کو جانچنے کے لیے ایک طریقۂ کار یہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ اسے مختلف بے معنی قسم کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ تمہیں ان میں کیا نظر آرہا ہے؟ اور پھر اس سے حاصل ہونے والے جوابات کی مدد سے اس با ت کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کے لاشعور میں کس قسم کے خیالات پرورش پارہے ہیں۔
مثلاً عین ممکن ہے کہ ایک نفسیاتی مریض کو آڑھی ترچھی لکیروں کے درمیان ایک برہنہ دوشیزہ دکھائی دے یا وہ سمجھے کہ ایک شیر منہ کھولے غرا رہا ہے ، ایک ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے یا ان میں سے شیطان جھانک رہا ہے۔ غرض یہ کہ وہ اپنی لاشعوری خواہش کے مطابق ان آڑی ترچھی سطور کا کوئی بھی مطلب اخذ کرسکتا ہے۔ جدید دور میں ایک آرٹ جس کو “تجریدی آرٹ” کہہ کر پکارا جاتا ہے، بڑا مشہور ہے۔
اس میں مصور اپنے تخیل کے مطابق کچھ آڑھے ترچھے نقوش کھینچ دیتا ہے او ر یہ کام اب ناقدین کا ہے کہ وہ اس کا کوئی مفہوم اخذ کریں۔ یہاں تک کے اب اگر کوئی جانور بھی کاغذ یا کینوس پر چند لکیریں لگا دے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آرٹ کی تخلیق کررہا ہے۔ اسی وجہ سے “مصور بندر، مصور ہاتھی”یہاں تک کہ “پیش گو آکٹوپس” کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان تمام مظاہر کے متعلق ایک ہی بات بہت وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہر کوئی ان کے متعلق اظہارخیال کرنے میں مکمل آزاد ہے، کیوںکہ جس کی یہ تخلیق ہیں یا تو وہ موجود نہیں یا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ وضاحت کرسکے کہ خود اس کی اس سے کیا مراد تھی ۔
اور جو وضاحت بھی کوئی پیش کرے گا وہ خود اس کے لاشعور یا تحت الشعور کی نشان دہی ہوگی نہ کے تخلیق کار کی۔ مثلاً فرانس یا یورپ میں ملنے والے وہ غار جن میں کچھ آڑی ترچھی لکیریں دیواروں پر ملی ہیں اور محققین کا اندازہ ہے کہ وہ شاید لاکھوں یا کم و بیش پچاس ہزار سال قبل کے انسانوں نے بنائی تھیں، وہ اگر یہ فیمنسٹ مزاج کے حامل ماہرین آثار قدیمہ دیکھتے ہیں تو ان کو اس میں زیادہ سے زیادہ دو نسوانی اعضاء نظر آتے ہیں۔
1910 ء میں جب ہنری بریویل یا ابی بریویل نامی ایک فرانسیسی ماہرآثار قدیمہ سے، جو ایک عیسائی پادری بھی تھا ، فرانس و یورپ کے دیگر خطوں کے غاروں میں پائی جانے والی ان لکیروں کے بارے میں پوچھا گیا کہ بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ کس چیز کی تصاویر ہیں؟ تو ہنری، جس کی عمر اس وقت محض33 سال ہوگی اور شاید جوانی کے زور کے باوجود مگر پادری ہونے کے ناطے وہ جو جنسی عمل سے محروم رہا ہوگا۔
اس نے ایک ہی لفظ کہا کہ “عورت کی جائے مخصوصہ”! یہ جائے مخصوصہ کا لفظ ان فیمنسٹ کے اذہان سے اس قدر چپک گیا کہ اگر انہیں کہیں بھی قدیم تہذیب کی دو آڑھی ترچھی سطور یا کوئی بے معنی نقش بھی نظر آجائے تو وہ فرمانے لگتے ہیں کہ قدیم انسان نے یا تو عورت بنائی ہے یا اس کی جائے مخصوصہ! یہاں تک کے ان ظریفان نے مختلف قسم کی سطور کو مختلف اقسام کی جائے مخصوصہ کا مظہر بھی قرار دے دیا ہے۔
حد یہ ہے کہ ان غاروں میں جن آڑھی ترچھی سطور سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ مکمل طور مردانہ جنسی اعضاء کا مظہر ہیں ان کو بھی انہوں نے کھینچ تان کو نسوانی عضو ہی ثابت کردیا ہے اور جہاں پر عقل تاویل کرنے سے مکمل جواب دے گئی ہے وہاں پر یہ کہہ دیا ہے کہ اس نقش میں دراصل “دونوں جنسوں کا یعنی مرد اور عورت کا اختلاط پیش کیا گیا ہے۔”
فرانس کے ایک غار سے ملنے والی ایسی ہی آڑی ترچھی لکیروں کے بارے میں ایک فیمنسٹ ظریف نے یہ خیال بھی پیش کیا کہ یہ مادر ارض کا خاکہ ہے، جس کے رحم میں نطفہ دکھایا گیا ہے! یعنی 10 ہزار سال قبل کا انسان اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ عورت کے پیٹ کے اندر جھانک سکے! دراصل اس اصطلاح کا ان کے نزدیک بہت گہرا مقصد ہے کیوںکہ یہ عورت کی بارآوری، پیدائش کو ان کے نزدیک ثابت کرتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ماقبل از تاریخ کا معاشرہ اَموی معاشرہ تھا جہاں پر عورت حکم راں تھی۔
دیواروں پر بنے ہوئے نقش و نگار کے علاوہ اگر ان بھدی چھوٹی مورتیوں کی بات کی جائے جو دنیا کے مختلف علاقوں بالخصوص یورپ سے برآمد ہوئی ہیں اور جن کا سر ، پیر یا کوئی اور عضو موجود نہیں اور نہ ہی اس حصے کو جسے جسم کہا جاسکتا ہے اس پر پستان نما یا ایسی کوئی علامت موجود ہے جس کی وجہ سے اس کو نسوانی قرار دیا جاسکے، ان کو بھی انہوں نے لحظہ ضائع کیے بغیر “مادر ارض” کی مورت قرار دے دیا ہے! مثلاً ماقبل از تاریخ سے ملنے والی ایک چھوٹی سی مورتی جس کے نہ بازو ہیں، نہ ٹانگیں ہیں، نہ گردن ہے بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی بچے یا ایسے بڑے انسان نے جو مورت کو ڈھالنے سے مکمل طور پر واقف نہ تھا، مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیر اکٹھا کرکے اس کی منہ کی جگہ سوراخ بنا دیا ہے اور آنکھوں کی جگہ بھی دو سوراخ کردیے ہیں۔
اس کو بھی ماریا نے “مادر ارض” کی مورت قرار دے دیا ہے۔ ایک مزید لطیفہ یہ بھی موجود ہے کہ ایک ہاتھ سے خم دی ہوئی مٹی کی شکل جس کا حجم محض پونے دو انچ ہے اور اس پر کچھ بھی نمایاں نہیں ہے، محض یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے زمانہ قدیم میں اس کو کوئی صورت دینے کی کوشش کی تھی، اس کے خم زدہ حصے کے متعلق بھی ان کے ہاں یہ خیال آرائی ہے کہ یہ دراصل عورت کے کولہے ہیں جو کے کسی نے بنائے ہیں! ایک اور ظریف کا ان مورتوں کے متعلق جن کا مردانہ عضو واضح حد تک نمایاں ہے یہ ماننا ہے کہ یہ دراصل ایسی مادر ارض کی مورت ہے جو کے مردانہ عضو کی حامل تھی! یوگوسلاویہ کے ایک مقام سے 4800 ق۔م کی کچھ مورتیں برآمد ہوئی ہیں جن کا چہرہ طوطے سا بنا ہوا ہے اور جسمانی ساخت سے کچھ علم نہیں ہوتا کہ یہ مرد ہیں یا عورت لیکن ان کے متعلق بھی ان کا اصرار ہے کہ ہو نہ ہو یا ان کی مذعومہ مادرارض کی ہی مورت ہے! مزید ظرافت آمیز دعویٰ یہ ہے کہ انسانی مورتوں کی بجائے مختلف انسانی اعضاء کی جو مٹی کی بنی ہوئی شبیہات ملی ہیں اور ان میں سے بہت سی کافی حد تک مردانہ اعضاء سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے متعلق بھی یہی دعویٰ ہے کہ یہ دراصل مادر ارض ہی کی مورتیں ہیں! درحقیقت ان میں سے کسی بھی مورت کو حتمی طور پر عورتوں کی مورتیاں قرار نہیں دیا جاسکتا، ماسوا کہ کسی قرینے سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ عورت ہی ہے۔ ان عورتوں کی مورتوں کے ساتھ مردوں کی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں اور ساتھ میں ایسی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں جن کی جنس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا کیوںکہ ان پر مرد یا عورت کے جسمانی اعضا کا کوئی نشان نمایاں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو جانوروں کی مورتیں بھی برآمد ہوئی ہیں۔ یہ تو زمانہ قدیم کے انسان پر ایک الزام ہے کہ وہ مورتوں کو پوجتا بھی ہوگا، خاص طور پر نسوانی خدوخال کی حامل عورتوں کی مورتوں کو۔
ایک اور کمی اس مادرارض کی مورتوں کے نظریے میں یہ ہے کہ دعوے کے مطابق یہ دنیا کے مختلف کونوں سے برآمد ہوئی ہیں اور اس سے یہ نتیجہ انہوں نے خود ہی اخذ کرلیا ہے کہ ہر تہذیب لازماً ان کو پوجتی ہوگی یا یہ ان کے نزدیک کسی جادو ٹونے میں استعمال ہوتی ہوں گی یا عورتوں کا اس معاشرے میں کوئی خاص مقام ہوگا۔ گویا یہ پوری دنیا کے آثار قدیمہ کو بحیثیت مجموعی اپنی دلیل بناتے ہیں اور پھر مختلف معاشروں پر ایک سا قیاس کرتے ہیں۔
مثلاً یورپ سے اگر ان کے خیال کے مطابق ایسی مورتیں دریافت ہوئی ہیں جو کے مادر ارض کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو ان کے نزدیک یہ بات بالکل یقینی ہے کہ مشرق قریب یعنی میسو پوٹیمیا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ایسی مورتیں ملنے کا مطلب بھی یہی ہوگا۔ علم بشریات سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم بھی اس نظریے کو نہیں مان سکتا۔ آج ہالی ووڈ کی فلمیں جو پرانے زمانے کی بت سازی کی مانند ہیں وہ عورت کا ایک کردار دکھاتی ہیں اور عورت کا ایک کردار برصغیر پاک و ہند کی فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے، دونوں جگہوں پر عورتوں کو دکھانے کی مماثلث ہے، لیکن کردار کی تخلیق دونوں کے سماجی شعور کے مطابق ہے۔
آج سے چند ہزار سال بعد اگر یہ دور بھی منوں مٹی تلے جا سوتا ہے اور پھر ہزاروں سال بعد والا بندہ اسے دریافت کرتا ہے تو وہ دونوں مظاہر کو دیکھ کر غالباً یہی کہے کہ وہاں ہر جگہ عورت کو پوجا جاتا تھا!۔ حالاںکہ ہمارے شعور میں دوردور تک اس کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا۔ مشرق میں آج جو عورت کا مقام ہے وہ مغرب میں نہیں ہے۔ دونوں جگہوں پر ان کے اخلاق و اقدار میں فرق ہے جو عورت کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔
ایک تہذیب سے دوسری تہذیب پر مکمل قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے تو یہ بات ہی مشتبہ ہے کہ یہ عورت نما مورتیں پوجے جانے کے لیے بنائی گئیں یا اس لیے بنائی گئیں کہ عورتوں کا مقام معاشرے میں اعلٰی تھا یا یہ پیدائش و بارآوری کا نشان ہیں یا یہ سب حاملہ عورتوں کی مورتیں ہیں۔ نسوانی خدوخال کی زیادہ تر مورتیں جو کے جنوبی فرانس سے لے کر سائیبریا تک کے وسیع و عریض خطے سے ملی ہیں اور ان کی قدامت کا اندازہ 23 سے 21 ہزار ق۔م تک کیا جاتا ہے، ان کے بارے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی حوالے سے “حاملہ” قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور اگر کسی کے متعلق ایسا قیاس کیا بھی جائے تو وہ محض ان کے انتہائی چھوٹے حجم کی وجہ سے ہے جو محض 3 اعشاریہ 7 سینٹی میٹر سے لے کر 4 سینٹی میٹر کا ہے، اور قدیم فن کار اتنے چھوٹے حجم میں کسی مجسمے کو ایک واضح شکل نہ دے سکتا ہوگا۔
آرکیالوجسٹ کا پہلے یہ خیال تھا کہ شاید یہ مورتیں کسی جادوئی رسم میں استعمال ہوتی تھیں لیکن اب یہ نظریہ بھی دم توڑ چکا ہے۔ اور اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے تو کیا زمانہ قدیم میں ہر معاشرے میں عورتوں کا یہی مقام تھا؟ جب کہ ہمارے پاس ایسے تحریری و تصویری ثبوت بھی موجود ہوں جو اس تاثر کی مکمل نفی کرتے ہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان مورتوں کے بارے میں جتنے منہ ہیں اتنی باتیں اور یہ بات پورے تیقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یورپ میں جہاں یہ تحقیقیں و خیال آرائیاں پیسہ کمانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں یہ خیال آرائیاں و نت نئے نظریات کبھی ختم نہ ہوں گے کیوںکہ مغربی محققین خود اس بات کو پسند نہیں کرتے! مستقبل میں امید ہے کہ “تیسری صنف” کے حقوق کی حامل تنظیموں کی نظر بھی اس طرف پڑ جائے اور وہ ان مورتوں کو خاص طور پر جو مردانہ و نسوانی اعضاء سے خالی ہیں یا جن میں دونوں اعضا پائے گئے ہیں، ان کو تیسری صنف قرار دے کر یہ دعویٰ کردیں کہ زمانہ قدیم میں دراصل ان کی پوجا کی جاتی تھی۔ اور یقین رکھیے کہ یورپ کی اس “نام نہاد علمی سوسائٹی” سے اس کو بھی کثرت سے حامی اسکالر میسر آجائیں گے۔
زمانۂ حجری بعید سے تو جو مورتیاں ملی ہیں وہ تو ان کی توقعات پر پورا نہیں اترسکیں لیکن پھر چاتالہویوک ترکی کے مقام پر ہوئی کھدائی نے ان میں نئی توقعات بھر دیں۔ چاتالہویوک ترکی کے صوبے قونیہ میں واقع ایک مقام ہے جہاں پر تقریباً 6000 ق م میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ بلاشبہ یہ مقام فیمنسٹ کے نزدیک ایک “مقدس مقام” کا روپ دھار چکا ہے جس کی زیارت کو وہ بہت افضل خیال کرتے ہیں۔
اس مقام پر 1961 میں پہلی بار برطانوی ماہرآثار قدیمہ جیمز ملارت کی زیر سرکردگی کھدائی شروع ہوئی۔ جیمز کی بیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ کھدائی میں شریک تھی اور دونوں فیمنزم کی اس دوسری لہر کے دور میں جی رہے تھے جس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اب جیمز نے شاید بیوی کو خوش کرنے کے لیے یا اس کا دل رکھنے کے لیے اس خیال کا اظہار کردیا کہ اس مقام پر آج سے کم وبیش آٹھ ہزار سال پہلے جو معاشرہ قائم تھا وہ اَموی معاشرہ تھا۔ اس کو کھدائی کے دوران ایک عورت نما مورتی بھی مل گئی جو ایک کرسی پر جس کے بازو چیتے کی شکل کے تھے جن پر وہ ہاتھ جمائے بیٹھی تھی۔
اس مورت کا ملنا تھا کہ فیمنسٹ حلقوں میں ایک تہلکہ مچ گیا اور یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ پہلی بار مادرارض کی مکمل مورت مل گئی ہے جس کی پوجا بھی کی جاتی تھی۔ اس مورت کی تفصیل یہ تھی کہ اس کا سر و چہرہ مکمل غائب ہے اور یہ کسی انتہائی موٹے انسان کی جو عورت و مرد دونوں ہوسکتا ہے اس کی مورت ہے۔ انٹرنیٹ پر اس کی جو تصویر دست یاب ہے اس میں چہرہ اور بازو حالیہ دور میں دوبارہ بنائے گے ہیں۔ مورت کے پستان نمایاں ہیں اور پیٹ نیچے تک گرا ہوا ہے، نیچے گرے ہوئے پیٹ کی وجہ سے فیمنسٹ ماہرین کا ماننا تھا کہ یہ عورت حاملہ تھی اور کرسی پر جنم دینے کے لیے بیٹھی ہوئی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پستانوں کی وجہ سے پہلی نظر میں اس مورت کے بارے میں عورت ہی ہونے کا گمان غالب آتا ہے، لیکن یہ وہ نظر ہے جس سے یورپی ذہن چیزوں کو دیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھاتا ہے، اگر ایک لحظے کے لیے ہم اسے اس تصور سے کہ یہ ایک عورت ہی کی مورت ہے، باہر آکر دیکھنے کی کوشش کریں تو یہ ایک پہلوان کی شبہیہ نظر آئے گی، جو عظیم الجثہ تھا اور ضعیف العمر ہونے پر اس کے پستان یوں نیچے ڈھلک گئے تھے جیسے پہلوان نما اشخاص کے ڈھلک جاتے ہیں۔ وہ اتنا موٹا ہے کہ اس کے ڈھلکے ہوئے پیٹ نے اس کی ٹانگوں کے درمیانی حصے کو چھپا رکھا ہے۔
ایسے پیٹ کے متعلق محض یہ خیال کرنا کہ یہ کسی حاملہ عورت کا ہی پیٹ ہے حتمی نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص آسانی سے اس کے چہرے و سر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے اور یہ نتیجہ اتنا غلط نہ ہوگا کیوںکہ مورت جس کی منظرکشی کررہی ہے وہ ضرور قبیلے کا ضعیف العمر سردار رہا ہوگا جیسا کہ اس کی کرسی سے ظاہر ہے۔ ایک اور امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ زمانہ قدیم کے ان ابتدائی مجسمہ سازوں کے متعلق ایسا تصور رکھنا کہ یہ اس فن کے مکمل ماہر تھے محض ایک خام خیالی ہے، بلکہ ان مورتوں کے بھدے پن و ابتدائی اشکال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فن ابھی اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا۔
اور ایسی صورت میں یہ ممکنات میں سے ہے کہ ایک فن کار مرد بنانا چاہتا ہو لیکن ناپختگی کی وجہ سے خدوخال عورت کے ابھر آتے ہوں یا عورت بنانا چاہتا ہو اور خدوخال مرد کے ابھر آتے ہوں۔ اس پر مستزاد یہ کے جیمز ملارٹ کو 1965 کے بعد ترکی نے آثارقدیمہ چرانے کے جرم میں ملک بدر کردیا اور اس کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے 240 ملین ڈچ مارک کے بدلے میں نادر مورتیوں کو ترکی سے باہر اسمگل کیا۔ یہ الزام سچ ثابت ہوگیا جو تاریخ میں “دوراک اسکینڈل” کے نام سے معروف ہے۔ اس چوری کے نتیجے میں چاتالہویوک نامی مقام کی کھدائی کا کام 1991 میں نئے ماہرین کی زیرنگرانی شروع ہوا۔ چاتالہویوک کے صرف چار فی صد حصے کی کھدائی ہوئی تھی اور ان نئے ماہرین آثارقدیمہ نے اس نظریے کو مکمل رد کردیا کہ اس مورتی کا کسی بھی قسم کا تعلق اَموی زمانے یا پوجے جانے کے ساتھ ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ کسی ضعیف العمر عورت کی مورت ہے جو شاید ماں تھی یا خاندان میں قابل احترام تھی۔
انہوں نے کئی مردوں سمیت کچھ اور نسوانی خدوخال کی، بچوں کی، جانوروں کی مورتیں بھی دریافت کرلیں، جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگر چاتالہویوک تہذیب کا تعلق پدری معاشرے سے نہیں ہے تو مادری معاشرے سے بھی اس کا کچھ لینا دینا نہیں۔ ان تمام تر حقائق کے باوجود نسوانی تحریک اس مقام کو ایک مقدس مقام سمجھنے پر مصر ہے۔ ترکی کے ایک ظریف سیاحتی ادارے نے مال کمانے کے لیے “مادر ارض کی زیارت” کے نام سے باقاعدہ ایک سیاحتی پروگرام کا اعلان کررکھا ہے اور اس جگہ کے قریب اس مقصد کے لیے ایک ہوٹل اور ایک مندر کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے اور دنیا بھر کی نسوانی تحریکوں کے ارکان اس جگہ کو مقدس جان کر اس کی طرف بغرض “زیارت “جاتے ہیں۔ اسی طرح کے لطائف دنیا کی بہت سی جگہوں پر جاری ہیں۔ (جاری ہے)
The post مادر ارض کا بت! appeared first on ایکسپریس اردو.