اولاد، والدین کے لیے ایک انمول تحفۂ قدرت ہے، بعض اوقات اولاد کی خواہش میں انسان زندگی بھر دعا کرتا رہتا ہے مگر اس کی یہ خواہش بہ مشیت ِالٰہی پوری نہیں ہو تی تو کبھی اس نعمت و رحمت کے حصول میں طویل صبر آزما انتظار کی صعوبتیں بھی اُٹھانا پڑتی ہیں۔
رب العزت کے فضل و کرم سے جب نعمت و رحمت حا صل ہوتی ہے تو ہما را معاشرہ مجموعی طور پر اولاد کی پیدائش پر مسرت کا اظہار کرتا، مبارک باد یں وصول کرتا اور خوشیاں مناتا ہے مگر ہما را عمومی رویہ کچھ عرصے بعد اولاد کے لیے تبدیل ہو جاتا ہے یا پھر لاڈ پیار کی انتہاء کو چھونے لگتا ہے، بے رغبتی اور غیر ضروری لاڈ دونوں رویے ہی انتہائی خطرناک ہیں۔ افسوس! آج کا مسلم معاشرہ اسلامی تہذیب و تربیت کے برخلاف مغربی تہذیب و اطوار کا دلدادہ ہوتا جارہا ہے، بعض والدین اولاد کی پیدائش کی خوشی میں اتنے بے خود ہوجاتے ہیں کہ حدودِ شرع کی پامالی کا کوئی احساس ہی نہیں رکھتے۔
یاد رکھیں! کم سنی میں بچوں کا ذہن سادہ تختی کی مانند ہوتا ہے اس تختی پر جو کچھ تحریر کیا جائے بچے اُسی کو اپناتے ہیں، اولاد کو نہ حد سے زیادہ آزادی دی جائے اور نہ بات بات پر جھڑکنے اور ڈانٹنے کا معمول ہو بل کہ ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں پر اظہار نفرت کے بہ جائے مؤثر حکمت عملی سے ان کی عمر کے لحاظ سے دوستانہ اور مشفقانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ ان کے ساتھ نرمی، خو ش اخلاقی، پیار، محبت، شفقت اور دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت، اطاعت، فرماں برداری اور وفا شعاری کے جذبات اُبھارنا والدین کی اولین ذمے داری ہے۔
اسلام زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا راہ نما ہے جس طرح اولاد کے لیے اسلام نے والدین کی خدمت، ادب، احترام اور فرماں برداری لازمی قراردیا اُسی طرح والدین کے لیے بھی اولاد کی تربیت تعلیماتِ نبویؐ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے اولاد کی رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کے مطابق تربیت کرتے ہوئے مثالی معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
والدین اور خصوصاً والد کو اس امر کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے۔ سید عالمؐ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’ایک دینار جہاد فی سبیل اﷲ میں خرچ کیا جائے اور ایک دینار کسی مسکین کو دیا جائے اور ایک دینار اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا جائے تو ان سب میں اجر و ثواب کے لحاظ سے وہ دینار افضل ہے جو اہل و عیال کے نان و نفقہ پر خرچ کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم)
جب ربّ العزت اپنے کرم و مہربانی سے اولاد کی دولت عطا کرے تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق اس نومولود کے کان میں اذان و اقامت کے ساتھ ساتویں دن اس کے سر کے بال صاف کروا کے ان بالوں کے ہم وزن چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کرنا چاہیے اور بچوں کے اچھے نام رکھنا، عقیقہ کرنا والدین کی دینی ذمے داری ہے۔
حضرت عمرو سعید بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’والد کا اپنی اولاد کو اس سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں کہ اسے اچھے آداب سکھائے۔‘‘ (جامع ترمذی و حاکم)
مفہوم: ’’مسلمانو! اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرنے میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔‘‘ (طبرانی )
نبی کریم ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کی تلقین کرو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور نماز (سے غفلت) پران کو سزا دو، جب وہ دس سال کے ہوجائیں اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بستر الگ کردو۔‘‘ (مشکوٰۃ )
حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں۔‘‘ (ابن النجار)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’عطیہ میں اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو، جس طرح تم خود یہ چاہتے ہو کہ وہ سب تمہارے ساتھ احسان و مہربانی میں عدل کریں۔‘‘ (طبرانی)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اپنی اولاد کا اکرام (عزت) کرو اور انہیں آداب سکھاؤ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مفہوم: ’’جن مسلمانوں کے تین بچے سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے مرگئے، ان (بچوں) کو قیامت کے دن لاکر جنت کے دروازے پرکھڑا کرکے کہا جائے گا: بہشت میں داخل ہوجاؤ۔ وہ کہیں گے: (ہم اس وقت بہشت میں داخل ہو ں گے جب) ہمارے ماں باپ بھی داخل ہوں۔ اس پر ان سے یہ کہا جائے گا اچھا تم بھی بہشت میں داخل ہو اور تمہارے ماں باپ بھی۔‘‘ (طبرانی)
بیٹیوں کی پرورش پر خصوصی انعامات و اکرامات احادیث مبارکہ میں سیّد عالم ﷺ نے ارشاد فرمائی ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو رب العزت اس کے یہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں: اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ (پھر) وہ (فرشتے) لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ کم زور جان ہے، جو ایک کم زور جان سے پیدا ہوئی (ہے) جواس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا، قیامت تک ربّ تعالیٰ کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی۔‘‘ (طبرانی)
ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس عورت کی پے درپے بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو اُس عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے اور طعنے بھی دیے جاتے ہیں۔ ان حضرات کو اِس حدیث مبارکہ کو پڑھ کر اپنے رویے کو درست کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ آ خر ت میں رب العزت کے حضور کیا جواب دیں گے؟
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص بھی بیٹیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کام یاب ہو تو یہ بیٹیاں اس کے لیے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی۔‘‘ (مشکوٰۃ )
اُم المومنین عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں عر ض کی کہ آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں ہم انہیں بوسہ نہیں دیتے حضور نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کروں۔ (صحیح بخاری و مسلم )
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ایک مسکین عورت دو لڑکیوں کو لیکر میرے پاس آئی میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ (اُس عورت نے) ایک ایک (کھجور) لڑکیوں کو دے دی اور ایک (کھجور) کو منہ تک کھانے کے لیے لے گئی۔ (یہاں تک کہ) لڑکیوں نے اُس(عورت) سے (وہ کھجور) مانگی اس نے (کھجور) دو ٹکڑے کرکے دونوں میں تقسیم کردی۔ جب (میں نے) یہ واقعہ حضور ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت واجب کردی اور جہنم سے آزاد کردیا۔‘‘ (صحیح مسلم و مسند امام احمد)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور دیگر اولاد (بیٹوں) کو اس پر ترجیح نہ دے اﷲ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ (سنن ابوداؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’باپ کے ذمے بھی اولاد کے حقوق ہیں جس طرح اولاد کے ذمے باپ کے حقوق ہیں۔‘‘ (ابن النجار)
اولاد کے بالغ ہونے کے بعد والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کی شادیوں کی فکر کریں۔ چناں چہ حدیث شریف میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم رؤف و رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جس کے ہاں اولاد ہو وہ اس کا عمدہ نام رکھے، اسے حسن ادب سکھائے، جب بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کرے ، اگر اولاد بالغ گئی اور والد نے شادی نہ کی اس طرح اس سے کوئی حرام کاری سرزد ہو گئی تو اس کا گناہ اس کے باپ کو بھی ہوگا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
شادی بیاہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فضول خرچی سے بچا جائے اور سنت رسول ﷺ کے مطابق شادی بیاہ کے معاملات انجام دیا جائے۔ چوں کہ عموماً لوگ فضول خرچی کی وجہ سے اپنے بچوں کی شادی کو مؤخر کرتے ہیں گناہوں کا وبال اپنے سر لیتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بندہ جب مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجا تا ہے مگر تین چیزیں (اِن کا ثواب برابر ملتا رہتا ہے ) صدقہ۔ وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور صالح اور نیک اولاد جو ان کے لیے دعاگو رہے۔‘‘(ادب المفرد)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ والدین یقیناً ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کے مستحق ہیں۔ لیکن ان کو اچھا مسلمان بنانا، ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا یہ والدین کے فرائض میں شامل ہے ‘ صرف علم کی روشنی کے ساتھ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا کرنا کہ وہ اساتذہ کا‘ بڑوں کا‘ پڑوسیوں کا‘ رشتے داروں کا غرض یہ کہ ہر طبقے کے لوگوں کا احترام کرتے ہوئے ہوئے اپنے عملی کردار سے والدین کا نام روشن کرسکیں۔
The post تربیتِ اطفال appeared first on ایکسپریس اردو.