اسلام ایک آفاقی دین ہے جس نے رہتی دنیا تک کہ ہر شخص کے لیے زندگی کا ایک مکمل لائحہ عمل دیا ہے، اور دنیا میں بسنے والے ہر جان دار کے حقوق متعین کیے ہیں۔
اسلام نے مرد و عورت کے حقوق کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس نے عورت کو اس کے تمام تر حقوق کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانے جب کہ روم و فارس کو تہذیب و تمدن کا منبع تصور کیا جاتا تھا، وہاں سامانِ تجارت کے مانند عورتیں فروخت کی جاتی تھیں، دین اسلام نے ان تمام جاہلانہ رسوم و رواج کو ختم کرکے عورتوں کو معاشرے میں ایک باعزت مقام عطا کیا، اور انہیں وراثت کا حق دار قرار دے کر قرآن شریف میں اس کی مکمل وضاحت کردی۔
غیر مسلموں میں آج بھی عورتوں کو وراثت کا حق دار نہیں سمجھا جاتا ہے، اسی کے پیشِ نظر باپ اپنی بیٹی کی شادی میں اپنی استطاعت کے بہ قدر اس کی ضروریات زندگی کے سامان تیار کرکے جہیز کی شکل میں دے دیتا ہے اور ہمیشہ کے لیے بری الذمہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ یہ جہیز والی شکل ہر شادی کے لیے جزو لاینفک کی صورت اختیار کرگئی۔
خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بر صغیر میں ہندو و مسلم کے باہمی اختلاط کی بناء پر جہیز کی وبا مسلمانوں میں بھی سرایت کر گئی۔ خدا کے متعین کردہ حقوق کو بھلا کر مسلمان جہیز کی لعنت میں گرفتار ہوگئے۔ جہیز کے نام پر مسلم بچیوں کا استحصال کیا جانے لگا، نیک سیرت صنف نازک کی ایک بڑی تعداد ہر دن جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھتی ہے، متاع تعیش کے حریصوں نے نہ جانے کتنی مسلم بہنوں کو آگ کی نذر کیا ہے، اخبارات اور خبری چینلز کی سرخیاں جہیز کے حریص مکاروں کے ہاتھ معصوم لڑکیوں کے خون سے ہر دن رنگی ہوئی ہوتی ہیں۔
دورِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لیے وہ ناسور بن چکا ہے جس کی گرفت سے خلاصی ممکن نظر نہیں آتی، بل کہ یوں کہا جائے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہے، اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کرانا چاہتا۔ جس طرح عیدالاضحی کے ایام میں بیل بچھڑوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں، بعینہ یہی صورت شادی کے وقت لڑکے کی ہوتی ہے۔ کئی جگہ دعوتیں اڑا کر اور بنت حوا کی تذلیل کرکے محض سامانِ آرائش و زیبائش کے مکمل نہ ہونے کی یا کچھ کم ہونے کی بنا پر مسترد کا لیبل چسپاں کردیا جاتا ہے۔
کیا ہم اس تلخ حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ اب ہمارے سماج میں بھی اس طرح کی بولیاں گو کہ سر عام نہ سہی لیکن اشاروں کنایوں میں ہونے لگی ہیں کہ فلاں لڑکا سول انجینیر ہے اس لیے اس کا مطالبہ پانچ لاکھ روپے اور ایک موٹر سائیکل ہے، فلاں صاحب ڈاکٹر ہیں ان کا مطالبہ پندرہ لاکھ روپے اور چار پہیے والی گاڑی ہے، فلاں صاحب گلف میں رہتے ہیں ان کی خواہش بارہ لاکھ روپے اور چار پہیے والی گاڑی کے ساتھ تمام عیش و آرائش کا سامان ہے۔ اسلام نے نکاح کو جس قدر آسان بنایا تھا مادیت اور دولت کو معبود کا درجہ دینے والوں نے اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے۔
اقبال کے شاہین جو کبھی پہاڑوں، ریگستانوں اور جنگل و بیابان میں شب و روز بسر کرکے دین حنیف کی حفاظت کرتے تھے، آج کاسۂ گدائی لے کر بنت حوا کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دین مستقیم کے احکامات کو ہوا میں اڑا رہے ہیں۔ جس مقدس رشتے کے ذریعے ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن ہے اس کی ابتدا احکام اسلام کو یکسر پس پشت ڈال کر کی جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی صاحب دل اس بُری رسم کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور اپنے اعزہ و اقارب کی شادی میں طریقۂ نبویؐ اختیار کرتے ہیں تو مادیت کے پرستاروں اور دین اسلام کی دھجیاں اڑانے والے ان پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں، فلاں لڑکے میں یہ عیب تھا اس لیے کچھ نہیں لیا، فلاں صاحب بھی معیوب تھے اس لیے مطالبہ نہیں کیا۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی ہو۔‘‘
دین اسلام نے نکاح کو بہت ہی آسان بنایا ہے۔ صحابۂ کرامؓ اور اولیاء اﷲ کی زندگی کے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ کس طرح سادگی سے نکاح کیا کرتے تھے۔ رسول اکرم ﷺ کے چہیتے صحابی اور مدینہ کے مال دار تاجر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا تو مدینے کی گلیوں میں قمقمے نہیں جلائے گئے، کوئی ہاہاکار نہیں مچی، سادگی کا عالم یہ تھا کہ عبدالرحمن بن عوفؓ خود آقا مدنی ﷺ کو بروقت خبر بھی نہ دے سکے۔
جب مسلمان شریعت مطہرہ پر قائم تھے اور نکاح طریقہ نبویؐ پر ہو رہا تھا تو زنا کی لعنت ناپید تھی، روئے زمین پر بسنے والی تمام قوموں میں سب سے زیادہ پاک باز معاشرہ مسلم معاشرہ تھا، مگر افسوس! جب سے جہیز کی لعنت معاشرے میں در آئی ہے اور نکاح دنیا کا سب سے مشکل ترین امر بن گیا ہے، زنا کی وباء عام ہوگئی ہے۔ غربت و افلاس کی زنجیروں میں قید ایک باپ جب بروقت اپنی جوان بیٹی کو نکاح کے مقدس رشتے میں باندھنے سے عاجز ہوجاتا ہے تو یہ ظالم معاشرہ ہر طرح کی الزام تراشیاں شروع کردیتا ہے، کبھی لڑکی کو منحوس قرار دیا جاتا ہے تو کبھی اس پر شناسا کے ساتھ ملنے کا بہتان لگایا جاتا ہے۔
نتیجتاً حوا کی پاک باز بیٹی کے قدم ڈگمگاتے ہیں اور وہ گناہوں کے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ آج مسلم نوجوانوں کی بڑی تعداد جنسی بے راہ روی کی شکار ہوگئی ہے، ہر طرح کی برائیاں سماج میں جنم لے رہی ہیں، بروقت نکاح کے مقدس رشتے سے نہ بندھنے کی وجہ سے بچوں اور بچیوں کا گھر سے فرار ہوکر شادی کرنا عروج پر ہے اور روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔
وہ مسلم قوم جس کے شب و روز کا ہر ایک عمل، جس کی زبان کا ہر ایک قول اور جس کی زندگی کا ہر ایک معمول سنت رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، معاملات سے لے کر عبادات تک اور اخلاق و عادات سے لے کر معاشرت تک ہر شعبہ میں جن کی زندگی رسول اکرم ﷺ کی اتباع کا نمونہ تھی، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے، سونے جاگنے اس طرح کے تمام امور میں بھی سنتوں کا نا صرف خیال رکھتے تھے بل کہ پابندی کے ساتھ ان پر عمل پیرا تھے، آج وہ جاہلانہ رسم و رواج کے گرویدہ بن چکے ہیں۔
رواج اور رسوم کے نام پر سنّت نبویؐ کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ جہیز جیسے ناسور کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنا چکے ہیں، حیرت ہے پھر بھی عشق و محبّت کا دم بھرتے ہیں، خود کو عاشق رسول ﷺ اور محسن انسانیتؐ کا گرویدہ سمجھتے ہیں۔ اتباع رسول ﷺ کے بغیر عشق نبیؐ کا دم بھرنا عشق و عبدیت کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔۔ ؟
یاد رکھیے! اقوام اور ان کی تہذیب اپنے تشخص اور امتیازی تعلیمات سے زندہ رہتی ہیں اور جب کوئی قوم اپنا تشخص پامال کر بیٹھتی ہے تو اسے ماضی کا حصہ بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ کون سا عشق رسولؐ ہے کہ صنف نازک کو خودکشی پر مجبور کرکے سکون محسوس کیا جائے۔
آج ہمارے پیارے ملک پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یہ جہیز کی لعنت عام ہے اور روز کسی نہ کسی بنت حوا کے جلنے، گولی سے مارنے اور زہر لے کر ہلاکت کی خبریں آتی ہیں، کیا یہی عشق رسولؐ ہے کہ وہ نبی مکرم ﷺ جس نے بیٹی کو اتنی اہمیت دی اور اس کے امتی، امت کی بیٹیوں کو زندہ درگور کررہے ہیں۔ خدارا! غریب کی آہ نہ لیں، جہیز کی رسم کو ختم کریں، یہ اسلامی شعار نہیں ہے، یہ محض ہندوانہ رسم ہے، کہیں ہم ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی گویا وہ اسی میں سے ہے‘‘ میں نہ گردانے جائیں۔
طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں
دیکھو! اداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں
The post جہیز کی لعنت appeared first on ایکسپریس اردو.