’سوئی گیس‘ کی آمد کا جشن منایا جائے!
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
سوئی گیس کے بحران، بلکہ یوں کہا جائے کہ سوئی گیس کے ’کم یاب‘ ہونے کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ شہرِ کراچی کے مختلف علاقوں میں سوئی گیس کے اوقات اور اس کی مقدار الگ الگ ہے۔۔۔ کہیں تو یہ مسلسل غائب ہے، تو کہیں رات میں آتی ہے، تو کہیں دن میں کئی بار کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جب کہ کہیں یہ سلسلہ کسی بھی ’نظم‘ سے عاری ہے کہ کسی بھی وقت غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ صارفین کا کہنا ہے کہ ’سوئی سدرن گیس‘ میں شکایت کی جائے، تو دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ اب تو فروری میں (یعنی سردیوں کے بعد) ہی آسکے گی۔۔۔! گویا ہٹ دھرمی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ جیسے گرمیوں میں ’کے الیکٹرک‘ کراچی کے شہریوں پر ستم ڈھاتی ۔
ے، بالکل ویسے ہی اس بار سرد موسم میں میں ’سوئی سدرن گیس‘ (ایس ایس جی) نے ٹھان رکھی ہے کہ وہ ’سردیوں کی ’’کے الیکٹرک‘‘ بن کے شہریوں سے خوب ’’نیک نامی‘‘ کمائے گی۔۔۔! ’کے الیکٹرک‘ والے ’’بے چارے‘‘ تو اکثر وبیش تر اطمینان سے بتائے دیتے تھے کہ بھئی ان کے پَلّے بجلی ہے ہی نہیں۔۔۔ یا یہ کہ فلانے علاقے کے لیے نہیں ہے، اتنے بجے جائے گی یا اتنے بجے تک آئے گی، یا کسی بھی تعطل کی کیا وجہ ہے وغیرہ۔ یہ موئے ’سوئی گیس‘ والے باضابطہ طور پر تو مان کے ہی نہیں دے رہے کہ گیس کی فراہمی میں کوئی مسئلہ یا کوئی کمی وغیرہ ہے۔۔۔ اب مانیں گے ہی نہیں، تو بتائیں گے کیسے کہ بھئی اب شہریوں کو گیس کب دینی ہے اور کب نہیں۔!
شہرِ قائد کے تو بہت سے علاقوں میں تو سوئی گیس کے پائپوں میں گندا پانی آنے کی شکایات بہت زیادہ ہیں، ہمارے ایک عزیز کے محلے میں تو گذشتہ دنوں لوگوں نے باقاعدہ پانی کھنیچنے کی موٹریں لگا کر اپنی گیس کی لائنوں سے گندا پانی نکلوایا، لیکن گیس کا پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔۔۔! دوسری طرف ’سوئی سدرن گیس‘ ہے، جسے اس مسئلے کی تو کوئی پروا نہیں، لیکن 17 جنوری 2022ء کو ایک خبر جاری کرتی ہے، کہ ویٹا چورنگی پر ’تھرڈ پارٹی‘ کے ترقیاتی کاموں کی زد میں آنے سے فلاں جگہ لائن خراب ہوئی اور فلاں فلاں جگہوں پر گیس کی فراہمی متاثر ہوگی، ارے بھئی، تمھاری اپنی گیس کہاں غائب ہو رہی ہے، ڈھنگ سے کبھی اس کا بھی کوئی جواب دے دو۔۔۔!
یہ کوئی مذاق تو نہیں ہے، کراچی جیسے شہر، ملک کے معاشی دارلحکومت کی عام شکایات ہیں، جس پر کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ مختلف علاقوں میں گیس کی لائنوں میں گندے پانی کی شکایات اس سے قبل بھی آتی رہی ہیں، اور اب گیس کے عنقا ہونے کے بعد یہ شکایات تواتر سے سنی جا رہی ہیں۔ اب سوئی گیس والوں سے کون پوچھے کہ یہ کیا معاملہ ہے، کیا جان بوجھ کر شہریوں کو تنگ کرنے کے لیے گیس کی لائنوں میں پانی چھوڑا جا رہا ہے۔۔۔؟ ہمیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ سطح پر ’ایل پی جی‘ مافیا کی چاندی کرانے کا ہی کوئی سلسلہ ہے۔
سوئی گیس کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آپ اِسے پانی اور بجلی کی طرح بہ آسانی ذخیرہ نہیں کر سکتے۔۔۔ ایسے میں منہگی ’ایل پی جی‘ کے سلینڈر مجبوری بن جاتے ہیں۔۔۔ بھئی اگر ہنڈیا ادھ پکی ہے اور یک دم گیس غائب ہوگئی، دودھ جوش ہو رہا ہے اور چولھا ’سوئی سدرن گیس‘ کی بدترین نااہلی دکھانے لگے، تو ایسے میں صورت حال اور بھی زیادہ کوفت کا باعث ہو جاتی ہے۔۔۔ اب کیا ہے کہ لوگ مجبوراً مختلف ’ڈیواسز‘ لگوا کر گیس کھینچ رہے ہیں۔
سنا ہے کہ یہ ’ڈیواس‘ بجلی سے چلتی ہے، یعنی بجلی غائب ہونے کے زمانے میں لوگوں نے اپنے جنریٹر پیٹرول کے بہ جائے سوئی گیس سے چلائے، اور اب سوئی گیس کھینچنے کے لیے بجلی کی مدد لینی پڑ رہی ہے۔۔۔! اب یہ خبر نہیں کہ اگر بجلی نہ ہو تو پھر کیا کریں۔۔۔؟ پہلے کسی طرح بیٹری وغیرہ سے بجلی لیں، اور پھر بجلی سے گیس اور پھر (اگر اتنی گیس میسر ہو جائے تو) اس سے بجلی (بہ ذریعہ جنریٹر)۔۔۔! بس شاید یہی گورکھ دھندا اس ملک میں عام اور غریب آدمی کی تقدیر بن چکا ہے۔
سوئی گیس نہ آنے کے شکایتی فون کے جواب میں یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ اب گیس فروری میں (یعنی سردی کم ہونے پر) ہی آئے گی، کیا ہی اچھا ہو کہ خدا خدا کرکے جنوری بیتا جائے ہے اور فروری کی آمد آمد ہے، تو کیوں ناں حکومتی سطح پر سوئی گیس کی ’’بحالی‘‘ یا ’’آمد‘‘ کا ایک جشن منا لیا جائے، مثبت کی مثبت خبر بھی ہو جائے گی، اور سات سال پرانی تنخواہوں میں بھی زندگی گزار لینے والی ’قوم‘ کے لیے بھی کچھ ’’خوشیوں‘‘ کا اہتمام ہو جائے گا۔
’انگریزی گلی‘ میں اردو کی سج دھج سے آمد
محمد عثمان جامعی
یہ وہ گلیاں ہیں جہاں اردو کا گزر ہو بھی تو سہمی سہمی سی گزرتی ہے، اور ان کے وسیع وعریض محلات کی پیچھے تو اس زبان کا چلن ہے ہی نہیں، ان میں انگریزی راج کرتی ہے اور ٹوٹی پھوٹی اردو اس کی ملازمت۔ لیکن آج کلفٹن کے نام سے موسوم اس علاقے میں ایک نیا منظر طلوع ہوا ہے، یہاں کی ایک دور تک پھیلی عمارت میں اردو بڑی سج دھج اور پوری شان سے قدم رکھا ہے، یوں کہ در ودیوار اس کی دمک سے چمک اٹھے ہیں اور اس کی خوش بو سے فضا مہک اٹھی ہے۔ یہ ذکر ہے گرین وچ یونی ورسٹی میں ہونے والی اردو کانفرنس کا، جو بیتے سال کے جاتے لمحوں میں 30 دسمبر کو منعقد ہوئی۔
کانفرنس کا موضوع تھا ’’ ادب و زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت۔‘‘ اس تقریب کے انعقاد پر یونی ورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ سیما مغل مبارک باد اور داد کی مستحق ہیں، جنھوں نے ذاتی دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کانفرنس کا انعقاد ممکن بنایا۔ ان کے ساتھ اس جامعہ سے وابستہ ڈاکٹر اے کیو مغل، فہام الدین حقی، پروفیسر علی جیلانی اور سید محمد کاشف نے اردو کانفرنس کو کام یاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
کانفرنس کی صدارت جناب ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض سید محمد کاشف نے انجام دیے۔ کانفرنس کے دو حصے تھے، پہلا شاعری کے سحر اور نظم وغزل کے سرور میں ڈوبا تھا اور دوسرا عقل وخرد کی گفتگو لیے۔ تلاوت کلام پاک اور نعت خوانی کے بعد مہمان شعرائے کرام کامی شاہ، سید علی بابا، ہدایت سائر، عمران شمشاد اور علی زبیر نے اپنا خوب صورت کلام پیش کیا، جب کہ یونی ورسٹی کی طالبہ شبانہ ناز اور پروفیسر علی جیلانی نے بھی اپنی شاعری سماعتوں کی نذر کی۔ حاضرین، جن کی اکثریت جامعہ کے طلبہ وطالبات پر مشتمل تھی، شعرا کی دل پذیر شاعری سے بے حد محظوظ ہوئی اور کھل کر داد دی۔ اشعار سنتے ہوئے شرکا کی محویت اور ردعمل قابل دید اور حیران کُن تھا۔ عمران شمشاد کی طویل نظم بھرپور توجہ سے سنا گیا اور اسے خوب داد ملی۔
نہایت تیز رو ڈاکیومینٹری کی طرح لمحوں میں منظر بدلتی یہ دل کش نظم بے شک ایسی ہی توجہ اور داد کی مستحق ہے۔ انگریزی میں زندگی کرتے نوجوان حاضرین کی اس پذیرائی سے یہ حقیقت ایک بار پھر سامنے آئی کہ شاعری کا جادو جگا کر اردو سے دور ہوجانے والی نسل کو اس روپہلی زبان کے عشق میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔
شعری سیشن کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، جس میں ’’اردو ادب اور زبان کی اہمیت، ضرورت اور افادیت‘‘ کے حوالے سے راقم الحروف نے اپنا مضمون پڑھ کر سنایا اور ڈاکٹر صابر علی نے اپنی معروضات پیش کیں۔ کلیدی خطبہ ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی خطے میں موجود ممالک میں بولی جانے والی زبانیں تہذیب و ثقافت کا حصہ ہوتی ہیں۔
1862ء میں ہندوستان میں 560 زبانیں بولی جا رہی تھیں اور ان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان اردو تھی۔ اس وقت ہندوستان کی آبادی 25 کروڑ سے زائد تھی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی کا کہنا تھا کہ جب ہم کسی بھی خطے کی زبانوں کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ایک فطری بات نگاہ میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی ملک یا خطے میں جب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں وہ سب ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں اور اس خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں، تمام زبانیں ایک مرکزی زبان سے جُڑ جاتی ہیں جو اردو ہے۔ آج تک ہم اسے ایک رابطے کی زبان کہتے آئے ہیں، مگر اردو اس خطے کی فطری زبان ہے۔
گرین وچ یونی ورسٹی کے ریسرچ پروفیسر جناب ڈاکٹر اے کیو مغل نے سندھی کی مٹھاس لیے اپنے میں کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک پوری ثقافت ہے۔ اردو لوگوں کو آپس میں جوڑنے والی زبان ہے۔
اردو زبان کے شعر و ادب نے ہمیشہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے۔ ہمیں آج اس ’اردو کانفرنس‘ کے انعقاد پر بے حد خوشی ہے۔ انھوں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام شعرائے کرام نے بہترین کلام پیش کیا، جسے ہماری یونی ورسٹی کے طلبہ و طالبات نے بے حد پسند کیا اور مضامین نگاروں نے بھی اردو ادب اور زبان کی اہمیت، افادیت اور ضرورت پر اپنے موقف کو بہت زبردست انداز میں پیش کیا ہے۔
انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ ہم آئندہ بھی گرین وچ یونی ورسٹی کے پلیٹ فارم پر ادب اور زبان کے فروغ کے پروگرام پیش کرتے رہیں گے۔ گرین وچ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس کانفرنس سے یہ امید بندھی ہے کہ دیگر نجی جامعات بھی قومی زبان کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے دروبام کو اردو سے مہکائیں گی اور اپنے طلبہ کے اذہان کو اردو سے شاداب کریں گی۔
خالی ہاتھ گھر لوٹنا بہت مشکل ہوتا ہے!
محمد علم اللہ، نئی دلی
جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں رات کے ساڑھے تین بج رہے ہیں۔ اکثر راتوں میں کسی خواب کی وجہ سے دیر گئے رات نیند ٹوٹ جاتی ہے، اور میں یک دم ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھتا ہوں، اور کچھ پل کے لیے تو مجھے یہ پتا بھی نہیں چل پاتا کہ میں کہاں اور کس شہر میں ہوں؟ کچھ دیر میں حواس بحال ہوتے ہیں۔ ایسا صرف راتوں میں ہی نہیں، کبھی دوپہر کو بھی تھکان میں سوتے ہوئے بھی ہوتا ہے اور پھر میں بڑی حیرانی سے سامنے رکھی ہوئی میز، کرسی، لیپ ٹاپ، کتابوں کو دیکھتا ہوں، ٹٹولتا ہوں، جیسے یہ سب میرے لیے اجنبی ہوں۔
کئی مرتبہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب واقعی بس بس واہمہ ہے۔ اصل تو میرا اپنا گھر ہے، میری مٹی، میرا گائوں، جہاں میں نے آنکھ کھولی اور امّی کی گود میں کسی چیز کی ضد میں روتے روتے سو گیا۔ بہت سے خیالات جنم لیتے ہیں، میرا یہ گھر نہیں، تو میں یہاں کر کیا رہا ہوں؟ میں اس اجنبی شہر میں، جو کچھ سوچ کر آیا تھا، کیا میں نے وہ سب پا لیا؟ نہیں! اس کے باوجود وہ کیا شے ہے، جو اب تک مجھے یہاں کھینچے ہوئے ہے؟
رات کی نیم خوابیدہ کیفیت میں یہ سارے سوال مجھے بہت پریشان کرتے ہیں۔ شاید گھر سے دور رہنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، خاص کر ان لوگوں کے ساتھ، جو ڈھیر ساری امیدیں اور خواب لے کر کسی دوسرے نگر چلے آتے ہیں اور پھر وہ ان سپنوں کو بہت دن تک پورا نہیں کر پاتے۔۔۔! تب واپس گھر لوٹنے کا خیال آتا ہے، مگر میں ان خیالات کو جھٹک دیتا ہوں۔
اندر سے آواز آتی ہے، تم بے وقوفی کر رہے ہو، کس چیز کا انتظار ہے تمھیں اب؟ جو تمھیں چاہئیے تھا، وہ اب تک نہیں ملا، اور کتنا انتظار کروگے؟ جاؤ، واپس لوٹ جاؤ۔ میں اپنے من میں ان پیچھا کرتی آوازوں کو کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ شاید ایک بار گھر چھوٹ جانے کے بعد بے مراد واپس لوٹنا آسان نہیں ہوتا! ہاں، جو اپنا مقصد پا لیتے ہیں، ان کی واپسی بہت شادمان ہوتی ہے! یوں خالی ہاتھ واپس لوٹنا کون چاہتا ہے بھلا، بس یہی فکریں میرے قدم روک لیتی ہیں، پائوں میں بیڑیاں سی لگ جاتی ہیں۔
برسوں پہلے جب میں سب کچھ چھوڑ کر گھر سے چلا۔ بِچھونا، کپڑے اور امّاں کے ہاتھوں کے بنے ہوئے بسکٹ سے بھرا ہوا بستہ۔۔۔ ساتھ میں بہت سارے لوگوں کا پیار اور ڈھیر ساری یادیں میری ہم سفر ہوئیں۔ میں پہلی بار جب گھر سے نکل رہا تھا، امّاں نے کہا تھا، تم مجھ سے دور نہیں، بلکہ مجھے پانے کے لیے پہلا قدم اٹھا رہے ہو آج۔۔۔! آج سوچتا ہوں، تو لگتا ہے، برسوں پہلے، جو بھی میں اپنے ساتھ لے کر چلا تھا، وہ سبھی کچھ تو بہت پیچھے چھوٹتا چلا گیا ہے۔۔۔ سب کا ساتھ، بڑوں کی شفقت اور چھوٹوں کا پیار۔۔۔ وہ وقت وہ باتیں، سب کچھ کہیں بہت پیچھے چُھوٹ گیا۔۔۔! کبھی میں سوچتا ہوں گھر سے دور میں، آج کتنا خالی سا ہو گیا ہوں۔
نیند میں یہی عہدِگذشتہ اور گائوں کی صدائیں مجھے جھنجھوڑتی ہیں، جیسے اپنی سمت بلا رہی ہوں۔۔۔! مجھے یاد ہے کہ ہاسٹل کی پہلی رات امی سپنے میں آئی تھیں، کبھی گال چومتیں تو کبھی پیشانی پر بوسہ دیتیں، کہتیں ’’میں اس چھوٹے سے بچے کو اکیلے کیسے باہر بھیج سکتی ہوں، اسی وقت میری آنکھ کھل گئی تھی، اور میں اکیلے بیٹھ کر بہت رویا تھا۔
کل رات بھی دیکھا کہ کڑاکے کی سردی کے باوجود کھڑکی کے پٹ وا ہیں، ایسا محسوس ہوا کہ امی اس دریچے کے پاس کھڑی ہوئی ہیں، اور نہ جانے کیوں رو رہی ہیں۔ کیا وہ بھی گھر میں مجھے یاد کر رہی ہیں؟ بس مجھے اتنا پتا تھا یہ سب ایک خواب ہے، اسی لیے میں بستر پر دیر تکآنکھیں بند کیے لیٹے رہا کہ آنکھیں کھولیں، تو یہ منظر غائب ہو جائے گا۔ مجھے محسوس ہوا کہ امی کمرے میں موجود ہیں، مگر ایک ان جانا خوف تھا کہ آنکھ کھلے گی، تو امی غائب ہو جائیں گی اور اسی ڈر سے میں اپنی آنکھیں نہیں کھول رہا تھا۔ امی کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی، لیکن اسے ٹوٹنا تھا، سو وہ ٹوٹ گیا۔ میری آنکھ نہ چاہتے ہوئے بھی کھل گئی اور سب کچھ تحلیل ہوگیا۔
پتا نہیں کیوں مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا ہے، جب میں اکیلے گھر میں ہوتا ہوں، کبھی نانی میرے پاس آ جاتی ہیں۔ مجھ سے باتیں کرتی ہیں، ایک پرچھائیں کی طرح میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شاید اکیلے رہنے پر شاید یہ یادیں پرچھائیں بن کر ہمارے پیچھے پیچھے چلنے لگتی ہیں، لیکن جب میرے ساتھ اور کوئی ہو تو یہ ’پرچھائی‘ بھی پرے ہوئی جاتی ہے۔
کتنی ہی بار چشم تصور سے سیڑھیوں پر، بالکنی پر کھڑے ہو کر میں نے اُن سے باتیں کی ہیں، بس گائوں سے بہت دور ایک اجنبی شہر میں ان کا میرے پاس ہونے کا احساس بہت قیمتی ہوتا ہے۔ شاید یہ خواب اور یہ تصورات میرے لاشعور میں دبی ہوئی اپنی جنم بھومی سے ہجرکا نتیجہ ہیں، کاش، میں جلدی سے کام یاب ہو کر گھر لوٹوں، اور دیوانہ وار اپنی ماں سے لپٹ جائوں، کہ ’دیکھ ماں، میں کچھ دیر سے ہی سہی، مگر جیت کر آ ہی گیا ہوں۔۔۔! ماں، میں اب آگیا ہوں، ہمیشہ کے لیے آپ کے پاس۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.