دنیا کی یہ پہلی ٹائم مشین آپ کو ماضی یا مستقبل کی سیر تو نہیں کراسکتی لیکن یہ ہماری کائنات کہ جس کا ہم جزُوِلازم ہیں، اس کی پیدائش و تشکیل کے وقت کی کہانی کو بے نقاب کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے جسے جدیدترین ٹیکنالوجیز سے مزین کیا گیا ہے۔
جیمز ویب خلائی ٹیلی اسکوپ(Jame Webb Space Telescope) اب تک کی تمام خلائی دوربینوں کے مقابلے میں سب سے بڑی اور عملی لحاظ سے کارکردگی میں اپنی مثال آپ ہوگی اسی لیے ماہرفلکیات اور سائنس داں اس دوربین سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
بالآخر متعدد بار تاخیر اور التوا میں رہنے کے بعد آج تک امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کی تاریخ کی سب سے بڑی اور طاقت ور خلائی دوربین جیمزویب کو اس کی اصل منزل پر روانہ کیا جارہا ہے، تیکنیکی طور پر یہ ناسا کا ایک مشکل ہدف رہا ہے۔ اس بین الاقوامی خلائی منصوبے میں یورپی خلائی ایجنسی(ESA) اور کینڈین خلائی ایجنسی(CSA) نے ناسا کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
کائنات کی ابتدا اور اس کی ساخت کے بارے میں فلکیات داں اب تک بہت زیادہ علم نہیں رکھتے ہیں کہ اس کی پیدائش اور بننے کا عمل کیسے اور کیوںکر ہوا تھا؟ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کو اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے کہ یہ دریافت کرے کہ کائنات کے ابتدائی وقت عظیم دھماکے فوری بعد کس طرح وجود میں آگئی اور اس تشکیل کے عمل میں سب سے پہلے بننے والے ستاروں اور کہکشاؤں کے بارے میں راز اگلوا سکے۔
درحقیقت یہ خلائی دوربین ماضی میں جاکر دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسے لیے اسے دنیا کی پہلی ٹائم مشین سے تعبیر کیا جارہا ہے جس کا کہ اہم ترین ٹول یا خوبی اس کا غیرمرئی شعاعوں سے مشاہدہ کرانا ہے جنہیں ’’انفراریڈ‘‘ (زیریں سرخ ) شعاعیں کہا جاتا ہے۔
یہ کائنات میں دوسرے ستاروں سے جُڑے ایسکوسیّارے (Exoplanets) کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرے گی اور یہ ان پر ممکنہ زندگی کا کھوج لگاسکتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسرے ستاروں کے نظام کے سیّاروں کو ایسکوسیّارے کہتے ہیں۔ جیمزویب ٹیلی اسکوپ کو 22 دسمبر 2021 ء میں خلاء میں روانہ کیا جارہا ہے جو اب تک کی سب سے انقلابی ٹیلی اسکوپ ہبل کی جگہ لے گی۔
ریڈیشن کے دھماکے کے بعد روشنی سیکڑوں لاکھوں سالوں میں پہنچتی ہے، دُوردھند سے آنے والی یہ ابتدائی روشنی نہایت دھیمی اور لاغر ہوجاتی ہے۔ جیمز ویب کو ٹائم مشین اس لیے کہا گیا ہے کہ اگر ایک جسم دس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے اس کا مطلب ہے کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے وہ ہماری زمین پر دس ہزار سال بعد پہنچ پائے گی۔
یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ماضی میں کوئی واقعہ کائنات میں رونما ہوتا ہے تو وہ ہم تک اس کی خبر ہزاروں لاکھوں سال بعد پہنچتی ہے۔ کائنات کو سمجھنے کے لیے روشنی کی ماہیت کو جاننا ضروری ہے جہاں سب اہم شے روشنی ہے جس کے کہ ماضی میں کئی نظریات رہے ہیں۔ روشنی کی لہروں کی نوعیت مقناطیسی لہروں کی مانند ہیںجو تیزی سے حرکت پذیر برقی مقناطیسی میدانوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور اس کے لیے کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ سب سے مستند روشنی کا نظریہ ہے جسے بیسویں صدی میں سائنس دان میکس پلان نے دیا تھا جسے ’’نظریہ کوانٹم‘‘ سے جانا جاتا ہے۔
اس کے مطابق روشنی انفرادی پیکٹوں کی توانائی کی شکل میں خارج و جذب ہوتی ہے جنہیں ’’فوٹان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر فوٹان کی اپنی توانائی ہے جو کہ روشنی کی فریکوئنسی (تعدد) پر انحصار کرتی ہے۔ یہ دہر ی خاصیت کی حامل ہے، ذراتی اور لہروں پر مشتمل۔ سفید روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہے، روشنی کے ان سات رنگوں کے ظاہر ہونے کو روشنی کا انتشار یا ’’اسپیکٹرم آف لائیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اٹھارویں صدی میں سر ولیم ہرسچل نے معلوم کرلیا کہ روشنی اور حرارت کے مابین کیا تعلق جڑا ہوا ہے؟ جس کے مطابق سرخ رنگ کے اسپیکٹرم کے مقابلے میں سفید روشنی کے اسپیکٹرم سے زیادہ گرم ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ سرپرائز طور پر جان گئے تھے جب وہ ایک روشنی کا علاقہ جسے وہ دیکھ پائے تھے، اگلا سرخ زیادہ گرم تھا، پہلے کے سرخ کے مقابلے میں، انہوں نے اسے انفراریڈ یا ’’زیریں سرخ‘‘ کا نام دیا۔ یہ نظر نہ آنے والی تاب کار شعاع ہے۔ چناںچہ اسی لیے ستاروں کی روشنی کے اسپیکٹرمز یا مختلف رنگوں کی پٹی میں تقسیم ہونے کو ’’ستاروں کے فنگرپرنٹس‘‘ بھی کہا جاتاہے۔ برقی مقناطیسی یا ریڈیائی لہروں کی رفتار روشنی کے مساوی ہے۔
ڈوپلر شفٹ یا ریڈ شفٹ کیا ہے؟
کائنات میں روشنی جیسے سفر کرتی ہے، مثال کے طور پراگر یہ کار کی شکل میں آرہی ہو تو اس کی روشنی زیادہ ہوگی، بہ نسبت اس کار کے جو دور جارہی ہے۔ لیکن یہاں واضع ترین فرق آواز کی تبدیلی ’’ڈوپلر ایفکٹ‘‘ کے مقابلے میں روشنی کا ہے جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ سے سفر کرتی ہے جو کائنات میں سب سے تیز رفتار مانی جاتی ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ کار روشنی کی رفتار سے محوسفر ہے، آپ کے نزدیک آرہی ہو تو اس کی روشنی کا رنگ نیلا ہوگا اور دور جاتی ہوئی کار کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے، یہ مخصوص مقدار سے گھٹتی بڑھتی ہے۔
قریب کی کمپریس لہریں ’’بلیوشفٹ‘‘ چھوٹی طول موج کی، اور پھیلی ہوئی روشنی کی لہریں ’’سرخ رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں جسے ’’ریڈشفٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یہی روشنی کا ڈوپلر ایفکٹ ہے۔ اس ایفکٹ کی بدولت کائنات کی پیدائش سے متعلق ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کی تصدیق امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے کردی تھی۔ اس کے تجربات کا محاصل یہ تھا کہ کہکشاہوں کے سرخ رنگ کا مطلب ہے کہ وہ ’’ ہم سے دور بھاگ رہی ہیں!‘‘ اور دھندلی ہونے لگتی ہیں۔
اسی لیے سرخ ہوجاتی ہیں جو کہ ’’ریڈشفٹ‘‘ کی وجہ سے ہوتا ہے یہ روشنی کا ڈوپلر ایفکٹ کائنات کو سمجھنے کی چابی ہے۔ یہ انفراریڈ روشنی دراصل لمبی طول موج یا فریکونسی کی لہریں ہیں۔ طول موج (Wave Length) دو حرکت پذیر لہروں کے 360 ڈگری کے سائیکل مکمل ہونے کے عمل کو طول موج یا ویولینتھ کہا جاتا ہے۔ یہ کسی لہر کے دو قریبی نشیب و فراز کا درمیانی فاصلہ ہے۔
کسی واسطے میں ایک ذرہ ایک خاص وقت میں ایک ارتعاش مکمل کرتا ہے اور جو فاصلہ طے کرتا ہے وہ طول موج کہلاتی ہے۔ اسی اصول پر مختلف ریڈیو فریکوئنسیوں کو بینڈ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سیٹلائیٹ کی ترقی کے ساتھ ہی ریڈیو آسٹرنومی کا آغاز ہوگیا اور یہ ریڈیو ٹیلی اسکوپ فلکیات کا جدید انسٹرومنٹس ہیں۔ خلائی دوربین ہبل خلاء میں ایک مصنوعی سیارے کی طرح زمینی مدار میں گھوم رہی ہے۔
اسے بگ بینگ نظریے کو عملی ثابت کرنے والے فلکیات داں ایڈون ہبل کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ اب تک کی سب سے مہنگی دوربین تھی جس کا بجٹ سات ملین ڈالر تھا، اسے بنانے میں دس سال لگے۔25 اپریل 1990 ء کو خلاء کے حوالے کی گئی،1993 ء میں اس میں خرابی پید ا ہوئی جسے درست کردیا گیا تھا جب کہ متعدد بار اس کی کارکردگی میں خلل واقع ہوئے ہیں۔
ہبل نے اپنی اکتیس سالہ خدمات سے خلاء اور کائنات سے متعلق قدیم تصورات کو یکسر رد یا تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور حیرت انگیز انکشافات کرچکی ہے۔1997 ء میں اسے اپ ڈیٹ کیا گیا تھا اور یہ ہزارہا ہزار تصاویر زمینی اسٹیشن کو بھیج چکی ہے۔ پہلے ہبل کو بھی ٹائم مشین سے تشبیہ دی جاچکی ہے لیکن حالیہ جیمز ویب اپنی زیادہ افادیت کی بناء پر ٹائم مشین کہلانے کی حقدار ہے۔
جدید جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے بارے میں دنیا کے ماہرین فلکیات اور ماہر فزکس کیا رائے رکھتے اور ان کی توقعات کیا کیا ہیں؟ ناسا کے “Two Exoplanet Obseravations”کی ٹیم کے مشترکہ قائد ماہرفلکیات جیکو بین (Jaco Bean) ہیں جن کا تعلق شگاگو یونیورسٹی سے ہے۔ مسٹربین کہتے ہیں کہ زیادہ ایکسو سیّاروں کے ماہرین اس نظریے پر قائم ہیں کہ دنیا میں ان کی ساخت سنگی ہے اور اس دوربین سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ سیّارے کس طرح وجود میں آئے؟ ایکسو سیارے کی پہلی ممکنہ شہادت 1917 ء میں ملی تھی جس کی تصدیق نہ ہوسکی۔
جب کہ 1988 ء میں دیکھے جانے والے ایک سیارے کا پتا چلا تھا جس کی تصدیق 1992 ء میں ہوگئی اور یکم دسمبر 2021 تک 4,878 ایسے ایکسٹراسولر سیّاروں کا پتا لگایا گیا جن میں 3,604 کی تصدیق ہوچکی ہے ان میں ایسے 807 ستاروں کے نظام ہیں جن میں کم ازکم ایک سیارہ موجود ہے۔ مونٹریال یونیورسٹی کے ماہرآسٹروفزکسBjorn Benneke نے ایسے ہی دُوردراز کے سیّاروں پر مہارت حاصل کی ہے۔
کہتے ہیں کہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں سیّاروں کے بارے میں تو کم ازکم سیّاروں کی سب سے مشترک قسم کو سمجھنا ہوگا۔ اس طرح کی ساخت نیپچون سے مشابہتی ہے جس کے ایٹمسفئیر میں فریب دینے والی آمیزش کے باعث اکثر مشاہدوں کے وقت وہ تاریکی میں غیرواضع اور دھندلے بادلوں جیسے دکھائی دیتے ہیں جب کہ حقیقت میں تمام نظام شمسی پر مشتمل سیّاروں کے ایٹمسفئیر دُھند کے بادل ہیں یہ بادلوں سے ملتے جلتے ہیں لیکن یہ الٹروائیلٹ روشنی یا تاب کاری ان سے ٹکراتی ہے تو واضح ہوجاتے ہیں۔ فلکیات دانوں کو اس دوربین سے مواقع فراہم ہوں گے کہ سیّاراتی کرہ فضائی اور اس کی گہرائی کا جائز ہ لے سکیں وہ اس لیے کہ جب لمبی طول موج کی لہروں سے بادل اور دھند کو دیکھنے پر عمومی طور پر بہت زیادہ صاف شفاف نظر آتا ہے۔
مسٹرتبینیکے کہتے ہیں کہ ٹیلی اسکوپ کو خصوصی طور پر انفراریڈ سے مزّین کیا گیا ہے اور یہ اجنبی دنیائوں کے سیّاراتی فلکیات میں پاورفل ٹول ہے۔ دنیا کی پہلی خلاء آئیکونی دوربین ہبل نے تصاویر کے ایک وسیع خزانے سے تین عشروں تک دیدار کرایا ہے اب جیمزویب اس سے کئی گنا بڑی اور سوگنا زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی حامل دوربین ہوگی۔ اس کے ذریعے ان دُوردراز سیّاروں کی باقاعدہ درجۂ حرارت کی پیمائش بھی ہوسکے گی۔ سیّارے کے درجۂ حرارت اور گرمی کا مطالعہ بھی کیا جائے گا کہ کیسے ایٹمسفئیر اسے ایک سرے سے دوسرے تک منتقل کرتا ہے۔
جیمز ویب ایک مکمل گیم چینجر کی طرح ہے۔ چرس ایمپی Chirs Impey) (بھی ایک ماہرفلکیات ہیں جو کہ یورنیورسٹی آف ایروزونا سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطالعے کا خاص ترین موضوع ’’کاسمولوجی‘‘ ہے، کاسمولوجی ایسا علم ہے جس میں کائنات کی ابتدا اور اس کی تشکیل کے بارے میں آگاہی ملتی ہے۔ چرس پچھلے تیس سالوں سے کہکشاہوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں، اس خلائی دوربین کے حوالے سے ان کا جوش ناقابل بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایسے لاجواب سوالات جو کہ کائنات سے جڑے ہیںکہ بگ بینگ کے فوراً بعد ابتدائی سالوں میں کیسے ستارے اور کہکشاہیں وجود میں آئیں اور انہوں نے اپنا روپ دھار لیا، وہ کہتے ہیں کہ وہ پہلی پہل کہکشائیں کون سی تھیں اور کیوں؟ انہیں امید ہے کہ جلد ہی یہ ظاہر ہوجائے گا کہ اس کہانی کے بارے میں کہ کیسے کہکشاہوں نے اپنی شروعات کیں کیونکہ جیمز ویب کو اسی خاص بڑے مقصد کے لیے تخلیق میں لایا گیا ہے۔
کائنات کا سیاہ دور:
یہ ایک تسلیم شدہ شہادت ہے کہ کائنات نے بگ بینگ سے آغاز کیا تھا۔ جب 13.8 سال پہلے عظیم دھماکا ہوا، اس وقت وہ انتہائی گرم بہت گاڑھے محلول کی شکل میں تھی، کائنات نے دھماکے ساتھ ہی فوری طور پر پھیلنا شروع کردیا۔ اس کے اطراف سیکڑوں کھربوں میل علاقے میں اوسط درجۂ حرارت 18 ارب فارن ہیٹ یا دس کھرب سینٹی گریڈ تھا۔ دھماکے کے چار لاکھ سالوں بعد تب درجہ حرارت میں کمی ہوئی تو 5500 فارن ہیٹ یا 3,000 سینٹی گریڈ پر آگئی۔ اگر اس موقع پر وہاں کوئی دیکھنے والا موجود ہوتا تو اسے کائنات اس نکتے پر ولولہ انگیز سادہ کے ساتھ ایک عفریتی سرخ رنگ کے گرم لیمپ (چراغ) کی مانند دکھائی دیتی۔ اس دوران خلاء میں توانائی کے پارٹیکلز کی تخلیق ہوئی۔
ریڈیشن یا ہائیڈروجن اور ہیلیم، جب وہاں کوئی نہ تھا کائناتی اسٹریکچر کائناتی پھیلائو بن گیا۔ بڑا اور ٹھنڈے رقیق مادّے کا محلول باہر خارج ہوا اور ہر شے سیاہی کی مانند ہوگئی، یہ نقطہ آغاز تھا جسے ماہرین فلکیات ـسیاہ دور (Dark Ages) کہتے ہیں۔ اس تاریک دور کے محلو ل کی طرح رقیق مادہ مکمل طور پر یونی فام نہ تھا۔ کیا اس کی وجہ کشش ثقل ہے؟ ننھے علاقے شروع میں ایک ساتھ انبار کی شکل میں زیادہ ٹھوس بن گئے۔
گانٹھے دار یا لیس دار یہ چھوٹے گیس کے علاقے جو کہ ستاروں کی پیدائش کے لیے بیج یا تخم ریزی تھے اور آخرکار ستاروں کی کہکشاؤں اور تمام اجرامِ فلکی کائنات میں وجود میں آگئے۔ کائنات کے ارتقاء میں ڈارک ایجز کی حالت ایک اہم فیچر تھی۔ تاریک دور اس وقت اختتام پذیر ہوگیا جب گریویٹی یا کشش ثقل نے نمودار ہوکر پہلے ستاروں اور بعد میں کہکشاؤں کو قائم کردیا۔ یہ تھا وہ اہم موڑ جب ممکنہ طور پر کائنات میں پہلی روشنی نمودار ہوگئی۔ اگرچہ فلکیات داں علم رکھتے ہیں کہ لاکھوں برس پہلے عظیم دھماکا ہوا تھا لیکن وہ اس کے بعد کی کہانی سے ناآشنا ہیں کہ ستارے یا کہکشائیں کیوںکر پیدا ہوئیں۔ بعید ترین خلائی فاصلے پر جیمزویب کی تعیناتی کے سبب یہ قدیم کہکشائوں کے مطالعے کے لیے آئیڈیل ٹارگٹ سمجھی جارہی ہے۔
ڈارک ایجز کیسے ختم ہوئے اور وہاں کئی اور دوسرے اہم ترین دریافتیں ہونے کی منتظر ہیں۔ جیمز ویب کا کہنا ہے کہ یہ دوربین کائناتی وجود کی ابتدا کی کہانی کو بے نقاب کرنے کی ایک بڑی مثال بن سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سائنسی سوالات کے جواب مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک گراں قدر کاوش ہے اور فلکیات داں پرجوش ہیں اور بس انتظار کررہے ہیں کہ اگلے برس کب ڈیٹا کی ترسیل شروع ہوتی ہے یا نہیں۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکو پ کو ناسا کے سابق ایڈمنسٹریٹر James Edwin Webb کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے 1961-1969 تک ناسا میں خدمات انجام دیں، جن کا اپالو خلائی پروگرام میں اہم کردار رہا تھا۔ جیمزویب پر ابتدائی کام 1996 ء میں شروع ہوا تھا، لیکن اس منصوے میں بہت زیادہ تعطل یا تاخیر ہوتی رہی جسے 2005 ء میں دوبارہ ڈیزائن کیا گیا۔2007 ء میں اس پر 500 ملین ڈالر امریکی بجٹ کا تخمینہ لگایا گیا اگر چہ ویب 2016 ء میں تیار ہوچکی تھی جب کہ اس کو جانچنے کے ٹیسٹ فیز 2018 ء میں شروع کیے گئے۔ جب یہ دوربین مکمل ہوئی تھی تو اس کی لاگت کا تخمینہ 4 1بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔
مارچ 2018 ء میں ناسا نے اس کی تاریخ میں تبدیلی کی جب ٹیلی اسکو پ کے سن شیلڈز میں ایک نقص کی درستی کرنی پڑی جو ایک پارٹیکل کی تعیناتی کے وقت سامنے آیا۔ جون2018 ء میں پھر مزید تاخیر ہوگئی جب ایک آزاد تجزیاتی بورڈ کی سفارشات کو مدنظر رکھنا پڑا اور اس کا انتظام اور ٹیسٹنگ معطل کردی گئیں۔ مارچ 2020 ء میں عالمی وبا کووڈ۔ 19 نے اس منصوبے کو بھی متاثر کیا دوبارہ آغاز اور لائونچنگ کے 31 اکتوبر 2021 ء کا وقت تھا لیکن یہاں اب راکٹ ایرانے فائیو کی خرابی نے سر اٹھایا۔ اب کی بار روانگی کی نئی اور ممکنہ حتمی تاریخ 22 دسمبر 2021 ء مقر ر ہے۔ یعنی یہ سطور شایع ہونے تک یہ روانگی ہوچکی ہوگی۔
جیمز ویب کو ہبل دوربین کو زمین کے قریبی مدار کے برعکس 1.5 ملین کلومیٹر یا ایک ملین میل زمین سے دور سورج کے اطراف مدار میں رکھا جائے گا یہ لمبے رقبے (Largerange) کا دوسرا پوائنٹ ہے جسے L2 کہا جاتا ہے اور یہ ـ’ہالو مدار‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس مقام پر ٹیلی اسکوپ زمین سے منسلک رہتے ہوئے سورج کے اطراف سفر کرے گی۔ ہبل سے 15 گنا زیادہ کشادہ ہے اپنے دیکھنے کی صلاحیت کے لحاظ سے۔ 18 آئینوں(Hegagonal Miror) کو چھے رخوں والے انفرادی آئینوں کو باہم ملاکر بنائی گئی ہے جو چھے گنا زیادہ روشنی وصول کرسکتی ہے جو دیکھنے میں شہد کی مکھی کے شہد جمع کرنے والے خانوں یا آئیکونی فٹ بال کے چھے رخی جوڑ جیسے ہیں۔
اسے سونے اور بریلینیم(Beryllium) پلیٹوں کے ملاپ سے تشکیل دیا گیا ہے۔ اس دوربین کے بڑے آئینے کا قطر 6.5 میٹر یا 21 فٹ ہے۔ اس سے پہلے ہبل دوربین کے آئینے کا قطر 2.4 رکھا گیا تھا۔ دوربین کو وسیع سورج کی شیلڈز (Sunshields) سے مسلح کیا گیا ہے جنہیں سلیکان اور ایلومنیم سے کوٹڈ کیا گیا ہے جو اُسے سورج، زمین اور چاند سے منعکس ہونے والی روشنی اور تاب کار شعاعوں اور گرمی سے تحفظ فراہم کرے گی۔ اسے بنانے والی کمپنیا ں ہیں Northtop Grumman اور Ball Aerospace & Technologies ۔ ناسا نے اسے یورپ اور کینڈ ا کے تعاون سے تیار کیا ہے اور یہ سالوں تک اپنا کا م انجام دے سکے گی۔ جیمزوب دوربین کا وزن6.500 کلوگرام یا 14.300 پائونڈ ہے۔
دوربین کا قطر66.22×46.46فٹ ہے۔ دوربین کو مدار میں پہنچانے کی ذمے داری راکٹ کمپنی “Ariane Space” ہے جو اپنے Ariane5 راکٹ کی مدد سے “Centre Spatial Guyanais ELA-3″لائونچنگ سائیٹ سے خلاء میں پہنچائی جارہی ہے۔ ویب ٹیلی اسکوپ دنیا کی آئندہ نسل کی رصدگاہ بھی ہے اور ہبل دوربین کی جانشین بھی، آج تک کی طاقت ور ترین دوربین۔ خلاء کے لیے پہلی مکمل اسمبلڈ کی گئی رصد گاہ یا آبزرویٹری، کائنات کی کھوج میں نئی سنگ میل ثابت ہوگی۔ اسے زمین پر مشن آپریشن سینٹر، ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ ( STScI) بالٹی مور، میری لینڈ سے کمانڈز دی جائیں گی۔ اس کے تین ڈیب خلائی نیٹ ورک کے مقامات کیلی فورنیا، اسپین اور آسٹریلیا ہیں۔
ناسا کے ڈپٹی ٹیکنیکل پائول گیتھنر(Paul Geithner) کہتے ہیں کہ ویب دوربین انفراریڈ کے ذریعے کائنات کی وہ پہلی روشنی کو دیکھ سکے گی اور وہ بعید ترین
فاصلے تک خلاء میں ایک کائناتی عہد کے دور کو تلاش کرے گی کہ جو ابھی نہیں دیکھا گیا ہے یہ ریڈ شفٹ کی مفید صلاحیت والی لمبی طول موج کی روشنی ہے اور اسپیکٹرم کی یہ روشنی ’انفراریڈ‘ ایک عظیم ونڈو ہے جو کائنات سے اصلیت اگلوائے گی۔ یہ ستاروں کی پہلی جنریشن میں فی الواقع جھانکنے جیسا ہے۔
دھول میں لپٹی نرسیاں، نئے ستاروں اور ان کے سیاراتی نظاموں کی انفارمیشن۔ ایک بلین سال پرانی کائنات کی تاریخ میں جاننے کے لیے کہ بڑھتے ہوئے ریڈی ایشن میں بھاری ستارے پہلے وجود میں آئے یا Reionzation”ـ” کا عمل شروع پہلے شروع ہوا۔ اس ری آئنائزیشن سے مراد تاریک دور کے بعد کائناتی مادّے کا طریقہ کار اور اس کے بارے میں جاننا ہے۔ براہ راست مشاہدہ کہ کیسے کائنات ہائیڈروجن اور ہیلیم کی شکل میں گئی جو کہ کل 80 فی صد حصہ ہے اور کیسے سیاروں کے لیے زندگی کی ممکنہ صورت پیدا ہوتی ہے؟ ویب اسی بارے میں چھان بین کرے گی کہ کائناتی اسٹریکچر کیسے تعمیر ہوا۔ جیمزویب اس کا م کو وہیں سے شروع کرنے جارہی ہے جہاں سے ہبل دوربین نے چھوڑا تھا کیوںکہ یہ کائنات کی آتھا گہرائی میں جھانک سکتی ہے۔
آج کے فلکیات داں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ذریعے زبردست مشاہدوں کا لگائو رکھتے ہیں، اُس مسحور کن اور دل فریب دور کی اہم کائنات کا مطالعہ کرنا اور پتا چلانا کہ جب وہاں وہ پہلی روشنی نمودار ہوئی تھی اور پھر ستارے و کہکشائیں جلواہ افروز ہوگئیں، ایک ناقابل بیان چیلینج کی طرح ہے۔
The post جیمزویب خلائی دوربین appeared first on ایکسپریس اردو.