غزل
ہر گام پہ اک دام ہے اب عارض و لب کا
یہ مرحلہ اِس پیار میں آیا ہے غضب کا
اِک عمر سے تعبیر کو میں ڈھونڈ رہا ہوں
وہ خواب تو مہمان تھا اِک لمحۂ شب کا
کچھ اور نہیں شعر و سخن سے مجھے مقصود
بن جاؤں نمائندہ کسی مہر و بلب کا
نادار پہ آ جاتی ہے پھر گھوم کے یہ بات
یہ وقت کہاں دیکھتا ہے حوصلہ سب کا
کم ظرفوں نے احساس دلایا مجھے جاذبؔ
ورنہ تو میں قائل ہی نہ تھا نام و نسب کا
( اکرم جاذبؔ۔ منڈی بہائُ الدّین)
۔۔۔
غزل
آنکھوں سے اشک تھم گئے، سینوں میں چھپ گئے
دریا بھنور کنارے سفینوں میں چھپ گئے
پھر یوں ہوا کہ ہجر بھی دینے لگا سکوں
ٹوٹے ہوئے مکان مکینوں میں چھپ گئے
بام ِ عروج مجھ پہ عیاں تو ہوا مگر
سب دوست راہ داری کے زینوں میں چھپ گئے
بیٹی کا ایک خواب نہ تعبیر کر سکی
ایام زندگی کے مشینوں میں چھپ گئے
کیسے حسین لوگ تہ ِ خاک جا چکے
کتنے فلک نشین زمینوں میں چھپ گئے
ہم ٹوٹی منگنیوں کی ندامت تھے فوزیہؔ
ہم لوگ انگلیوں کے نگینوں میں چھپ گئے
(فوزیہ شیخ۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
یوں بھی اپنا دل بہلاتا رہتا تھا
ریشم جیسے خواب بناتا رہتا تھا
چھیڑ کے سازِ ہجر میں رات کے پچھلے سمَے
گلیوں میں آواز لگاتا رہتا تھا
اب یہ جانا میرے حق میں بہتر تھا
جو میں اپنا آپ چھپاتا رہتا تھا
اک شہزادی خواب میں ملنے آتی تھی
اور میں اس کو خواب سناتا رہتا تھا
اک درویش پڑوسی تھا اور وہ مجھ کو
شرک نہ کرنا یہ سمجھاتا رہتا تھا
(طارق جاوید۔ کبیر والا)
۔۔۔
غزل
مدارِ ذات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
میں کائنات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
تمہاری زلف اسے باعث طمانت تھی
جو شخص رات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
ابھر رہے تھے اداسی کے منطقی پہلو
میں تجھ ثبات سے آگے کہیں نہیں گیا تھا
حسینی پیاس کو لکھنے کی تھی کسک ورنہ
سخن فرات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
حسین لمس نے زنجیر کھینچ رکھی تھی
میں تیری ذات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
تمہارے حسن کو لکھنے کے شوق میں حارثؔ
قلم! دوات سے آگے کبھی نہیں گیا تھا
(راجہ حارث دھنیال۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
رنگ آنکھوں سے بھی لگتا ہے نیا ہو جیسے
دل کی دھڑکن نے کوئی ساز بُناہو جیسے
اس کی آنکھوں میں تھے پیغام ہزاروں لیکن
تیری خاطر تھا جو روشن وہ جدا ہو جیسے
اب تو بس یاد ہے اتنا ہی تعارف اس سے
کوئی رستے میں اچانک ہی ملا ہو جیسے
اس کی جھپکن میں مرا نام تھا میں چونک گیا
مجھ کو لگتا تھا کہ ہر شے نے سنا ہو جیسے
تم مرا حال سنو گے تو پریشاں ہوگے
اجڑی قبروں سے دیا ٹوٹا ملا ہو جیسے
اس کا میں نام جو دہراؤں بھلا لگتا ہے
نام اس کا یہ فرشتوں نے رکھا ہو جیسے
اب اندھیروں میں بھی چلنے کا میں عادی ہوں شہابؔ
میرے اس دل میں محبت کا دیا ہو جیسے
(شہاب اللہ شہاب۔ منڈا، دیر لوئر)
۔۔۔
غزل
عجب تقدیر چل دیتی ہے چالے زندگانی کے
ہمیشہ کھیل ہوتے ہیں نرالے زندگانی کے
تمہارے بعد گلشن میں یہ کیا رنگِ بہار آیا
متاعِ حسن کو پڑتے ہیں لالے زندگانی کے
سدا جاری رہیں گے سلسلے یوں ہی محبّت کے
ہمارے بعد بھی ہوں گے مقالے زندگانی کے
ہمارا ضبط تو دیکھو کہ ہم مسکائے جاتے ہیں
بدن سے روح تک ورنہ ہیں چھالے زندگانی کے
جگر چھلنی ہے ،دل زخمی، نظر ویران، لب خاموش
بڑے پر سوز ہیں یعنی حوالے زندگانی کے
ابھی اُلجھے ہوئے ہیں ہم ابھی ممکن نہیں طاہرؔ
ملی فرصت تو دیکھیں گے اجالے زندگانی کے
(طاہر ہاشمی۔حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
کسی کی رات کسی کا زمانہ ہوتے ہوئے
’’میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے ‘‘
شبِ طویل کی جانب روانہ ہوتے ہوئے
لپٹ نہ پایا میں اس سے، بہانہ ہوتے ہوئے
اب اس کے کرب کی گہرائی کون ماپ سکے
جدا ہوا ہے جو میرا دِوانہ ہوتے ہوئے
وہ دل میں ہے تو بدن کی طلب میں کیوں پڑنا!
کہ نقشہ کس لئے ڈھونڈوں خزانہ ہوتے ہوئے
کسی طرح کی مصیبت سے کیسے گھبراؤں
خدا کے بعد نبی کا گھرانہ ہوتے ہوئے
تمھارا تیر تو ضائع نہیں ہوا احمدؔ
خوشی ہوئی ہے تمھارا نشانہ ہوتے ہوئے
(احمد نیازی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
اس لیے میرا گھونسلہ نہیں تھا
کہ درختوں سے رابطہ نہیں تھا
بیچ رستے میں چھوڑنے والے
مجھ کو منزل کا کچھ پتہ نہیں تھا
میری تنخواہِ زندگی میں سبھی
صرف آہیں تھیں، قہقہہ نہیں تھا
یہ بچھڑنے کی وجہ تھی اس کے
دینے کو کوئی واسطہ نہیں تھا
پہلے پہلے سبھی مخالف تھے
کیونکہ تنہا تھا، قافلہ نہیں تھا
رب کی جانب میں لوٹا تو عبدی
صرف شکوے تھے،شکریہ نہیں تھا
(عبیداللہ عبدی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
تمہیں یہ غم ہے کہ نعم البدل نہیں ملتا
ہمیں تو اپنے مسائل کا حل نہیں ملتا
تمام وقت کسی اور کام میں گم ہوں
خود اپنے ساتھ بتانے کو پل نہیں ملتا
ہمارے ساتھ نہ جانے معاملہ کیا ہے
جو آج ملتا ہے ہم سے وہ کل نہیں ملتا
یہ لوگ کون سی دنیا کے رہنے والے ہیں
کنویں تو ملتے ہیں بستی میں نل نہیں ملتا
وہ ڈال ہوں جو سبھی پر جھکی ملے گی تمہیں
یہ اور بات کہ ہر اک کو پھل نہیں ملتا
ہوں بادشاہ میں ایسے دیار کا تابشؔ
زمیں تو ملتی ہے جس کو محل نہیں ملتا
(جعفر تابش۔ کشتواڑ،کشمیر)
۔۔۔
غزل
جو بھی دلکش ہیں نظارے سارے
کر دیے نام تمہارے سارے
بے حجابانہ وہ چھت پر آئے
رقص کرتے ہیں ستارے سارے
کون کب ہوگا خفا، جانتے ہیں
دیکھے بھالے ہیں ہمارے سارے
وقت نے کیا مجھے آئینہ کیا
دور ہوتے گئے پیارے سارے
ہر ستم کا لیا بدلہ دل نے
قرض جتنے تھے اتارے سارے
اب بچی ہے تو فقط راکھ ہی راکھ
کبھی شعلے تھے شرارے سارے
آخرِ کار عظیم اس نے ہی
آپ کے کام سدھارے سارے
(عظیم باجوہ۔ سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
اِک تجھے ہی میں نے سمجھا تھا ہزاروں کی طرح
تُو نے لیکن غم نہ بانٹا غم گساروں کی طرح
دکھ تو بس اِس بات کا ہے جو ترے ہوتے ہوئے
زندگی کاٹی ہے میں نے بے سہاروں کی طرح
آج تیری یاد آئی اتنی شدت سے مجھے
اشک آنکھوں سے گرے ہیں آبشاروں کی طرح
ہِجر میں تیرے ہی دلبر اِس قدر پیلا پڑا
ورنہ رنگ و رُوپ میرا تھا اناروں کی طرح
تجھ کو محفل ہے میسر ہو کے مجھ سے دُور بھی
میں اکیلا پِھر رہا ہوں غم کے ماروں کی طرح
رات دن میرے لبوں پر ہے دعا تیرے لئے
تُو ہمیشہ یوں ہی چمکے چاند تاروں کی طرح
درد کا دریا ہے ذلفیؔ میرے دل کے اندروں
جو مسلسل سہہ رہا ہوں میں کناروں کی طرح
(ذوالفقار علی ذُلفی ۔پنڈ داد نخان، جہلم)
۔۔۔
غزل
یہ بد دعا نہیں کہ تمہیں بے وفا ملے
لیکن تمہیں تمہارے کیے کی سزا ملے
چپ چاپ سہہ رہے ہیں زمانے کے رنج و غم
ایسے میں چاہتے ہیں کہ ہم کو خدا ملے
اپنی تمام عمر یونہی کٹ گئی ہے دوست
اس چاہ کے بغیر کہ کچھ تو نیا ملے
ہر بار تجھ تک آتے ہوئے لوٹنا پڑا
اے کاش تیرے شہر کا رستہ کھلا ملے
ممکن نہیں ہے خود سے مرا رابطہ علی
کوشش یہی ہے جلد ہی کوئی پتہ ملے
(ذمران علی۔ گوجرانوالہ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.