اپنی پریکٹس کے د وران میں بہت سارے والدین نے اس پریشانی اور سوال کے ساتھ مجھ سے رجوع کیا کہ بچوں کا ’ اسکرین ٹائم‘ خطر ناک حد تک بڑھ چکا ہے، اسے کیسے کم کیا جائے؟
اس کے جواب میں میرا ان سے سوال یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ بتائیے، بچوں کو اسکرین کا تعارف کس طرح ہوا ؟ کس نے انھیں اسکرین سے جوڑا؟ کس نے انھیں اسکرین کا عادی بنایا ؟ ظاہر ہے کہ میرے سوالات کا جوابات دیتے ہوئے ان والدین کی آنکھیں شرمندگی کے مارے نیچے ہوتی ہیں ۔
موجودہ وقت میں جہاں زندگی میں معیار اور ترقی کی بنیاد ڈیجیٹل گیجٹس کی بہتات سمجھی جاتی ہے، وہاں ایک انسان اس آسانی اور آسائش کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے، اس صورت میں کہ یہ ڈیجیٹل دنیا ہر انسان کے لیے ایک چیلنج اور ایک فتنہ بن چکی ہے، ہر شخص کسی نہ کسی طرح اس کے مضر اثرات سے متاثر ہورہا ہے ، کوئی بھی محفوظ نہیں رہا ۔ پچھلی دہائی تک اسکرینز کا استعمال محتاط حد تک کیا جاتا تھا اور اسے کافی حد تک بے ضرر بھی سمجھا جاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رجحان بڑھتا چلا گیا ۔
اب ہر عمر کے لئے اسکرین کے حوالے سے الگ ہی محاذ کھلا ہوا ہے۔ ہر عمر کے افراد خطر ناک حد تک اس کے مضر اثرات کی زد میں ہیں ، خصوصاً کورونا پھوٹ پڑنے کے بعد دنیا ایک ڈیجیٹل گلوب کا نمونہ بن چکی ہے ۔ ڈیجیٹل ازم نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بہرحال یہ ایک نہایت تفصیل طلب موضوع ہے۔ فی الحال ہم صرف چھوٹی عمر کے بچوں میں اسکرین ایڈکشن کے حوالے سے بات کریں گے ۔ واضح رہے کہ اسکرین ایڈکشن کا مطلب ٹی وی ، موبائل وغیرہ کا بہت زیادہ استعمال ہے ۔ اس کے سبب ایک انسان پر اس کے نہایت خطرناک برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور جسمانی بھی ۔
ایک سروے کے مطابق اسکرین ایڈکشن سے سب سے زیادہ فکر مند وہ باشعور والدین ہیں جو چھوٹی عمر سے اپنے بچوں کو اسکرین کے زیادہ استعمال سے بچانا چاہتے ہیں ۔کم عمری میں اسکرین کے استعمال پر کافی ریسرچ ہو چکی ہے، رسائل اور جرائد میں بھی اس حوالے سے آگاہی کا کافی سامان موجود ہوتا ہے، بہت سے ادارے عام لوگوں کی آگہی کے لیے کام بھی کر رہے ہیں تاکہ نئی نسل کو وسیع پیمانے پہ نقصانات سے بچایا جا سکے۔
اگر ہم مضر اثرات کی بات کریں تو سب سے اولین نکتہ یہ ہے کہ بچوں کے اذہان ابتدائی نشو ونما کے مراحل میں ہوتے ہیں ۔ اس وقت جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے، وہ ذہنی استعداد ، فوکس اور ارتکاز ( کنسنٹریشن ) کی صلاحیت ہے ۔ دوسرا بڑا نقصان جو بچوں میں زیادہ نظر آ رہا ہے وہ ’’ اسپیچ ڈیلے‘‘ ہے ۔ جب تین ، چار سال کے بچوں کے والدین بچے کی بول چال میں کمی کے مسائل کی شکایات لے کر آتے ہیں تو پس پردہ اسکرین کے زیادہ استعمال کا سبب ہی نکلتا ہے ۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس بچے کو جس کمیونیکیشن اور سوشل انٹر ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ نظر کا متاثر ہونا تو آج کل ایک معمول کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر بحیثیت والدین ہمیں یہ اندازہ ہو جائے کہ ہم بچوںکی اور اپنی ’’ آسانی‘‘ کے لیے کتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں تو شاید ہم اپنے بچوں کو ہر قیمت پر ان اسکرین گیجٹس سے دور رکھیں۔ مزید یہ کہ بچوں کے مزاج میں بہت تیزی سے تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ بچوں میں جارحانہ پن ، اینٹی سوشل رویے، ضد ، خودسری اور بورڈم جیسے عمومی مسائل ہر گھر کی کہانی ہیں جب کہ چھوٹی عمر کے بچوں میں آٹزم اور ہائیپر ایکٹیویٹی سنڈروم جیسی ذہنی بیماریوں کا رجحان بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ مسائل کبھی شاذ ہی سننے میں آتے تھے ۔
ہماری آگاہی کے لیے بہت کچھ سامان موجود ہے لیکن بحیثیت والدین ہماری پریشانی وہیں کی وہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو اسکرین کا تعارف دینے والے بھی خود والدین ہی ہوتے ہیں ۔ خاص طور پر مائیں بچوں کو مصروف کرنے کے لئے انھیں اس طرح کی چیزوں کی عادی بناتی ہیں ۔ ایسے میں اس اسکرین ایڈکشن کو کم یا ختم کروانا بھی صرف والدین کی کوششوں ہی سے ممکن ہے ۔ جب تک والدین اس ٹاسک کو پورا کرنے کے لئے عملاً خود کو تیار نہیں کریں گے تب تک کسی بھی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی ۔
بچوں کو اسکرین ایڈکشن سے واپس کیسے لایا جائے ؟ اس حوالے سے بعض عملی اقدامات آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ بحیثیت ایک ماں یہ اقدامات خود میرے لیے بھی فائدہ مند رہے ہیں بلکہ دیگر کئی والدین نے بھی ان عملی کوششوں کے ذریعے کامیابی حاصل کی ہے ۔
سب سے پہلے تو خود یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آپ جتنی سنجیدگی سے اپنے بچوں کی یہ عادت بدلنے کی خواہاں ہیں اس کے لئے آپ کو اسی قدر تیزی سے اپنے کمفرٹ زون سے باہر آنا ہوگا ۔ مصروفیت کا عذر اور وقت نہ ہونے کا بہانہ بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اسکرین کے حوالے کرنے کے مترادف ہے ۔ آپ کو خود اپنے آپ میں مستقل مزاجی اور برداشت پیدا کرنا ہوگی ۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ غصہ اور فرسٹریشن کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ۔ ہماری اور ہمارے بچوں کی اکثر غلط عادتوں کی وجہ والدین کی اپنی غیر مستقل مزاجی ہوتی ہے ۔ اگر ہم مستقل مزاجی کی اچھی عادت اپنا لیں تو بہت سے معاملات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے ۔
اگر ہم خود زیادہ وقت کے لئے اسکرین استعمال کرتے ہیں تو بچوں سے یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ اس کی طرف نہیں جائیں گے یا اس سے باز آجائیںگے ۔ بچے وہی کچھ سیکھتے اور پھر عملاً کر کے دکھاتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں ۔آپ کو بخوبی علم ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے ہر لحاظ سے رول ماڈل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کا اسکرین ٹائم کم سے کم کرنے کے لئے اپنے لیے یہ ہدف طے کریں کہ کس طرح اسکرین کا کم سے کم استعمال کیا جائے ۔ اس کے لئے اپنے آپ کو پابند کرنا ضروری ہے کہ اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے تحت ہی کیا جائے ۔
مثلاً اسکرین کے استعمال کے اوقات مخصوص کیجئے ۔ ترجیح یہ رہے کہ فیملی ٹائم’’ نو اسکرین ‘‘ ٹائم ہو ۔ بچوں کے لیے پورے دن کا معمول مرتب کیجئے ۔ کوشش رہے کہ سیکھنے ، سکھانے کا عمل فزیکل ہو نہ کہ اسکرین کے ذریعے سکھایا جائے ۔ فیملی کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے یہ بات بھی یاد رکھیں کہ رات سونے سے پہلے کسی بھی اسکرین کا استعمال کم سے کم ہو ۔
اگر آپ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم کے بارے میں متفکر ہیں تو یاد رکھیں کہ جب یہ بور ہو رہے ہوں ، ضد یا شور کر رہے ہوں ، یا آپ کو کسی بھی انداز میں پریشان کر رہے ہوں تو ان سے جان چھڑانے کے لئے انھیں موبائل ہرگز نہ تھمائیں ۔ ایسا کرنے والے والدین خود اپنے بچوں کو غلط متبادل فراہم کرتے ہیں ۔ آپ انھیں ضد ، شور یا کسی بھی انداز میں پریشان کرنے سے منع کریں لیکن اس کے بعد انھیں موبائل تھما دیں ، آپ کا یہ رویہ صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔
اسکرین ایڈکشن کے چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لیے اور اس کے منفی اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے والدین کا خود بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد ہونا بہت ضروری ہے ۔ انھیں ذہنی طور پر خوب تیز طرار ہونا چاہیے ، ان کے پاس اسکرین کے متبادل آئیڈیاز ہونے چاہئیں ۔ صرف اسکرین ایڈکشن کے لئے فکر مند ہونا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ آپ اسے ایک چیلنج سمجھیں ، اس کے لئے نہ صرف بچوں کو گھر کے اندر صحت افزاء مصروفیات مہیا کرنا لازمی ہے بلکہ آؤٹ ڈور فزیکل سرگرمیوں کا انعقاد بھی ضروری ہے ۔گھر میں لائبریری ، گارڈ ننگ ، سائیکلنگ جیسی صحت افزاء مصروفیات عمدہ مثالیں ہیں ۔ سب سے اچھی بات ہے کہ چھوٹی عمر سے بچوں میں مطالعہ کتب کی عادت پروان چڑھائی جائے ۔
بچوں کو اسکرین فراہم کرتے وقت یاد رکھیںکہ بچوں کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں اسکرین دینا بہت آسان ہے لیکن اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا بہرحال محنت طلب اور صبر آزما کام ہوگا ۔گھر میں ’ نو انٹرنیٹ ‘ یا ’ نو وائی فائی ٹائم ‘ ضرور رکھیں ۔ گھر کے دیگر افراد سے اسکرین ٹائم کے حوالے سے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ جلد یا بدیر وہ آپ کی کوششوں کو سمجھ کر آپ کی مدد کر سکیں ۔ والدین کے مابین اس موضوع پہ وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ممکنہ کوششوں پر بات چیت بھی ضروری ہے ۔ یاد رہے کہ اسکرین کی عادت چھڑوانا صرف والدہ یا پھر صرف والد کی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کے لئے دونوں کو مل کر ٹیم کی حیثیت سے کام کرنا ہوگا ۔
اگر بچوں کو اسکرین فراہم کرنا بہت ہی ناگزیر ہو جائے تو انھیں بڑی اسکرین کے بجائے موبائل اسکرین کی سہولت فراہم کریں ۔ ایسا کرتے ہوئے بھی یاد رکھیں کہ بہت جارحانہ ، تیز رنگوں، تیز میوزک ، آوازوں، غیر اخلاقی اور غلط عقائد کے حوالے سے مواد بچوں کو نہ دکھایا جائے ۔ جب بچے اسکرین استعمال کر رہے ہوں توانھیں صحیح اور غلط کی آگہی کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس سسٹم بھی ضرور قائم کریں ۔ امید ہے کہ میرے مذکورہ بالا نکات ہماری اس کوشش میں موثر ثابت ہوں گے ۔
اسکرین کے ذریعے کس طرح باطل نظریات کو ہمارے دماغوں میں انڈیلا جا رہا ہے ، اگلی تحریر میں قلم بند کروں گی ۔
The post ’ اسکرین ایڈکشن‘ سے نجات بہت ضروری ہو گئی appeared first on ایکسپریس اردو.