زباں فہمی 128
ہمارے یہاں بعض لسانی مباحث ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور شاید اس کے بنیادی اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم (اہل قلم سمیت اکثر لوگ)، تحقیق کی زحمت کم گوارا کرتے ہیں۔ بات کی بات ہے کہ پچھلے دنوں واٹس ایپ حلقے’بزم زباں فہمی‘ میں یہ بحث چھِڑگئی کہ اردو کی مشہور ترکیب ’’خَدّ وخال‘‘ درست ہے یا ’’خطّ وخال‘‘۔
خاکسار نے اپنی رائے دی، کچھ نے تائید کی تو بعض نے ماننے سے انکار کیا۔ مخالفین نے دلیل میں بعض معاصرین کے اشعار پیش کیے۔ آئیے اس موضوع پر دستیاب مواد کا جائزہ لیتے ہیں۔ (موضوع کی اہمیت ونزاکت کے پیشِ نظر، تمام قارئین، خصوصاً عجلت پسند، جلدباز حضرات سے استدعا ہے کہ براہ کرم کالم، اَز اَوّل تا آخر پورا پڑھ کر کوئی رائے قائم کریں، یہ نہ ہو کہ درمیان سے کوئی نکتہ اچک کر، اپنے من پسند انٹرنیٹ حلقوں اور ویب سائٹس پر خاکسار کے نام کے ساتھ، یا، اپنے ہی نام سے پھیلادیں)۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ لفظ ’’خطّ‘‘ اور ’’خدّ‘‘ دونوں کے آخری حرف پر تشدید ہے جو شعری ضرورت کے تحت، حذف کردی جاتی ہے۔ ایسی دیگر مثالیں بھی ہمارے شعری سرمائے میں موجود ہیں۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ خَدّوخال ہی درست ہے اور اس کا اردو نظم ونثر میں استعمال بکثرت ہوا ہے، لہٰذا اسے ہی چلنے دیں، ان کے حق میں دستیاب ومنقول مواد ذیل میں پیش کیا جاتاہے:
آئیے دیکھتے ہیں کہ اردو لغت بورڈ کی عظیم وضخیم اردولغت کیا کہتی ہے:
خال وخَد (— و مج، فت خ) اسم مذکر رک: خد و خال
اشعار (برائے سند):
شملہ سے کھنچ کے آئی ہے جو اَب نئی شبیہ
حضرت کے خوب اس میں نمایاں ہیں خال و خد
(1917، بہارستان، 566)
مجھے اب صداؤں سے کام ہے مجھے خال وخد کی خبر نہیں
تو پھر اس فریب سے فائدہ یہ نقاب اب تو اتار دو
(1981، مضراب و رباب، 491)
خال جو (حَدْ سے) بَڑھا، مَسَّہ ہوا
خال خال
خال دار / خالْدار
خال وخَد
اس سارے بیان کے بعد اسی لغت میں یہ ترکیب یوں لکھی گئی ہے: خال و خَط فیروزاللغات میں ترکیب خدّوخال بمعنی شکل وصورت، چہرہ مُہرہ درج کی گئی ہے (شکل صورت درست ہے، س ا ص)، جبکہ اس سے قبل لفظ خال کے معانی یوں بیان کیے گئے: خال (عربی، اسم مذکر)،۱): وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو چہرے یا جسم پر ہوتا ہے (جسم کے کسی بھی حصے پر ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے: س ا ص)۔ ۲)۔ دورَنگا کبوتر;سفیدی کے ساتھ اور (یعنی دوسرا: س ا ص) رنگ ملا ہوا کبوتر۔۳)۔کاجل کا وہ نشان جو نظرِبد سے بچانے کے لیے خوبصورت یا کم سِن بچوں کے چہرے (نیز ماتھے پر: س ا ص) لگاتے ہیں۔۴)۔ ماموں، خالو۔ اور فیروزاللغات میں خدّ کے بارے میں لکھا گیا: گال، رخسار، چہرہ۔ نوراللغات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدّ کے معانی چہرہ، رخسار یا گال کے ہیں۔ آن لائن لغات سے اقتباسات:
اردو آئنسی ڈاٹ کام: خَدوخال: اردو معنی: چہرہ مہرہ … مترادفات: بناوٹ، حلیہ، خصوصیات، نقوش، واضح، کھرا نقشہ۔ انگریزی معنی: features۔اشعار (برائے سند):
چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو تیرے خدوخال سے بھی گئے
(عزیز حامد مدنی)
غم فراق سے اک پل نظر نہیں ہٹتی
اس آئینے میں ترے خدوخال سے کچھ ہیں
(امجد اسلام امجد)
ریختہ ڈکشنری ڈاٹ کام: خَدوخال (اصل: عربی) اسم، مذکر۔ خَد و خال کے اردو معانی: چہرہ مہرہ، شکل و صورت کی ساخت، حُلیہ۔
شعر (برائے سند): اس کی آواز میں تھے سارے خدوخال اس کے۔۔۔۔ وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے بعض دیگر اشعار برائے سندِ خدّوخال /خال وخد:
اک ذرا سی فضائے چمن کے نکھرنے پہ بھی کیا سے کیا
جسمِ واماندگاں پر خدوخال کے پھول کھِلنے لگے
(ماجد صدیقی)
دیکھئیے کس کے خدوخال نظر آتے ہیں
ایک دیوار کو شیشہ تو کیا ہے میں نے
(مقصود وفاؔ)
ہم اگر تیرے خدوخال بنانے لگ جائیں
صرف آنکھوں پہ کئی ایک زمانے لگ جائیں
(مبشر سعید)
ایک تصویر خدوخال کی خواہاں ہے مگر
اور بھی عکس ہیں صدمات کے آئینے میں
(م۔م۔مغل)
ہیں ہجرمیں اس جسم کی رنگینیاں کچھ اور
اب مجھ پہ ہیں طاری وہ خدوخال زیادہ
(علی ارمان)
تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مرے
جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں
(کومل جوئیہ)
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری ترکیب یعنی خطّ و خال کے حق میں کیا کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔
فرہنگ آصفیہ کا بیان ہے: خال ۔عربی۔اسم مذکر: ۱)۔چہرے یا جسم کا خِلقی (یعنی پیدائشی: س ا ص) تِل، وہ قدرتی سیاہ نقطہ جو اکثر جسم پر ہوا کرتا ہے۔ شعر:
آتا نہیں نظر، مسی آلودہ وہ دہن
گویا کہ ہے وہ خال، رُخِ آفتاب کا
(وزیرؔ)
۲)۔دورَنگا کبوتر، سفیدی کے ساتھ اور (یعنی دوسرا: س اص) رنگ ملا ہوا کبوتر۔۳)۔ کاجل کا وہ نشان جو معشوق لوگ خوبصورتی یا نظرِبد کے دفعیہ (یعنی نظرِبد کو بھگانے : س اص) کے واسطے چہرے پر لگالیتے ہیں۔ اسی کی تصدیق میں نوراللغات میں منقول آتشؔ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
خالِ سیِہ بناتا ہے رُخسار پر وہ ماہ
کیا اِن دنوں زُحل کا ستارہ بلند ہے
لغات کشوری اردواَز مولوی تصدق حسین رضوی کی رُو سے عربی الاصل لفظ ’خال‘ کے معانی میں عقل مندی، بزرگی، تکبر، غرور، ماموں یعنی ماں کا بھائی اور نقطہ سیاہ جو جسم پر ہوتا ہے شامل ہیں ، جسے ہندی میں تِل کہتے ہیں اور یہی لفظ فارسی میں مجازاً آبلے اور چھالے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی لغت کے بیان کے مطابق ’خدّ‘ کے معانی ہیں: چہرہ، رُخسار، گال اور فارسی میں اکثر یہ لفظ، بغیر تشدید کے، مستعمل ہے۔ عربی لفظ ’خط‘ کے معانی میں بیان کیا گیا کہ اس سے مراد ہے ایک ایسی لکیر جس میں فقط طُول یعنی لمبائی ہو، عرض یعنی چوڑائی اور عُمق یعنی گہرائی نہ ہو، نیز یہ ایک موضع یعنی جگہ کا نام ہے۔ نوراللغات کے بیان کے مطابق وہاں کے نیزے مشہور ہیں اور میرانیس ؔنے بھی ایک شعر میں اس کا ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹرعبداللطیف کی فرہنگ فارسی (فارسی اردو لغت) بھی بنیادی معانی کی تصدیق کرتی ہے اور اس میں بطور مثال یہ فارسی مصرع بھی درج ہے: شیراز ِما کہ خالِ رُخ ِ ہفت کِشور است (ترجمہ: ہمارا شہر شیراز، سات ملکوں یا سلطنتوں کے چہرے پر موجود تِل کے مانند ہے۔ س ا ص)۔ اسی لغت کی رُو سے ترکیب ’’خال خال‘‘ کا مطلب ہے جلد پر موجود دھبّے (لکہ ہائے برجِلد)۔ یہ ترکیب ہمارے یہاں بھی مستعمل ہے اور اس کا استعمال کسی معاملے میں کمی یا قلت ظاہر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جیسے اب ہمارے یہاں اس لیاقت کے لوگ تو خال خال نظر آتے ہیں۔ فیروزاللغات میں بھی خال خال کے مفاہیم یوں درج ہیں: اِکّادُکّا، بہت کم، کہیں کہیں، شاذ ونادر، کوئی کوئی۔ اسی کے ساتھ فرہنگ فارسی میں فارسی ترکیب خال دار بھی موجود ہے یعنی لکہ دار، دھبے والا۔
فرہنگ فارسی از ڈاکٹر عبداللطیف نے بھی ’خدّ‘ کے معانی میں چہرہ، رُخسار اور گال درج کرنے کے بعد دو الفاظ خندق اور گڑھا کا اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے خطّ کے معانی یوں بیان کیے ہیں: لکیریں، حروف، اَبرو، لبوں پر سبزہ (یعنی رُواں )، مکتوب اور لکھائی۔ حسن اللغات فارسی اردو میں ’خدّ‘ کے معانی میں درج کیا گیا: گال، رخسارہ، خندق، کھائی، زمین میں لمبا گڑھا کھودنا۔ یہی لغت خال بمعنی تِل کو فارسی الاصل بتاتے ہوئے اس کا دوسرا مطلب ’’سیاہ اونٹ‘‘ بھی قرار دیتی ہے۔ فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، حسن اللغات فارسی اردو، لغات کشوری اور فرہنگ فارسی میں ترکیب خَطّ و خال یا خدّ وخال کا ذکر سِرے سے موجود نہیں۔ یہی صورت عباس آریان پور کاشانی اور منوچہر آریان پور کاشانی کی مؤلفہ English-Persian Dictionary (مطبوعہ تہران، ایران ) کی بھی ہے۔
اب آگے بڑھنے سے پہلے لفظ خط بمعنی لکیر کے استعمال کا ایک اچھا نمونہ دیکھیں:
خونِ دل سے دَرودیوار پہ خط کھینچ دیے
ہم نے زنداں میں لکھیِں اپنے چمن کی باتیں
(شاعرؔ لکھنوی)
ایک آن لائن لغت سے یہ مندرجات سامنے آئے: خَطّ و خال: اسم، مذکر
رک: خدوخال
خُوبیاں، خُصوصیات، فائدے. خاصیّت؛ علم ارضیات سے متعلق اچھائی بُرائی.
شعر: پاپ دھماکے میں ہم بھکتی ڈھونڈ رہے ہیں
میڈونا کے خط و خال میں، مِیرا دیکھیں
( احمدشناس)
آن لائن جستجو میں ایک دل چسپ کتاب کا یہ اقتباس بھی بہت عمدہ معلوم ہوا کہ مغلیہ سلطنت کے دورِزوال میں، انگریزوں کی عبارت میں ترکیب ’’خال و خَط‘‘ موجود ہے، یہ کتاب انگریزی سپاہ کا گویا ہدایت نامہ ہے جو اِنگریزی، اردو اور دیوناگری (اردو مگر اس رسم الخط میں) میں مرتب وترجمہ کرنے کے بعد، 1846ء میں منظرعام پر لایا گیا، جب کہ اَبھی ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا آفتاب پوری طرح غروب نہیں ہوا تھا اور بنگال کی خودمختار یا نیم خودمختار، نوابی حکومت کا سربراہ، نواب سید منصورعلی خان (عہد اقتدار: 29اکتوبر1830ء تا4نومبر1884ء) تھا جس نے انگریزوں سے مالیاتی خودمختاری کے حصول کے لیے بہت کدوکاوش کی، متعدد مرتبہ انگلستان کے دورے پر بھی گیا۔ عبارت کا اقتباس ملاحظہ ہو: ’’تو چاہیے کہ اجٹنٹ صاحب کمپنی کے کمانڈنگ افسرصاحب کے پاس، اُس رنگروٹ کا ڈسکرپٹورول [Descriptive role] یعنی خال وخط کہ پلٹنی رجسٹر سے نکالا گیا ہو، بھیجا کرے
[The Standing Orders for the Bengal Native Infantry, with a translation in to Oordoo, in the Roman, Persian and Naguree characters
By Brevt. Capt. S. C. Starkey-7th Regiment, BNI, Calcutta: Printed by P.S. D]’Rozario and Co. Tank-square: 1846
اب اسی باب میں ریختہ ڈکشنری ڈاٹ کام کے مندرجات پیش خدمت ہیں:
خال و خَط: (فارسی، عربی ۔ اسم، مذکر، واحد): جسمانی ساخت، بناوٹ، چہرہ مہرہ، شبیہ، خط و خال
شعر: خال و خط سے عیب اس کے رُوئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطہ ٔ اعراب کا
(منیر شکوہ آبادی)
آن لائن لغت اردو آئنسی کے مندرجات: نقوش، واضح، کھرا نقشہ
شعر: ولی شعر میرا سراسر ہے درد
خط و خال کی بات ہے خال خال
(ولیؔ)
آن لائن لغت اردو بان میں لکھا گیا: غلبہ پانا، قبضہ کرنا، اثرونفوذ جمانا.
چشم و دل جان و جگر میں بحر الفت ہیں یہ پانچ
ان پر زلف و خال وخط پر اک تسلط یاب ہو
غزل:
ادا اور زلف و خط و خال راہزن چاروں
نگاہ و مژہ چشم و تیغ تیغ زن چاروں
صوفی اصطلاح:
شاہدِ ما بجزاز خال وخط و غبغب خویش
خال وخط د گرو غبغبِ دیگر دارد
بہ وصف رخش والضحیٰ گشت نازل
چو والیل در زلف و خال محمد(ﷺ)
(جامی)
فارسی کلام
بہ لطف خال و خط از عارفان ربودی دل
لطیفہ ہای عجب زیر دام و دانہ توست
(حافظ)
ایک تصویری معلومات پر مبنی ویب سائٹ پِن ٹریسٹ میں یہ کلام بھی دیکھا:
خال و خط خوش نمود عالم و گفتم کہ ہیچ کرد بزک صورت پر غم و گفتم کہ ہیچ روسپی عقل و دین سوی من آمد وزین کرد ستون قامت پر خم و گفتم کہ ہیچ برگرفتہ]از کتاب دوبیتی ہای حلمی[
ہمیں آن لائن تلاش وجستجو میں یہ کارآمد متن بھی میسر ہوا:
مرکب لفظ ’’خط و خال‘‘ کو عام طور پر ’’خد و خال‘‘ لکھا جاتا ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
رشید حسن خان اپنی کتاب ’’انشا اور تلفظ‘‘ کے صفحہ نمبر 46 پر اس حوالہ سے رقم کرتے ہیں: ’’خد‘‘ اور ’’خال‘‘ کے ایک ہی معنی ہیں یعنی ’’تل‘‘۔ اس کی جگہ ’’خط و خال‘‘ لکھنا چاہیے۔‘‘ (حالانکہ جیسا کہ لغات سے نقل کیا گیا، خدّ کے معانی میں تِل ہرگز شامل نہیں، مگر بہرحال اصل بات ترکیب کے درست استعمال کی ہے: س اص)۔ اس حوالہ سے انورؔ مسعود کا ذیل میں دیا گیا شعر بھی ملاحظہ ہو:
وہاں زیرِبحث آتے خط و خال و خوئے خوباں
غمِ عشق پر جو انور ؔ کوئی سیمینار ہوتا!
خاکسار کے خیال میں اردو، فارسی وپنجابی پر یکساں قدرت کے حامل، بزرگ سخنور نے اس ترکیب کے برمحل اور درست استعمال میں، حافظؔ شیرازی کی اتباع کی ہے جنھوں نے کہا تھا: زِعشق ِناتمامِ ما، جمالِ یار مُستغنیست
بہ آب ورنگ ِخال وخط، چہ حاجت رُوئے زیبا را {ہمارے اَدھورے /نامکمل یا خام عشق سے محبوب کا جمال یعنی حسن تو بے نیاز ہے ;حسین چہرے کو آب و رنگ اور تِل اور خط کی کیا ضرورت ہے۔یا۔مزید ادبی زبان میں کہیں تو: کہ ایسے رنگ روپ کی اُس رُخِ زیبا (حسین چہرے) کو کیا ضرورت؟}۔ یہ وہی حافظؔ شیرازی ہیں جنھوں نے امیرتِیمور کو اپنے ایک مشہور شعر کے متعلق باز پُرس کے جواب میں لاجواب کردیا تھا۔ ’’امیرتِیمور جب خُراسان وفارس پامال کرتا ہوا شیراز (ایران) میں پہنچا تو اُس نے حافظؔ کو دربار میں طلب کیا، اثنائے گفتگو میں اُن سے پوچھا کہ میں نے تو سال ہا سال کی مشقت کے بعد، سمرقند وبْخارا کو بہ نوک ِ شمشیر (یعنی تلوار کی نوک پر، س اص) فتح کیا ، تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ
؎ اگر آں تُرک ِ شیرازی بَدست آرَد دلِ مارَا
بخالِ ہِندوَش بخشم سمرقند و بخارا را
(یعنی اگر شیراز کا وہ تُرک ہمارا دل لے لے، قبول کرلے تو ہم اُس کے گال کے سیاہ تِل کے عِوض، اُسے سمرقند اور بخارا کی سلطنت بخش دیں۔ یہاں یاد رکھیں کہ شیراز میں تُرک نسل کے لوگ آباد تھے اور استعارے یا کِنائے کے طور پر ، معشوق کو بھی تُرک کہا جاتا تھا۔ دوسرا نکتہ، اپنی پرانی تحریروں میں لکھا ہوا، یہ دُہراتا چلوںکہ ہِند اور ہِندو سے مراد ہے سیاہ رنگ اور سیاہ فام لوگ، اسی سے اسم ہندوستان معرض ِوجود میں آیا۔س ا ص)۔ حافظؔ نے مسکراتے ہوئے کہا، اسی فیاضی اور غلط بخشی نے تو مجھے اِس حال تک پہنچادیا ہے۔ امیرتِیمور نے اس حاضرجوابی کی داد دی اور حافظ ؔ کو انعام واکرام سے سرفراز فرمایا‘‘ ]اقتباس ازگل ہائے پریشاں، آراستہ الیاس احمد، سابق منصف[
تمام منقول ومذکور مواد کو بنظرغائر دیکھنے کے بعد خاکسار کی یہ رائے مستحکم ہوگئی کہ درست ترکیب ’’خال وخط‘‘ یا خط وخال ہے اور اس کے برعکس خدوخال استعمال کرنے والوں سے لسانی سہو سرزد ہوا ہے۔
The post خدّوخال یا خطّ وخال appeared first on ایکسپریس اردو.