متاع قلب و نظر (شاعری)
شاعر: اسرار ناروی (ابن صفی)
صفحات: 232
قیمت: 450 روپے
ناشر: اٹلانٹس پبلی کیشنز، کراچی
اس کتاب سے متعلق پہلی، اور بلاشبہہ اہم ترین، بات تو یہی ہے کہ یہ ہمارے جاسوسی ادب کی ممتاز شخصیت، ابن صفی کا شعری مجموعہ ہے، جو اِس صنف میں اسرار ناروی کہلاتے تھے۔
عام مشاہدہ ہے کہ کسی تخلیق کار کی ایک جہت، دیگر جہتوں پر غالب آجاتی ہے، اُس کی شناخت بن جاتی ہے۔ جاسوسی ادب میں جو شہرت ابن صفی کے حصے میں آئی، سب ہی اُس سے واقف ہیں۔ اِس دہائی کو تو ہم ابن صفی کے تجدید نو کی دہائی کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے فن کو پی ایچ ڈی مقالات کا موضوع بنایا گیا، سیمینارز منعقد ہونے لگے، سنجیدہ حلقوں میں ان کے ناولوں پر مکالمہ شروع ہوگیا۔ یعنی جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ، ابن صفی، جو برسوں قبل انتقال کر گئے تھے، اپنے فن کی قوت سے نئے ہزاریے میں داخل ہوگئے۔ البتہ یہ کتاب مختلف ہے کہ یہ اسرار ناروی کا کلام ہے، اُس شاعر کا، جو ابن صفی میں سانس لیتا تھا۔
منظومات اور غزلیات پر مشتمل اِس کتاب کا پیش لفظ اُن کے صاحب زادے، احمد صفی نے ’’پیشرس‘‘ کے زیرعنوان لکھا ہے۔ وہی عنوان، جس سے ابن صفی اپنے پڑھنے والوں کو مخاطب کیا کرتے تھے۔ مضمون میں اس مجموعے کی اشاعت میں ہونے والی تاخیر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ وہ اسباب بیان کیے گئے ہیں، جن کے پیش نظر کسی جید شاعر کی رائے کتاب میں شامل نہیں کیا گئی۔
کتاب مختلف حصوں میں منقسم ہے۔ ابتدا میں غزلیں۔ ایک حصے کو ’’جوانی کے ہذیان اور ادھیڑی کی ہوش مندی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اگلے تین حصے ’’ستمبر 65 کی جنگ کی نظمیں‘‘، ’’انعکاس تخیل‘‘ اور ’’غزلیات و متفرق اشعار‘‘ کے زیر عنوان ہیں۔
ابن صفی کی شاعری پر فیصلہ صادر کرنا ناقدین اور قارئین کا کام ہے، اور اُن کے لیے یہ تجربہ بے حد دل چسپ ہوگا۔ شاید اُن کا سامنا اِس سحرانگیزی اور اثر پذیری سے ہوجائے، جو اُن کے ناولوں میں ہمیں ملتی ہے۔
کتاب ’’ڈسٹ کور‘‘ کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ بیک فلیپ پر شاعر کی تصویر ہے۔ گرد پوش کی اندرونی تہیں شاعر کا تعارف بیان کرتی ہیں۔ کاغذ معیاری اور طباعت عمدہ ہے، جس کی باعث قیمت پر اعتراض کی ضرورت نہیں رہتی۔
شکر پارے (کہانیاں)
کہانی کار: مبشر علی زیدی
صفحات:160
قیمت:250 روپے
ناشر: شہر زاد، کراچی
لیجیے حضور، شکر پاروں سے شوق فرمایے۔ کھایے کھایے، پورے سو ہیں۔ مبشر نے تیار کیے ہیں۔ اور ایک ہی سانچے میں ڈھالے ہیں، یعنی کم نہ زیادہ، پورے سو الفاظ!!
خوش ذایقہ ہیں ناں؟ تھوڑے میٹھے، تھوڑے نمکین۔ خستہ اور کرارے۔
صاحبو، نمک پارے والے مبشر زیدی لوٹ آئے ہیں، اور اِس بار شکر پارے ساتھ لائے ہیں۔ یہ ان کی تیسری کتاب ہے۔ ان کی کتب کے درمیان وقفہ کم ہے۔ سبب یہ ہوسکتا ہے کہ لکھ وہ برسوں رہے ہوں گے، چھپنے چھپانے کا اب خیال آیا۔ ہاں، اُن کی صلاحیتوں پر شک کرنے والے زود نویسی کا الزام لگا سکتے ہیں۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سو الفاظ کی تو کہانیاں ہیں، روزانہ ایک لکھیے، چار ماہ میں کتاب تیار!
نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔ ایک تو کہانی اتنی آسانی سے ملتی نہیں، پھر اُسے گنے چنے الفاظ میں سمونا کسی طور سہل نہیں۔ مبشر ادبی ذوق، مطالعے کا شوق رکھتے ہیں، اِسی وسیلے یہ کہانیاں لکھنا ممکن ہوا۔ کہا جاسکتا ہے کہ اِن صاحب نے اردو کہانی میں ایک نئی صنف کی بنیاد ڈال دی ہے۔ اور اب اِسے رائج کرنے پر تُلے ہیں۔
اِس صنف کا مستقبل کیا ہے؟ اِس باب میں انتظار بہتر۔ مستقبل خود ہی اطلاع پہنچائے گا۔
خیر، ہم ’’شکر پارے‘‘ کی بات کر رہے تھے۔ مبشر کی پہلی کتاب ’’نمک پارے‘‘ پر یہ اعتراض بناتا تھا کہ لگ بھگ 80 فی صد حصہ تراجم پر مشتمل ہے، مگر اِس بار ایسا نہیں۔ اِس بار وہ طبع زاد کہانیوں کے ساتھ آئے ہیں۔ کتاب میں کسی کی رائے درج نہیں۔ بیک فلیپ پر، اندرونی تہوں پر، دیپاچے میں، ہر طرف مبشر ہی مبشر ہیں۔ ہر طرف کہانیاں!
وہ ذاتی تجربات کو؛ وہ لوگ جن کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ ادارہ جس سے نتھی ہیں، وہ علاقہ جہاں مقیم ہیں، موضوع بناتے ہیں۔ پڑھ کو اچھا لگتا ہے کہ اُن کرداروں، ماحول اور جگہوں سے ہم واقف ہوتے ہیں، مگر اس عمل سے تحریر کی حیثیت، کبھی کبھار، وقتی ہوجاتی ہے۔ صحافی ہیں، کہانیوں میں خبری آہنگ قابل فہم ہے۔ کچھ ناقدین افسانے میں خبریت پر اعتراض کرتے ہیں۔ اب مبشر الگ نوع کے کہانی کار ہیں، کیا یہ اعتراض مبشر پر بھی فٹ بیٹھتا ہے، اِس پر غور کرنا ہوگا۔ کئی کہانیوں میں ’’فٹ نوٹ‘‘ ہیں۔ یقینی طور پر اُنھیں ’’سو الفاظ‘‘ میں نہیں گنا جائے گا۔
کتاب کا سرورق بامعنی ہے۔ کاغذ اچھا ہے۔ طباعت معیاری ہے۔ قیمت پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ نیک تمنائیں اُن کے ساتھ ہیں۔
دریچہ بے صدا (شعری مجموعہ)
شاعر:ذوالفقار گادھی
ناشر:رنگ ادب 5، کتاب مارکیٹ، اردو بازار، کراچی
صفحات:128 ، قیمت300: روپے
ذوالفقار گادھی، بنیادی طور پر سندھی زبان کے معروف شاعر، ترجمہ نگار، مضمون نگار ہیں اور خاصا معتبر مقام سندھی ادب کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ شاعرانہ ذوق و شوق کے اس سفر میں اس سے قبل ان کے تین عدد سندھی زبان کے شعری مجموعے اور ایک عدد افسانوں کے ترجمے کا مجموعہ شایع ہوچکا ہے زیر تبصرہ کتاب ان کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ ہے۔ 128 صفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے میں غزلیں، نظمیں، گیت، وائی، ہائیکو، تروینیاں سب ہی کچھ شامل ہیں محبوب خزاں نے کہا تھا کہ
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر/ یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
یہ حقیقت ہے موزونئی طبع ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی شعر کہنا اتنا آسان عمل نہیں ہے موزونئی طبع معیاری اور معتبر شعر کہنے کی ضمانت نہیں دیتی سو ہمارے ہاں اکثریت ایسے شعرا کی ہے جو موزونئی طبع رکھنے کی وجہ سے شعر وزن میں ڈھال لیتے ہیں مگر یہ صرف قافیہ پیمائی ہوتی ہے اور بس۔ زیرتبصرہ مجموعے کو ہم ذوالفقار گادھی کا شوق اور اندر کی فضا کو باہر اچھالنے کا تخلیقی اظہار کہہ سکتے ہیں۔ ذوالفقار گادھی نے اردو شاعری میں بھی سندھی ثقافت کو سمویا ہے۔ خاص کر گاؤں کی فضا سے نسبت رکھنے والے استعارے اس کے ہاں ملتے ہیں:
یہ چہرے کی سج دھج ہے۔۔۔۔۔اس پہ بندیا سورج ہے
اس کی قیمت کیا ہوگی؟۔۔۔۔۔پہنا تو نے جو گج ہے
سانس ہے پھولتی ہی جاتی ہے۔۔۔۔۔میں نہیں بیل تو نہیں چاکی
اب بیل اور چاکی کے ساتھ سانس پھولنے کا عمل وہی بہتر جان سکتے ہیں جنھوں نے گاؤں میں وقت گزارا ہو اور فصل بوتے وقت کسان کو بیل جوتتے ، فصل بوتے اور زمین ہموار کرتے ہوئے دیکھا ہو۔ ذوالفقار گادھی نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ نظموں میں ’مطالعہ تاریخ‘‘ اور ’’تو مرا خواب ہے‘‘ غنیمت ہے، دیگر میں وہ فنی لحاظ سے کم زور محسوس ہوئے حتیٰ کہ غزل جیسی خوب صورت، حساس، صنف میں بھی کچھ تجربے کیے ہیں، جو ناگوار گزرتے ہیں مثلاً ان کی غزلوں کے درج ذیل مصرعے ملاحظہ کریں جن کا غزل میں اندراج ناگواریت کا باعث بنا:
تیرے درد کو ٹھنڈا ٹار کروں گا میں چندا
ان خبیثوں کے گلے ہیں موڑنا جانو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ساتھ تمہارے لبوں کا طور ملا
ذوالفقار گادھی نے جو بھی لکھا خامیوں کے باوجود قابل ستائش ہے کہ یہ ایک سندھی ادیب کی اردو کاوش ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی گنجائش پیدا ہوتی چلی جائے گی میں نسیم انجم کی اس رائے سے متفق ہوں کہ ’’سندھ کے اس نوجوان ذوالفقار کا رشتہ ادب سے بہت گہرا ہے ان کے کام اور لگن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں شعر و سخن سے سچا عشق ہے‘‘۔
کچھ بول محبت کے
مرتب:عدیل ہاشمی
زیراہتمام:جہان حمد پبلی کیشنز نوشین سینٹر، اردو بازار کراچی،اشاعت2013:، صفحات: 128 ، قیمت:درج نہیں
اظہر عباس ہاشمی، کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ دنیائے ادب میں انھیں خاصی توجہ سے دیکھا اور سراہا جاتا ہے جس کی وجہ ان کی ادب سے خصوصی دل چسپی ہے۔ انھیں ’’شہر قائد‘‘ کے مشاعروں سے بھی خاصی شہرت ملی اور اب تو شہر قائد کے مشاعرے اور ان کا نام لازم و ملزوم ہوکر رہ گیا ہے۔ اظہر عباس ہاشمی ملنسار طبیعت شخص ہیں ہر ایک سے مسکرا کے ملتے ہیں انھیں ادبی حلقوں میں بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ سیلف میڈ شخصیت کے مالک ہیں اور ان کی زندگی جہد مسلسل کا استعارہ ہے۔
زیرنظر کتاب ان منظوم شعری تخلیقات پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً شعراء کرام نے لکھ کر اظہر عباس ہاشمی کو پیش کیے اور انھوں نے یہ سارا مواد عدیل ہاشمی کو دیا، جنھوں نے اسے کتابی شکل دے دی۔ اس کتاب میں منظوم خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ اظہر عباس ہاشمی کے صاحبزادوں جمال اور دانیال کی شادی کے موقع پر مختلف شعراء کی جانب سے پیش کردہ سہرے بھی شامل ہیں، جن شعراء کرام نے اظہر عباس ہاشمی کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات کو سراہا یا سہرے لکھ کر پیش کیے ان میں محشر بدیوانی، دلاور فگار، محسن ملیح آبادی، راغب مرادآبادی، گلزار دہلوی (بھارت)، صادقین، شبنم رومانی، اختر لکھنوی، منظر ایوبی، آفاق صدیقی، افضل منگلوری (بھارت)، تابش دہلوی، سرشار صدیقی، سمیت کئی اہم شعراء کے نام شامل ہیں۔
اس مرتب شدہ کتاب ’’کچھ بول محبت کے‘‘ میں شاید عام قاری کے لیے دل چسپی کا کوئی پہلو نہ ہو مگر ادبی لحاظ سے یہ ان کے لیے جو اظہر عباس ہاشمی اور ان سے محبت کرنے والوں سے انسیت رکھتے ہیں اہم کتاب ہے۔
جہان نعت (کتابی سلسلہ)
مدیر:محمد رمضان میمن،زیر نگرانی:طاہر سلطانی،صفحات: 120
جنرل ضیائالحق کے مارشل لا دور میں کم سے کم ایک کام ضرور عمدگی سے ہوا کہ انھوں نے اسلام کو مزید جلا بخشنے کے لیے نعت گو شعراء کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ ان کے لیے کیش ایوارڈز کا اجراء کیا تو کچھ شعراء نے عقیدتاً کچھ نے انعامات کے حصول کے لیے نعتیں کہیں۔ مجموعے شایع کرکے ایوان صدر ارسال کیے۔ اسی دور میں ادبی جریدوں نے نعت اور حمد کے نمبر بھی شایع کیے۔ یہ سلسلہ پھر ایک روایت کی شکل اختیار کرگیا اور نعت کے طفیل سچے عاشقان رسولؐ بھی سامنے آئے نعت کے بڑے بڑے ناموں میں مظفر وارثی، حفیظ تائب، حنیف اسعدی، قمر وارثی، عارف منصور، ماجد خلیل، صبیح رحمانی کے نام بھی شامل ہوئے۔ اسی فہرست میں آگے جاکر طاہر سلطانی بھی شامل ہوئے جنھوں نے نعت اور حمد کی صنف میں بڑا کام کیا۔ زیر تبصرہ کتابی سلسلہ جہان نعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور یہ نعت کے ایک اہم شاعر مسرور کیفی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور ان ہی سے متعلق مضامین، شاعری کو شامل کرکے یہ شمارہ تیار کیا گیا ہے۔ عقیدت اور محبت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا، چوںکہ یہ دل سے نمو پاتی ہیں، ’’جہان نعت‘‘ کا یہ شمارہ سلیقے سے شایع کردہ ’’مسرور کیفی‘‘ نمبر ہے۔ مسروکیفی (صالحہ محمد) 28 فروری 1928 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور یہیں 30 جنوری 2003 کو انتقال کرگئے ان کا تعلق کچھی میمن برادری سے تھا۔ انھوں نے 16 نعتیہ مجموعے تخلیق کیے جو ان کی نعت سے خصوصی رغبت کا واضح ثبوت ہیں۔ ان کی نعت کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
اشک بہتے ہیں بہتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ حاضری اس طرح بھی ہوتی ہے
ایک مسرور تم نہیں روتے ۔۔۔۔ ایک خلقت وہاں پہ روتی ہے
زیر تبصرہ شمارہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ نعت پر تحقیقی کام کرنے والے مسرور کیفی کے کام سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کرلیتے ہیں اور اس شمارے کا مطالعہ کرنے کے بعد مسرور کیفی کے نعتیہ مجموعوں کا نچوڑ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ نمبر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ جس جس ہاتھ میں یہ پرچہ پہنچے گا وہ اسے پڑھے گا تو ازخود مسرور کیفی کے نام اور کام سے بھی آگہی حاصل کرے گا۔
سر رہ گزر
شاعر:ظفراکبرآبادی،ناشر:بیلا پبلی کیشنز، اسلام آباد،
صفحات: 200، قیمت250: روپے
ظفر اکبرآبادی، رایت اور تہذیبی ورثے سے اپنے تعلق کو بصد ناز نبھاتے چلے آرہے ہیں سو ان کی شاعری میں بھی یہی روایت، یہی تہذیبی اقدار اپنے تمام تر تقاضوں کو سمیٹے ملتی ہے، وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ ایک عمر کی ریاضت کے بعد شعر کہنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں وہ لفظ کو برتنے کا ہنر رکھتے ہیں، مگر اسی روایتی اسلوب کے ساتھ جو ان کی شاعری کی پہچان ہے ان کی غزلوں کے متعدد اشعار اس دعوے کی دلیل ہیں:
بے مائیگی اس شخص کی دیکھی نہیں جاتی…..جس شخص کے دامن میں یقیں ہے نہ گماں ہے
٭٭
پڑ سکے شاید یوں ہی دل کی خموشی میں دراڑ…..دل سے باتیں کر رہا ہوں اور بلند آواز سے
ظفر اکبر آبادی، کے فکر و فن اور شعری محاسن پر ڈاکٹر سلطانہ بخش، ڈاکٹر جمیل جالبی، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، افتخار عارف، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر محمود الرحمان، احمد شجاع، جنید آذر کی آراء کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کی رائے بھی شامل کتاب ہے۔ فیض احمد فیض لکھتے ہیں،’’ظفر اکبر آبادی کی کچھ غزلیات نظر سے گزریں سہل اور بے تکلف زبان میں، سادہ اور بے تصنع اشعار رقم کیے ہیں جو کچھ لکھا ہے خلوص دل سے لکھا ہے۔‘‘ڈاکٹر سلطانہ بخش نے لکھا ہے،’’ظفر اکبر آبادی حلقہ شعر و ادب میں کلاسیکی مزاج کی غزلوں کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
تاہم ان کے کلام میں غزل کی کلاسیکی روایت کی پاس داری کے ساتھ جدید لہجے کی آواز بھی ملتی ہے۔‘‘ 200 صفحات پر مشتمل اس شعری مجموعے میں ظفر اکبر آبادی کی غزلوں کے ساتھ ساتھ ملی نظمیں اور احمد فراز و احمد ندیم قاسمی کو پیش کردہ منظوم خراج عقیدت بھی ملتا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل شعری مجموعے کے پس منظر میں متاثر کن نہیں، بلکہ غیر متعلق لگتا ہے۔ اسی طرح سے بعض صفحات پر پرنٹنگ مدھم بھی ہوئی ہے، لیکن مجموعی طور پر ہم اسے ایک کلاسیکل روایتی کلاسیکی روایتی شعری مجموعوں میں اضافہ قرار دے سکتے ہیں۔