Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

فلم سازوں نے فلم بینوں کا ذوق خراب کر دیا ہے

$
0
0

ایکسپریس: آپ نے اپنے پیشہ ورانہ کیریر میں اب تک اتنے کردار ادا کیے ہیں، ان میں کہیں حقیقی نصیرالدین شاہ گُم تو نہیں ہوگیا؟
نصیرالدین شاہ: اس سوال کا جواب میں ایک جملے میں نہیں دے سکتا۔ وہ سارے کردار جنہیں میں نے ادا کیا، ان کو کام یابی ملی اور بہت سارے ناکام بھی ہوئے۔

ان سب کرداروں میں کہیں نہ کہیں میری ذات کے وجود کا حصہ بھی شامل ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی۔ مجھے اپنی زندگی سے قریب ترین جو کردار لگتا ہے، وہ فلم ’’نشانت‘‘ کا کردار ہے۔ یہ ’’شیام بینگل‘‘ کے ساتھ میری پہلی فلم تھی۔ اس فلم میں میرا کردار ایک زمیندار گھرانے کے سب سے چھوٹے بھائی کا ہے، جو تھوڑا بیوقوف بھی ہے، کیوں کہ کم عمر ہونے کے باوجود وہ ایک شادی شدہ عورت پر فدا ہوجاتا ہے۔ یہ صورت حال میرے لیے یکسر اجنبی نہیں تھی، کیوں کہ میں اپنے خاندان میں بھی تین بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ ہمیشہ بیوقوفیاں کیا کرتا تھا۔

اس لیے میں اس کردار کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑ سکتا ہوں۔ یہ میری پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا فن کارانہ مظاہرہ تھا، جس پر مجھے ہمیشہ فخر رہا۔ یہ فخر اس لیے نہیں کہ یہ میری پہلی فلم تھی اور میں اس سے جذباتی طور پر وابستہ تھا، بلکہ اس فلم میں کام کرنے سے پہلے پانچ سال تک میں نے ’’نیشنل اسکول آف ڈراما‘‘ سے جو کچھ سیکھا تھا، اس تجربے کو اس فلم میں دکھانے کا موقع ملا۔

میں نے اس بات کو بھی سمجھا کہ کوئی بھی کردار باہر سے متصور نہیں کیا جاتا، میں اس طرح بھی نہیں سوچتا کہ آپ کے ذہن میں کسی کردار کی تصویر بنے، پھر وہ حقیقت میں ڈھالی جائے۔ کوئی بھی کردار جو آپ کو دیا جائے، اس کو اپنے اندر کھوجنا چاہیے، وہ یقیناً وہیں ملے گا، کیوںکہ ہر ایک کے اندر ہر طرح کا انسان ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔

ایکسپریس: پہلے آپ نے بات کی باہر سے متصور کرنے کی اور اب اداکار کواپنے اندر سے ہی کردار کھوجنے کے مشورہ، کیا دونوں باتیں ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں؟
نصیرالدین شاہ: نہیں۔ یہ دونوں ایک جیسی باتیں ہی ہیں، لیکن میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تصور کے زور پر کچھ تخلیق کیا جائے، یہ ضروری بھی نہیں۔ تصور کی صلاحیت کو قدم بہ قدم استعمال ہونا چاہیے، آپ کے اندر کے کردار کو نبھانے کے لیے، جس کا سراغ آپ کو اپنے اندر ہی سے لگانا ہوتا ہے۔ کردار کو واضح اور غیر واضح کرنے کے لیے اس طریقے سے خود کو اس سے جوڑ نا ہوتا ہے۔ تصور اور مشاہدہ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ دونوں اپنی جگہ اہم ہیں اور دونوں ہی آپ کے کام بھی آتے ہیں، لہٰذا کچھ حقیقی مثالوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، مگر کسی بھی کردار یا فن کاری کو کسی حقیقی واقعہ سے جوڑ دینے سے میں اتفاق نہیں کرتا۔

ایکسپریس: آپ نے کہا، اپنے خاندان میں آپ سب سے چھوٹے اور بیوقوف بھائی تھے، پھر اسکول میں ہم جماعتوں میں بھی سب سے پیچھے رہ جاتے تھے۔ شاید آپ کو لگتا تھا اور کچھ نہیں ہوسکتا، تو آپ نے اداکاری کرنے کا فیصلہ کیا، آپ کے خیال میں اداکاری اتنا آسان کام ہے؟
نصیرالدین شاہ: شروعات تو بہت غیریقینی کیفیت سے دوچار تھی۔ میرے دو بھائی تھے، ایک پڑھائی میں تیز تھا، دوسرا کھیلوں میں ماہر تھا۔ دونوں دراز قد اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے، جب کہ میں کسی بھی چیز میں ٹھیک نہ تھا۔ اس لیے مجھے یہ کہیں نہ کہیں لگتا کہ میری ذات میں غیرمطمئن ہونے کا احساس حاوی تھا۔ یہ وہ درد تھا، جس کی دوا مجھے اداکاری کے شعبے میں ملی، کیوںکہ یہ وہ زمانہ تھا، جب میں میں فلمیں بہت دیکھتا تھا۔ ہمارے اسکول میں ڈرامے وغیرہ بھی ہوتے تھے، جن میں طلبا حصہ لیتے تھے۔ البتہ اس وقت مجھے کسی ڈرامے میں کوئی کردار نہیں دیا گیا۔ مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا کہ میں یہ کام کروں، مگر اس وقت جو فلمیں میں دیکھتا تھا۔ انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔

خاص طور پر امریکی اور برطانوی فلموں نے مجھے بے حد متاثر کیا، ہندی فلموں سے میں کبھی متاثر نہیں ہوا۔ اب بھی ہندی فلمیں مجھے زیادہ پسند نہیں ہیں اور نہ ہی میں انہیں دیکھتا ہوں، حالاںکہ وہ فلمیں بھی نہیں دیکھتا، جن میں خود میں کام کرتا ہوں۔ میرے لیے یہ بہت آسان تھا کہ میں اپنی بیوقوف سی شخصیت کو چھپا کر میں کرداروں میں پناہ لے لوں۔ اپنے خوابوں میں ’’اسپارٹکس‘‘ یا ’’ہرکولیس‘‘ بن جائوں یا مجھے ’’ٹارزن‘‘ کا کردار ملے۔ میں اس کے لبادے میں اپنا آپ چھپا لوں۔ یہی وہ نکتہ تھا، جہاں سے میں اداکاری کی طرف راغب ہوا۔ دھیرے دھیرے مجھ میں جتنا اعتماد آیا، اس کی وجہ تھیٹر میں اداکاری کرنا تھا۔ میری جتنی فن کارانہ تعلیم و تربیت ہوئی، اس کی وجہ میں تھیٹر کے لیے کیے گئے کام کو ہی سمجھتا ہوں۔

ایکسپریس: اداکاری کی طرف آنے کی خواہش کے پیچھے کون سا جذبہ متحرک تھا، اپنی شناخت یا اعتماد کا حصول؟
نصیرالدین شاہ: اس خواہش کے پیچھے بنیادی جذبہ شناخت پانے کا ہی تھا۔ اعتماد تو مجھ میں رتی بھر نہیں تھا۔ کسی کے سامنے میرا منہ نہیں کھلتا تھا اور آواز نہیں نکلتی تھی۔ اکیلا ہوتا تھا، تو آئینے کے سامنے میں پورے کا پورا ’’فرینڈز رومن اینڈ کنٹری مین۔friends romans and countrymen‘‘ جیسا ڈراما اپنے آپ کو سنادیا کرتا تھا، لیکن جب کوئی میرے مقابل سننے والا ہوتا، تو ایسا لگتا کہ میرے گلے میں کچھ اٹک گیا ہے۔ آواز تک نہیں نکلتی تھی، اعتماد نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور شدید خواہش تھی کہ میں لوگوں کی توجہ حاصل کرسکوں اور اس کے لیے شناخت حاصل کرنا بے حد ضروری تھا۔

میں مانتا ہوں کہ اداکاری کی شروعات کہیں نہ کہیں اسی نکتے سے ہوتی ہے۔ کوئی بھی اداکار اس شعبے میں اداکاری کی خدمت کرنے کے لیے نہیں آتا یا وہ اس لیے اداکاری شروع نہیں کرتا کہ وہ فنِ اداکاری کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ وہ اداکار اس لیے بنتا ہے کہ لوگ اس کی طرف دیکھیں، اس کو پسند کریں، اس سے محبت کریں، اس کو دعائیں دیں، اس سفر میں کچھ اور معنویت سے بھرپور مل جائے، جیسا کہ مجھے ملا، تو وہ ایک اضافی انعام ہے۔

ایکسپریس: اگر اداکار کی شروعات ’’پہچان کو پانے کی خواہش‘‘ سے ہے، تو اس کے بعد وہ بڑا اداکار ہونے تک کا سفر کیسے طے کرتا ہے؟
نصیرالدین شاہ: اداکار کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اداکار کا بھی کام اپنے خیالات کو پیش کرنا نہیں ہے۔ ایک دوسرے انسان کے خیالات، اس کے تصورات، الفاظ کو حاضرین اور ناظرین تک پہنچانا ہوتا ہے۔ معیاری کام، خالص نیت اور مکمل انداز میں اپنے فن کو پیش کرنا، یہ اداکار کا کام ہے بس، تو کسی بھی آدمی کو اچھا یا برا اداکار کہنا بنیادی طور پر ناانصافی ہے، کیوںکہ صحیح حالات میں تمام سہولیات کے ساتھ کوئی بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔

اسی طرح غلط ماحول اور تیکنیکی فقدان کے ساتھ کوئی بھی اداکار بری اداکار کرسکتا ہے۔ یہ حالات پر منحصر ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے اداکاروں نے بری اداکاری کے مظاہرے بھی کیے، جب انہیں برے ماحول اور سہولیات کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ اس لیے کسی اداکار کو مخصوص نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اچھا یا برا اداکار ہے، جو بھی اداکار اپنے کام میں پوری جان لگاتا ہے، میں اسے بڑا اداکار مانتا ہوں۔ اسے شہرت چاہے ملے یانہ ملے، بشرطیکہ اس کی لگن بناوٹی نہ ہو۔ یہ بات سب سے اہم ہے۔

ایکسپریس: آپ کسی اداکار کو اس تناظر میں بڑا مانتے ہیں؟
نصیرالدین شاہ: جی ہاں۔ ایک اداکار، جن کا نام ’’جیفری کینڈل۔Geoffrey Kendal‘‘ ہے۔ وہ انگریز تھے۔ ان کی ایک تھیٹر کمپنی تھی۔ وہ تھیٹر کمپنی انڈیا، پاکستان، سنگاپور اور پورے ایشیا میں شیکسپیئر کے ڈرامے پیش کیا کرتی تھی۔ میں اس وقت کمسن تھا اور اس اسکول میں زیرتعلیم تھا۔ وہ ہر سال ہمارے ہاں بھی آتے تھے۔ میں ان کے ناٹک دیکھا کرتا تھا۔ مجھے ان کی یہ بات بہت متاثر کرتی تھی کہ یہ اتنا بڑا اداکار ہے، ہمارے پاس آتا ہے، ہمارے لیے ڈراما کرتا ہے، ہم سے پیسے بھی نہیں لیتا۔ پانچ سال کی عمر سے ہر برس میں نے ان کے ڈرامے دیکھے۔ وہ میرے لیے گرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں ان کی زندگی سے بے حد متاثر ہوا۔ وہ ہمہ جہت فن کارانہ صلاحیتوں کے مالک اداکار تو تھے ہی، لیکن ان کی ایک اور عظمت مجھے بہت بعد میں پتا چلی کہ ان کو دیکھ کر کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ اپنا فن دکھارہے ہیں، جب کہ ان کا ہر ڈراما اسکرپٹ کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک عمدہ بات تھی، جسے میں نے ان کے ہاں پایا۔ انہوں نے کبھی زندگی میں کوئی کمرشیل ڈراما نہیں کیا۔ صرف طلبا کے لیے ڈرامے پیش کرتے تھے۔ یہ عظیم ڈرامانگاروں کے لکھے ہوئے ڈرامے ہوتے تھے۔ اس لیے ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔ وہ ہر وقت حالت سفر میں رہتے تھے۔ وہ اور ان کی بیوی، دو بیٹیاں اور کچھ دوسرے لوگ، یہ سب مل کر ان ڈراموں میں کردار نبھایا کرتے تھے۔ ان دونوں میاں بیوی نے ایک طویل زندگی بسر کی، ان کے ساتھ پھر اور لوگ بھی شامل ہوتے گئے، یوں یہ تھیٹر کے چاہنے والوں کا ایک قافلہ بن گیا۔ میں نے بمبئی میں ان کا آخری ڈراما دیکھا، تو وہ دونوں بوڑھے ہوچکے تھے۔ انہوں نے جو کچھ مجھے دیا ہے، وہ کوئی دوسرا نہ دے سکا۔ مجھے کئی اور بھی اداکار پسند آئے، مگر میری زندگی میں ’’رول ماڈل‘‘ کا لفظ صرف ان کے لیے ہے۔

ایکسپریس: کیا آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اس طرح کا کوئی ہدف مقرر کیا؟
نصیرالدین شاہ: میرے ذہن میں یہی ہدف ہے، مجھ میں جتنا اور جیسا اداکاری کا فن موجود ہے، میں اس کے ذریعے بہتر اور معیاری کام کرسکوں، جو مجھے اب بھی لگتا ہے کہ پورا نہیں ہوا، لیکن کسی مخصوص کردار کو کرنے کی کوئی ایسی خواہش بھی نہیں ہے، جس کی چاہ مجھے بے قرار کیے رکھے، کیوںکہ کئی برس کام کرنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوگیا ہے، آپ کا انفرادی کردار کبھی مکمل کام نہیں ہواکرتا، اس لیے مجھے کسی خاص کردار کو کرنے کا لالچ بھی نہیںہے۔ ویسے بھی بڑے بڑے کردار کرنے کے میرے سارے شوق پورے ہوگئے ہیں۔ اب میں اجتماعی حیثیت میں دیکھتا ہوں، میں کن کے ساتھ کام کررہا ہوں، یہ میرے لیے اہم ہے، اگر میرا کردار مختصر بھی ہے، تو مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں بخوشی اسے نبھاتا ہوں اوراگر اس بات سے کچھ نوجوان اداکاروں پر اثر پڑے،تو مجھے بہت خوشی ہوگی، البتہ ان کی سمجھ میں یہ بات ضرور آجائے کہ اداکار صرف ایک اداکار ہوتاہے، جو کسی کام کی تکمیل میں اپنا کردار نبھاتاہے۔یہ بہت قابل فخر بات ہے، اگر وہ اسے سمجھ لیں۔

ایکسپریس: آپ نے ایک مکمل کام یعنی ’’غالب‘‘ کا کردار نبھایا۔ اس ڈرامے میں کس کوکام یابی کی ضمانت سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو؟
نصیرالدین شاہ:کبھی بھی نہیں، مگر میں یہ جانتا تھا کہ میں کیا کام کررہا ہوں۔ میں نے اس میں اپنا ذہن استعمال کرتے ہوئے جذبے کی سچائی کو بیان کیا۔ بس اسی بات میں ساری بات ہے۔ اس شاہ کار کام میں سب سے کلیدی اہمیت گلزار بھائی کی ہے، جنہوں نے اس ڈرامے کو سب کے لیے لکھا۔ غالب کے بارے میں وسیع مطالعہ کیا۔ اس کے پس منظر سے آگاہی حاصل کی۔ مجھے تو غالب کا ایک شعر بھی پوری طرح سے یاد نہیں تھا۔ میرے اسکول میں ہم جماعت طلبا وہ شعر اکثر پڑھتے تھے،’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں‘‘ اس طرح کا کوئی شعر تھا۔

(قہقہہ) گلزار بھائی نے مجھ سے کہا،’’تم غالب کا کردار کروگے۔‘‘ میں نے انہیں جواب دیا،’’مجھے تو غالب کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہے۔ آپ مجھے کچھ بتائیں۔‘‘ گلزار بھائی کہنے لگے،’’تمہیں غالب کے حوالے سے جتنی معلومات چاہیے، وہ اس ڈرامے کے اسکرپٹ میں مل جائے گی، بس تم یہ کردار کرو۔‘‘ اس طرح میں غالب کا کردار کرنے کے لیے رضا مند ہوا۔ یہ میری خوش نصیبی تھی، انہوں نے مجھے منتخب کیا۔ فاروق شیخ، پنکج کپور یہ اس لیے اچھے اداکار تھے، کیوںکہ ان کے دیے گئے کردار بہت اچھے لکھے گئے تھے۔

ایکسپریس: آپ نے پیرالل اور کمرشیل سنیما دونوں طرز کے سنیما میں کام کیا۔ یہ بتائیے کہ ہندوستانی سنیما نے فلم کے شائقین کو کیا دیا؟
نصیرالدین شاہ: ہالی ووڈ کی نقل، شیکسپیئر سے چوری، بس فل اسٹاپ۔ اس کے بعد کچھ کہنے کو باقی نہیں رہتا۔

ایکسپریس: آپ کمرشیل سنیما میں کام کر کے لطف حاصل کرتے ہیں؟
نصیرالدین شاہ: نہیں۔ البتہ میں فلموں کے انتخاب میں کافی احتیاط کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں نے فلم ’’ڈرٹی پکچر‘‘ میں اس لیے کام کیا کہ مجھے اداکاروں کی نقل کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ اکثریت ایسی ہے بھی، جن کی نقل ایک مزیدار سرگرمی ہے۔ میں نے یہ فلم اس لیے کی کہ یہ فلمی سنیما کے ماضی کے اداکاروں کی عکاسی کرتی تھی۔ یہ ایک شان دار فلم تھی، اسی لیے اس نے کام یابی بھی حاصل کی۔ ہمارے فلم سازوں کا موجودہ کام مرے ہوئے دماغ کی سرگرمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

یہ دعویٰ ہے کہ ساری دنیا میں ہندوستانی فلمیں دیکھی جارہی ہیں اور ان کو یہ غلط فہمی بھی ہوگئی ہے کہ ساری دنیا کو پتا چل گیا ہے، ہم کیسی کمال فلمیں بناتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکا، کینیڈا، چین اور دیگر ممالک میں جتنے ہندوستانی کھانوں کے ریستوران کھلے ہیں، ان کی وجہ سے وہ ہندی فلمیں بھی دیکھتے ہیں۔ ہندوستانی کھانے لذیذ، چٹ پٹے ہیں، مگر یہ کھانے روز تو نہیں کھاسکتے ناں؟ یہی نوعیت ہندی فلموں کی بھی ہے۔ عالمی سطح پر ان کی شہرت کا عرصہ بہت مختصر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو بہت ہی اعلیٰ اور منفرد ہو۔

ایکسپریس: اپنی نئی فلم ’’ڈیڑھ عشقیہ‘‘ میں ’’مادھوری‘‘ کے ساتھ کام کرکے کیسا لگا؟
نصیرالدین شاہ: بہت اچھا۔ (قہقہہ)

ایکسپریس: کیا فلمی دنیا صرف بناوٹ ہی کا دوسرا نام ہے یا کوئی حقیقت بھی ہے کہیں؟
نصیرالدین شاہ: بناوٹ بھی نہیں کہہ سکتے، کیوںکہ جو کام یاب کمرشیل فلمیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنے یقین کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی بنائی جاتی ہیں۔ ’’منموہن ڈیسائی‘‘ ایک صاحب تھے، جنہوں نے ’’امر اکبر انتھونی‘‘ جیسی فلم بھی بنائی۔ اس فلم میں کچھ ایسے مناظر ہیں، جن کو دیکھ کر انسان ہکابکا رہ جائے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، مگر ناظرین ایسے مناظر پر بھی تالیاں بجاتے تھے۔ اس لیے کہ موہن ڈیسائی صاحب ایک یقین کے ساتھ ایسا کچھ تخلیق کرتے تھے کہ اسے کام یابی مل جائے گی۔ وہ ناظرین کو بیوقوف بنانے کے لیے فلمیں نہیں بناتے تھے۔ اب عام طور پر یہ ہوگیا ہے، اچھا یہ چیز چل جائے گی، اس کو فلم میں ڈال دو، اس فلم میں جذباتیت نہیں ہے، اس کی کہانی میں ایک اندھی ماں کا کردار ڈال دو۔ اس میں دیش بھگتی نہیں، تھوڑی وہ ڈال دو۔ فلم ساز یہ سب اس لیے کرتے ہیں تاکہ فلم بین کو اس میں ہر طرح کے مسالے مل جائیں اور ناظرین اس گمان میں رہیں کہ انہوں نے بہت اچھی فلم دیکھی۔

اسی دھوکے میں تین گھنٹے یوں کٹ گئے۔ ’’ستیا جیت رائے‘‘نے ایک بات اپنی لکھی ہوئی ایک کتاب ’’اَوورفلمز دیر فلمز۔ Our Films, Their Films‘‘ کہی تھی،’’مشکل یہ ہے کہ ہمارے فلم بین بڑ ی آسانی سے خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘ اب تو فلم بینوں کے ذوق کو بھی اتنا خراب کردیا گیا ہے، بلکہ میں اگر کہوں ناظرین کو بیوقوف بنادیا گیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ یہ شعوری طور پر کیا گیا ہے ہمارے فلم سازوں کی طرف سے تاکہ وہ (فلم بین) مزید کچھ اور مطالبہ نہ کریں اور جو کچھ بکواس فلمیں ہم دے رہے ہیں، یہ انہی کو دیکھتے رہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے، فلم بین جس فلم کو برا کہتے ہیں، اس کو بھی باربار دیکھتے ہیں، ان کو اس چیز کا اتنا عادی بنادیا گیا ہے۔ یہ بہت خطرناک صورت حال ہے۔ فلم بینوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ کمرشیل سنیما اور خبروں کے چینل ایک جیسا کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں خبروں کے چینل جس طرح بری چیزوں کی تقسیم میں شریک کار بنے ہوئے ہیں، انہوں نے ناظرین کو کیا دیا؟
نصیرالدین شاہ: یہ بھی فلم والوں کی طرح پیسے کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اداکار کو چھینک بھی آتی ہے، تو یہ اسے بھی خبر بناکر پیش کرتے ہیں۔ اہم موضوعات اور خبروں سے ناظرین بے خبر ہی رہتے ہیں، پیسوں سے محبت کی یہ مریضانہ سطح ہے۔ مجھے نہیں پتا، اس سلسلے کا اختتام کہاں ہوگا۔

ایکسپریس: آپ نے پاکستان میں آخری جس فلم میں کام کیا، اس کا نام ’’زندہ بھاگ‘‘ تھا، اس فلم میں کام کرنے کی وجہ کیا تھی؟
نصیرالدین شاہ: مجھے نوجوانوں کے ساتھ کام کرکے ہمیشہ مزا آتا ہے۔ میں نئے لوگوں کی مدد کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ اس فلم کے موضوع اور نوجوانوں کی لگن سے مجھے بے حد دل چسپی تھی، انہوں نے بے شمار رکاوٹوں کے باجود اس فلم کو بنایا۔ اس فلم کے پروڈیوسر ’’مظہر زیدی‘‘ اور ہدایت کار ’’مینو گوہر۔ فرجاد نبی‘‘ یہ تینوں بے حد اپنے کام سے لگن رکھنے والے اور جنون کے حامل لوگ ہیں۔ مجھے صرف اس فلم میں کام کرتے ہوئے ایک مشکل کا سامنا تھا کہ میں پنجابی زبان ٹھیک سے بول نہیں پاتا۔ اس پہلو پر میں نے محنت کی اور اس فلم کی کہانی سے میں جذباتی طور پر وابستہ بھی ہوگیا۔ اس لیے مجھے اس فلم میں کام کرکے لطف حاصل ہوا۔ یہ پاکستان کی ایک بہت اہم فلم ہے۔

ایکسپریس: مزید پاکستانی فلمیں کریں گے اور کیا شرط ہوگی؟
نصیرالدین شاہ: شرط یہ ہوگی کہ محسوس کروں کہ میں وہ کردار جو مجھے دیا جارہا ہے، اسے میں بخوبی کرسکتا ہوں۔ یہ فلم پاکستان کے حوالے سے کچھ مقصدیت پیدا کرسکے گی تو میں ضرور کروں گا۔ میری نظر میں سنیما صرف آرٹ نہیں ہوتا، تعلیم دینا بھی کوئی اس کا فرض نہیں، بلکہ اگر اس کا کوئی مقصد ہے تو وہ ہے کہ اپنے عصری دور کی سچائیوں کی عکاسی کرے۔ پاکستانی فلم ’’زندہ بھاگ‘‘ میں کام کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ مجھے اس فلم کے بارے میں یہ محسوس ہوا کہ یہ فلم بننی ضروری ہے، کیوںکہ یہ موجودہ پاکستان کے حقائق کے بارے میں بات کرتی ہے اور اگر سو سال بعد کوئی جاننا چاہے کہ دوسوتیرہ کا پاکستان کیسا تھا تو اس وقت ’’اچھا گجر‘‘ نام کی فلم ہی اسے نہ ملے، اس سے مختلف بھی کسی دوسری نوعیت کی فلم ہوسکتی ہے۔ اچھی اور معیاری کہانی اس کی بنیادی شرط ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میرا جی چاہے۔

ایکسپریس: آپ نے ہالی وڈ میں بھی کافی فلموں میں کام کیا۔ وہاں ایسا کیا تھا، جس کی وجہ سے آپ کا جی چاہا کہ آپ ان فلموں میں کام کریں؟
نصیرالدین شاہ: ہالی ووڈ جانے کا سپنا کس کے پاس نہیں ہے۔ میرے پاس بھی یہ سپنا تھا۔ میں بمبئی میں بھی ہیرو بننا چاہتا تھااور ہالی وڈ میں بھی ہیرو بننا میرا خواب تھا۔ پھر مجھے ایک تجسس بھی تھا کہ یہ لوگ جو اتنے بھاری سرمائے کی فلمیں بناتے ہیں۔ یہ پیسہ جاتا کہاں ہے؟ ان تمام معاملات کا انتظام کیسے سنبھالتے ہیں؟ ہالی وڈ جانے کی تیسری وجہ ’’سین کونری۔sean conroy‘‘ سے ملاقات کی خواہش تھی۔ چوتھی وجہ یہ تھی کہ مجھے بہت پیسے مل رہے تھے۔ (قہقہہ)

ایکسپریس: ہالی وڈ اور بولی وڈ میں کیا فرق محسوس کیا؟
نصیرالدین شاہ: کوئی فرق نہیں۔ سین کونری بہت منکسرالمزاج انسان تھے، لیکن ان میں ایک رکھ رکھائو تھا، جس کی وجہ سے بے تکلف ہونا ممکن نہیں تھا۔ میں نویں جماعت میں تھا، جب میں انہیں جیمز بونڈ کے کردار میں دیکھا تھا۔ وہ بہت عمدہ شخصیت کے مالک، مگر مزاج کے تابع شخص تھے۔ کبھی بہت اچھا اور کبھی خراب مزاج ان پر حاوی رہتا تھا۔

جیسے ہمارے انڈین اداکاروں کا معاملہ ہے۔ البتہ دونوں فلمی دنیائوں کے درمیان جو ایک فرق ہے، وہ یہ ہے کہ ہالی وڈ والے اکثر اپنا اسٹنٹ خود کرتے ہیں، جب کہ بولی وڈ میں اسٹنٹ مین اداکار کو اسٹار بناتا ہے۔ یہ اسٹنٹ مین (خطرناک سین عکس بند کروانے والے اداکاروں کے متبادل) صحیح معنوں میں کام کرتے ہیں۔ بولی وڈ میں، مگر انہیں کوئی نہیں جانتا۔ ان کی زندگی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے، کوئی کمپنی ان کا انشورنس نہیں کرنا چاہتی۔ یہ مرجائیں تو کسی کو قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔ لہٰذا اسٹنٹ کے کام کا معیار ہی ایک واحد فرق ہے جو ان دونوں فلمی دنیائوں کے درمیان ہے۔

ایکسپریس: آپ کی نظر میں تھیٹر کی کیا تعریف ہے اور اس فن کو کن جہتوں میں دیکھتے ہیں؟
نصیرالدین شاہ: جب میں نوجوان تھا تو میں نیشنل ڈراما اسکول میں گیا، جہاں ابراہیم الغازی تھے، جو بہت ہی شان دار قسم کی تھیٹر پروڈکشن کیا کرتے تھے، جس میں چالیس پچاس گلوکار ہوتے تھے اور ہر چیز کی باریکی کا خیال رکھا جاتا تھا۔ وہ قلعوں اور محلوں کے بڑے بڑے سیٹ بناتے تھے۔ ایک ڈراما انہوں نے دلی کے قدیم کھنڈرات میں بھی کیا۔ مجھے یہ انداز بہت پرکشش لگتا تھا، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ یہ خیالات کافی پرانے تھے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ میں جب بھارت سے باہر گیا، بالخصوص انگلینڈ، تو مجھے وہاں مختلف قسم کے تھیٹر دیکھنے کو ملے اور میں انہیں دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

وہ سب اس قدر جدید انداز کا تھا، موٹرسائیکل، کاریں، ہوائی جہاز کھینچ کر اسٹیج پر لائے جاتے ہیں اور پل بھر میں سمندر کی جگہ جنگل لے لیتا ہے۔ اسی طرح میں نے ایک کتاب ’’Towards a Poor Theatre‘‘ پڑھی، جسے پولینڈ کے تھیٹر کے ایک معروف استاد ’’جیرزی گروتوسکی۔ Jerzy Grotowski‘‘نے لکھا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے، جب عام آدمی کے پاس ذرایع نہ ہوں اور وہ تھیٹر کرنا چاہے تو پھر اسے اپنی غریبی کو اپنی کم زوری نہیں بلکہ طاقت بنالینا چاہیے۔ اس نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ تھیٹر کا فلم سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہ دونوں مختلف جہتیں رکھتے ہیں۔

ایکسپریس: سنیما اور تھیٹر جس طرح کرنے میں فرق ہے، کیا دیکھنے میں بھی کوئی فرق ہوتا ہے؟
نصیرالدین شاہ: جی ہاں۔ سنیما تو آپ ایسے دیکھ رہے ہیں، جیسے خواب دیکھ رہے ہوں۔ ایک طبی تحقیق نے یہ دریافت بھی کیا کہ ٹیلی ویژن دیکھتے وقت آپ کا دماغ اتنا ہی متحرک ہوتا ہے، جتنا جب آپ سورہے ہوں۔ اسی لیے ٹیلی ویژن لوگ آٹھ آٹھ گھنٹے تک لگاتار دیکھ سکتے ہیں، کیوںکہ دماغ پر ذرا بھی بوجھ نہیں پڑتا۔ دماغی مشقت نہیں کرنا پڑتی۔ تھیٹر اس حوالے سے تھوڑا مختلف ہے۔ یہ آپ سے توجہ مانگتا ہے۔ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے پاپ کارن کھاتے ہوئے تھیٹر نہیں دیکھ سکتے۔

ایکسپریس: تھیٹر ناظرین میں فلموں کی طرح کیوں مقبول نہیں ہوسکتا؟
نصیرالدین شاہ: اس لیے کہ ایک جگہ پر ایک رات میں صرف ایک ہی تھیٹر دکھایا جاسکتا ہے۔ فلمیں ایک ہی وقت میں سیکڑوں مقامات پر دکھائی جاسکتی ہیں۔ مجھ سے ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں تھیٹر مغرب کی طرح کیوں نہیں پیش کیا جاتا؟ ایک ہی ڈراما کئی مہینوں تک کیوں نہیں چلتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کی جگہ فلموں نے لے رکھی ہے، اگر ہم اپنی ہندی فلموں جیسا تھیٹر کرنا شروع کردیں تو پھر اس کی مقبولیت بھی فلموں کی جیسی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے اور میرا خیال نہیں کہ اس کی خواہش کوئی کرے گا۔ براڈ وے تھیٹر کی نقل یا ہندی سنیما کی نقالی سے تھیٹر کی ترقی نہیں ہوگی، ہمیں کوئی جداگانہ راستہ اپنانا ہوگا، جس میں ہماری اپنی تہذیب اور شناخت ہی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس: اگلے بیس برس آپ خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
نصیرالدین شاہ: آج اکثر سڑک کنارے بچے مجھے دیکھ کر فلم ’’ڈرٹی پکچر‘‘ کا گانا گنگناتے ہیں۔ تقریباً بیس برس پہلے ایک فلم ’’پری دیو‘‘ بنی تھی، اس میں بھی ایسا ہی ایک گانا تھا، جو بہت مقبول ہوا تھا، لہٰذا مجھے لگتا ہے کہ بیس سال بعد ایک اور ایسا ہی گانا آئے گا، جسے سننے کے بعد سڑک پر لوگ مجھے دیکھ کر گانا گایا کریں گے۔جب میں تقریباً85 سال کا ہوں گا، ہاں میں اس وقت بھی ایسا کام کرلوں گا۔ (قہقہہ) میں نے اداکاری کے شعبے میں ہر نوعیت کے کردار ادا کیے ہیں، اس لیے اب کوئی ایسا ہدف نہیں ہے۔ بس اب جہاں جہاں میری ضرورت ہو، وہاں میں کچھ کام کرسکوں، یہی کرنا چاہوں گا۔

ایکسپریس: آپ نے ایک فلم ’’اقبال‘‘ میں کام کیا۔ یہ کرکٹ کے موضوع پر بنائی گئی فلم تھی۔ آپ کو کرکٹ بہت پسند ہے؟
نصیرالدین شاہ: بہت زیادہ پسند ہے۔ سڑک پر بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں تو میں رک کر انہیں بھی دیکھنا شروع کردیتا ہوں۔ میں کسی زمانے میں کرکٹر بننا چاہتا تھا، لیکن پھر یہ خواب میں نے جلدی ترک کردیا۔ اس کی وجہ ایک خیال تھا، وہ یہ کہ کروڑوں لوگوں کے ملک میں سے صرف گیارہ لوگ چنے جاتے ہیں، اس میں میرا نمبر تو آنے والا نہیں تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ میں پُرجوش اور بہت اچھی کرکٹ کھیلنے والا کھلاڑی تھا۔ اب بھی میں اسی اشتیاق کے ساتھ کرکٹ دیکھتا ہوں، جیسے کسی زمانے میں کھیلتا تھا۔ اس کھیل میں کوئی جادو ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا ایسا کھیل نہیں ہے، جس کے بارے میں لوگ یہ کہیں کہ مجھے اس کھیل سے نفرت ہے۔ کرکٹ ہی ایک ایسا کھیل ہے، جس کے بارے میں اکثر یہ فقرہ سننے کو ملتا ہے کہ مجھے کرکٹ سے نفرت ہے۔ فٹ بال، ہاکی یا ٹینس سے کسی کو نفرت کرتے نہیں دیکھا۔ مجھے لگتا ہے، کرکٹر بننے کے لیے دوبارہ جنم لینا پڑے گا۔ (قہقہہ)

ایکسپریس: آپ کی کیا خواہش ہے، دنیا آپ کو کیسے یاد رکھے؟
نصیرالدین شاہ: دنیا اگر مجھے یاد رکھے گی، تو میرے کام کے ذریعے ہی یاد رکھے گی۔ یہ میں نہیں طے کرسکتا کیسے یاد رکھے گی۔ اداکار کو اس کے کام کے ذریعے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ کوئی اداکار چاہے وہ کتنا ہی مشہور اور عظیم اداکار ہی کیوں نہ ہو، اگر اس نے کوئی اچھا کام نہیں کیا ہوا تو اسے بھلادیا جائے گا۔ ہمارے ملک میں ایک ’’راجیش کھنہ‘‘ نام کے صاحب تھے، جن کے گھر کے باہر روز ہجوم ہوا کرتا تھا۔ جب ان کی شادی ہوئی تو لڑکیوں نے خودکشیاں کرلیں۔ لوگ اپنے خون سے انہیں خط لکھا کرتے تھے۔ وہ جہاں جاتے تھے، لاکھوں لوگ اکٹھے ہوجایا کرتے تھے۔

70ء کی دہائی میں تقریباً پانچ سال یہ سلسلہ چلا اور آج ہمارے ملک کا نوجوان انہیں شکل سے بھی نہیں پہچانتا۔ افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے۔ میں راجیش کھنہ کا مداح نہیں تھا۔ بہت بُرے اداکار تھے، لیکن بہت کام یاب اور مقبول تھے۔ پورا ملک انہیں جانتا تھا۔ آج انہیں کوئی نہیں جانتا، کیوںکہ انہوں نے کوئی ایسی فلم نہیں کی جو یاد رہے۔ دلیپ کمار نے ایسی کچھ فلمیں کی ہیں، امیتابھ بچن نے بھی ایک آدھ فلم میں اس نوعیت کا کام کیا ہے، جن کی وجہ سے انہیں یاد رکھا جائے گا، اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ مجھے کیسے یاد رکھے، تو میں کہوں گا کہ ایک ایسا انسان جس نے ہمیشہ پوری کوشش کی کہ وہ اپنے کام کو اچھی طرح کرسکے۔

ایکسپریس: انڈین سنیما میں کمرشیل سنیما کے مقابلے میں پیرالل سنیما کو کس طرح دیکھتے ہیں، اس تحریک میں کوئی دم تھا؟
نصیرالدین شاہ: کچھ لوگ تھے جو کمرشیل ہندی سنیما سے تنگ آچکے تھے، جنہیں یہ لگتا تھا کہ تفریح کے علاوہ بھی سنیما کا کوئی مقصد ہوسکتا ہے۔ اتفاق سے 70ء کی دہائی میں یہ سب کے سب آئے۔ ان میں سب سے پہلے ’’خواجہ احمد عباس‘‘ تھے، جو 50ء اور60ء کی دہائی میں فلمیں بنایا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ ’’وی شانتا رام‘‘ تھے، جو کسی حد تک سنجیدہ فلمیں بناتے تھے، لیکن ان فلموں کا انداز ناچ گانے والا ہوتا تھا، جب کہ عباس صاحب وہ پہلے رجحان ساز شخصیت تھے، جنہوں نے انڈین سنیما میں پہلی مرتبہ باقاعدہ سنجیدہ فلمیں بنانے کی ابتدا کی۔ انہوں نے فلم کے شعبے میں کافی تجربات کیے۔ وہ فلمیں بالکل نہیں چلیں، ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ اب وہ فلمیں تقریباً گم ہوگئی ہیں۔ ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔

70ء کی دہائی میں پیرالل سنیما کی تحریک سے پھر بہت سارے لوگ سامنے آئے، جن میں ’’باسو چتر جی، ہری شیک مکھرجی۔ ستیہ جیت رائے۔ شیام بینگل‘‘ جیسے تخلیق کار شامل تھے۔ اس کو کوئی باقاعدہ تحریک بھی نہیں کہا جاسکتا، کیوںکہ ان میں سے بہت سارے فلم سازوں نے اپنے اہداف تبدیل کرلیے۔ اس با ت سے یہ شک ہوتا ہے، یہ لوگ شروع میں ایسی فلمیں شاید اس لیے بنارہے تھے کہ کمرشیل فلمیں بنا نہیں پاتے تھے۔ بڑے فلمی ستارے ان کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے، اس لیے یہ نئے اداکاروں کو اپنی فلموں میں لیا کرتے تھے، کیوںکہ جیسے ہی بڑے فلمی ستاروں نے دل چسپی دکھائی ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے میں، تو انہوں نے فوراً ان ستاروں کو اپنی فلموں میں لینا شروع کردیا۔ اس لیے میں یہ نہیں مانتا کہ یہ کوئی تحریک تھی۔ مجھے ان فلم سازوں کی اپنے مقصد کے ساتھ مخلص نہ ہونے کا بھی احساس ہوتا ہے اور میں نے ان میں سے بہت سارے فلم سازوں کے ساتھ کام کیا۔ اس لیے میں انہیں ذاتی حیثیت میں بھی جانتا ہوں، اس لیے یہ بات کہہ رہا ہوں، ان کی سچائی کے بارے میں مجھے معلوم ہے۔

ایکسپریس: فلمی دنیا میں اعزازات کی جو روایت ہے، بولی ووڈ میں بھی بے شمار اعزازات ہیں اور آسکر جیسے فلمی اعزاز بھی، ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ یہ غیرجانب داری سے دیے جاتے ہیں؟
نصیرالدین شاہ: جو آدمی منجن بناتا ہے یا ٹیلکم پوڈر بناتا ہے، وہ ایک ایوارڈ دینے لگا آپ کو اور لوگ بڑی خوشی سے یہ ایوارڈ قبول بھی کرتے ہیں۔ آسکر ایوارڈ بھی اتنا ہی بوگس ہے، جتنے یہ دوسر ے ایوارڈ، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ یہ سب طے شدہ ہوتا ہے۔ آسکر کے لیے ایک سال پہلے سے کام شروع کردیا جاتا ہے، فلم بننے سے بھی پہلے۔ جب پاکستان سے فلم ’’زندہ بھاگ‘‘ کو بھیجا گیا، تو میں نے ’’مینو‘‘ اور ’’فرجاد‘‘سے کہا، مبارک ہو لیکن کوئی امید مت رکھنا، تم اس ایوارڈ کو حاصل نہیں کرسکتے، جب تک کہ تم پانچ کروڑ روپے خرچ نہ کرلو، لاس اینجلس جاکر اپنا حلقہ نہ بنالو، جو تمہیں یہ ایوارڈ دلوانے میں تمہاری مدد کرے اور تب بھی نہیں ملے گا۔ جس کو تھوڑی شہرت چاہیے، وہ ایک ایوارڈ دینا شروع کردیتا ہے۔ سال کے آخر میں ہم سب ایک دوسرے کو ایوارڈ دے رہے ہوتے ہیں۔ تقریب میں جو آجاتا ہے، اس کو ایوارڈ مل جاتا ہے۔ اتنے شعبے بنادیے ہیں کہ کچھ دس سال بعد ایوارڈ ایسے ملا کرے گا،’’پولیس کے کردار میں بہترین اداکار‘‘ یا پھر ’’ڈاکٹر کے کردار میں بہترین اداکار‘‘ اور تو اور جتنے حاضرین موجود ہوں گے ان سب کو بھی ایک ایک ایوارڈ مل جایا کرے گا۔ مجھے اپنے کیریر کی شروعات میں ایسے کئی ایوارڈ ملے، میں بہت خوش بھی ہوا، لیکن پھر ایک دو سال کے اندر ہی مجھے پتا چل گیا کہ ان ایوارڈز کے پیچھے کیا راز ہے۔ اب میں ان تقریبات میں جاکر اپنا وقت خراب نہیں کرتا۔

ایکسپریس: آپ کو بھارتی حکومت نے جو ایوارڈ ز دیے، ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟
نصیرالدین شاہ: وہ بھی جب تک کوئی آپ کے لیے لابنگ نہ کرے، نہیں ملتا۔ کسی نے میرے لیے بھی یہ فریضہ انجام دیا تھا، لیکن میں اسے نہیں جانتا۔ اتنے ہزاروں لوگ ہیں جنہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا، جن کے کام کو ایک تعارف چاہیے، انہیں یہ ایوارڈز نہیں دیے جاتے۔

ایکسپریس: آپ کی پیدائش اترپردیش کے علاقے ’’بارہ بنکی‘‘ کی ہے۔ مشہور شاعر خمار بارہ بنکوی بھی وہیں کے تھے۔ اس زمانے کی کیا یادیں ہیں، شعروادب سے کوئی دل چسپی تھی؟
نصیرالدین شاہ: اس دور کی مجھے کوئی بات یاد نہیں ہے، کیوںکہ میرے والد فوج میں تھے اور میں ڈیڑھ سال کا تھا، جب والد کا وہاں سے تبادلہ ہوگیا۔ میرے گھر میں بہت زیادہ شعروادب کا ماحول نہیں تھا۔ میرے والد حقیقی دنیا میں رہنے والے ایک عام سے آدمی تھے۔ وہ انگلینڈ سے بھی ہوکر آئے تھے، مگر انہیں لکھنے پڑھنے، موسیقی یا ڈرامے وغیرہ سے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ خوش قسمتی سے انہوں نے ہمیں جس اسکول میں داخلہ دلوایا وہاں ہمارا تعارف ان اصناف سے ہوا۔ پانچ سال کی عمر میں میرا داخلہ ایک بورڈنگ اسکول میں ہوگیا تھا۔

وہیں میں تھیٹر، فلم اور موسیقی وغیرہ سے متعارف ہوا۔ میرے خاندان کا تعلق میرٹھ کے قریب ایک جگہ سے تھا۔ مجھ پر خاندان کا اثر اس طرح پڑا کہ میرے نانا زمیندار تھے، وہاں میرا بچپن بہت دل چسپ گزرا۔ شکار، دعوتیں، لمبی چوڑی شادیاں، ماموں کی بندوقیں لے کر گھوما کرتے تھے۔ ٹریکٹر اور گھوڑے کی سواری ہوا کرتی تھی۔ اب میں جو اپنی تھیٹر کمپنی ’’موٹیلی تھیٹر‘‘ کے لیے ڈرامے کرتا ہوں، مثال کے طور پر عصمت چغتائی کے وہ ڈرامے جو میں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس میں پیش کیے، ان میں میرے بہت سے خاندانی کرداروں کی جھلک ملتی ہے۔

ایکسپریس: آپ اپنی خودنوشت لکھ رہے ہیں، جو جماعت میں پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے طالب علموں کے نام ہوگی؟
نصیرالدین شاہ: جی ہاں اور میں اپنی زندگی کی کہانی لکھ چکا۔ مجھے بہت سارے لوگوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ لکھیں گے، میں نے کہا نہیں، میں خود لکھنا چاہتا ہوں۔ مجھے اس کو لکھنے میں دس سال لگے ہیں، اب وہ مکمل ہوگئی ہے۔ رواں برس شایع کی جائے گی۔ خودنوشت میں نے انگریزی میں لکھی ہے اور اس کا اردو ترجمہ کرنے کے لیے کسی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ ناشر کا خیال ہے کہ پاکستان میں یہ خودنوشت کافی مقبول ہوگی، لہٰذا اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہونا چاہیے اور میں بھی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ یہ کتاب اردو، ہندی، مراٹھی، بنگالی اور انگریزی زبان میں ایک ساتھ شایع ہوگی۔

ایکسپریس: آپ کو تھیٹر کمپنی کا خیال کیسے آیا اور عصمت چغتائی کی کہانیوں ہی کا انتخاب کیوں کیا؟
نصیرالدین شاہ: میں نے اپنا تھیٹر ایک دوست بینجمن گیلانی کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ وہ اور میں انگریزی ادب میں گریجویٹ ہیں۔ ہم دونوں کے پاس خواہشات کی ایک بہت طویل فہرست تھی کہ ہم فلاں فلاں ڈرامے کریں گے۔ ان میں زیادہ تر انگریزی ڈرامے تھے۔ خاص طور پر وہ ڈرامے جنہیں ہم نے نصاب میں پڑھا تھا، تو وہ سارے ہم نے کرلیے۔ وہ فہرست ختم ہوگئی۔ پھر ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ کس طرح کے ڈرامے کریں۔ ہمارا تھیٹر گروپ دھیرے دھیرے انگریزی تھیٹر گروپ کے نام سے مقبول ہونے لگا، جس سے مجھے بڑی تکلیف ہوئی، پھر ہم نے سوچا کہ ہمیں اپنی زبان میں کچھ کام کرنا چاہیے۔ اردو زبان میں تو ڈرامے ہیں ہی نہیں۔ اب آغاحشر کے ڈرامے کتنی بار کریں اور میرا جی بھی نہیں چاہا۔

اتفاق سے عصمت آپا کی کچھ کہانیاں میں نے انگریزی ترجمے میں پڑھیں اور میں نے اسی وقت یہ طے کرلیا کہ مجھے ان کو ڈرامائی انداز میں کرنا ہے۔ میں نے ان کہانیوں کو اردو میں ڈھونڈا اور پہلی ہی جو تین کہانیاں پڑھیں، وہ یہی ہیں جنہیں میں نے ابھی کراچی میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے عالمی تھیٹر میلے میں پیش کیا۔ ان کہانیوں کے کا نام، چھوئی موئی، گھر والی اور مغل بچہ ہیں۔ میں نے عصمت آپا کی ایک بات ان کے کسی انٹرویو میں پڑھی تھی،’’جب میں کہانی لکھتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں پڑھنے والے سے باتیں کرتی ہوں۔‘‘ میں نے بھی یہی سوچا کہ عصمت آپا کی تحریروں کو لے کر حاضرین سے باتیں کرتے ہیں۔ سب نے کہا، یہ کون دیکھنے آئے گا۔ یہ زبان کون سمجھے گا۔ میری بیوی ’’رتنا‘‘ تک نے یہ کہا۔

میں ان کی کہانیوں پر تنقید نہیں کرنا چاہ رہا، ایک تو یہ کہانیاں بہترین لکھی ہوئی ہیں، دوسرے ان سب کہانیوں کے کردار جو ہیں، ان سب میں مجھے اپنا پورا خاندان دکھائی دیتا ہے۔ میرا یہ تجربہ کام یاب رہا۔ میں پچھلے تیرہ سال سے یہ کہانیاں پیش کررہا ہوں۔ تقریباً ساڑھے تین سو شو ہم کرچکے ہیں، جہاں جاتے ہیں، ہمیں لوگ دعائیں دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے سعادت حسن منٹو، منشی پریم چند، ہری شنکر پارسائی، خلیل جبران اور دیگر کی کہانیوں کو بھی ڈرامائی انداز میں پیش کیا۔

ایکسپریس: ’’ادا‘‘ کو نبھانا ہی ’’اداکاری‘‘ہے یا اس کے علاوہ بھی ’’اداکار‘‘ کچھ ہوتا ہے؟
نصیرالدین شاہ: اسٹیج پر کام کرتے ہوئے یہ احساس ہوا، اداکار اس لیے اداکاری نہیں کرتا کہ سب اس کی اداکاری سے متاثر ہوں، بلکہ اس کو اداکاری اس لیے کرنی چاہیے کہ کوئی بات پہنچانی ہوتی ہے۔ اداکار صرف ایک پیغام رساں ہوتا ہے۔ اب اداکاروں کو شہرت اتنی ملتی ہے کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ خود کچھ ہیں۔ میرے تھیٹر گروپ کے نوجوان یہ بات سمجھتے ہیں کہ اداکار ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ آپ سے زیادہ لکھنے والا اہم ہے۔ مجھے لگتا ہے میں زندگی بھر اس طرح کا تھیٹر کرتا رہوں گا۔ پاکستان میں مجھے لاہور اور اب کراچی میں کام کرنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر کراچی میں تھیٹر کیا اور مجھے مزا آیا، یہاں کے شائقین کی سب سے خاص بات زبان کی سمجھ ہے۔ ہمیں یہاں ان جملوں پر بھی داد ملی، جن پر ممبئی، دہلی، نیویارک، لندن اور لاہور میں بھی نہیں ملی۔ کراچی والے غضب کے جملہ شناس ہیں۔ ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ آخرکار ان سطروں کو کہیں تو داد ملی اور یہ سطریں بہت خوب صورت ہیں، جیسے ایک جگہ کردار شعرکا ایک مصرعہ پڑھتا ہے کہ ’’قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند‘‘ اس پر حاضرین کی تالیوں کی گونج پہلی مرتبہ سنی۔ میں جب بھی پاکستان آتا ہوں مجھے بے حد مزا آتاہے اورامید ہے میں آیندہ بھی آتا رہوں گا۔

نصیرالدین شاہ کی زندگی پر ایک نظر
نصیرالدین شاہ بھارت میں اترپردیش کے ایک نواحی علاقے ’’بارہ بنکی‘‘ میں 20 جولائی 1950 کو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی علاقہ میرٹھ کے قریب ’’سردھانا‘‘ ہے۔ والد فوجی افسر تھے۔ یہ تین بھائیوں میں سے یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم نینی تال کے علاقے میں ہوئی۔1971ء میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آرٹس میں گریجویشن کیا اور دہلی میں ’’نیشنل اسکول آف ڈراما‘‘ میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھارتی فلمی صنعت میں قدم رکھا۔ فلموں کے ساتھ ساتھ تھیٹر کے لیے بھی اداکاری جاری رکھی۔ بولی وڈ کے علاوہ ہالی وڈ اور لالی وڈ سمیت بھارت کی مختلف زبانوں میں بننے والی فلموں میں بھی کام کیا۔

نصیرالدین شاہ کے بڑے بھائی ضمیر الدین شاہ فوج میں اعلیٰ عہدے پر ملازم رہے اور اب ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کے وائس چانسلر ہیں۔ ان کا بھتیجا سلیم شاہ بھی ٹیلی ویژن اور فلم کا اداکار ہے۔ پاکستان کے مقبول اداکار سید کمال ان کے ماموں تھے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا نام ’’مانارا سیکری‘‘ تھا۔ ان کے انتقال کے بعد دوسری شادی ’’رتنا پھاٹک‘‘ سے کی، جو خود بھی اداکارہ ہیں۔ نصیرالدین شاہ کی ایک بیٹی اوردو بیٹے ہیں۔ ان کا تعلق بھی اداکاری کے شعبے سے ہے۔

نصیرالدین شاہ نے تقریباً 250 فلموں میں کام کیا ہے۔ وہ 60ء کی دہائی سے فن اداکاری سے وابستہ ہیں، مگر انہیں شناخت کئی برس کے بعد حاصل ہوئی۔ وہ خود بھی کہتے ہیں، میں نے کئی ایسی فلموں میں بھی کام کیا، جن پر فلم بینوں نے توجہ نہ دی۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں دو فلمیں ایسی بھی ہیں، جن میں انہوں نے مختصر کردار کیا، مگر فلم کے اداکاروں کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ ان کی یہ ابتدائی دور کی فلمیں ہیں۔ پہلی فلم، جس کا نام ’’امن‘‘ تھا، 1967ء میں بنی اور دوسری فلم ’’سپنوں کے سوداگر‘‘ کو 1968ء میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ پھر 1972ء میں ایک فلم ’’آن بان‘‘ میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔ 1975ء میں ان کی فلم ’’نشانت‘‘ ریلیز ہوئی، جس سے وہ باقاعدہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئے۔ اس سے پہلے وہ تھیٹر کی اداکاری تک محدود تھے۔ وہ خود بھی اپنی اسی فلم کو اپنی باقاعدہ پہلی فلم مانتے ہیں۔ ایک عرصے تک وہ گوشۂ گم نامی میں تھے، ان کو اصل کام یابی فلم ’’معصوم‘‘ سے ملی۔

نصیرالدین شاہ کی دیگر فلموں میں جنون، سُنینا، آکروش، بے قصور، خواب، ہم پانچ، کنہیا، چکرا، امراؤ جان ادا، بازار، ستم، جانے بھی دو، خطا، معصوم، وہ سات دن، پار، موہن جوشی حاضر ہو، ہولی، غلامی، خاموش، کرما، جلوہ، اجازت، ہیروہیرالال، دل آخر دل ہے، سوامی دادا، دل آخر دل ہے، حادثہ، مان مرادھا، گدھ، بہو کی آواز، مثال، شرط، اک پل، مرچ مسالا، یہ وہ منزل تونہیں، مالامال، لباس، کھوج، پناہ، چمتکار، بے دردی، مہرہ، چاہت، ڈھونڈتے رہ جاؤگے، سرفروش، ہے رام، بھوپال ایکسپریس، مجھے میری بیوی سے بچاؤ، مقبول، میں ہوں نا، پہیلی، اقبال، کرش، اوم کارہ، دس کہانیاں، فراق، خدا کے لیے، آوینس ڈے، پیپلی لائیو، زندگی نہ ملے گی دوبارہ، عشقیہ، راج نیتی، دی ڈرٹی پکچر، چالیس چوراسی، زندہ بھاگ، ڈیڑھ عشقیہ اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔

گذشتہ کئی برس سے ان کی پاکستان آمدورفت رہی ہے۔ انہوں نے شعیب منصور کی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ اور نوجوان ہدایت کار ’’مینو‘‘ اور ’’فرجاد نبی‘‘ کی فلموں میں اداکاری کی۔ کراچی اور لاہور میں اپنی تھیٹر کمپنی ’’موٹیلی تھیٹر‘‘ کے ذریعے اب تک کئی ڈرامے پیش کرچکے ہیں۔ نصیرالدین شاہ، ضیا محی الدین کی دعوت پر اپنے تین ناٹک تیار کرکے لائے تھے، جن کو تین دن ’’نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس‘‘ کے عالمی تھیٹر فیسٹیول میں پیش کیا گیا۔ یہ ناٹک اردو ادب کی معروف افسانہ نگار ’’عصمت چغتائی‘‘ کی کہانیوں پر مشتمل تھے۔ نصیرالدین شاہ کی اس ناٹک کمپنی کو بے حد پسند کیا گیا، جس کا انداز داستان گوئی والا تھا، جس میں ایک یا دو کرداروں کے ذریعے کہانی بیان کی جاتی ہے۔

اس موقع پر نصیرالدین شاہ نے خصوصی طور پر روزنامہ ایکسپریس کے لیے خرم سہیل سے گفتگو کی۔ نصیرالدین شاہ کی طرف سے پہلی مرتبہ پاکستان کے کسی بھی اخبار کو دیا گیا انٹرویو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>