کراچی: ’ایم اے‘ کے بعد جب ہم مجبوراً کاسمیٹک مصنوعات کی ایک فرم سے کچھ ماہ منسلک رہے، تو اسی دوران رات کی شفٹ میں دو چار روز کے لیے روزنامہ ’قومی اخبار‘ بھی گئے تھے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہوئی کہ ہمیں بلایا کمپیوٹر سیکشن والوں نے تھا، لیکن ہم جلدی میں وہاں پہنچ کر خود کو کال کرنے والے کا نام ہی بھول گئے اور پھر ہمیں ’استقبالیہ‘ نے ’نیوز ڈیسک‘ کی طرف بھیج دیا کہ اتفاق سے وہاں بھی جگہ خالی تھی اور پھر وہاں ڈیسک کے ’نگراں‘ اور کمپیوٹر والوں کے ٹکراﺅ کا معاملہ ہوگیا، جس کے بعد اِن صاحب نے نہ خود ہمیں رکھا اور نہ کمپیوٹر والوں کو رکھنے دیا ہم دو چار دن ’ٹیسٹ‘ دینے کے بعد ہر روز انھیں کال کرتے، یہاں پہلے ہمارا نام پوچھا جاتا اور پھر بتا دیا جاتا کہ ’وہ‘ تو موجود نہیں ہیں، آخر کو ایک دن ہم نے غلط نام بتا کر انھیں چکمہ دیا، تو وہ بری طرح تپ گئے، فرمایا کہ ’یہ تماشا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘ ہم نے کہا کہ آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے تھے، ہم کیا کرتے۔
’قومی اخبار‘ میں رات کو بِتائے گئے، دو تین روز کے دوران ایک ادھیڑ عمر صاحب سے کچھ علیک سلیک ہوگئی تھی، جو شاید ہمارے چہرے کی شکست خوردگی پڑھ لیے تھے۔ وہ جب ہمیں مایوس نہ ہونے کی تلقین کرتے، تو ہم سے اپنی کوفت کو ضبط کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا سڑک پار کر کے سامنے کسی ہوٹل پر بیٹھ کر وہ اپنا کھانا کھاتے اور بار بار ہمیں امید رکھنے کی نصیحت کرتے جاتے خود بے چارے بہت معمولی تنخواہ کے عوض ’پروف ریڈر‘ تھے، لیکن کرید کرید کر ہمارے بارے میں جانتے اور انگشت شہادت ہمارے بازو میں زور زور سے چبھو کر کہتے ”میاں! کبھی مایوس نہیں ہونا!“
ہم اپنے بازو کو ان کی انگلی کی چبھن سے بچانے کی کوشش بھی کرتے اور کسی طرح وہ وقت گزارتے کہ یہ کیا بڑے صاحب، بے وقت کی راگنی لے کر بیٹھ گئے یہاں ہم کتنی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں اور یہ آئے بڑے، بیٹھے بیٹھے، کہ مایوس نہیں ہو، مایوس نہیں ہو! رات کے دوسرے پہر ملک کی ’وال اسٹریٹ‘ سمجھی جانے والی آئی آئی چندریگر روڈ سے جُڑی ہوئی گلیوں کی محدود سی چہل پہل اور آسیب زدہ سی دھیمی روشنی ہمیں اپنی طرح افسردہ اور اداس اداس نظر آتی تھی۔
بس پھر جب ’کاسمیٹک فرم‘ کی ملازمت سے بھی فارغ ہوگئے، تو اپنی گہری مایوسی میں دل بہلانے کو شام میں یونہی ’جامعہ اردو‘ میں ’ایم فل‘ کی کلاسیں لینے لگے غور کیجیے، تو ایک طرف نوکری نہیں ہے، تو دوسری طرف ہم مزید تعلیمی اخراجات کا راستہ اپنا رہے تھے، لیکن یہ بالکل ایک بے سوچا سمجھا قدم تھا۔ ایک بہت عجیب اور فکر آمیز اور ناکام سی زندگی لگتی تھی۔
کلاسیں لینے کے بعد ہم ’جامعہ اردو‘ کے سامنے ایک نیم اندھیرے اور پس ماندہ سے ہوٹل کی گندی سی پیالیوں میں چائے پیتے ہر ڈھلتے ہوئے دن کے ساتھ گویا اپنے دن پِھرنے کا انتظار کرتے یونیورسٹی کے ہم رکاب محمد اجمل خان اور محمد فراز (اب ’آئی او بی ایم‘ میں لیکچرر) کے ساتھ رانا جاوید (اب جیو نیوز کے رپورٹر) بھی یہاں ہمارے ساتھ ہوتے چائے کی پیالیوں کے درمیان بھِنبھناتی ہوئی مکھیاں اڑاتے ہوئے مغرب کی اذانیں ہوتیں اور یوں محسوس ہوتا کہ آسمان کی بڑھتی ہوئی ساری سیاہی ہمارے مستقبل اور زندگیوں میں اتر کر رہ گئی ہے اور وہ بھی ایسے کہ لبِ سڑک اس گلی میں اِکّا دُکّا سے لگے ہوئے ہلدی رنگ کے بلب اسے دور کرنے میں ناکام ہیں اگرچہ روزانہ ہی چائے کے پیسے ایک دوسرے پر ادھار کرتے رہتے، لیکن جتنے دن بھی یہ کلاسیں لیں، واپسی پر یہ بیٹھک ضرور سجی یونیورسٹی کے اہم اور لایعنی واقعات اور یہاں لوگوں کے مختلف معمولات، کسی کی جاب، تو کسی کا معاشقہ اور کسی کی شادی، تو کسی کی بدمعاشی اور کسی کا اور کوئی جھگڑا الغرض ہر قسم کے موضوع شام کی چائے کی ان چسکیوں کے درمیان چلتے اور ان سب میں غالب ہوتی، تو ہماری بے چارگی اور مایوسی، کہ ذرا دیکھو ساری دنیا کہاں جا رہی ہے اور ایک ہم ہیں یہاں کیسے بے روزگار ہوئے پڑے ہیں
اس وقت اردگرد کے ماحول کی پراسراریت بھی بہت محسوس ہوتی اُن دنوں کراچی کے حالات ایک بار پھر بہت خرابی کی طرف گام زن تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر لیاری شروع ہوتا تھا، جیسے ہی دن ڈھلتا، آتے جاتے عام راہ گیروں کے سائے بھی عجیب اور پراسرار سے لگنے لگتے تھے، ہمیں یوں لگتا کہ شاید کوئی چھپ کر ہم پر نظر رکھے ہوئے ہو، بالخصوص جب ہم شہر کے حالات پر بات کرتے اور کوئی سیاسی گفتگو کرتے، تو ایسا لگتا کہ اریب قریب کوئی ہمیں سن رہا ہے، کبھی تو یہ خوف بھی رہا کہ کہیں کوئی چھینا جھپٹی کی واردات ہی نہ ہو جائے، لیکن ہمارے پاس تھا ہی کیا جو کوئی چھینتا کبھی ایسا بھی لگا کہ جیسے ہوٹل پر فائرنگ جیسے واقعات اخبارات میں پڑھتے ہیں، کہیں خدانخواستہ ہم بھی آج کوئی ایسی ’خبر‘ نہ بن جائیں اس لیے جیسے ہی رات گہری ہونے لگتی، ہم ایک دوسرے کو یہاں سے رخصت ہونے کی تاکید کرتے اور اپنا اپنا راستہ لیتے۔
اِسی ’غریب‘ سے ہوٹل کے باہر رکھی ہوئی ٹوٹی پھوٹی سی میز کرسیوں پر چائے کے دوران ہی ایک دن رانا جاوید نے اپنے روایتی پُریقین انداز میں کہا تھا کہ ”میں آپ کو اندر کی خبر دے رہا ہوں رضوان بھائی، ایکسپریس کے ’میگزین‘ میں جیسے ہی کوئی جگہ خالی ہوگی، سب سے پہلے آپ ہی کی جگہ بنے گی!“ ہم رانا جاوید کی باتوں کو ویسے بھی کم ہی اہمیت دیتے تھے، اس لیے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں یہ دعویٰ بھی ہمیں کسی دیوانے کی بَڑ لگا کہ کہاں ہمیں کسی چھوٹے سے اخبار میں بھی کوئی نوکری نہیں مل رہی اور کہاں یہ کہہ رہا ہے کہ ’ایکسپریس‘ جیسے بڑے اخبار کے ’میگزین سکیشن‘ میں جگہ بنے گی۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے رانا جاوید کی اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا تھا لیکن کوئی سوا برس بعد ہی یہ بات سچ ثابت ہوگئی، اور آج 10 سال بعد ہمیں دفعتاً یہ واقعہ پھر یاد آگیا۔
The post بے روزگاری کی افسردہ شامیں اور ہم appeared first on ایکسپریس اردو.