زباں فہمی 126
آپ کسی خواندہ شخص سے پوچھیں، تنقید کا مطلب کیا ہے، وہ کہے گا: ’’کِیڑے نکالنا، برائی کرنا‘‘، ایسے کتنے لوگ ہیں جو یہ باریک نکتہ جانتے ہوں اور سمجھا سکتے ہوں کہ جناب! تنقید کا یہ مطلب بالکل غلط ہے۔ ہمارے نِیم خواندہ معاشرے میں تنقیدی مزاج کے حامل شخص کو بہت بُرے القاب سے یاد کیا جاتا ہے اور شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اس کی بات سمجھ کر کچھ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
راقم نے اپنی تحریروتقریر میں بارہا یہ نکتہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ تنقید کا مطلب تحسین (تعریف) ہے نا تنقیص (نَقص یا خرابی نکالنا)…..ادبی پیرائے میں کہوں تو تنقید تحسین ِناشناس (ناواقف شخص کی طرف سے کی گئی تعریف) ہے نا تنقیصِ نارَوا (نارَوایا بے جا کی گئی بُرائی، تنقیص)….. بلکہ اس کا درست مفہوم ہے، کھوٹے کو کھرے سے، خام کو پُختہ سے، خوب کو زِشت سے، اچھے کو بُرے سے جُدا کرکے دکھانا;اگر نثر یا نظم کی بات ہوتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی کلام میں خرابیوں، خامیوں، نقائص یا کمی کی نشان دِہی (دال کے نیچے زیر) کرنا، ان کی اصلاح، تدارُک اور سَدّباب کی ہدایت، تجویز یا مشورہ دینا، اس بابت پوری معلومات فراہم کرنا اور اگر کوئی خوبی ہے تو اُسے فراخ دِلی سے سراہنا۔ بقول آل احمد سُرُور،ؔ تنقید کا مطلب ہے، ’’دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کرنا‘‘۔
اس کے علاوہ ایک مثال سے یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی جیب میں بہت سے سِکّے ہیں، مگر آپ کو خبر نہیں کہ اِن میں کچھ کھوٹے ، ناکارہ یا مترُوک ہیں، یعنی آپ انھیں بازار میں نہیں چلاسکتے….تو آپ کو اس بارے میں کون بتائے گا؟ وہی شخص بتائے گا جو یہ بات اچھی طرح جانتا ہو۔ (بات کی بات ہے کہ مُحاورے میں کہتے ہیں، کبھی کبھی کھوٹا سِکّہ بھی چل جاتا ہے /کام آجاتا ہے تو ہمارے یہاں شعرواَدب میں بھی ایسی مثالوں کی بُہتات ہے کہ شعری قواعد یعنی علم عَروض کی خبر نہیں، طبیعت موزوں نہیں، شعر کے مُوسِیقی سے تعلق کا پتا نہیں، کچھ بھی لکھ مارا اور چَڑھانے والوں نے اتنا اوپر چڑھا دیا کہ بہ زَعمِ خویش (خیش، واؤ معدولہ کے ساتھ) اپنے آپ کو اُستاد سمجھنے لگے۔
ایک شاعر یا ادیب کسی کلام یا تحریر میں کوئی بھی سُقم تلاش کرکے خلوص ِدل سے مشورہ دیتا ہے کہ اس کی جگہ یوں لکھیں یا کہیں، یوں کرلیں تو بہتر ہوجائے گا۔ ایسا ناصح آپ کا سچا خیرخواہ یا بِہی خواہ ہے (بے کے نیچے زیر)، اُسے مخالف، حاسد یا دُشمن نہ سمجھیں۔ اب کیا کریں، ہمارے یہاں بعض تصورات عوام الناس اور اہل قلم میں یکساں طور پر غلط رائج ہوچکے ہیں۔
یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ جو لوگ اس کالم میں خاکسار کے نجی تجربات اور ذاتی مشاہدات کا ذکر باربار دیکھ کر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، اُنھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی معاملے میں ابتدائی معلومات کا ماخذ ، (تقریباً ہمیشہ) ذاتی ہی ہوا کرتا ہے اور یہ بھی جان لیں کہ جس معاملے میں آپ کسی خاص تجربے سے دوچار نہیں ہوئے، کسی دوسرے کے ساتھ ہونے والے کسی تجربے کا علم نہیں، مشاہد ہ بھی نہیں کیا تو پھر آپ کی کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو، اس پر اعتبار کرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں۔ یہ تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ اس ہِیچ مَدآں نے متعدد کتب بشمول مجموعہ ہائے کلام پر خامہ فرسائی کی ہے اور کئی بار اُسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بیرون ملک مقیم ایک بزرگ شاعرہ کے کلام پر اُنھی کے اصرار کے بعد، خاکسار نے ایک مضمون لکھا جس کے آخر میں کچھ خامیوں کی نشان دِہی کی جسارت کی….بس جناب غضب ہوگیا وہ ساری عمر کے لیے خفا ہوگئیں، یہ بھی نہ دیکھا کہ پورے مضمون میں کس کس طرح اُن کے کلام کی تعریف کی گئی ہے۔ ایک بزرگ معاصر بہت شفقت فرماتے تھے۔ انھوں نے اپنے دونوں مجموعہ ہائے کلام یکے بعد دیگرے عنایت کرکے بہت اصرار کیا کہ ان پر تبصرہ ضرور کریں، (تیسرا مجموعہ غالباً اُن کی وفات کے بعد شایع ہوا تھا)۔ ہماری شامتِ اعمال کہ مضمون میں اُن کے کلام کی صفات شمار کراتے ہوئے ایک جگہ لکھا کہ یہ فُلاں مضمون تو فَرسودہ ہے، مگر ہمارے ممدوح نے اِسے جدید رنگ دے دیا ہے، (یعنی گویا یوں برتا کہ شعر میں جاذبیت پیدا ہوگئی ہے)۔
وہ مرحوم اتنے بھولے تھے کہ انھیں یہ بات بھی ناگوار محسوس ہوئی اور آخری ملاقات میں بھی شکوہ کرتے رہے کہ آپ سے یہ توقع نہیں تھی۔ (درست لفظ شَکویٰ عربی الاصل ہے جسے فارسی والوں نے شِکوہ کردیا، اب رائج و مروج کے اصول کے تحت درست مانا جاتا ہے، خواہ لغات کِشوری میں غلط قرار دیا گیا ہو)۔ اگر تنقید کے معانی ومفاہیم کے لیے لغات کا سہارا لیں تو معلوم ہوگا کہ کہیں بھی اس کا مطلب کِیڑے نکالنا نہیں لکھا گیا۔ ہمارے یہاں تنقیدنگاری کے لیے نقدونظر پرکھنے کے معنوں میں مستعمل ہے۔ عربی الاصل لفظ نقد کے معانی ہیں: آمادہ کرنا، دنیا، روپیہ/اشرفی کا پرکھنا، زرِمسکوک یعنی روپیہ، اشرفی، پیسہ/پیسا، مجازاً مراد دل سے اور ذات، ابھی (فوراً) اور بیٹا (لغات کشِوری از مولوی تصدق حسین رضوی)۔ نقّاد: روپیہ/اشرفی کا پرکھنے والا(لغات کشوری)
تنقید (اسم مؤنث): ایسی رائے جو بُرے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرادے، پرکھ، چھان بِین، کھوٹا کھرا جانچنا، وہ تحریر جس میں کسی فن پارے کے حُسن وقُبَح پر فَنّی اصول وضوابط کی روشنی میں اظہارِِرائے کیا گیا ہو۔ (مختصر اُردو لغت از اردو لغت بورڈ)۔ یہاں لغت میں اضافہ کرنے والے کسی صاحب نے اس کا عرفِ عام میں مطلب،گویا Slang بھی درج کردیا ہے: نکتہ چینی، اعتراض۔ لفظ ’’انتقاد‘‘ کے باب میں بھی اس لغت میں کم وبیش یہی کچھ لکھا گیا ہے۔
جب بات چل نکلی ہے تو یہ بھی جان لیں کہ Auditکے لیے اردو مترادف تنقیح بھی عربی الاصل ہے، جس کے معانی ہیں پاک اور صاف کرنا، کسی چیز کا عیب سے خالص کرنا(لغات کشوری)۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ تنقید کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں ہے۔
ہمارے یہاں عموماً کہا جاتا ہے کہ تنقید برائے تنقید نہ کرو، تعمیری تنقید کرو، مثبت تنقید کرو….ہم نے بہت بار کہا ہوگا، مگر سچ تو یہ ہے کہ منفی تنقید کوئی چیز نہیں، تنقید ہوتی ہی مُثبَت ہے۔
یہ معاملہ اردو تک محدود نہیں، انگریزی میں بھی تنقید کا مطلب تنقیص سمجھنے والے پائے جاتے ہیں۔ نامور امریکی مصنف، معلم ومصلح ڈیل کارنیگی[Dale Carnegie: November 24, 1888-November 1, 1955] کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں:
“Any fool can criticize, condemn, and complain but it takes character and self-control to be understanding and forgiving.”
(مفہوم: ’’کوئی بھی بے وقوف تنقید، مذمت اور شکایت کرسکتا ہے، لیکن سمجھ بوجھ یعنی معاملہ فہمی اور دَرگزر کرنے کے لیے مضبوط کردار اور اپنے آپ پر قابو رکھنا لازم ہے‘‘)
ایک دوسرا قول ملاحظہ فرمائیں: ’’تنقید کرنے کی مسرت ہمیں کچھ اور اچھی باتوں سے محظوظ ہونے کی نعمت سے محروم کردیتی ہے‘‘۔
“The pleasure of criticizing takes away from us the pleasure of being moved by some very fine things.”– Jean de La Bruyère (August 16, 1645-May 11, 1696)
یہ فرمان ہے فرینچ فلسفی و مصلح جناب ژاں دولابغُوئیغ کا۔ اور تو اور ہمارے لیے بہت مانوس نام اَرِسطو[Aristotle](384 قبل اَزمسیح علیہ السلام تا 322ق۔م) سے یہ قول منسوب ہے۔ روایت کے مطابق اُس نے کہا کہ ہم بہ آسانی تنقید سے گریز کرسکتے ہیں، اگر ہم کچھ نہ کہیں، کچھ نہ کریں اور کچھ بھی نہ رہیںیعنی ہر معاملے سے الگ تھلگ رہیں۔ یہ آخری نکتہ واقعی فلسفیانہ ہے۔
“Criticism is something we can avoid easily by saying nothing, doing nothing, and being nothing.”
– Aristotle
مغربی ادب میں جدیدیت[Modernism] کی تحریک میں انتہائی نمایاں نقاد، ٹی ایس ایلیٹ (Thomas Steams Eliot: 1888-1965) کو جدید مکتب ِ ادبی تنقید کا متأثرکُن نام سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی تنقیدنگاری کو اپنی شاعری کی پیداوار قرار دیا تھا۔ ویسے یہ الگ بات ہے کہ مشرق، خصوصاً برصغیر پاک وہند کے متعدد نقاد ایسے ہو گزرے ہیں جنھوں نے شاعری بھی کی، مگر دوسروں کی شاعری پر عمدہ تنقید کرنے والے، خود اچھی شاعری نہ کرسکے۔ یادداشت سے کھرچوں تو آل احمدسرور، احتشام حسین، نیاز فتح پوری اور فرمان فتح پوری یاد آتے ہیں۔
ہمارے بزرگ نقاد، پروفیسر سحراَنصاری اس لحاظ سے بہت منفرد ہیں کہ انھوں نے شاعری میں اعلیٰ مقام حاصل کیا، مگر ہم ایسے خورد معاصرین کو اُن سے یہ شکوہ ، ہمیشہ رہے گا کہ وہ ’’تقریباتی‘‘ اور ’’زبانی کلامی‘‘ تنقید میں بہت نمایاں ہوئے، تحریر میں اُن کا کام ابھی تک برائے نام ہی منصہ شہود پر آسکا ہے، حالانکہ وہ اس لحاظ سے بہت منفرد وممتاز ہیں کہ بہ یک وقت اردو اور انگریزی ادبیات پر حاوی ہیں اور ایسی مثالیں اب ہمارے یہاں ایک آدھ ہی ہیں۔
میں قارئین کرام کو تنقید کی درست شکل دکھانے کے لیے جون 2021ء میں شایع ہونے والی، اپنے بزرگ معاصر پروفیسر غازی علم الدین صاحب کی کتاب ’’میزانِ اِنتقاد و فِکر‘‘ سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں:
۱۔’’بعض شاعر بے خودی میں اعتدال کے رَستے سے ہَٹ جاتے ہیں اور دوسرے انبیاء سے آپ (ﷺ) کا تقابل کرتے ہوئے، ایسے الفاظ کہہ جاتے ہیں جو دَرحقیقت نعت کی ذیل میں نہیں آتے، بلکہ اُن میں توہینِ انبیاء کا مفہوم مضمر ہوتا ہے، اگرچہ اس تقابل کی غایت آپ (ﷺ)کی بڑائی ہی ہوتی ہے، مگر بعض صورتوں میں یہ اَمر دیگر انبیاء کی کسرِعظمت ٹھہرتا ہے، مثلاً:
مالکِ کوثر کا ہمسر ، صاحبِ زَم زَم نہیں+اِن کو بے مانگے ملا ، اُن کو رَگڑکرایڑیاں‘‘—(نعت گوئی اور نعت خوانی میں خلاف ِآداب عناصر)
خاکسار سہیل اُن کی اس تنقید کی تائید کرتا ہے، کیونکہ یہ اَمرِ واقعہ ہے اور حدیث شریف کی تعلیم کے عین مطابق بھی ہے۔
۲۔’’مصنف نے لکھا ہے کہ زائرین، جبلِ طُور پر جانے کے لیے نِیم شب کو کوہ پیمائی شروع کرتے ہیں اور سورج طلوع ہونے سے پہلے، اُنھیں وہاں پہنچنا ہوتا ہے۔ سورج طلوع ہوتے ہی بہت سے لوگ رُکوع میں چلے جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں، مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ زائرین کِن مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔ (مصر کی محبت میں: ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب ’فی حُبّ مصر‘ کا مطالعہ)
اب یہاں ذرا رُک کر غور فرمائیں کہ پروفیسر غازی صاحب نے کس طرح پورے مضمون میں جابجا اپنے ممدوح کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُن کی کتاب سے اقتباسات پیش کیے، مگر جہاں کوئی نکتہ آفرینی، فطری طور پر ذہنِ رَسا میں اُبھری تورَوانی میں لکھنے سے چُوکے نہ کوئی لحاظ کیا۔ بظاہر سیدھاسا معاملہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہِ طُور /جَبلِ طُور یعنی طُورِ سینا پر زیارت وعبادت کے پس منظر میں لوگ وہاں جانے کے لیے آدھی رات کا وقت، گویا تہجد کا وقت چُنتے ہیں تو مسلمان ہی ہوں گے، مگر کیا خبر کہ توحید پرست یہودی یا قِبطی عیسائی بھی ہوں جو دیگر ہم مذہب لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں؟ ….ایک بار پھر وضاحت کرتا چلوں کہ طُور پہاڑ ہی کو کہتے ہیں، جو اپنے اصل نام ’سِیناء‘ یا ’سینا‘ سے زیادہ مشہور ہوگیا اور گویا پہاڑ پہاڑ دو مرتبہ کہا جانے لگا۔
۳۔’’حضرت نسیم سحرؔ نے کتاب کے حرفِ تشکّر میں ’اظہار ِممنونیت‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ میں اس کے بجائے ’اظہارِامتنان‘ کی ترکیب کو دُرست سمجھتا ہوں‘‘۔ (نسیم سحرؔ کی نعت نگاری کے اجزائے ترکیبی)
میرے بزرگ معاصر محترم شفیق احمدشفیق ؔ کی کتاب ’نقد وتجزیہ‘ (مطبوعہ 2017ء)سے ایک اقتباس:
’’شاعرعلی شاعرؔ کی بعض تِروِینی میں تیسرے مصرع میں جو گُریز کا اَنداز رکھا جاتا ہے، اس کا فقدان ہے اوریہ فقدان کیوں ہے، اس کی وجہ جلدبازی ہوسکتی ہے، مثلاً:
چاند کو مَیں نے دیکھا تھا
تیر ا چہرہ مُہرہ تھا وہ
جس پہ گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں
یہ ایک سیدھا سادا شعری بیانیہ ہے۔ اس میں اوپر کے دو مصرعوں سے الگ کوئی بات نہیں کہی گئی‘‘۔ (اردوتِروِینی کا اوّلین مجموعہ)
اب یہاں ایک ایسی غیرمطبوعہ تحریر پیش کررہا ہوں جو ہمارے بزرگ معاصر، اردو، فارسی شاعر، ادیب اور انگریزی نثرنگار اور ایک نامور ہستی اِبن صفی کے فرزند محترم احمد صَفی کی لکھی ہوئی ہے، ہمارے لائق فائق خوردمعاصرغلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان کی ایک نظم کے متعلق۔ پہلے نظم دیکھیں اور پھر محترم احمد بھائی کا میرے نام پیغام:
نظم بعنوان ”گرگِ باراں دیدہ”: نوجوان نسل جو کہ بزرگوں کے عدمِ احترام کے باعث غلط سمت نکل پڑی ہے، اس پسِ منظر میں کہی گئی نظم
خلائے ہفت پیکر کی شَرَر افشانیوں میں
ہے نشستِ ضعف پر رونق فزا، اک جسمِ نازائی
خمیدہ دوش، چشمِ نیم بینا
دستِ لرزاں
خاک کا پیکر، بریدہ تَن، چکیدہ لب
سرِ شوریدہ میں لیکن!
دماغِ نکتہ پرور، عقلِ کامل، طبعِ معنیٰ آفریں
یعنی!
بلاغت جنبشِ مژگاں سے جنباں ہے
عروقِ تَن میں لاوا ہے رواں حسنِ تدبُّر کا
تفحص کا، تفکُّر کا
عیاں لوحِ جبیں پر نورِ عرفاں کے سنہرے، سرمئی
اور نقرئی دھارے چمکتے ہیں
کفِ دستِ نگاریں پر جو شکنیں ہیں
لکیریں ہیں!
حقیقت میں یہ شاخیں ہیں علومِ معرفت کی
اور فنونِ شوقِ پُرفَن کی
نگاہِ نوجواناں میں فقط فرتوت وہ ٹھہرا
سرابِ دشت ٹھہرا
اور فنا کا اک نشاں ٹھہرا
مگر سمجھو!
وہ نقشِ خامشی تو گرگِ باراں دیدہ ہے اصلاً
سریر آرا ہے تختِ خودشناسی پر
دلِ شفّاف پر عکسِ رُخِ تابندہ روشن ہے
وہ عکسِ رُو کہ ہے زیبندہ ٔ تاجِ جہانگیری
مگر افسوس!
جب مر جائے گا وہ پیکرِ لعلِیں
زمانہ نوحہ گر ہوگا
فقط اک دن، چلو دو دن
مگر پھر طاقِ نسیاں کے حوالے اس کی سب باتیں
سبھی یادیں ہوئی جائیں گی
تربت سے اسی کی
اک سرودِ عشوہ زا، چِنگھاڑ اٹّھے گا
کہے گا:
ملبہ ٔ خاکی سے زخمہ ہائے دل کی
بانگِ تازہ جو فضا میں
گونج اٹھّی ہے
کہ رختِ بے گماں ضائع نہ ہوجائے
نہ ایسا ہو!
کوئی جاں بخش لحظہ حیطہ ٔ منظر سے کترائے
سحابِ ظلمتِ زیریں سے ہم آغوش لمحہ
کہہ رہا ہے
قدرِ گلشن گُل سمجھتا ہے
زمیں پر سبزہ ٔ نَو رُستہ کی وارفتگی شاہد!
کوئی اب مسکنِ مستور سے مفرور ہو تو کیوں؟
خیالِ خام کے جنجال سے مسحور ہو تو کیوں؟
بتاؤ تو!
کہ میری لوحِ تربت پر جفائے مرگ کے قصے گڑے کیوں ہیں
مری دانست میں گرداں حقیقت ہے
کہ مرگِ ناگہاں بے مہریٔ احباب سے بہتر!
جہانِ گور بلکہ قاقم و سنجاب سے بہتر!
تبصرہ از قلم محترم احمدصفی (اٹھائس جون سن دوہزاربیس): ’’بھائی! نئی نسل تو پہلے مصرعے کے بعد ہی ڈھیر ہو جائے گی۔ رہ گئی پچھلی نسل تو وہ اس میں صنعتِ مستول الجہاز ڈھونڈتی رہ جائے گی۔ بھائی! تحقیق بر ریختہ اور زباں فہمی[WhatsApp groups] میں ایسی زبان کیوں استعمال ہوتی ہے جو اَب متروک ہے۔
اب بھلا بتائیے بیگم کہیں،’ ٹی وی کا ریموٹ دیجیئے‘ تو یہ کون کہتا ہے ابھی مستحضر نہیں؟….زبان کو زندہ رکھنا ہے تو اِس کی موجودہ شکل میں کثافتوں کو دور کرکے ایسا ہو سکتا ہے، مگر پرانی کثافتوں کو واپس لا کر ہم چند لوگوں تک ہی اس کو محدود کر دیں گے۔ میری رائے ہے اور اختلاف آپ کا حق ہے۔ جیسے وہ خطاطی والے کو تنبیہہ کی تھی اِن کو بھی کیجئیے‘‘۔ قارئین کرام! خاکسار نے کوشش کی ہے کہ موضوع سمیٹتے ہوئے، سہل انداز میں بات واضح کردوں۔
The post تنقید کیا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.